حکیم الامت حضرت امام شاہ ولی اللہؒ

مصنف : ابو قانت

سلسلہ : شخصیات

شمارہ : مئی 2005

            مشیت ایزدی سے صدیوں میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو تاریخ کے دھارے کے سنگ بہنے والے نہیں ہوتے بلکہ اس دھارے کا رخ موڑنے والے ہوتے ہیں اور بقول ابوالکلام آزاد یہ لوگ ‘‘ کہتے ہیں کہ وقت ساتھ نہیں دیتا تو ہم اس کو ساتھ لے لیں گے اگر سروسامان نہیں تو ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کر لیں گے اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اترنا چاہیے۔ اگر آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو ساتھ دینا چاہیے۔ اگر انسانوں کی زبانیں گونگی ہو گئی ہیں تو پتھروں کو چیخنا چاہیے۔اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا مضائقہ، درختوں کو دوڑنا چاہیے۔ اگر رکاوٹیں اور مشکلیں بہت ہیں تو پہاڑوں اور طوفانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ راہ صاف نہیں کرتے۔ یہ لوگ زمانے کی مخلوق نہیں ہوتے کہ زمانہ ان سے چاکری کروائے۔ یہ وقت کے خالق اور عہد کے پالنے والے ہوتے ہیں۔ زمانہ کے حکموں پر نہیں چلتے بلکہ زمانہ ان کی جنبش لب کا انتظار کرتا ہے ۔ یہ لوگ دنیا پر اس لیے نظر نہیں ڈالتے کہ کیا کیا ہے جس سے دامن بھر لیں وہ تو دیکھتے ہیں کہ کیا کیا نہیں ہے جس کو پورا کردیں۔’’

            بلاشبہ حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ بھی انھی تاریخ ساز شخصیات میں سے ایک ہیں۔ شاہ صاحب اس عہد کے فرد فرید تھے جب برصغیر میں مسلمانوں کااقتدار چراغ سحری تھا۔ ہر آنے والا شہزادہ ملک میں مسائل و مشکلات کے نئے جنگل کاشت کررہا تھا۔ رفض کا فتنہ جو ہمایوں کے دور میں برصغیر میں در آیا تھا معاشرے میں پوری طرح اپنی جڑیں پیوست کر چکا تھا۔ علما و مشائخ تعصب و تنگ نظری سے معمور، جبکہ عامتہ المسلمین تقلید و بدعت اور اوہام پرستی میں محصور تھے۔ ایسے میں بقول سید مودودیؒ:

            ‘‘ایک طرف ان کے زمانہ اور ماحول کو اور دوسری طرف ان کے کام کو جب آدمی بالمقابل رکھ کر دیکھتا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دور میں اس نظر، ان خیالات، اس ذہنیت کا آدمی کیسے پیدا ہو گیا؟ فرـخ سیر، محمد شاہ رنگیلے اور شاہ عالم کے ہندوستان کو کون نہیں جانتا۔ اس تاریک زمانہ میں نشوونما پا کر ایسا آزاد خیال مفکر و مبصر منظر عام پر آتا ہے جو زمانہ اور ماحول کی ساری بندشوں سے آزاد ہو کر سوچتا ہے۔ تقلیدی علم اور صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات کے بند توڑ کر ہر مسئلہ زندگی پر محققانہ و مجتہدانہ نگاہ ڈالتا ہے اور ایسا لٹریچر چھوڑ جاتا ہے جس کی زبان، اندازِ بیان، خیالات، نظریات ، مواد تحقیق اور نتائج مستخرجہ کسی چیز پر بھی ماحول کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔’’

            اسے اتفاق کہیں یا مشیت ایزدی کہ ایک طرف برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا سورج ڈوب رہا تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کے علمی اقتدار کا ایک اور سورج موضوع پھلت ضلع مظفر نگر بھارت میں طلوع ہو رہا تھا اور یہ بھی اتفاق ہے کہ یہ واقعتا طلوع آفتاب کا وقت تھا اور شوال ۱۱۱۴ھ کی چار تاریخ اور ۱۷۰۳ء کے فروری کی ۱۰ تاریخ تھی۔ ان کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم نے پہلے آپ کا نام ولی اللہ رکھا پھر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے خواب میں ارشاد کے مطابق قطب الدین احمد تجویز کیا مگر ولی اللہ کے نام سے معروف ہوئے۔

