اگر آپ صبح سویرے سیر پر جاتے ہیں تو آپ نے درختوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک پرندے کی خوبصورت اور سریلی آواز ضرور سنی ہوگی۔ دل کو چھو لینے والی یہ آواز ایک لمحے کے لیے پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کردیتی ہے۔ یہ خوبصورت آوازایک چھوٹے سے پرندے کوئل کی ہے۔
کوئل اور ہر گھنٹے کے بعد کوئل جیسی آواز نکالنے والے کلاک اب ماضی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے کہ باغوں اور پارکوں میں کوئل کی سریلی اور خوبصورت آواز اکثر سنائی دیتی تھی اور بہت سے گھروں کی دیواروں پر ایسے کلاک نظر آتے تھے جن میں ہر گھنٹے کے بعد ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلتی تھی اور ایک ننھی سی کوئل اپنی چونچ باہر نکال کر وقت کا اعلان کرتی تھی۔کوکو کلاک موبائل فونز اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دیگر گھریلو آلات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ، جب کہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہمارے باغوں اور پارکوں کوکوئل کے سریلے نغموں سے محروم کررہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں کوئل کی آبادی میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے؟ اس بارے میں مستند اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں لیکن برطانیہ میں ایک حالیہ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ 1995ء کے مقابلے میں 2010ء میں اس خوش الحان پرندے کی تعداد آدھی ہوچکی تھی۔
کم ہی لوگوں کو یہ علم ہے کہ کوئل ایک خانہ بدوش پرندہ ہے اور وہ خوراک کی تلاش اور موسموں کی سختیوں سے بچنے کی خاطر ہر سال ہزاروں میل کا سفر کرتا ہے۔ یورپ میں یہ ننھا پرندہ افریقہ سے طویل سفر کے بعد وہاں آتا ہے اور سردیاں شروع ہوتے ہی واپسی کی پرواز شروع کردیتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ یہ ننھی سی جان ہرسال دس ہزار میل سے زیادہ پرواز کرتی ہے۔ اوراس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شمالی امریکہ کے سفر کے لیے یہ پرندہ چار ہزار میل کی ایک مسلسل اڑان میں بحیرہ کریبیئن عبور کرتا ہے۔
کوئل یا کوکو کی کئی اقسام ہیں جن کا وزن 15 گرام سے سوا پونڈ تک ہوتا ہے۔ مختلف اقسام کے پروں کی رنگت بھی مختلف ہوتی ہے اور کوئل کی نقل مکانی پر نظر رکھنے والے یورپی تحقیقی ادارے بی ٹو او کے مطابق کچھ اقسام نقل مکانی نہیں کرتیں اور کسی خاص علاقے میں مستقل طور پر رہتی ہیں۔برطانوی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے، جو گذشتہ ایک سال سے کوئل پر تحقیق کررہی ہے، افریقہ سے برطانیہ پہنچنے والی کوئل کی پرواز کے راستوں کی مستند معلومات اکھٹی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس تحقیق کے لیے پہلی بار جی پی ایس سے مدد لی گئی ہے اور سیٹلائٹ کے ذریعے ان کی پرواز پر نظر رکھ کر ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے۔ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فل اٹکن سن کا کہناہے کہ اپنی تحقیق کے لیے انہوں نے پچھلے سال مئی میں نورفوک کے علاقے سے پانچ نر کوئل پکڑے، اور پھر ایک خصوصی چھوٹے جی پی ایس کو ان کے بازوؤں کے ساتھ باندھنے کے بعد آزاد کردیا گیا۔جس کے بعد ان کی پرواز کاریکارڈ مرتب کیا گیا۔ڈاکٹر اٹکن سن کا کہناہے کہ ان پانچ میں سے دو پرندوں نے جن کے نام لاسٹر اورکرس رکھے گئے تھے، خزاں کا موسم شروع ہوتے ہی اپنی واپسی کی پرواز شروع کی اور وہ مختلف راستوں سے اٹلی اور اسپین سے گزرتے، بحیرہ روم کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے افریقہ کے صحرائے اعظم میں داخل ہوئے اور سردیوں کے آغاز پر ایک برساتی جنگل میں پہنچ گئے۔ پھر جب موسم بدلنا شروع ہواتو انہوں نے واپسی کے سفر کا آغاز کیا اور مختلف راستوں سے گزرتے اپریل کے آخر میں برطانیہ میں فورنوک کے اسی علاقے میں پہنچ گئے جہاں سے ایک سال قبل انہیں پکڑا گیاتھا۔
