وطن عزیز میں بہت سی چیزیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں بلکہ انسانوں کی طرح محض جانے کے لیے ہی آتی ہیں۔ لیکن امن، سکون، دیانت ، انصاف ، تعلیم،صحت اور خوشحالی تو ایسی چیزیں ہیں جوجانے کے لیے بھی نہیں آتیں۔ ایک زمانے میں امید ہو چلی تھی کہ اب تو واقعی روٹی کپڑا مکان چلے آ رہے ہیں لیکن بقول شاعر
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
بیچارے روٹی کپڑا مکان بھی غریبوں کے آنگن میں جا ہی ڈھونڈتے رہ گئے، اسی طرح ظالمو سے کہا گیا کہ‘ وہ’ آ رہے ہیں مگر‘ وہ’ بھی راہوں ہی میں کھو کر رہ گئے ۔جہالت سے کہا گیا کہ تعلیم نئی روشنی بن کر آ رہی ہے مگر شمع روشن بھی نہ ہونے پائی تھی کہ بجھ بھی گئی اور احتساب تو اب بھی روز آتا ہے لیکن آ ہی نہیں پاتا البتہ ایک چیز اور شے ایسی ہے جو جب کہتی ہے کہ میں آرہی ہوں تو واقعی آ کے رہتی ہے اور ایسی آتی ہے کہ پھر اس کا جانا ممکن نہیں ہوتااور وہ ہے مہنگائی۔ جو ہر سال عموما بجٹ کے نام پر آتی ہے ، اوربھولے لوگو یہ بجٹ پھر آ رہا ہے ۔یہ نہ تمہارے اترے چہروں سے ڈرے گا اور نہ اسے تمہارے ننگ و افلاس سے غیرت آئے گی اس نے تو آنا ہے اور آکر رہنا ہے اور جب آئے گا تو وہی ہو گا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے لیکن پھر بھی آؤ کچھ باتیں کرتے ہیں کہ باتیں کرنا ہی ہمارے بس میں ہے اور ہم کربھی کیا سکتے ہیں!جب تک سانس تب تک آس! تو جناب باتیں یہ ہیں کہ:
موجود ہ حکومت نے اپنے قیام سے اب تک جو نعرہ پورے تسلسل سے لگا یا ہے وہ وطن عزیز سے غربت کا خاتمہ ہے ۔ اس کے لیے کئی طرح کے ادارے بنائے گئے ، کئی طرح کی پالیسیاں اور خوش نما اقدامات کیے گئے ۔ ان پالیسیوں اور اقدامات کے ثمر آور ہونے کا انتظار کر تے کرتے ہم ایسے غریب لوگ خود کشیوں کی طرف مائل ہورہے ہیں۔کیونکہ زندگی کے مقابلے میں موت شاید سستی ہے۔اب تو جناب صد ر بھی یہ تسلیم کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ اس عرصے میں غربت کاخاتمہ تو کیا اس میں کمی بھی نہیں آ سکی، بلکہ اعدا دو شمار تو یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ وطن عزیز میں روز بروز غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے اپنے ایک حالیہ بیان میں، صد ر صاحب نے یہ کہا ہے غربت میں کمی آنے میں ابھی شایدمزید دس سال لگ جائیں۔اس اعتراف سے وہ کہیں اپنے لیے مزید دس سال تو نہیں مانگ رہے ؟خیر یہ تو الگ سے ایک بحث ہے اور اسے آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا لیکن یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ہر آنے والا دن ، غریبوں کے لشکر میں اضافہ کر رہا ہے ۔ ملک کی تہائی آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور دوسری تہائی اس لائن کے عین اوپر ۔ یہ اگرچہ سٹیٹ بنک کے گورنر کا اعتراف ہے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک فنی اصطلاح ہے ۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ غربت اپنے تمام تر کریہہ چہر ے کے ساتھ ہمارے ہاں روز افزوں ترقی پر ہے ۔ غریب صرف وہ نہیں ہوتا جس کی ایک خاص مفہوم میں آمدنی کم ہو بلکہ اچھی تعلیم ، عمد ہ صحت ، صاف پانی اور مناسب رہائشی سہولیات ایسی بنیادی انسانی ضروریات تک رسائی نہ رکھ سکنے والا شہری بھی دراصل غریب ہی ہے ۔ وہ زمانہ لد گیا کہ جب ا نسان کے لیے صرف دو وقت کا کھانا اورتن ڈھانپنے کوچند چیتھڑوں کا مہیا ہو جانا ہی بنیاد ی ضرو رت ہوا کرتا تھا۔
عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ فنی طور پر طے شدہ غربت کی لائن کے نیچے کتنے فیصد لوگ رہ رہے ہیں اور کتنے فیصد اوپر ، اور یہ کہ معاشی اشاریے کیا خبریں دے رہے ہیں ، ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تمام تر معاشی ترقی کے دعووں کے برعکس، ہمارے ارد گرد بسنے والا ہر شہری ، تار حیات کو برقرار رکھنے کے لیے خون پسینہ ایک کیے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود ایک ضرورت پوری ہوتی ہے تو دوسری ضرورت منہ کھولے کھڑی ہوتی ہے ، ایک بل بمشکل ادا ہوپاتا ہے کہ دوسرا سر پر سوار ہو جاتا ہے ۔
سرچھپائیں تو بد ن کھلتا ہے
زیست مفلس کی ردا ہو جیسے
اور یہ محض شعری تعلی نہیں واقعتا غریب کی زیست کا یہی انداز ہے کہ وہ سر چھپائے تو پاؤں کھلتے ہیں اور پاؤں ڈھانپے تو سر ننگا ہوتا ہے۔محض نان جویں کے حصول کے لیے ایک آدمی کو جتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ان کو ماپنے کا ابھی شاید کوئی معاشی پیمانہ وجود میں نہیں آیا۔ وگرنہ شاید موجود ہ ماہر معاشیات وزیر اعظم کے ہوتے ہوئے وطن عزیز میں خود کشیوں کے رحجان میں اتنا اضافہ نہ ہوتا جتنا حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے ۔
صدر ، وزیر اعظم اور دیگر ماہرین معیشت یہ دہائی دیتے نہیں تھکتے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران میں ملکی معیشت میں بہتر ی آئی ہے ۔ صنعتی ترقی کی شرح ۳۵ فیصد ہو چکی ہے ۔ برآمدات کا حجم ۱۲، ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے ۔ بیرون ملک سے سرمایہ کھنچا چلا آ رہا ہے ۔چند ہی سال قبل جو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا آج اس کے خزانے میں ۱۳، ارب ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔ گند م کی فصل بھی بہتر ین ہوئی ہے اور دیگر فصلوں میں بھی اچھی پیداوار کے باعث دیہی علاقوں کی آمدنی میں ۵۰ ، ارب ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔جس سے یقینا دیہی عوام کی معاشی حالت بہتر ہو گی ۔یہ سب اعدادو شمار ، بلا شبہ حکومت وقت کی اعلی کارکردگی کی نشاندہی کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہمیں یہ یقین ہو کہ یہ رقم ہم نے اپنی محنت سے جمع کی ہے۔ ہماری اپنی فیکڑیوں نے یہ سونا اگلا ہے یا ہمارے اپنے کھیت مزدور نے یہ رقم فراہم کی ہے یا کہیں وطن عزیز میں سونے کی کان دریافت ہوئی ہے یا کہیں سے سیال سونا نکلنا شروع ہوا ہے۔لیکن افسوس صورت حال اس طرح نہیں ہے۔ نہ تو ہمارے اپنے وسائل سے یہ رقم اکھٹی ہوئی ہے او ر نہ ہی بہتر مالی نظم ونسق کے طفیل ایسا ممکن ہوا ہے ، تو پھر اترانا کیسا؟ خزانے کے یہ ذخائر ہمارے چند بیرونی مہربانوں کی عنایات ہیں اور کچھ حصہ دیا ر غیر میں مقیم ہمارے بھائیوں کی ترسیلات کا ہے، تو اس پر حکومتی فخر چہ معنی دارد؟ یہ تو اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے پاکستان کے ۱۶ کروڑ عوام جناب شوکت عزیز ، اور مشرف پرویز صاحب او ران کی حکومت کے معاشی بزرجمہروں کے ان دعووں کو تسلیم کرنے کے لیے قطعا تیار نہیں ہیں کہ ملکی معیشت مضبوط ہو رہی ہے ، خزانہ ڈالروں سے چھلکا پڑرہا ہے اور یہ کہ کشکول گدائی توڑ دیا گیا ہے اور ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل آئے ہیں ۔ اعدادو شمار کے ہیر پھیر سے ممکن ہے کہ یہ دعوی سچ دکھائی دے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے ۔بے روز گاری اور کساد بازاری کے عفریت نے عوام کو بری طرح جکڑ ر کھا ہے بنیادی ضروریات کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ۵ برس قبل آٹے کی قیمت ۸ روپے کلو تھی تو اب ۱۸ روپے کلو ہے ۔ ۲۴ روپے فی لٹر فروخت ہونے والا تیل ۴۶ روپے مل رہا ہے۔ ۵۰روپے ملنے والا گوشت اب۱۵۰ روپے بک رہا ہے ۔یہ سب کس چیز کی نشاندہی ہے ؟
اس مہینے قومی اور صوبائی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں حسب عادت قوم یہ توقع رکھتی ہے، اور توقع رکھنے میں حرج ہی کیا ہے، کہ اس بجٹ کوعوام دوست بجٹ بنایا جائے گا ۔ غریب عوام کے مسائل کوکم کرنے کے لیے حقیقی ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔اور جس معاشی ترقی کا دعوی کیا جار ہاہے اس کا کچھ فائدہ غریب عوام تک بھی پہنچے گا۔
اس ضمن میں ہماری پہلی گزارش یہ ہے کہ عام شہری کے لیے بنیادی ضروریات کی اشیا کی ارزاں اور وافر فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ ہمارے ایسے زرعی ملک کے کارپردازان کے لیے یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ آلو ، پیاز ، ٹماٹر اور سبزیاں تک ہم باہر سے منگوانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کیا یہ ہمارے معیشت دانوں کے لیے عبرت کا مقام نہیں ہے؟ کیا فائدہ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں اور دیو ہیکل پراجیکٹس کا اور دفاعی امور میں دیوقامت چیزوں کے حاصل کر لینے کا ،جب ایک عام شہری اپنی زندگی کی عام سی ضروریات کے لیے بھی مارا مارا پھرتا ہو جس آدمی کو اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے دووقت کی روٹی ہی میسر نہ ہو اسے اس سے کیا سروکار کہ ملک میں ایٹم بم بن گیا ہے یا میزائل ٹیکنالو جی کی اعلی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے یا پھر گھر گھر انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔آپ بھلے کاریں ، ایر کنڈیشنر ،قالین مہنگے کر دیں یا سامان تزئین و آرائش کے نرخ بڑھا دیں لیکن خدارا اشیائے خورو نوش اور تن ڈھانپنے کے کپڑے کو سستا کر دیں ۔ ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول اور ان کی فراہمی کا ایک کڑا نظام نافذ کریں تا کہ ہر مریض تک دوا تو پہنچ سکے ۔ خدارا بڑے بڑ ے منصوبوں اور اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں سے باہر نکل کر مخلوق خداکو روٹی کی ارزاں فراہمی یقینی بنائیں۔ اب جب کہ گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ دیانتدارانہ اور فائد ہ مند پالیسی بنا کر اس پیداوار کو صحیح معنوں میں دیہی آبادی کے لیے ترقی و سرفرازی کا ماخذ بنا دیا جائے۔
