تیئس کروڑ سال پہلے کے پراسرار حیوان
کرۂ ارض پر بہت کم جان دار ایسے ہیں جو ہمیں اپنی طرف اس قدر متوجہ کرتے ہوں جتنے کہ ڈائنو سار……یہ عجیب ساخت کے دیو قامت حیوان تئیس کروڑ سال پہلے کرۂ ارض پر گھومتے پھرتے تھے اور پھر اچانک یہ پراسرار طور پر مٹ گئے اور گزشتہ صدیوں سے زمین سے برآمد ہونے والے ان کے بڑے بڑے انجر پنجر سائنس دانوں کے لیے اچنبھا تھے۔ پہلے ماہرین حیاتیات کہتے تھے کہ ڈائنو سار صفحہ ہستی سے یکسر مٹ چکے ہیں، تاہم گزشتہ عشرے سے اکثر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تشریحاتی طور پر آج کے پرندوں اور ڈائنوساروں کا شجرہ نسب ایک ہی ہے۔
نام ‘‘ڈائنوسار’’ سب سے پہلے ۱۸۴۲ء میں تحریر میں آیا جب انگریز تشریح کار (Anatomist) سر رچرڈ اوون پر یہ واضح ہو گیا کہ نیو فاؤنڈلینڈ، کینیڈا کے متحجرات (Fossils) ایک غیر شناخت شدہ حیوانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ ان کے ڈھانچے بڑی بڑی چھپکلیوں کے سے تھے، لہٰذا اس نے دو یونانی الفاظ ڈائنوس (Deinos) یعنی خوفناک اور ساروس (Sauros) یعنی چھپکلی کو ملایا اور زمانہ ماضی کی اس عظیم الجثہ مخلوق کا نام ‘‘ڈائنوسار’’ رکھ دیا۔
ڈائنوسار کرہ ارض پر ساڑھے سولہ کروڑ سال تک اہلے گہلے پھرتے رہے۔ پھر آج سے ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے وہ یوں مٹ گئے جیسے ان کا وجود تھا ہی نہیں۔ سائنس دانوں نے اب تک ان کی ۳۵۰ انواع (Species) گنی ہیں اور ان میں سے نصف کا محض گزشتہ بیس برس میں انکشا ف ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تعداد اس دور میں موجود کل انواع کی فقط ایک کسر ہے۔ ان سب نے فیزنٹ کی جسامت کے ایک تیز رفتار خزندے (Reptile) سے ارتقا پایا تھا۔
ماہر فوسلیات رکارڈو مارٹنیز شمال مغربی ارجنٹینا میں اسچی گوالاسٹو کی سرخ ریت کا مشاہدہ کر رہا تھا جب ایک چٹان اس کے ہاتھ لگی۔ وہ اسے بیکار پا کر پھینکنے ہی والا تھا کہ اس کا ایک حصہ سورج کی روشنی میں دمک اٹھا۔ اس نے چونکتے ہوئے اس پر دوبارہ تفتیشی نظر ڈالی تو اس میں حیوانی دانت چمکتے دکھائی دیے۔ یہ ایک پوری کھوپڑی تھی جو چٹان میں چھپی ہوئی تھی۔ اور جب اس نے اپنے ساتھیوں کو چٹانی کھوپڑی دکھائی تو ان میں سے ایک پکار اٹھا: ‘‘فنٹاسٹیکو!’’ (عجوبہ) اور دوسرے نے پورے زور سے کہا: ‘‘ایکسی لینٹے!’’ (شاندار)
پھر جو انھوں نے وہاں کھدائی کی تو بھیڑ کی جسامت کے ایک جانور کا پورا ڈھانچہ نکل آیا جو بائیس کروڑ اسی لاکھ سال پہلے زمین پر زندہ تھا اور مدتوں پہلے اس کی نسل معدوم ہو چکی تھی۔ اس تفتیشی ٹیم کے رکن اور یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر پال سیرینو کا کہنا ہے: ‘‘عین ممکن ہے کہ یہ جانور ابتدائی قسم کا مگرمچھ ہو۔ جب اس خشک بے رحم وادی کی چٹانیں وجود میں آئیں، اس زمانے میں ڈائنوسار بہت کم اور نسبتاً چھوٹی جسامت کے تھے اگرچہ ان دنوں زمین دوسرے درندوں سے، جو کہیں بڑی جسامت کے اور زیادہ خوفناک تھے، آباد تھی۔’’