تعلیم:

            پانچ سال کی عمر میں مکتب میں داخل ہوئے، ساتویں سال میں حفظ قرآن مکمل ہوا اور پندرہ سال کی عمر میں ہندوستان میں رائج علوم متداولہ یعنی علوم عربیہ، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، ادب، کلام ، معانی، منطق، فلسفہ، تصوف اورطب وغیرہ سے فارغ ہو کر باقاعدہ سند اور تدریس کی اجازت حاصل کی۔ چودھویں سال شادی بھی کر دی گئی اور ایک سال بعد والد سے بیعت سلوک کی اور مشائخ نقشبند کے اشغال میں عبور حاصل کیا۔

            صحاح ستہ کی سند حاجی شیخ محمد افضل سے حاصل کی۔ عمر کے سترھویں سال یعنی ۱۱۳۱ھ میں والد نے وفات پائی۔ ان کے بعد تقریباً ۱۲ سال دہلی میں درس دیتے رہے۔

            ۱۱۴۳ھ؍۱۷۳۰ء میں بغرض حج حجاز چلے گئے اور ۱۴ ماہ وہاں قیام کیا۔ شاہ صاحب کی علمی فکری دعوتی و تجدیدی زندگی میں حجاز مقدس کا سفر اور قیام ایک تاریخ ساز واقعہ اور ان کی کتاب زندگی کا ایک نیا باب اور حد فاصل ہے۔ حجاز کے اسی قیام میں انھوں نے ذہنی و علمی ارتقا کی وہ منازل طے کیں جو بظاہر ہندوستان میں ممکن نہ تھیں۔ اسی سفر میں انھوں نے علم حدیث کا گہرا مطالعہ کیا اور اس کے شیوخ کاملین سے جو دیار و امصار سے وہاں جمع ہوئے تھے اس فن کی تکمیل کی۔ ان کے اساتذہ میں شیخ ابو طاہر مدنی، شیخ تاج الدین حنفی مفتی مکہ، شیخ وفد اللہ اور شیخ عبداللہ بن سالم بصری شامل ہیں۔ شیخ ابو طاہر مدنی نے شاہ صاحب کو جو حدیث کی سند دی ہے اس میں فرماتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ الفاظ کی سند مجھ سے لیتے تھے اور معانی کی تصحیح میں ان سے کرتا تھا۔ رجب ۱۱۴۵ھ؍دسمبر۱۷۳۲ء میں واپس دہلی پہنچے اور اپنے والد کے مدرسہ رحیمیہ میں تدریس میں مشغول ہو گئے۔

            شاہ صاحب کا دوسرا عقد پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد سید ثناء اللہ سونی پتی کی صاحبزادی بی بی ارادت سے ہوا۔ انھی زوجہ محترمہ سے آپ کے چاروں نامور صاحبزادے یعنی حضرت شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالغنی تولد ہوئے جو ہندوستان میں دین کی نشاۃ ثانیہ کے ارکان اربعہ ہیں۔

شاہ صاحب کی علمی و عملی خدمات:

            شاہ صاحب کی علمی و عملی خدمات ایک بحر بیکراں ہیں۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ ‘‘ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل و دماغ پیدا ہو گا لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھانا تھا کہ اخیر زمانے میں پھر شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی، ابن رشد کے کارنامے بھی ماند پڑ گئے۔’’

            اسی طرح نواب صدیق حسن خاں کہتے ہیں کہ ‘‘اگر آپ پہلے زمانے میں پیدا ہوتے تو آپ کو اماموں کا امام سمجھا جاتا۔’’

