کہتے ہیں ایک شخص انتہائی کنجوس تھا اس کے گھر میں چوہوں کی بہت زیادہ بہتات تھی۔ اس نے ایک چوہے دان لگایا اور اس میں اصلی پنیر کی بجائے اخبار سے تراشی ہوئی پنیر کی ایک تصویر رکھ دی۔ صبح جب وہ چوہے دان کے پاس گیا تو اس میں اصل چوہا تو کوئی بھی نہ تھا البتہ اخبار ہی سے کتری ہوئی چوہے کی ایک تصویر رکھی تھی۔ بعض دوسری کہانیوں اور کہاوتوں میں بھی چوہے کی ذہانت کا اعتراف ملتا ہے۔ مثلاً بلی سے نجات حاصل کرنے کیلئے چوہوں کی کانفرنس اور پھر اس کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا تاریخی فیصلہ، یا پھر جال میں پھنسے ہوئی ہاتھی کی رسیاں کتر کر اسے آزاد کروانے کی سکیم، چوہے کی دماغی برتری کی پرانی حکایتیں ہیں، مگر دور جدید کے ماہرین نے نہ صرف اس چھوٹے سے جانور کی عقل مندی کو تسلیم کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ذہانت اور چالاکی میں بہت کم جانور چوہے کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ایک ماہر حیوانات کو جس نے چوہوں پر تحقیق شروع کررکھی تھی کسی دوست نے بہترین قسم کا روغن زیتون سوغات کے طور پر بھیجا۔ یہ روغن بوتلوں میں بند تھا۔ ماہر حیوانات کو اسی دوران میں دو تین ماہ کیلئے کہیں باہر جانا پڑا۔ اس نے ساری بوتلیں اپنے سٹور میں رکھیں، تالہ لگایا اور چلا گیا۔ واپسی پر جب سٹور کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ساری بوتلوں میں سے آدھا آدھا روغن زیتون غائب ہے۔ جب اس نے اس ‘‘پراسرار،، چور کے بارے میں تحقیق کی تو اس راز کا انکشاف ہوا کہ یہ سب کارستانی چوہوں کی ہے۔ پہلے تو چوہوں نے تیل دیکھ کر بوتلوں کے کارک کتر ڈالے، مگر بوتلوں کا منہ تنگ ہونے کی وجہ سے جب وہ تیل تک رسائی حاصل نہ کرسکے تو انہوں نے فوراً ایک نادر ترکیب سوجھی۔ وہ اپنی دم بوتل میں ڈال دیتے تھے۔ جب وہ تیل میں تر ہوجاتی تو باہر نکال کر فوراً تیل چاٹ لیتے اور یہی عمل پھر شروع کردیتے لیکن جب روغن بوتلوں میں نصف سے بھی کم رہ گیا تو دم نہ پہنچنے کی وجہ سے انہیں یہ کام چھوڑنا پڑا۔لگے ہاتھوں ایک اور ماہر حیوانات کا قصہ بھی سن لیجئے جنہیں چوہوں کے ہاتھوں ایک حیران کن طریقے سے زک اٹھانا پڑی۔ ان صاحب نے بہت سی مرغیاں پال رکھی تھیں۔ انڈوں کو محفوظ رکھنے کے لیے انہوں نے کمرے کی چھت کے ساتھ ایک تھیلی لٹکا رکھی تھی۔ مرغیاں جتنے انڈے دیتیں یہ اس تھیلی میں ڈال دیتے۔ چار پانچ دن کے بعد انڈے نکال کر فروخت کردیتے یا استعمال میں لاتے۔ ایک مرتبہ انہیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ انڈوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے روز بروز گھٹتی جارہی ہے۔ انہیں فوراً ایک نئے نوکر پر شک گزرا۔ بلا کر اس کی گوشمالی کی۔ چور ٹھہرایا۔ ڈرایا دھمکایا، لیکن جب اس نے قسمیں کھا کھا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلادیا تو انہوں نے اس چور کر پکڑنے کا ارادہ کرلیا اور جاسوسی کی غرض سے سٹور میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ دم سادھ لیا اور نگاہیں دروازے پر مرکوز کردیں۔ اچانک تھیلی میں سے دو انڈے اچھلے اور دھڑام سے زمین پر گر کر ٹوٹ گئے۔ ابھی وہ اس حیرت انگیز واقعے کو سمجھنے بھی نہ پائے تھے کہ سٹور کے مختلف کونوں سے بے شمار چوہے نمودار ہوئے اور بڑے اطمینان سے انڈوں کو چاٹنے لگے حتیٰ کہ انہوں نے چھلکے کا ایک ریزہ تک فرش پر باقی نہ رہنے دیا۔ ہوتایوں تھا کہ دو تین دلیر قسم کے چوہے سٹور میں رکھی ہوئی بوریوں کے ذریعے اس رسی تک پہنچ جاتے جس کے ساتھ تھیلی لٹکتی تھی۔ اس کے بعد وہ آسانی سے تھیلی میں داخل ہوجاتے اور اپنی برادری کی لذت کام و دہن کی خاطر انڈے نیچے گرادیتے تھے۔ اگرچہ چوہا اپنی روایتی بزدلی کیلئے مشہور ہے، تاہم اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ یہ انسان سے بہت جلد مانوس ہوجاتا ہے۔ اگر اسے کچھ سکھانے کی کوشش کی جائے تو باقاعدہ تعاون کرتا ہے۔ دودھ پلانے والے جانور پرندوں کی طرح اپنا گھر بنانے کے سلسلے میں اتنے مشاق اور ہنرمند نہیں ہوتے، لیکن چوہے کا معاملہ دوسرا ہے جنگلی چوہے گھر بنانے کے فن میں پرندوں کی سی مہارت، کاریگری اور ذہانت کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ زمین کھود کر ایک دائرہ نما گھر بناتے ہیں جس میں گھاس پھوس کا بستر اور شاخوں کے گلدستے سجے ہوتے ہیں اگر اتفاق سے یہ گھر نہر کے قریب ہو تو پار جانے کیلئے نہر کے نیچے سے سرنگ لگا کر راستہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس درجہ کی ذہانت دوسرے چھوٹے
جانوروں میں مفقود ہے۔
٭٭٭