یہیں ۱۹۸۸ء میں سیرینو کو ہراروسارنامی اولین ڈائنوسار کا مکمل ترین ڈھانچا ملا تھا۔ یہ ایک لمبی تھوتھنی والا پندرہ فٹ طویل حیوان تھا۔ ارجنٹینا کا یہ علاقہ زمین کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں ڈائنوساروں کے دور کاریکارڈ محفوظ پڑا ہے۔ تمام ڈائنو ساروں کی شناخت ڈھانچے کی تقریباً ایک درجن خصوصیات سے ہوتی ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق حرکت اور کھڑے ہونے سے ہے۔ ان میں ٹخنے سب سے بڑی شناخت ہیں، چنانچہ ٹانگوں کی ساخت ڈائنوساروں کا ان سے پہلی مخلوق اور جدید خزندوں سے تعلق ظاہر کرتی ہے۔ مثلاً مگرمچھوں کی ٹانگیں جسم کے پہلوؤں سے نکلتی ہیں جبکہ ڈائنوساروں کی ٹانگیں براہ راست جسم کے نیچے ہوتی تھیں جیسے گھوڑوں وغیرہ میں ہیں۔ اس طرح ان کے پیٹ زمین سے اٹھے ہوتے تھے اور وہ سیدھے ہو کر زیادہ پھرتی سے چل سکتے تھے۔ تحقیق و تفتیش کے بعد پال سیرینو اس نتیجے پر پہنچا کہ اسچی گوالاسٹو کا نودریافت ڈھانچا ایک ایسے گوشت خور جانور کا ہے جو زمین پر ہراروسار سے بھی پہلے پایا جاتا تھا۔ اس سب سے پہلے ڈائنوسار کو اس نے ‘‘ایوریپٹر’’ کا نام دیا۔ ‘‘ایوس’’ (EOS)صبح کی یونانی دیوی تھی اور ریپٹر (Reptor) کا مطلب ہے ‘‘چور’’۔ سیرینو کے بقول یہ نام اس لیے دیا گیا کہ یہ ہلکے جسم کا جانور تھا اور عین ممکن ہے دوسروں کے شکار کے بچے کھچے اجزا چرا کر کھاتا ہو۔
یہ بحث ابھی تک جاری ہے کہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ڈائنوسار اچانک صفحہ ہستی سے کیوں مٹ گئے؟ کیا کسی دمدار ستارے یا ستارچے کے زمین سے ٹکراؤ نے ان سب کی موت کا سامان فراہم کردیا؟ یا کیا وہ کسی خطرناک وائرس یا بتدریج موسمیاتی تبدیلی سے موت کی آغوش میں چلے گئے؟ تمام تر بحث مباحثے کے باوجود ان سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا اور سائنس دان اب اس مشکل معمے سے ہٹ کر اس امر پر توجہ دینے لگے ہیں کہ ڈائنو سار زندگی کس طرح بسر کرتے تھے۔
ماہرین فوسلیات ڈائنوساروں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں …… چھپکلی جیسے سرین والے سارسچیاں اور پرندوں جیسے سرین والے اور نیتھسچیان۔ اول الذکر میں بیشتر مشہور ڈائنوسار شامل ہیں، مثلاً ساروپوڈ جو عظیم الجثہ لمبی گردن والے نبات خور چوپائے تھے اور برونٹو سار بھی انہی سے تعلق رکھتے تھے۔ سارسچیان کی دوسری قسم تھیروپوڈ کہلاتی ہے جو گوشت خور تھے اور جن سے پرندوں اور ٹائرینوسارس ریکس دونوں نے ارتقا پایا۔ سیرینو کو ارجنٹینا میں جو دو ڈائنوسار ملے تھے وہ اسی پہلے گروہ سے متعلق تھے۔
دوسرا گروہ یعنی اورنیتھسچیان خالص نبات خور تھے۔ ان میں سے اکثر دوپائے تھے جیسے بطخ چونچ ڈائنوسار۔ ان کے برعکس بکتر بند سٹیگوسار اور سینگ دار سیراٹو پسیان چوپائے تھے اور چاروں ٹانگوں پر چرتے پھرتے تھے۔
اولین ڈائنو سار کس طرح کے تھے؟ سیرینو کا کہنا ہے کہ ان کی ٹانگیں لمبی تھیں اور جدید مگرمچھ کی نسبت ہرن سے مشابہ تھیں، چنانچہ وہ بڑی تیزی اور شان سے چلتے تھے۔ ان کے بازوؤں کی گرفت بڑی مضبوط ہوتی تھی۔ ان میں سے بیشتر بڑے اچھے شکاری تھے اور بظاہر جو کچھ ان کی گرفت میں آتا، چٹ کر جاتے تھے۔