ایک اور مسئلہ جو ایک طویل عرصے سے حکومتی سر پرستی کو تر س رہا ہے وہ ہاؤسنگ کا مسئلہ ہے ۔ پچھلے چند سالوں سے اس شعبے میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بے پناہ سرمایہ آیا ہے لیکن لینڈ مافیا نے جس طرح زمینوں پر کنٹرول اور قبضہ جمایا ہے اس سے ایک عام شہری کے لیے چھت کا حصول ناممکن ہو گیا ہے جس تیزی سے ہمارے ہاں آباد ی میں اضافہ ہوا ہے اسی رفتار سے مکانات کی ضرورت بھی بڑھی ہے لیکن چند سالوں کے اند ر دیکھتے ہی دیکھتے زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں زمین کا جو ٹکڑا چند سال قبل چند ہزار روپے فی مرلہ دستیاب تھااب وہ لاکھوں میں بک رہا ہے ۔ آخر اس کا کیا جواز ہے؟ ہر دن زمین کی قیمت میں اضافے کی خبر لاتا ہے کیوں؟ کیا پڑی ہوئی زمین پر مالک کو کوئی ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہیے یا یہ زمین کسی فیکڑی میں تیار ہوئی ہے کہ فی گز لاگت بڑ ھ گئی ہے ۔ آخر اس پر کس قسم کا خرچ بڑھا ہے کہ رات ہی رات میں اس کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے ؟ اہل اقتدار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر سوچیں کہ زمین کے دام یکدم کیوں بڑھ گئے ہیں ؟ عوام کے خون پسینے کی کمائی مٹی میں دفن ہو رہی ہے لیکن معلوم نہیں کہ ہمارے معاشی ماہرین کی حکومت کب بیدار ہو گی؟ہمارے خیال میں ایک بڑا معاشی المیہ جنم لینے والا ہے۔اس لیے خدارا فوری طو ر پر اس طرف توجہ دیں۔ برساتی کھمبیوں کی طرح اگ آنے والی لینڈ سکیموں کا جائزہ لیں اور انہیں کسی ضابطے کا پابند بنائیں۔ ہم پہلے ہی جاگیرداری سسٹم کے زخم خوردہ ہیں اب مزید ستم یہ کہ .ان لوگوں نے زمیں کو فیکڑی بنا لیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ خود حکومتی سطح پر مختلف ماڈل کالونیز کے قیام کا بھی اہتمام ہوناچاہیے جن میں صرف بے گھر افراد ہی کو پلاٹ دینے کا اہتمام کیا جائے اور محض سرمایہ کاری کے لیے پلاٹ لینے والوں پر پابند ی عائد کی جائے۔
اس کے علاوہ ہم ارباب بست و کشاد سے یہ بھی عرض کریں گے کہ اب جبکہ ان کے دعووں کے بقول حکومت کے مالی وسائل کافی بڑھ گئے ہیں تو ملازمت پیشہ افراد کے معاوضے بڑھانے میں بھی فراخ دلی کا مظاہر ہ کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ تنخواہ دار طبقہ ہی ہے۔پچھلے سالوں میں جب بھی سرکاری ملازمین اور پنشنر حضرات کی تنخواہیں اور پنشن بڑہانے کا اعلان ہوا تو وہ محض اشک سوئی اور کاغذی گورکھ دھند ا ہی ثابت ہوا۔ اعدادوشمار کا ہیر پھیر زیادہ نظر آیا اور ملازمین کو حقیقی فائدہ کم پہنچا۔جس فراخ دلی اور ہم آہنگی کا مظاہر ہ حکومت ارکا ن پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے اور اعلی حکومتی عہدیداروں کے لیے مہنگی ترین گاڑیوں کی خریداری کی شکل میں کر چکی ہے ا س کی کچھ جھلک ملازمین کے لیے بھی نظر آنی چاہیے۔تعلیم ، صحت ، اور ذرائع مواصلات کے شعبے بھی اپنی جگہ بے پناہ توجہ کے محتاج ہیں لیکن ہم محض ان کی طرف اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کر تے ہیں کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور واقعی کافی ہوتا ہے لیکن عقل مند کے لیے ۔