کیا ٹریفک کی سرخ بتی کے بغیر جدید زندگی کا تصور ممکن ہے؟ میرا خیال تھا کہ نہیں، یہ ممکن نہیں ہے لیکن ویسٹ انڈیز کے ایک ملک گیانا آکر مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا۔کیا آپ یقین کریں گے کہ گیانا کے دور دراز حصے میں تو کیا، خود دارالحکومت جورج ٹاؤن میں بھی ٹریفک لائٹس نہیں ہیں؟ شائد آپ کو یقین نہ آئے لیکن حقیقت یہی ہے۔
گیانا تراسی ہزار مربع میل پر مشتمل ویسٹ انڈیز کا سب سے جنوبی ملک ہے۔ ویسٹ انڈیز کی دیگر اکائیوں کے برعکس گیانا جزیرہ نہیں ہے بلکہ براعظم جنوبی امریکہ کا حصہ ہے اور وینزویلا، سرینام اور برازیل اس کے پڑوسی ہیں۔اس کی موجودہ آبادی ساڑھے سات لاکھ ہے لیکن پچھلے کئی عشروں کے خراب معاشی حالات کی بنا پر گیانا کی آبادی کے تقریباً چار گنا افراد بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان میں سے تقریباً دو ملین تو صرف امریکہ میں ہیں۔
جورج ٹاؤن پہنچنے کے بعد پہلے تو میں نے اس بات پر دھیان ہی نہیں دیا کہ میرا ٹیکسی ڈرائیور لیزلے جونسن آخر ٹریفک کے چوراہوں پر رکتا کیوں نہیں ہے۔اور جب دھیان دینے پر دریافت کیا تو جواب ملا کہ رکیں کس پر، ٹریفک لائٹس تو ہیں ہی نہیں۔گیانا نوآبادیاتی دور میں سپین، ہالینڈ اور آخر میں برطانیہ کی کالونی رہ چکا ہے اور یہاں کے طرز تعمیر میں ان تینوں نوآبادیاتی ادوار کی جھلک ملتی ہے۔ دارالحکومت جورج ٹاؤن کو انگریزوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انیسویں صدی کے آخر میں بسایا تھا اور شہر باوجود اپنی وسعت کے ابھی تک اسی انداز میں پھیل رہا ہے۔ یعنی کھلی کھلی آبادیاں اور چوڑی چوڑی سڑکیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں نسبتاً بہتر معاشی حالات کی بنا پر حکومت کو نئی سڑکیں بنانے اور پرانی سڑکوں کو بہتر بنانے کا موقع ملاہے۔اور جب معاشی حالات بھی مائل بہ بہتری ہوں اور سڑکیں چوڑی اور اچھی بھی ہوں تو پھرگاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور چونکہ سڑکوں پر ٹریفک سگنل اور دوسرے اشارے نہیں ہیں تو پھر گاڑیاں تیز کیوں نہ چلیں۔ میرا ڈرائیور اندرونی سڑکوں پر بھی ٹیکسی پچاس اور ساٹھ کی رفتار پر چلا رہا تھاحالانکہ انہی سڑکوں کے ساتھ ساتھ بچے اور خواتین بھی چل پھر رہے تھے اور لڑکے بالے کرکٹ بھی کھیل رہے تھے۔
جورج ٹاؤن کا ٹریفک مجھے بڑا دلچسپ لگا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ٹریفک سگنلوں اور اشاروں کی عدم موجودگی کے باوجود حادثات کی شرح حیران کن حد تک کم ہے۔لیکن ذراغورکیا تو وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ بقائے باہمی اور خود حفاظتی کے زریں اصولوں کی پاسداری پیدل اور سوار ہر طرح کے لوگوں کی سلامتی کا باعث ہے۔ گیانا میں ٹریفک سیدھے ہاتھ پر چلتا ہے لہٰذا اگر ڈرائیور کے سامنے موڑ یا چوراہا آجائے تو وہ رفتار نہایت کم کرکے دائیں بائیں دیکھے گا اور اگر دائیں ہاتھ کی طرف سے کوئی گاڑی آرہی ہوگی تو اسے گزرنے دے گا۔اسی طرح اگر بائیں ہاتھ سے کوئی گاڑی آرہی ہوگی تو ہلکے سے ہارن کے ذریعے اسے نہ صرف اپنی موجودگی سے ہوشیار بھی کرے گا بلکہ یہ بھی بتادے گا کہ آنے والی گاڑی کے سیدھے ہاتھ پر ہونے کی وجہ سے گزرنے کا حق اس کا ہے جسے وہ استعمال بھی کررہا ہے۔اسی طرح اگر ڈرائیور کو خدشہ ہو کہ پیدل چلنے والا اچانک بے دھیانی میں اس کی سواری کے آگے آسکتا ہے تو اس کے تدارک کے لیے وہ ایک بار پھر ہلکا سا ہارن بجا دے گا۔اور چونکہ پیدل چلنے والے کو نہ صرف اپنی جان پیاری ہے بلکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں بک بک جھک جھک اور سر پھٹول کا بھی شوق نہیں ہے تووہ بھی سڑک عبورکرنے سے پہلے دائیں بائیں ضرور دیکھ لیں گے۔اسی طرح سیدھی سڑک پر چلتے اگر کسی دوسری گاڑی کو اوورٹیک کرنا ہو یا کسی ذیلی سڑک سے بڑی سڑک پر داخل ہونے والی کسی گاڑی کو خبردار کرنا ہو تب بھی ایک واجبی سا ہارن کافی سمجھا جاتا ہے۔راستہ مانگنا ہو تو ہلکا سا ہارن، راستہ دینا ہو تو بھی۔ راستہ دینے پر شکریہ ہلکے سے ہارن کے ذریعے اور غلط راستہ کاٹ جانے والے پر غصہ بھی ہلکے سے ہارن کے ذریعے۔ آتے جاتے کسی واقف کار کو متوجہ بھی ہلکا سا ہارن ہی کرے گا اور کسی دوسرے کی توجہ کا جواب بھی یہی ہارن دے گا۔ ہارن نہ ہوا برصغیر کی گیدڑ سنگھی ہوگئی کہ ہر مرض کی دوا ہے۔ مجھے تو لگا کہ گیانا کی گاڑیوں میں اگر انجن نہ ہوتا تو بھی شائد صرف ہارن کے زور پر چلتی رہتیں۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ ایسی جگہ کیا ٹریفک پولیس بھی ہوتی ہے یا نہیں تو جناب بالکل ہوتی ہے چاہے کتنی ہی واجبی سی کیوں نہ ہوں۔صبح کے مصروف اوقات میں جب وسط شہر اور کاروباری مراکز کے آس پاس خاصا ٹریفک ہوتا ہے اور ہر کوئی جانے کی جلدی میں بھی ہوتا ہے، اس وقت ٹریفک پولیس حرکت میں آتی ہے اور لال بتی کا کام پولیس اہلکار دستی انجام دیتے ہیں۔
ویسے ایسا نہیں ہے کہ جورج ٹاؤن میں ٹریفک سگنل بالکل نہیں ہیں۔سٹی ہال اور پارلیمنٹ وغیرہ کی عمارتوں کے آس پاس ٹریفک سگنل نصب ضرور ہیں لیکن کئی برس گزرنے کے بعد بھی ان کے استعمال کی نوبت ابھی بھی نہیں آئی۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے کوئی ضرورت محسوس بھی نہیں ہوئی۔گیانا سے میری روانگی سے ایک رات پہلے میرے ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ پورے ملک میں کم ازکم ایک جگہ ایسی ضرور ہے جہاں نہ صرف ٹریفک سگنل نصب ہے بلکہ کام بھی کرتا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ جگہ شہر کے باہر کوئی چالیس پینتالیس منٹ کی مسافت پر ہے جہاں تک جانے کا وقت نہیں تھا۔