ماہرین کے مطابق چوہے انتہائی سخت جان مخلوق ہیں۔ اتنے سخت جان کہ ایٹمی تابکاری بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے بحرالکاہل کے ایک جزیرہ پر ایٹمی تجربات کیے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ ان تجربات کے بعد جزیرہ پر کسی قسم کی زندگی کے آثار نہیں ہوں گے۔ پودے، جانور، پرندے اور مچھلیاں سب ختم ہوچکی ہوں گی۔ کچھ عرصہ بعد ماہرین اس جزیرہ پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جزیرہ پر ایک قسم کی مخلوق زندہ ہے اور یہ مخلوق چوہے تھی۔ چوہے نہ صرف زندہ تھے بلکہ تابکاری سے ان کی زندگی کا دورانیہ بڑھ چکا تھا۔ ماہرین کی حالیہ تحقیق کے مطابق چوہے اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چوہے اس زہر کے عادی ہوجاتے ہیں جو ان کو ہلاک کرنے کے لیے کھلایا جاتا ہے کچھ عرصہ بعد وہ زہر بے اثر ہوجاتا ہے ۔ چوہے سخت جان اور گوناگوں صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں وہ اپنے جسم کی ایک چوتھائی موٹائی رکھنے والے سوراخ میں گھس جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بلند مقام پر چڑھ جاتے ہیں۔ زمین میں سوارخ کرسکتے ہیں۔ تیز لہروں کی مخالف سمت میں تیر سکتے ہیں۔ 3 فٹ اونچی چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ 45 فٹ کی اونچائی سے گر کر محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اپنے سے دوگنے سائز کے دشمن کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ بجلی کی زندہ تاروں کو کتر سکتے ہیں۔ انتہائی ذہین مخلوق ہیں۔1348ء میں ان کی وجہ سے طاعون کا مرض پھیلا جس نے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ ماہرین ان پر تجربات کر کے نئی ادویات دریافت کرتے ہیں۔ ایک چوہے اور ایک چوہیا سے ہر سال 15 ہزار چوہے جنم لیتے ہیں۔
صرف امریکہ میں یہ سالانہ ایک ارب ڈالر کا نقصان کرتے ہیں۔ یہ بجلی کی تاریں کاٹ کر عمارتوں میں آگ لگادیتے ہیں۔ یہ چوزوں، بطخوں، ہنسوں ، چھوٹے دنبوں اور چھوٹے سورؤں کو کھا جاتے ہیں۔ یہ ایشیاء میں 48 ملین ٹن چاول ہر سال کھا جاتے ہیں۔( اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان سے اس کھانے کا حساب بھی نہیں ہو تا۔دنیا والے تو خیر لے ہی نہیں سکتے آخر ت میں بھی البتہ نہیں ہو گا۔ لیکن انسانی چوہے جوچھپ چھپ کر ، چوری چوری کھاتے ہیں انہیں بہر حال حساب دینا ہو گا۔ رہے نا چوہے انسان سے بھی اچھے)