            حقیقت یہ ہے کہ ہم شاہ صاحب کو محض اپنی کم ہمتی اور تقلید پسندی سے امام نہیں کہتے ورنہ جہاں تک علمی تبحر، دماغی قابلیت، مجتہدانہ نظر کا تعلق ہے تو آپ کسی بزرگ سے پیچھے نہ تھے۔ اگر ہم دریا کو کوزے میں بند کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ شاہ صاحب نے احیائے دین ، اشاعت کتاب و سنت، اسرار و مقاصد شریعت کی توضیح وتنقیح، تربیت و ارشاد اور ہندوستان میں ملت اسلامی کے تحفظ اور تشخص کی بقا کے شعبوں میں بلاشبہ یادگار خدمات انجام دی ہیں۔ ان سب کا استقصا تو بہرحال مشکل امر ہے اس لیے ہم یہاں صرف قرآن اور علوم قرآن کی اشاعت کے ضمن میں آپ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں۔

قرآن مجید اور شاہ صاحب:

            آپ کا سب سے اہم کام قرآن اور علوم قرآن کی اشاعت ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے۔ ہندوستان میں بہت کم لوگ عربی جانتے تھے۔دفتری اور تعلیمی زبان فارسی تھی لیکن اس زبان میں قرآن مجید کا کوئی ترجمہ رائج نہ تھا۔ چنانچہ عام تعلیم یافتہ مسلمان گلستان، بوستان،سکندر نامہ اور شاہ نامہ تو پڑھتے اور سمجھتے، لیکن قرآن مجید سے ، جو ہدایات کا سرچشمہ ہے، ناواقف رہتے۔ پرانے علما اور خواص میں سے قرآن مجید اگر کسی نے پڑھا تو ناظرانہ یعنی مفہوم و معانی سمجھنے اور اس کی روح و تعلیمات سے فیضیاب ہونے کے بغیر۔

            اکبر کے دربار میں جب مسلمان علما اور پرتگیز مشنریوں میں مباحثے ہوئے اور مشنریوں نے (جو کلام مجید کے لاطینی ترجمے کی وجہ سے اس کے اندراجات سے خوب واقف تھے) کلام مجید کے بعض حصوں پر اعتراض کیے تو اس وقت پتا چلا کہ جن مسلمانوں نے عربی میں قرآن پڑھا بھی تھا انھیں بھی اس کے مضامین اورمندرجات سے پوری طرح واقفیت نہ تھی۔ بسا اوقات یہ ہوتا کہ پادری کلام مجید کے کسی بیان پر اعتراض کرتے اور مسلمان کہہ دیتے کہ یہ تو قرآن میں ہے ہی نہیں اور پھر جب کلام مجید کھول کر دیکھا جاتا تو وہ حوالے صحیح نکلتے۔

            شاہ صاحب کو اس بو العجبی کا احساس ہوا اور حج سے واپس آنے کے پانچ سال بعد ۳۸-۱۷۳۷ء میں آپ نے فارسی زبان میں کلام مجید کا ترجمہ کیا۔ جب علما کو اس کا پتا چلا تو تلواریں کھینچ کر آگئے کہ یہ کلام مجید کی انتہائی بے ادبی ہے۔ بعض سوانح نگار لکھتے ہیں کہ اس مخالفت کی وجہ سے شاہ صاحب کی جان اس طرح خطرے میں پڑ گئی کہ انھیں کچھ عرصہ کے لیے دہلی سے چلے جانا پڑا۔ لیکن بالآخر شاہ صاحب کی جرأت اور فرض شناسی کامیاب ہوئی۔ انھوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ کلام اللہ اس لیے نہیں آیا کہ اسے ریشمی جزدانوں میں لپیٹ کر طاق پر تبرکاً رکھا جائے یا جس طرح دوسری قومیں منتر پڑھا کرتی ہیں، ہم اسے طوطے کی طرح بغیر سمجھے پڑھ دیں۔ یہ کتاب انسانی زندگی کے متعلق اہم ترین حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس کے نازل ہونے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اسے پڑھیں اور ان حقائق کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنا ئیں اور اس کے لیے رائج الوقت زبانوں میں اس کا ترجمہ ضروری ہے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ معترضین کی مخالفت کم ہوئی اور نہ صرف شاہ صاحب کے ترجمے نے رواج پایا، بلکہ اردو اور دوسری زبانوں کے ترجموں کی راہ بھی پیدا ہوئی۔

