ہم آئمہ،علما اور بزرگوں کے رائے پر لڑے مرے جارہے ہیں اور ایک رائے کو ایمان اور دوسری رائے کو کفر قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ ‘دین’ کے حوالے سے اس کی کوئی اہمیت نہیں
ہمارے نزدیک اختلافات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ‘دین’ اور ‘تاریخ’ کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا ہے جس دین کواس کی تکمیل کا سرٹیفیکیٹ بھی الیوم اکملت لکم دینکم کی صورت جاری کر دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا رسولﷺ لاکھوں افراد سے تین بار یہ گواہی لے کر اس دنیا سے رخصت ہوا تھا کہ اس نے اپنے رب کی طرف سے نازل ہونے والا دین پورا کا پورا اُنھیں پہنچا دیا۔ گویا جن چیزوں کے ماننے اور نہ ماننے پر مسلمان ہونے کا انحصار تھا اور جن کے بارے میں آخرت میں باز پرس ہونی تھی، ان سب کی تکمیل نبیﷺ کی زندگی میں ہوگئی اور اس کی تکمیل ہی کی وجہ سے آپﷺ کے بعد سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہے، وہ ہماری تاریخ ہے۔ عقائد کا معاملہ حضورِ اکرمﷺ کی ذات گرامی پر ختم ہوا۔ اب ثقیفہ بنی ساعدہ سے میدان کربلا تک واقعات کا جو طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے ان میں کوئی ایک رائے قائم کی جائے اور اسے ‘عقیدہ’ کا درجہ دے دیا جائے اور اس کو ایک خاص صورت میں ماننا‘ایمان’ اور کسی دوسری صورت میں دیکھنا کفر قرار دیا جائے تو یہ اللہ اور رسول اللہﷺکے دین میں اضافہ ہے۔ یہ مقام صرف حضورﷺہی کو حاصل ہے کہ آپﷺ کے فیصلوں پر دل میں ذرا سی تنگی آدمی کو ایمان سے خارج کر دیتی ہے۔ آپ ﷺ کے بعد اگر ام المومنین حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ تلوار سونت کر آمنے سامنے آتے ہیں تو ان دونوں میں سے یاان کا ساتھ دینے والے صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا ایمان ساقط نہیں ہوتا۔ ان میں سے کسی ایک کو حق پر اور کسی ایک کو غلطی پر سمجھنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ مخلصانہ اختلاف سے آگے بڑھ کر اگر کوئی کسی سے بغض و عناد رکھتا ہے تو اس کا معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ ہاں جب وہ بغض و عناد کا کھلا اظہار کرتا ہے تو دوسروں کی دل آزاری اور فساد انگیزی کا سبب بنتا ہے اور اسی سے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
دین اور تاریخ کا فرق مزید واضح کرنے کے لیے عرض کروں گا کہ اگر آج کوئی یہ کہہ دے کہ ابو حنیفہ نام کا کوئی شخص تاریخ میں نہیں گزرا یاامام حنبلؒمحض ایک افسانہ ہیں یا امام شافعی ؒ امام مالکؒ کا تاریخ میں کوئی سراغ نہیں ملتا تو اس سے زیادہ سے زیادہ تاریخ سے اس شخص کا جہل ثابت ہوگا۔ تاریخ کے اس امر واقعہ سے انکار اسے اسلام سے ہر گز خارج نہ کرے گا۔ اس دنیا میں لاکھوں مسلمان ہیں جنھوں نے نہ دیوبند کا نام سنا، نہ بریلی،لکھنؤ اور اجمیر کا۔ ان کی بڑی اکثریت قم اورنجف سے بھی نا واقف ہے مگر وہ اس لاعلمی کے باوجود مسلمان ہیں۔ وہ مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا احمد رضاخانؒ یا طبا طبائی اور کاشانی کے عقائد اور ان کی تعبیرات و تشریحات سے وجود سے ہی انکار کردیں۔ تب بھی مسلمان رہیں گے۔ مشہور انصاری صحابی حضرت سعد بن عبادہؓ نے حضرت ابو بکرؓ سے بیعت کی نہ حضرت عمرؓ سے، لیکن ان کے ایمان پر کسی نے حرف گیری نہ کی اور وہ کسی بھی خلیفہ سے بیعت کیے بغیر انتقال کر گئے۔ ان سے کسی نے تعرض نہ کیا۔
خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف آرا کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اسے دین ایمان کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کی رائے کو وحی کی سند تائید حاصل ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ کی رائے مسترد ہوئی۔ مگر حضرت عمرؓ کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال نہ آیا کہ انہیں حضرت ابو بکرؓ پر کوئی فضیلت حاصل ہوگئی ہے یا ان کا ایمان ان سے بڑھ گیا ہے۔ حضرت عمر ؓ بیک وقت تین طلاقوں کے حق میں فتویٰ دیتے ہیں جبکہ حضرت علیؓ کا فتویٰ اس کے برعکس ہے، مگر اس اختلاف کے باوجود ان میں سے کسی نے اسے ایمان کا مسئلہ نہیں بنایا، محض ایک فقہی غلطی قرار دیا۔ حضرت علیؓ نے اپنے خون کے پیاسے خوارج کو گمراہ قرار دیا۔ انہیں کافر یا مشرک نہیں کہا۔
ہم آئمہ،علما اور بزرگوں کے رائے پر لڑے مرے جارہے ہیں اور ایک رائے کو ایمان اور دوسری رائے کو کفر قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ ‘دین’ کے حوالے سے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ میں آج حنفی مسلک ترک کر کے شافعی یا حنبلی مسلک اختیار کرلوں یا سرے سے غیر مقلد بن جاؤں، تب بھی میرے ایمان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ جن چیزوں کے ماننے یا نہ ماننے سے ایمان کے برقرار رہنے یا ساقط ہوجانے کا تعلق ہے، وہ سب حضورﷺ کی حیات طیبہ میں طے پا چکی ہیں۔ دین اور تاریخ کا یہ فرق ملحوظ رکھا جائے اور تاریخ کو خواہ مخواہ دین بنانے پر اصرار نہ کیا جائے تو کشیدگی میں خاصی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ (26ستمبر 1985)