پرندوں پر ایک اور حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 1995ء سے یورپ میں کوئل سمیت پرندوں کی دوسری کئی اقسام کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔ ان میں قمری، فاختہ ، بلبل اور ممولے بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں ہر سال کوئل کے دس ہزار سے بیس ہزار جوڑے گرمیاں گزارنے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مادہ کوئل اپنے واپسی کے سفر پرروانگی سے قبل عموماً کوے کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔ اور کوے کو اس وقت پتا چلتا ہے کہ وہ کوئل کے انڈے سیتا اور اس کے بچے پالتا رہاہے، جب وہ بولنا شروع کرتے ہیں۔ وہ انہیں گھونسلے سے باہر پھینک دتیا ہے۔ مگر تب تک وہ اڑنے کے قابل ہوچکے ہیں اور پھر گھونسلے سے بے دخل ہونے کے چند ہی ہفتوں کے بعد وہ افریقہ کے لیے اپنی پرواز شروع کردیتے ہیں۔کوئل کی بعض اقسام اپنے انڈے خود سیتی ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش بھی خود کرتی ہیں۔
نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئل پرواز کے لیے مختلف راستے اختیار کرتا ہے۔ بالغ پرندے اپنا سفر پہلے شروع کرتے ہیں اور عموماً مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں برطانیہ پہنچ جاتے ہیں اور پھر جولائی اگست میں ان کی واپسی شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ ان کے بچوں کی پرواز تقریباً ایک ماہ بعد شروع ہوتی ہے۔صحرائے اعظم عبور کرنے سے پہلے یہ پرندے کچھ عرصہ مغربی افریقہ میں رکتے ہیں اور اپنے قیام کے دوران معمول سے زیادہ خوراک کھاتے ہیں جس سے ان کے وزن اور جسم میں توانائی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اپنی اسی توانائی کے بل پر وہ صحرا ئے اعظم عبور کرتے ہیں۔ڈاکٹر فل اٹکن سن کا کہناہے کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ غیر معمولی موسمی تبدیلیاں ان کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں شامل پہلا کوئل افریقی ملک کیمرون سے گزرتے ہوئے سخت موسم کے باعث ہلاک ہوگیاتھا۔ ماہرین کے مطابق کوئل کا اصل وطن افریقہ ہے اور وہ خوراک کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتا ہے۔
ڈاکٹر اٹکن سن نے ٹیلی گراف کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تبدیلوں کے باعث اس سال فروری کے آخر میں ہی کوئل کی آمد کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا، جب کہ ان کی آمد عموماً اپریل اور مئی میں ہوتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ نر اور مادہ کوئل کی عادات کافی مختلف ہیں۔ برطانیہ میں نر پرندوں کی آمد پہلے شروع ہوتی ہے اور وہ گرمیاں گزارنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں انہیں اپنے لیے اچھے جیون ساتھی ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ جب کہ مادہ پرندے کئی ہفتوں کے بعد وہاں پہنچنے ہیں اوران کی پرواز کے راستے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ڈاکٹر اٹکن سن کی ٹیم مادہ کوئل کی پرواز کے راستوں کا نقشہ بنانے کے لیے اس سال ان پر تحقیق کررہی ہے۔
(بشکریہ بی بی سی )