            قرآن مجید کا محض ترجمہ کر دینا ہی اس قدر اہم کام تھا کہ اگر شاہ صاحب فقط اسی کارِ خیر پر اکتفا کرتے اور وہ ابتدائی دشواریاں دور کر دیتے جو عام علما کی فرض نا شناسی اور کوارانہ تقلید کی وجہ سے ان کے راستے میں حائل تھیں، تب بھی اسلامی تاریخ میں ان کا نام درخشاں ستارے کی طرح چمکتا۔ مگر شاہ صاحب نے نہ صرف قرآن مجید کا ترجمہ کیا، بلکہ اس مسئلے کے علمی پہلوؤں پر بھی ایک رسالہ لکھا اور مقدمہ فی ترجمۃ القرآن مجید میں قرآن مجید کے مترجموں کی رہنمائی کے لیے کارآمد ہدایتیں درج کیں۔

            شاہ صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘‘اس بندۂ ضعیف پر خداوند تعالیٰ کی کئی بے شمار نعمتیں ہیں جن میں سب سے زیادہ عظیم الشان نعمت یہ ہے کہ اس نے مجھ کو قرآن مجید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت رسالت مآب کے احسانات اس کمترین امت پر بہت ہیں، جن میں سب سے بڑا احسان قرآن مجید کی تبلیغ ہے۔’’

            ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ اور قرآن مجید کی تبلیغ عام کے راستہ میں جو چٹان حائل ہو گئی تھی وہ شاہ صاحب جیسی عظیم المرتبت ہستی کے اقدام سے ہٹ گئی اور راستہ صاف ہو گیا۔ اسلام کی تاریخ میں مسلسل ایسا ہوتا رہا ہے کہ کسی مسلم الثبوت اور بلند شخصیت کے کسی کام کے آغاز کر دینے سے غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کا بادل چھٹ گیا ہے اور شاہ راہ عام کھل گئی ہے۔

            شاہ صاحب کے فارسی ترجمہ کے بعد بہت جلد اردو میں ترجمۂ قرآن کی ضرورت محسوس ہوئی کہ بارہویں صدی کے آخری حصہ میں اردو نے فارسی کی جگہ لینی شروع کر دی تھی، اور اردو میں تحریر و تصنیف کا کام شروع ہو گیا تھا، اس ضرورت اور انقلاب حال کو سب سے پہلے خود شاہ صاحب کے فرزند ارجمند حضرت شاہ عبدالقادر صاحبؒ دہلوی (م۱۲۳۰ھ) نے محسوس کیا، اور ۵۔۱۲۰۴ھ میں گویا شاہ صاحب کے ترجمہ کے پچاس برس بعد انھوں نے بامحاورہ اردو میں اس کا ایسا ترجمہ کیا جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کا کسی غیر عربی زبان میں ایسا کامیاب اور شگفتہ ترجمہ جس میں زیادہ سے زیادہ قرآنی الفاظ کی روح آئی ہو ابھی تک علم میں نہیں۔

            شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے بعد انھیں کے برادر بزرگ شاہ رفیع الدین (م۱۲۳۳ھ) نے قرآن مجید کا تحت اللفظ ترجمہ کیا، جو اپنی احتیاطوں اور مصنف کے علمی تبحر و اخلاص کی وجہ سے بہت مقبول ہوا اور بعض حلقوں میں شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا بامحاورہ ترجمہ اور بعض حلقوں میں شاہ رفیع الدین صاحبؒ کاتحت اللفظ ترجمہ رائج اور قابل ترجیح قرار پایا۔ یہ دونوں ترجمے مسلمانوں کے گھروں میں ایسے عام ہوئے اور قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ اس کے پڑھنے کا ایسا رواج ہوا جس کی مثال کسی دوسری دینی کتاب کے بارے میں نہیں مل سکتی ۔ان دونوں ترجموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی کوئی تعداد نہیں بیان کی جا سکتی کہ وہ لاکھوں سے متجاوز ہو گی۔ حقیقت میں کوئی اسلامی حکومت بھی اپنے وسائل کے ساتھ دعوت و اصلاح کا اتنا بڑا کام انجام نہیں دے سکتی تھی جو ان تین ترجموں نے انجام دیا جو ایک ہی شجرۂ طوبیٰ کی شاخیں ہیں: وذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ اس کے بعد اردو ترجموں کا ایک سیلاب رواں ہو گیا جس کی تعداد کا استقصاء ایک دشوار کام اور مستقل تحقیقی بحثوں کا طالب ہے۔

