ہمارے نزدیک نبوت کی متصوفانہ تعبیر اس وجہ سے غلط ہے کہ قرآن کریم سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہو پاتا کہ منصب نبوت سے بہرہ مند ہونے سے پہلے ہر نبی نے سلوک و معرفت کی وہ تمام منزلیں طے کی ہوں، جن کی صوفیہ نے نشان دہی کی ہے۔ مزید برآں اس سے عقیدۂ ختم نبوت کی نفی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبوت کسبی ہے وہبی نہیں۔ یعنی اگر آج بھی کوئی شخص تعلق باللہ کی اس منزل تک رسائی حاصل کرلے جس کو معرفت و سلوک کی اصطلاح میں آخری منزل کہا جا سکتا ہے تو وہ نبوت و رسالت کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوسکتا ہے۔ حالانکہ کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان اس کا قائل نہیں۔ نبوت و ولایت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی وحی و تنزیل کے ذریعے جن حقائق تک رسائی حاصل کرتا ہے وہ تمام تر معروضی ہوتے ہیں اور ولی کے قلب و ذہن پر جو نقوش مرتسم ہوتے ہیں وہ موضوعی ہوتے ہیں، اور ان کا تانا بانا ، معاشرے کے حالات، اقدار و تعلیم وتربیت کے اسلوب و نہج سے تیار ہوتا ہے ، اور ان میں جو تھوڑی بہت معروضیت پائی جاتی ہے، وہ بھی صاف اور واضح نہیں ہوتی بلکہ تعبیر طلب ہوتی ہے۔ ان نقوش و تاثرات کو ہم کشوف تو کہہ سکتے ہیں، وحی نہیں، کشوف کی شرعی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ سالک کے ذاتی تجربات ہیں۔ لہٰذا ہر حال میں ان کی صحت کا معیار یہ ہے کہ آیا یہ کتاب اللہ اور سنت رسول ؐ کے مطابق ہیں یا نہیں۔ جس طرح ایک مجتہد کا استدلال و استنباط صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اسی طرح کشوف میں بھی خطا و صواب دونوں کا امکان موجود ہے، بلکہ علامہ ابن تیمیہ کی زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ کشف بھی ایک طرح کے اجتہاد ہی سے تعبیر ہے۔ (مولانا محمد حنیف ندوی ۔ بحوالہ نقوش رسول نمبر)