اولین ڈائنو ساروں کے ہر شے نگل جانے کی شہادت ہمیں وادی اسچی گوالاسٹو کے بہت شمال میں شمالی نیو میکسیکو (یو ایس اے) کے ایک چھوٹے عجائب گھر سے ملتی ہے جو ‘‘بھوتوں کا مسکن’’ میں واقع ہے۔ یہ بھوتوں کا مسکن (Ghost Ranch) دراصل ایک چرچ کانفرنس سنٹر ہے۔ اس عجائب گھر میں ایک لمبے پتلے تھیرو پوڈ کا ڈھانچہ پڑا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کے پیٹ میں اسی نوع کے ایک بچے کا ڈھانچا بھی ہے جسے اس نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے نگل لیا تھا۔ کوئلو فائسز نامی اسی نوع کے سینکڑوں ڈھانچے قریب قریب سے ملے ہیں جیسے وہ کسی آفت میں آناً فاناً مارے گئے ہوں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان ابتدائی ڈائنوساروں نے سماجی طور پر گروہوں میں رہنا سیکھ لیا تھا۔ کوئلو فائسز لمبے فاصلوں تک دوڑتے چلے جاتے تھے۔ شاید وہ اپنے حریف فائٹو ساروں سے بچنے کے لیے ایسا کرتے ہوں۔ ان کا جمگھٹوں میں رہنا بھی پرندوں کے ان سے موروثی تعلق کی ایک علامت ہے۔ بھوت گھر میں ۱۹ فٹ لمبا ایک دیوقامت ڈھانچا بھی ہے۔ مگرمچھ جیسا یہ جانور جھیلوں اور ندیوں میں شکار کیا کرتا تھا۔ نیومیکسیکوکی سینڈسٹون چٹانوں میں سے ایک سائسموسارس کا ڈھانچا بھی ملا ہے جو سب سے لمبے ڈائنو ساروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی ناک سے دم تک ۱۵۰ فٹ ہو گی۔
حشرات، جل تھلیے، چھوٹے خزندے اور شاید دودھیل جانوروں کے پیشرو بھی سب کوئلو فائسز سے ڈرتے تھے۔ سموردار اور چھچھوندر کی جسامت کے اصلی دودھیل بھی اسی دور میں وجود پذیر ہوئے جب ڈائنو ساروں نے جنم لیا تھا، تاہم وہ ساڑھے سولہ کروڑ سال تک ارتقا نہ پا سکے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا۔ دودھیل پاپستانیہ اس وقت بھی نسبتاً بڑے دماغ رکھتے تھے اور زیادہ مستعد اور گرم خوں تھے۔
ایک نسل پہلے جب ڈائنوسار فقط عظیم الجثہ چھپکلیاں خیال کیے جاتے تھے، اکثر ماہرین یہ سمجھتے تھے کہ وہ سب جدید خزندوں اور جل تھلیوں کی طرح سرد خوں تھے، یعنی ان کا اندرونی درجہ حرارت ماحول کے مطابق ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دھوپ میں مگرمچھ مستعد ہوتا ہے جبکہ سرد موسم اسے سست بنا دیتا ہے۔ اس کے برعکس گرم خوں جانوراپنے اندر اپنی داخلی توانائی خود پیدا کرتے ہیں، چنانچہ جب انھیں ضرورت ہو، مستعد ہو جاتے ہیں۔ عشرہ ۱۹۶۰ء میں ایک نوجوان ماہر فوسلیات نے یہ تصور دیا کہ اگر ڈائنوسار سردخوں ہوتے تو وہ کرہ ارض پر کبھی نہ چھا سکتے۔ وہ یقینا گرم خوں تھے جو پچھلی ٹانگوں پر کھڑے درختوں کی چوٹیوں سے پتے چرتے اور دوڑتے چلے جاتے تھے۔
ڈائنو سار خشکی پر کس طرح چھا گئے؟ اس کے جواب میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ٹرائیاسک دور میں، کم و بیش اکیس کروڑ سال پہلے، زمین پر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا جس میں کئی انواع معدوم ہو گئیں۔ بڑے بڑے مگرمچھ جیسے حیوان توکلی طور پر غائب ہو گئے اور جو بچ رہے وہ جسامت میں چھوٹے تھے۔ پہلے بعض سائنس دانوں کا ذہن کینیڈا کے تصادی دہانہ (Crater) مانی کو اگان کی طرف جاتا تھا جو ساٹھ میل چوڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کسی خلائی کرے کے زمین سے تصادم کے نتیجے میں یہ عظیم گڑھا پیدا ہوا اور اس سے اٹھنے والے گرد کے گھنے بادلوں نے سورج کی روشنی یوں روک لی کہ زمین پر پودے اور درخت سوکھ جانے سے قحط پیدا ہوگیا اور حیوان مرتے چلے گئے۔ کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پندرہ کروڑ سال بعد ایسے ہی تباہ کن عالمی حادثے کے نتیجے میں آخری ڈائنوسار دنیا سے ناپید ہو گئے۔ تاہم حالیہ ریڈیو میٹرک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مانی کو اگان دہانہ ڈائنو ساروں کی بکثرت ہلاکت سے کئی ملین سال پہلے نمودار ہوا تھا۔ بعض سائنس دان کہتے ہیں کہ اکیس کروڑ سال پہلے کی بکثرت ہلاکت بتدریج آب و ہوا تبدیل ہونے کا نتیجہ تھی۔
اس بکثرت ہلاکت کے بعد بقیہ ڈائنوساروں کی آبادی خشکی پر تیزی سے پھیلنے لگی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آتش فشانی عمل کے بعد زمین پر نئی روئیدگی ہوئی تھی۔ شاید گرم تر موسم ان کے لیے سازگار تھے یا شاید قسمت کی بات تھی۔ ڈائنوساروں کی اس بے پناہ افزائش کے اسباب کا ٹھیک ٹھیک ادراک اس لیے مشکل ہے کہ اس دور یعنی بیس کروڑ اسی لاکھ سال قبل سے پندرہ کروڑ ستر لاکھ سال قبل تک کی فوسل بھری چٹانیں کم ہی ملتی ہیں۔ اس دور کا ایک مکمل چٹانی ریکارڈ چین میں ہے اور حال ہی میں چینی ماہرین فوسلیات نے کئی گم شدہ کڑیاں پالی ہیں۔
چینی زبان میں ‘‘کونگ لونگ’’ کا مطلب ‘‘ڈائنو سار’’ بھی ہے اور ‘‘خوفناک اژدہا’’ بھی، چنانچہ صدیوں سے چینی لوگ وہاں سے ملنے والی اژدہا نما حیوانی ہڈیوں پر حیرت زدہ رہتے تھے۔ تیسری صدی عیسوی کا چینی مصنف چانگ قولکھتا ہے: ‘‘ایک اژدہا ایک پہاڑ پر چڑھا اور سیدھا بہشت کے دروازے پر جا پہنچا۔ دروازہ مقفل ہونے کی وجہ سے وہ بہشت میں داخل نہ ہو سکا، لہٰذا واپس زمین پر آپڑا اور اس مقام پر مر گیا۔ بعد میں وہ زمین کے اندر دھنس گیا۔’’
اور چین کے سرکردہ ڈائنوساردان ڈونگ ژیمنگ کہتے ہیں: ‘‘اکثر کسان ڈائنوساروں کی ہڈیوں کا اصل معاملہ نہیں جانتے۔ جنوب وسطی چین کے صوبہ سیچوان میں کسی بوڑھے کسان کو ایسی ہڈی ملتی ہے تو وہ اسے گھر لے جا کر اس کی دوا بنا لیتا ہے۔ کسانوں کے بقول اژدہا طاقت اور خوش قسمتی کا حامل ہے اور اگر وہ اس کی ہڈیاں پیس کر کھائیں تو وہ بھی طاقت ور اور خوش قسمت بن سکتے ہیں۔’’ اور ہمسایہ صوبہ ینان میں کسان ڈائنو ساروں کی ہڈیوں کی سلیں کبوتروں کے دڑبے بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ملنے والی چٹانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئلو فائسز جیسے تھیروپوڈ بکثرت ہلاکت سے بچ کر کس طرح تبدیل ہو گئے۔ ۱۹۸۷ء میں کسانوں کو اس نوع کا پندرہ فٹ لمبا ڈھانچا ملا جو ایک نسبتاً بڑے نبات خور سے الجھا ہوا تھا۔ مسٹر ڈونگ کے خیال میں وہ دونوں لڑتے لڑتے ہلاک ہوئے تھے۔
خدا جانے زمین کے اندر کہاں کہاں اس قسم کے فوسلیاتی ریکارڈ دفن پڑے ہیں۔ ماہرین فوسلیات کو وسیع پیمانے پر ان کا سراغ لگانا ہو گا تبھی یہ معمہ حل ہو سکے گا کہ پوری زمین پر چھائے ہوئے ڈائنو سار ساڑھے سولہ کروڑ سال پہلے آناً فاناً کیوں ناپید ہو گئے تھے! (بشکریہ اردو ڈائجسٹ نومبر ۹۵)