            شاہ صاحب نے قرآن مجید کی تبلیغ فقط ترجمہ کرکے ہی نہیں کی بلکہ علم تفسیر کے متعلق کتابیں بھی لکھیں جن میں الفوز الکبیر فی اصول التفسیر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کتاب کے چار باب ہیں، جن میں علوم قرآنی اور مطالعہ قرآن کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کیا ہے۔ دوسرے باب میں آپ نے مسئلہ نسخ پر مجتہدانہ انداز سے نظر ڈالی ہے اور وہ آیات منسوخہ جن کی تعداد بعض لوگوں کے نزدیک پانچ سو کے قریب تھی اور جن کی تعداد علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی بیس مقرر کی تھی، چار سے زیادہ تسلیم نہیں کیں۔

            فوز الکبیر کے بعض اندراجات سے خیال ہوتا ہے کہ شاہ صاحب قرآنی ارشادات کو وسیع سے وسیع تر مفہوم دینا چاہتے تھے۔ وہ مختلف آیتوں اور سورتوں کے متعلق اسباب نزول کا خیال رکھتے ہیں، لیکن اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے کلام مجید کے اصلی مقصد پر پردہ نہ پڑ جائے۔ چنانچہ باب اول میں لکھتے ہیں:

            ‘‘عام مفسرین نے ہر ایک آیت کوخواہ مباحثہ کی ہو یا احکام کی، ایک قصے کے ساتھ مربوط کر دیا ہے اور اس قصے کو اس آیت کے لیے سبب نزول مانا ہے، لیکن حق یہ ہے کہ نزول قرآنی سے مقصود اصلی نفوس بشریہ کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور فاسد اعمال کی تردیدہے۔ خاص واقعات کو جن کے بیان کرنے کی زحمت اٹھائی گئی ہے۔ اسباب نزول میں چنداں دخل نہیں۔ مگر سوائے چند آیات کے جن میں کسی ایسے واقعہ کی جانب اشارہ ہے جو رسول اللہ کے زمانے میں یا اس سے پیشتر واقع ہوا ہو۔’’

            فوز الکبیر کی دوسری خصوصیت شاہ صاحب کی انصاف پسندی اور اخلاقی جرأت ہے مثلاً عام طور پر مسلمان زمانہ جاہلیت کے عربوں سے فقط برائیاں اور عیب ہی منسوب کرتے ہیں، لیکن شاہ صاحب نے اس معاملے میں بھی ‘‘انصاف بالائے طاعت’’ کے اصول کو ملحوظ رکھا اور تصویر کے دونوں پہلو پیش کیے۔ اسی طرح عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی اصل مذہبی کتابوں کو بدل ڈالا ہے، لیکن شاہ ولی اللہ اس کے قائل نہ تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

            ‘‘یہودی تحریف لفظی، تورات کے ترجمے وغیرہ میں کیا کرتے تھے نہ کہ اصل کتاب میں کیونکہ فقیر کے نزدیک ایسا ہی محقق ہوا ہے اورابن عباس کا بھی یہی قول ہے۔’’

