مکالمہ کے تحت ہم اپنے قارئین کی خد مت میں عالم اسلام اور پاکستا ن سے متعلقہ وہ مسائل پیش کرنا چاہیں گے جن پر ایک سے زیاد ہ آرا موجو دہیں یا ہو سکتی ہیں۔ زیر نظر موضوع بھی اسی نوعیت کا ہے ۔ ہم اربا ب علم و دانش کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی اس موضوع پر اظہار خیال فرمائیں۔ سوئے حرم کے صفحات اس مقصد کے لئے حاضر ہیں۔ بطور خاص وہ تین سوالات لائق توجہ ہیں جو محترم راشدی صاحب نے اٹھائے ہیں۔
مغرب کی لادینی جمہوریت ہو،مطلق جمہوریت ہو یا اس کی مجموعی تہذیب و ترقی ہو، اس پر مسلم امہ کا ردعمل حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور حالات کے معروضی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
آج مغرب اور عالم اسلام میں مکالمہ کی جو ضرورت محسوس ہورہی ہے اور جس ڈائیلاگ کی اہمیت پر زور دیا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کی ہے۔ مغرب ہمیں سمجھنے میں مغالطوں کاشکار ہوا ہے اور ہم نے مغرب کو سمجھنے میں فریب کھائے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ خوف عام طور پر پایا جاتا ہے جو دن بدن بڑھتا جارہا ہے کہ مغرب نے عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے، اس کی سیاست کو کنٹرول میں لینے اور اس کی معیشت کو اپنے مفادات میں جکڑنے کے بعد اس کی تہذیب و ثقافت کو فتح کرنے کے لیے یلغار کر دی ہے۔ یہ یلغار سب کو دکھائی دے رہی ہے اور اس کے وجود اور شدت سے کوئی با شعور شخص انکار نہیں کر سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس یلغار کا راستہ روکنے یا اس کی زد سے اپنی تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لیے عالم اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے دینی و علمی حلقوں میں اس یلغار کا جو رد عمل سامنے آرہا ہے اس کا وہ رخ تو یقینا خطرناک ہے جس میں مغرب کے سامنے سپر اندازی اور اس کے فلسفہ ونظام کو مکمل طور پر قبول کرنے کی تلقین کی جارہی ہے، لیکن وہ دوسرا رخ بھی اس سے کم خطرناک نہیں ہے جس میں مغرب کی ہر بات کو رد کردینے پر زور دیا جارہا ہے اور جس طرح مغرب نے بادشاہت،جاگیرداری اور مذہبی پیشوائیت کے مظالم اور جبر کے رد عمل میں ان کی ہر بات کو مسترد کردینے کی حماقت کی تھی، اسی طرح ہم بھی مغرب کی دھاندلی، استحصال،جبر اور فریب کاری پر غضب ناک ہو کر رد عمل میں اس کی تمام باتوں کو مسترد کردینا چاہتے ہیں۔ ان میں وہ باتیں بھی ہیں جو مغرب نے غلط طور پر اختیار کی ہیں اور وہ باتیں بھی شامل ہیں جو مغرب نے ہم سے لی ہیں،مگر ہم انھیں اپنی گم شدہ میراث سمجھنے کے بجائے مغرب کے کھاتے میں ڈال دینے میں ہی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔
مغرب کی لادینی جمہوریت ہو،مطلق جمہوریت ہو یا اس کی مجموعی تہذیب و ترقی ہو، اس پر مسلم امہ کا ردعمل حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور حالات کے معروضی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا رد عمل دو انتہاؤں کے درمیان پنڈولم بنا ہوا ہے۔ ایک طرف اسے مکمل طور پر قبول کرلینے کی بات ہے اور دوسری طرف اسے مکمل طور پر مسترد کردینے کاجذبہ ہے۔ ہمارے رد عمل کے اس پنڈولم کو درمیان میں قرار کی کوئی جگہ نہیں مل رہی اور یہی ہمارا اصل المیہ ہے۔ ہم ان ارباب دانش کی مساعی کی نفی نہیں کرنا چاہتے جنھوں نے درمیان کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنے افکار وخیالات کی چھلنی میں چھاننے کے لیے بے پناہ صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ ان کی مساعی یقینا قابل قدرہیں، لیکن یہ کوششیں انفرادی سطح پر ہوئی ہیں اور ہر دانش ور نے مغربی تہذیب وثقافت کو چھاننے کے لیے اپنی چھلنی الگ بنائی ہے جس کا نتیجہ فکری انتشار میں اضافہ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔ ہمارے بیشتر دانشوروں نے مغربی تہذیب و ثقافت کا جائزہ لینے سے قبل یہ ضروری سمجھا ہے کہ اسلام کی تعبیروتشریح کے روایتی ڈھانچے کو توڑ کر نیا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے یا کم از کم روایتی ڈھانچے سے لاتعلقی کا ضرور اعلان کیا جائے۔
آج مغرب اور عالم اسلام میں مکالمہ کی جو ضرورت محسوس ہورہی ہے اور جس ڈائیلاگ کی اہمیت پر زور دیا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کی ہے۔ مغرب ہمیں سمجھنے میں مغالطوں کاشکار ہوا ہے اور ہم نے مغرب کو سمجھنے میں فریب کھائے ہیں۔ اگر یہ مکالمہ اور ڈائیلاگ ان غلطیوں کی نشان دہی اور فریب کے دائروں سے نکلنے کے لیے ہو تو اس کی ضرورت،اہمیت اور افادیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جب مختلف مذاہب کے راہ نماؤں کے درمیان مکالمہ کی بات چلی اور اسلام آبادمیں اس سلسلے میں ایک کانفرنس بھی ہوئی تواس مرحلے پر مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا اور میری رائے دریافت کی گئی۔ میں نے گزارش کی کہ میں بھی اس مکالمہ اور ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور اس کی افادیت واہمیت سے مجھے انکار نہیں ہے، لیکن میرے نزدیک یہ افادیت صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ یہ مذاکرات حکومتی سطح پر یا حکومتوں کے ذریعے نہ ہوں۔ یہ مکالمہ اہل علم کا کام ہے اور اس موضوع سے دلچسپی اور مناسبت رکھنے والے ارباب فہم و دانش کا مسئلہ ہے۔ حکومتوں کی مداخلت یا دلچسپی ایسے معاملات کو بگاڑ دیا کرتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایجنڈا ایک طرفہ نہ ہو بلکہ باہمی مشورہ سے ایجنڈا طے کیا جائے۔ مثلاً اس وقت بین المذاہب مکالمہ کے لیے سب سے بڑا ایجنڈا ‘‘دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام’’ بیان کیا جاتا ہے ۔ مجھے اس کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن یہ یک طرفہ ایجنڈا ہے اور اگر مغرب اور عالم اسلام کے درمیان مکالمہ کے لیے ایجنڈا طے کرنے میں مجھ سے رائے طلب کی جائے تو میں اس کے لیے تین نکاتی ایجنڈا تجویز کروں گا:
۱۔ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کی بے دخلی کے اثرات کا جائزہ۔
۲۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی جبر کی تعریف اور حدود کا تعین۔
۳۔ دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام۔
مجھے یقین ہے کہ اسلام اور مسیحیت کے سنجیدہ ارباب علم و دانش اگر مل بیٹھ کر اس ایجنڈے پر گفتگو کریں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان امور کا جائزہ لیں تو وہ نہ صرف بہت سی باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں بلکہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان دن بدن بڑھتی چلے جانے والی کشیدگی میں کمی کے راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ مارچ ۲۰۰۵)