جمالیات ذوق

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : مکالمہ

شمارہ : دسمبر 2016

 

مکالمہ
جمالیاتی ذوق
مکالمہ ، عما ر عارف ، صدیق بخاری
ترتیب ، عمرفاران

اشعار، شاکر شجاع آبادی

انھاں دے بال ساری رات روندن بکھ توں سمدے نی
جنھاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندیں شام تھی ویندی
کڈاہیں تاں اے ڈکھ ٹلسن کڈی تاں سکھ دے ساہ ولسن
پلا خالی خیالاں دے پکیندیں شام تھی ویندی
غریباں دی دعا یارب خبر نی کن کریندا ہیں
سدا ہنجواں دی تسبی کوں پھریندیں شام تھی ویندی
میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر دے
جو روٹی شام دی پوری کریندیں شام تھی ویندی
میں شاکر بکھ دا ماریاں ہاں مگر حاتم توں گھٹ کائنی
قلم خیرات میڈی ہے چلیندیں شام تھی ویندی
اشکال ،جناب عمار عارف
محترم شاہ جی! 
آپ نے سرائیکی شاعرشاکر شجاع آبادی صاحب کی شاعری کو پوسٹ کر کے بندہ عاجز کے لیے اس کے فہم کیلئے سہولت فراہم کر دی ہے.جزاک اللہ خیرا
میں نے جب انکا کلام پڑھا تو بالخصوص اس شعر پر ذہن الجھن میں مبتلا ہو گیا۔ 
میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر ڈے
گویا فہم دین کی اساس سے آگاہ ہیں لیکن نہ جانے ان کے ذہن سے یہ بات کیسے محو ہو گئی کہ رازق اور کائنات کے خالق نے ہر دور کے انسانوں کے معاشی و معاشرتی مسائل سے بدرجہ اتم آگاہ ہو تے ہوئے عبادت کے احکامات عطا فرمائے ہیں اور جس ہستی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ ہمیں پانچ نمازیں اور ان کے اوقات عطا ہوئے ہیں ان پر فقر و فاقہ کے جو حالات گزرے ہیں کہ کئی کئی دن تک جن کے گھر میں چولہا نہ جلتا تھا،جن کو پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے اور الفقر فخری جن کی شان تھی ۔ لیکن اس فقر و فاقہ کے حالات میں بھی نماز ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنی رہی ۔تو ان کا ایک ذہین امتی اس قدر بنیادی رکنِ ایمانی کو کیسے نظر انداز کر گیا ہے۔ پھر کچھ دنوں بعد انکے ایک اور شعر نے تو ششدر ہی کر دیا تھا۔ 
بہتر حور دے بدلے گزارا ہک تے کر گھنسوں 
اکہتر حور دے بدلے اساکوں رج کے روٹی ڈے
سمجھ نہیں آتا کہ اس شعر پر کیا تبصرہ کیا جائے، مانا کہ موصوف کے علاقے کا پس منظر معاشی عدم توازن کا شکار ہے لیکن اس سے ایمانیات پر لب کشائی بلکہ زبان درازی کی گنجائش کہاں سے ثابت ہوتی ہے۔ دوسری طرف جب آپ کی پوسٹ نے ان کی شاعری کو پسندیدگی کا اعزاز دیا ہے تو طفل مکتب ایک بار پھر الجھن میں مبتلا ہو گیا کہ بندہ عاجز کی ظاہر بیں بصارت سے تجزیے میں ضرور خطا ہوئی ہو گی۔ سو ازراہ شفقت رہنمائی فرمائیے۔ احقر مشکور ہوگا. والسلام عارف
جواب ،جناب صدیق بخاری
رفیقِ من
میں نے آپ کی پوسٹ کو بار بار پڑھا، حیرانی اس بات پہ ہو رہی تھی کہ آپ جیسے صاحب علم کی نظروں سے یہ آیات کس طرح اوجھل رہ گئیں ۔والشعرا یتبعھم الغاوؤن۔ الم تر انہم فی کل واد یھیمون
آپ ان آیا ت کے پس منظر میں اس شاعری کوپڑھتے تو شاید یہ اشکال پیدانہ ہوتا۔