            بعض مفسرین نے اہل کتاب سے قصے لے کر انھیں قرآنی تفاسیر اور علوم اسلامی کا جزو بنا دیا ہے۔ اس کے خلاف شاہ صاحب نے جا بجا آواز بلند کی ہے مثلاً فوز الکبیر میں لکھا ہے: ‘‘یہاں پر یہ جان لینا مناسب ہے کہ حضرات انبیاء سابقین کے قصے احادیث میں کم مذکور ہیں اور ان کے وہ لمبے چوڑے تذکرے جن کے بیان کرنے کی تکلیف عام مفسرین بیان کرتے ہیں وہ سب الا ماشاء اللہ …… اہل کتاب سے منقول ہیں۔’’ اسی کتاب میں آگے چل کر پھر لکھتے ہیں: ‘‘اسرائیلی روایات کو نقل کرنا ایک ایسی بلا ہے جو ہمارے دین میں داخل ہو گئی ہے حالانکہ صحیح اصول یہ ہے کہ ان کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب۔’’ مفسرین کے بعض قصے جنھیں عوام اسلام کا ضروری جزو سمجھنے لگ گئے ہیں، شاہ صاحب کو بہت نا پسند تھے۔ شاہ صاحب نے اپنے وصیت نامہ میں بھی لکھا کہ قرآن اور اس کا ترجمہ تفسیر کے بغیر ختم کرنا چاہیے اور پھر اس کے بعد تفسیر جلالین پڑھائی جائے۔

            نسخ میں متقدمین و متاخرین کے اصطلاحی فرق کی توضیح اور منسوخ و ناسخ آیات میں تطبیق، صحابہ و تابعین کے تفسیری اختلافات کا حل شاہ صاحبؒ کی عمدہ تحقیقات میں سے ہے۔

            نحوکے مشہور اور ظاہری قواعد کی بعض آیات سے بظاہر عدم مطابقت کی جو توجیہ شاہ صاحب نے کی ہے، اس کی قدر وہ لوگ کر سکتے ہیں جو نحو کی تدوین کی تاریخ سے واقف اور بصرہ و کوفہ کے دبستان کے اختلافات پر نظر رکھتے ہیں۔ رسالہ کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کو پڑھ کر ادیان سابقہ فرق ضالہ اور اقوام و ملل کی پرانی بیماریوں اور کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور اس کی توفیق ملتی ہے کہ قرآن کے آئینہ میں مسلمانوں کی نسلیں اور اپنے اپنے عہد کا مسلم معاشرہ اور طبقات امت، اپنا چہرہ دیکھیں اور اس کی فکر کریں کہ مذاہب و فرق کی سابقہ بیماریاں اور کمزوریاں دبے پاؤں ان میں تو داخل نہیں ہو گئی ہیں۔

            کل نفس ذائقۃ الموت کے اعلان و وعدہ کے مطابق بالآخر اس بیش قیمت و با برکت حیات کا بھی وقت آخر آن پہنچا۔ ۱۱۷۶ھ کا سن تھا اور محرم کی ۲۹ تاریخ کہ شاہ صاحب نے مختصر علالت کے بعد باسٹھ سال کی عمر میں بوقت ظہر جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی اور اس جہان کے مکیں ہو گئے کہ جس طرف لوگوں کو جاتے تو دیکھا ہے مگر وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا۔تدفین مہندیاں قبرستان میں ہوئی۔اسی مہندیاں کے قبرستان میں شاہ صاحب کے چاروں صاحبزادگان اور خود شاہ صاحب کے والد محترم کی قبور بھی ہیں۔

شاہ صاحب کے کارنامے ایک نظر میں

1-        انھوں نے مسلمانوں کے مختلف علمی اور فقہی طبقات کے افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاں کرکے ان کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تطبیق ان کا خاص فن ہے۔

2-         تعلیمی نصاب کے پرانے ڈھانچے میں اصلاح و ترمیم کو بطور خاص پیش نظر رکھا اور اسے عقلی موشگافیوں یا نظری الجھنوں سے بحدامکان پاک کر دیا۔ ان کی تجویز ہے کہ ابتدا میں قرآن پاک کا لفظی ترجمہ ضرور پڑھانا چاہیے۔

