نوجوان بہت دکھی تھا، اس کے ہاتھ میں کپ لرز رہا تھا، وہ بار بار کھنگار کر گلا صاف کرتا اور ٹشو سے آنکھیں پونچھتا تھا لیکن اس کا اضطرار کم نہیں ہورہاتھا۔ وہ اندر ہی اندر ہلکی لیکن مسلسل آنچ پر پک رہاتھا ۔ اس کی توہین ہوئی تھی، اس کی انا، اس کی عزت نفس کچلی گئی تھی اور اسے اپنی انا کی ٹوٹی کرچیاں سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھیں۔ بات بہت معمولی تھی لیکن اس کی غربت، اس کی بے بسی نے اسے بڑا بنادیا تھا۔ وہ کسی امیر گھر میں ٹیوشن پڑھاتا تھا، وہ موٹر سائیکل پر وہاں جاتا تھا۔ ایک شام اس گھر میں پارٹی تھی پورچ اور ڈرائیو وے پر درجنوں قیمتی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ان لمبی، بڑی اور چمکیلی گاڑیوں کے درمیان اس کی موٹر سائیکل چاندکا داغ محسوس ہوتی تھی۔ وہ باہر نکلا تو صاحبوں اور میم صاحبوں نے اس کی موٹر سائیکل کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن موٹر سائیکل نے عین وقت پر سٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ وہ وہاں دیر تک موٹر سائیکل کو ککیں لگاتا اور میم صاحبو ں اور صاحبوں کے قہقہے سنتا رہا۔ یہ قہقہے اس کے اندر اتر گئے۔ وہ میرے پاس آیا اور سامنے بیٹھ کر رونا شروع کر دیا۔
میں نے اس سے کہا‘‘میرے بھائی یہ توہین، یہ انا کی کچلی ہڈیاں اور عزت نفس کی یہ کرچیاں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ یہ وہ بنیاد ہوتی ہیں جن پر دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کی ذات تعمیر ہوتی ہے جس پر عظیم لوگوں کی عظمت کے میناراور کامیاب لوگوں کی کامیابی کے گنبد بنتے ہیں۔ تم اگر اس احساس ندامت کو سنبھال سکو تو سنبھال لو۔ تم اس عظیم لمحے کو پکڑ سکو تو پکڑ لو یہ تمھیں کامیابی اور عزت سے نوازے گا۔ تم بھی چند ہی برسوں میں صاحب ہو جاؤ گے۔’’ اس نے آنکھیں پونچھیں اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا ‘‘میں تمھیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ تم سنو اور پھر بتاؤ، تمھارا احساس توہین کتنا قیمتی ہے۔ پولینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب لڑکی رہتی تھی۔ اس کا نام مانیا سکلوڈ ووسکا تھا۔ وہ بھی تمھاری طرح ٹیوشن پڑھا کر گزر بسر کرتی تھی۔ ۱۹ برس کی عمر میں وہ ایک امیر خاندان کی دس سال کی بچی کو پڑھاتی تھی۔ بچی کا بڑا بھائی اس میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ بھی اس کی طرف مائل ہوگئی۔ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب لڑکے کی ماں کو پتا چلا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس نے مانیا کو کان سے پکڑا اور پورچ میں لا کھڑا کیا۔ سارے نوکر جمع کیے اور چلا کر کہا،دیکھو یہ لڑکی جس کے پاس پہننے کے کے لیے صرف ایک فراک ہے، جس کے جوتوں کے تلوؤں میں سوراخ ہیں اور جسے چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی ہمارے گھر سے۔ یہ لڑکی میرے بیٹے کی بیوی بننا چاہتی ہے۔ یہ میری بہو کہلانے کی خواہش پال رہی ہے۔’’تمام نوکروں نے قہقہہ لگایا، خاتون دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی، مانیا کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے اوپر تیزاب کی بالٹی الٹ دی ہو۔ وہ توہین کے شدید احساس میں گرفتار ہوگئی۔ اس نے اس پورچ میں کھڑے کھڑے فیصلہ کیا وہ زندگی میں اتنی عزت، اتنی شہرت کمائے گی کہ پورا پولینڈ اس کے نام سے پہچانا جائے گا۔یہ اٹھارہ سو اکانوے عیسوی تھی۔ وہ پولینڈ سے پیرس آئی ۔ اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فزکس پڑھنا شروع کردی۔وہ دن میں بیس گھنٹے پڑھتی تھی۔ پیسہ دھیلہ تھا نہیں ،جو کچھ پونجی تھی اسی میں گزربسر کرتی۔ وہ روز صرف تین شلنگ خرچ کرتی تھی۔اس کے کمرے میں بجلی ’گیس اور کوئلوں کی انگیٹھی تک نہیں تھی۔وہ برفیلے موسموں کی راتیں کپکپا کر گزارتی تھی۔ جب سردی برداشت سے باہر ہو جاتی تو وہ اپنے سارے کپڑے نکالتی، آدھے بستر پر بچھاتی اور آدھے اوپر اوڑھ کر لیٹ جاتی۔ پھر بھی گزارہ نہ ہوتا تو وہ اپنی ساری کتابیں، اپنی کرسی اپنے اوپر گرا لیتی تھی۔ پورے پانچ برس اس نے ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں اور مکھن کے سوا کچھ نہ کھایا۔ نقاہت کا یہ عالم ہوتا تھا وہ بستر پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہوجاتی تھی۔ جب ہوش آتا تھا تو وہ اپنی بے ہوشی کو نیند قرار دے کر خودکو تسلی دے لیتی تھی۔ وہ ایک روز کلاس میں بے ہوش ہوگئی، ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا، آپ کو دوا کے بجائے دودھ کے ایک گلاس کی ضرورت ہے۔ اس نے یونیورسٹی ہی میں پاٹری نام کے ایک سائنسدان سے شادی کر لی۔ وہ بھی اسی کی طرح مفلوک الحال تھا۔ شادی کے وقت دونوں کا کل اثاثہ دو سائیکل تھے۔ مانیا نے پی ایچ ڈی کے لیے بڑا دلچسپ موضوع چنا۔ اس نے فیصلہ کیا وہ دنیا کو بتائے گی کہ یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہیں ۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن وہ اس پر جت گئی۔ تجربات کے دوران اس نے ایک ایساعنصر دریافت کر لیا جو یورینیم کے مقابلے میں بیس لاکھ گنا روشنی پیدا کرتاتھااور اس کی شعاعیں لکڑی،پتھر،تانبے اور لوہے غرض دنیا کی ہر چیز سے گزر جاتی تھیں۔ اس نے اس کا نام ریڈیم رکھا۔ یہ سائنس میں ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔ لوگوں نے ریڈیم کا ثبوت مانگا۔ مانیا اور پاڑی نے ایک خستہ حال احاطہ لیا جس کی چھت سلامت تھی اور نہ ہی فرش۔ وہ چار برس تک اس احاطے میں لوہا پگھلاتے رہے۔ انھوں نے تن تنہا ہی ٹنوں لوہا پگھلایا اور اس میں سے مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کی۔ یہ چار سال ان لوگوں نے گرمیاں ہوں یا سردیاں اپنے اپنے جسموں پر جھیلیں۔ بھٹی کے زہریلے دھوئیں نے مانیا کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر دیے لیکن وہ کام میں جتی رہی۔ اس نے ہار نہ مانی یہاں تک کہ پوری سائنس اس کے قدموں میں جھک گئی۔’’
نوجوان بڑے غور سے میری بات سن رہا تھا۔ میں نے کہا‘‘یہ ریڈیم کینسر کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آئی۔ ہم جسے آج شعاعوں کا علاج کہتے ہیں مانیا کی یہی ایجاد تھی۔ یہ لڑکی دنیا کی واحد سائنس دان تھی جسے زندگی میں دو بار نوبل پرائز ملا۔ جس کی زندگی پر تیس فلمیں بنیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں جس کی وجہ سے آج سائنس کے طالب علم پولینڈ کا نام آنے پر سر سے ٹوپی اتار دیتے ہیں۔’’ میں ایک لمحے کے لیے رکا اور اس نوجوان سے پوچھا:‘‘تم اس مانیا کا پورانام جانتے ہو؟’’ نوجوان نے انکار میں سر ہلادیا، میں نے قہقہہ لگایا‘‘دنیا پولینڈ کی اس مفلوک الحال، اس بے بس اور بے کس لڑکی کو مادام کیوری کے نام سے جانتی ہے۔’’ نوجوان کی آنکھوں میں روشنی اتر آئی۔ میں نے کہا:‘‘لیکن ابھی کہانی کا کلائمکس باقی ہے۔ جب دنیا نے مادام کیوری کو اس ایجاد کے بدلے اربوں ڈالر کی پیش کش کی تو اس نے پتا ہے کیا کہا؟ اس نے کہا، میں یہ دریافت صرف اس کمپنی کو دوں گی جو پولینڈ کی ایک بوڑھی عورت کا مفت علاج کرے گی۔ جی ہاں وہ امیر پوش عورت جس نے کبھی کیوری کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیاتھا وہ اس وقت کینسر کے مرض میں مبتلاتھی۔ وہ اس وقت بستر مرگ پر پڑی تھی۔’’ میں رکا اور پھر نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ‘‘میرے بھائی اس دنیا میں روزانہ کروڑوں، اربوں لوگوں کی توہین ہوتی ہے۔ کروڑوں اور اربوں لوگ ایک دوسرے کی انا، عزت نفس اور وقار کو قدموں میں روندتے ہیں۔ لیکن یہ توہین کاوہ احساس جو تین پونڈ ماہانہ کی ایک ٹیوٹر کو مادام کیوری بنادے وہ احساس اللہ تعالیٰ کسی کسی کو نصیب کرتا ہے۔ یہ احساس دنیا کی قیمتی ترین چیزہے۔ جاؤ شکرانے کے دو نفل پڑھو اور اللہ کے بخشے ہوئے اس لمحے کو کامیابی میں ڈھال لو۔ اسے زندگی بنالو، یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کسی سے راضی ہوتا ہے تو وہ اسے دولت سے نہیں نوازتا وہ اسے ادراک دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں اسی ادراک سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں مادام کیوری جیسا احساس بخشا ہے۔ اب یہ تم پر ہے تم اس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہو۔ تم بنیاد کے اس پتھر پر کتنی اونچی عمارت بناتے ہو؟’’
بشکریہ ‘‘جنگ’’ 2.3.5.