اس تمہیدی گزارش کے بعد عرض ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ شاکر شجاع آبادی ایک شاعرہے نہ کہ کوئی عالمِ دین ، دانشور یا فلاسفر۔ہاں اگر کوئی جید عالم دین اس طرح کی بات لکھ دیتا تو ہمیں اس پر بار بار غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کلام میں پوشیدہ معانی اس وقت تک آشکار نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ بات کہنے والا کون ہے ، اس کا علمی ،ادبی، خاندانی اورمعاشرتی پس منظر کیا ہے۔ جب وہ یہ بات کہہ رہا تھا تو کس موڈ میں تھا ،کس محفل میں تھا اور اس کے کہنے کا اندازکیا تھا۔اسی طرح کے اور بہت سے پہلو بھی ہیں جو کلام کے معنی کا تعین کرتے ہیں۔اور میر اخیا ل ہے کہ میرا رب بھی حساب کتاب کے وقت حالات کی رعایت ضرور کرے گا۔مجھ سے اس سطح کے سوال نہیں ہو سکتے جو امام ابوحنیفہؒ سے ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح ایک ان پڑھ سے وہ نہیں پوچھا جائے گا جو ایک پڑھے لکھے سے پوچھا جائے گا۔حالات کی یہ رعایت امید ہے شاکر کو بھی حاصل رہے گی۔ جس طرح کے حالات میں شاکر کی زبان سے یہ اشعار ادا ہو رہے تھے شاید وہ حالات اس کو الاؤنس دینے کے لیے کافی ہیں۔شاکر کا تقابل کرنا ہو تو فیض یا فراز سے کیجیے ۔ نعمتوں ، راحتوں اور سماجی رتبے کے حامل ان شعرا کی زبان سے جو اشعار سر زد ہوئے ہیں وہ اصل میں لمحہ فکریہ ہے۔نہ کہ شاکر جیسے بے کس اور بے بس کے اشعار۔ یہ شعرا جو کہ پڑھے لکھے اور دانشور بھی تھے پھر بھی جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
اک فرصت گنا ہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے 
تو انسان سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اور
ناشکری اور گستاخی کسے کہتے ہیں جبکہ شاکر کا لہجہ تو عجز ،درماندگی اور التجا کالہجہ ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ بیان ایک ایسے شخص کا ہے جو غربت و افلاس کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے اورمعاشی ناہمواری اور طبقاتی تقسیم کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے وہ کسی وقت اگر اپنی بے بسی ، بیکسی اور مظلومیت کی گٹھری پنے مالک کے حضور رکھ دے تو اس میںآخر کیا حرج ہے؟ اس کے آگے نہ رکھے تو کس کے آگے رکھے ؟ ہر ہر انسان کا اپنے رب سے تعلق جداگانہ حیثیت کا حامل ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ رب سے ایک زندہ تعلق درکا ر ہے اور زندہ تعلق میں تو پھر سب باتیں ہوتی ہیں جہاں دعا او ردرخواست ہوتی ہے وہیں حالِ دل بھی تو کہا جاسکتا ہے ۔کسی کا کیا کہنا میں اپنی مثال عرض کرتا ہوں ۔کمر درد کے مستقل عارضے کے ساتھ جب سات گھنٹے پڑھا کے لوٹتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ لمبی تان کے سوجاؤں ۔ مگر ایک گھنٹے سے زیادہ آرام نہیں کر سکتا کہ میری ذمہ داریاں اور معاشی تقاضے مجھے بلاتے ہیں کہ پھر اٹھ اور مزدوری شروع کر ۔ایسے میں بادل نخواستہ اٹھتا ہوں اور پھر ٹیوشن کی مزدوری کی طرف چل پڑتا ہوں پھر گلی گلی کوچہ کوچہ پھرتے جب درد حد سے سوا ہوتا ہے تو بعض اوقات مالک سے کہہ اٹھتا ہوں۔
میڈا رازق رعایت کر روزی ساری ہک جا کر دے 
کہ سڑکا ں ابو ظبی دیاں کچھ دے رات تھی ویندی
اب یہ نہ شکایت ہے نہ شکوہ ایک عرض ہے ایک التجا ہے اورمیرا خیال ہے کہ ہمارا مالک اتنا حق تو ہمیں دیتا ہے کہ ہم اس سے ایسی باتیں کر سکیں۔
کتنی آرزوئیں اور تمنائیں ہیں جو حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔خود میںیہ دیکھتا ہوں کہ لکھنے پڑھنے کے کتنے منصوبے او ر پروگرام ہیں جو ایک حسرت سے آگے نہیں بڑھ سکے کیونکہ معاشی ذمہ داریا ں ہی سارا وقت لے لیتی ہیں ۔لیکن ان سب حسرتوں اور زندگی کے جبر مسلسل کے باوجود میں تو روز