3-         وقت کے بادشاہوں، امیروں، پیشہ وروں، لشکریوں، حکومتی عہدے داروں، علما، صوفیا اور عوام کے حالات کا پورا جائزہ لیا۔ ان کے عقیدہ و عمل کی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی اور ان کو ان کی غلط روی کے خوفناک نتائج سے آگاہ کیا۔

4-         صحیح حکمرانی کے اصول بیان کیے اور اسلامی نظام حکومت کی توضیح ایسے انداز میں کی جس سے حاکم و محکوم کے درمیان خوشگوار تعلقات استوار ہوں۔

5-         اسرار شریعت کی توضیح و تشریح کی۔

6-         قرآن حکیم کا ترجمہ کرکے قرآن پاک کا پیغام عام کیا اورقرآن کوخواص و علما کے طبقے سے نکال کر عوام تک پہنچایا۔

7-         علمی، تصنیفی اور تدریسی کاموں کے ساتھ طوائف الملوکی کے اس دور میں مسلمانوں کی سیاسی خدمات ممکن حد تک انجام دیں۔ مرہٹوں کی سرکوبی کے لیے احمد شاہ کو بلانا اس سلسلے کا اہم واقعہ ہے۔

شاہ صاحب کی اہم تصانیف

1-         تفسیر فتح الرحمن، بترجمۃ القرآن- قرآن حکیم کا فارسی ترجمہ۔ اس کے ساتھ ایک جامع مقدمہ ہے جس میں ترجمے کے اصول بیان فرمائے ہیں۔ اردو تراجم کے لیے یہ ترجمہ اساس و بنیاد ٹھہرا۔

2-         الفوز الکبیر فی اصول التفسیر- اصول تفسیر پر مختصر مگر پر مغز رسالہ ہے۔

3-         تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیاء والمرسلین- قرآن مجید میں انبیائے کرام کے قصوں پر اچھوتا تبصرہ۔

4-         المصفی اور الموسویٰ- موطا امام مالک کے یحییٰ بن یحییٰ المصمودی کے نسخے کو از سر نو مرتب کیا۔ شاہ صاحب کے نزدیک موطا علم حدیث کی اصل ہے۔

5-         حجتہ اللہ البالغۃ۔ فقہ، اسرار شریعت اور تصوف کے علاوہ احادیث کے ایک اہم ذخیرے کی علمی و عقلی تشریح۔

6-         الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین- یہ رسالہ آنحضرتؐ کے ان رویاء پر مشتمل ہے جو شاہ ولی اللہ یا ان کے بزرگوں سے متعلق ہیں۔

7-         ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء- خلفائے راشدین کی خلافت کے اثبات پر مبسوط کتاب ہے۔ ضمناً اسلام کے اصول عمرانی و نظریہ سیاست پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ حجۃ اللہ البالغہ کے بعد یہ دوسرا علمی و تاریخی شاہکار ہے۔

8-         تحفۃ الموحدین- عقیدۂ توحید کی تشریح کی گئی ہے۔

9-         الطاف القدس- تصوف کے بنیادی مسائل کی تشریح کی گئی ہے۔

10-      القول الجمیل فی سواء السبیل- بیعت، شرائط مرشد و مرید، طریقہ تعلیم و تربیت مرید وغیرہ مباحث کے بعد سلسلہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ کے اوارد و اشغال و مراقبات کا ذکر ہے۔

11-      فیوض الحرمین - زمانہ قیام حجاز کے مشاہدات و تجربات نیز علم الکلام اور تصوف کے مباحث پر مشتمل ہے۔

12-      اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم- شاہ ولی اللہ کے نعتیہ قصائد کا مجموعہ۔

13-      سرور المحزون فی سیرت النبی المامون- یہ کتاب ابن سید الناس کی نور العیون (سیرت النبیؐ )کا خلاصہ ہے۔

14-      التفھیمات الالھیہ- مصنف کے قلبی واردات اور وجدانی مضامین پر مشتمل ہے۔

15-      رسالہ دانشمندی- طریقہ تدریس و مطالعہ پرپُر مغز مقالہ۔