دیکھتا ہوں کہ صبحدم جب اپنی کمزوری اس کے حضور پیش کرتاہوں تو وہ روز سرپہ یوں ہاتھ رکھ دیتا ہے کہ یہ کمزور جسم اگلے دن کی چکی پیسنے کے لیے پھر تیا رہوجاتا ہے۔ یقین کیجیے اگر وہ ایسا نہ کرتا تو میں کب کا collapseہو چکا ہوتا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ان اشعار کو رب ارنی کیف تحی الموتی اور رب ارنی انظر الیک اور رب انی مسنی الضر و انت ارحم الراحمین کے تناظر میں پڑھیے تو شاید ان کا فہم مزید آسان ہو جائے ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ یہ شاعری اور لٹریچر ہے نہ کہ کوئی مذہبی صحیفہ یا فقہ کی کتاب اس کو لٹریچر سمجھ کے پڑھیے تو بہت سارے اشکالات خود بخود ہی رفع ہو جائیں گے میں تو شاعری اور ادب، زبان سیکھنے اور زبان کی چاشنی کے لیے پڑھتا ہوں۔اور اس وقت سیدنا عمرؓ کا وہ فرمان بھی ذہن میں ہوتا ہے کہ قرآن سمجھنے کے لیے جاہلی ادب کو پڑھا کرو۔شاعری اور ادب کا مطالعہ زبان کے بہت سے اسالیب سے آگاہ کرتا ہے جس سے قرآ ن سمجھنا آسان ہوجاتاہے ۔ قرآن جو ادب کا شاہکار ہے اس تک پہنچنے کے لیے ادب کی فضولیا ت سے گزرنا پڑتا ہے ۔یقین کیجیے کہ انسان سبعہ معلقات کی عریاں زبان سے نہ گزراہوا ہو تو اس کے لیے فجعلنھن ابکارا ، عربا اترابا اور کواعب اترا با سمجھنا بہت مشکل ہے ۔اسی لیے شاید ہم نے مدارس میں یہ منظربھی دیکھا کہ ’’کافروں کو جہنم کی بشارت سنادو ‘‘ یہ اسلوب سمجھنابھی طلبا کے لیے مشکل ہو رہا ہوتا ہے ۔شاکر جیسے رعایت لفظی اور تعریضی اسالیب سے انسان گزر چکا ہو تو پھر صحیح معنوں میں قرآن کی خوبصورتی کا حظ اٹھاتا ہے ۔آپ ذرا شاکر کی شاعری کو رعایت لفظی اور طنز و تعریض کی اسالیب کے پس منظر میں پڑھیے تو خوب لطف اٹھائیں گے ۔
چھٹی بات یہ ہے کہ شاعری اور ادب زبان کے اسالیب سکھانے کاسب سے اہم ذریعہ ہیں ۔ ان سے زبان کے اسالیب سیکھیے اور ان کا مضمون اور مدعا اگر آپ کی مذہبی فکرسے متصادم ہو تو نظر انداز کردیجیے اردو نثر سیکھنے کے لیے جہاں حالی ، غالب ،اقبال ،شبلی، محمد حسین آزاد ،ابوالکلام ، مختار مسعوداور یوسفی کو پڑھنا ضروری ہے وہیں منٹواو رعصمت چغتائی بھی ضروری ہیں کہ ان کے ہاں بھی بعض اسالیب ایسے موجودہیں جو کہیں اور نہیں ملتے ۔شاکر کے ہاں بھی یہ بھوک اور مفلسی کی اذیت اور دکھ کو 
نمایاں کرنے کا اسلوب ہے نہ کہ ارکان مذہب پہ تنقیدکا ۔
ساتویں بات یہ ہے کہ کیا مذہبی یا دین دار ہونے کے لیے لازم ہے کہ ہر چیز کو مذہبی اور غیر مذہبی کی نظر سے دیکھا جائے ۔ کیا اس کے علاوہ کوئی اور تقسیم اپنا وجود نہیں رکھتی؟زمینی حقائق یہ ہیں کہ تقسیمیں اور بھی بہت سی موجود ہیں جو نہ صرف اپنا ٹھوس وجود رکھتی ہیں بلکہ ان کا اپنا اپنا مقام اوراہمیت بھی ہے۔ذرا سوچیے کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں چیزوں کو ذاتی اور غیر ذاتی ، خاندانی اور غیر خاندانی ، قومی اور غیر قومی، اسی طرح ادبی اور غیر ادبی میں تقسیم نہیں کرتے ؟ اور اگرواقعتا کر ہی رہے ہیں تو پھر ان تقاسیم کی حقیقت کو مان لینے میں بھی کیا حرج ہے ؟
اور آخر ی گزارش یہ ہے کہ سیرت النبی ﷺ کے جس پہلو کو آپ نے بیان فرمایا ہے میرے خیا ل میں پہ پہلو،ا بھی تک کسی فراہی اور کسی شبلی کی تحقیق کا منتظر ہے۔
***

Back to Conversion Tool