ایک طویل عرصے کے بعد، ایوان اقتدار سے ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔ مراکزِـ اقتدار میں غالباً ، اپنی نوعیت کا، یہ پہلا پروگرام تھا کہ جس میں بہتر نظم و نسق کے حوالے سے وزراے کرام کی ذہنی تربیت کا بندوبست کیا گیا تھا۔ 14 فروری کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے وزیراعظم ہاؤس میں ، ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں تمام وفاقی وزرا، وزراے مملکت، وزیر اعظم کے مشیروں اور صوبائی وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اس پروگرام میں تکنیکی تعاون فراہم کیا۔ پاکستان میں گڈگورننس کے سلسلے میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کاوش تھی کہ جس میں وزرا ے کرام کو بدعنوانیوں کے خاتمے کے سلسلے میں ان کے کردار سے آگاہ کیا گیا۔ اس میں گروپ ڈسکشنز ہوئیں۔ کرپشن کے خاتمے کی تجاویز زیر بحث آئیں اور شرکاء کے اندر احساس ِذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس ورکشاپ میں مختلف لیکچرز اور تقاریر کے علاوہ صدر محترم اور وزیراعظم صاحب کے خصوصی خطابات ہوئے جن میں دونوں صاحبان نے اپنا دل کھول کر سامعین کے سامنے رکھ دیا اور وطن عزیز سے بدعنوانی کے خاتمے، بددیانتی کے انسداد اور سیاسی عمل کو جاری رکھنے کے اپنے عزم و ارادے کا اظہار کیا۔
اس ورکشاپ کا سن کر ہمارا جی باغ باغ ہوگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت و اقتدار کے ذمہ داروں کے اندر یہ احسا س بیدار ہوگیا ہے کہ جب تک اوپر کے طبقے سے کرپشن اور بددیانتی کا خاتمہ نہیں ہوتا، نیچے اس کے خاتمے کی امید رکھنا ایک خیال خام ہے۔ یہ مشہور عرب کہاوت ہے کہ الناس علی دین ملوکھم،یعنی عوام اپنے بادشاہوں کے دین، یعنی طرز زندگی پر ہوتے ہیں۔ اہل اقتدار، اگر دیانتدار ، قانون کا احترام کرنے والے اور کرپشن سے پاک ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ اچھائیاں معاشرے میں سرایت نہ کریں۔ اس کے برعکس ، اگر صاحبانِ اقتدار بددیانت، کرپٹ اور قانون کا مذاق اڑانے والے ہوں تو یہ برائیاں بھی نیچے سرایت کرجاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی خرابی، خرابیوں کی جڑ ہوتی ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ہمارا عام آدمی اتنا کرپٹ نہیں ہے جتنا ہمارا بالائی طبقہ ہے۔ اور ان کا بگاڑہی ہمارے قومی بحران کا ذمہ دار ہے۔ حکمران طبقے میں بالعموم سچ کا قحط، اعلی کردار کا فقدان اور دیانت و امانت کا بحران ہے۔ اب اگر ‘‘کسی’’ نے ہمار ے اس مرض کو پہچان لیا ہے اور اس کے علاج کی بھی ٹھان لی ہے ،(اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو) تو یہ ہماری قومی خوش بختی ہے۔
دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ یہی بتا تا ہے کہ ان کی ترقی عموما ًدیانت دار قیاد ت کی ہی مرہون منت رہی ہے۔خود ہماری اپنی آزادی بھی ، اسی عنصر کا ثمر ہے کہ دنیا جسے قائداعظم کے نام سے جانتی ہے ۔ کسی قوم میں جتنے زیادہ دیانتدار اور باصلاحیت لیڈر ہوں گے وہ قوم ترقی کی منازل اتنی ہی تیزی سے طے کر ے گی۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد ، ہمیں کوئی ایسا باکردار ، اور شفاف لیڈر نہیں ملا ، جس کا نتیجہ وہ زوال ہے جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ بلاشبہ اداروں اور نظام کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن ادارے بھی تو افراد ہی بناتے اور چلاتے ہیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ نظام اور بہترین اداروں کو، اگر چلانے والے بددیانت اور نااہل لوگ ہوں تووہ جلد ہی ناکام ہوجاتے ہیں۔
وطن عزیزکے موجودہ منظر کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی نظا م کا عدم استحکام ، ابتر معاشی نظام ، زوال پذیر معاشرتی اقدار ، شعبہ تعلیم کا زوال، مذہبی اور لسانی نفرتوں کا الاؤ، غریب اور امیر میں بڑھتا ہوا فرق ، تھانہ اور کچہری کا مخصوص کلچر، رشوت اور اقربا پروری غرض سب برائیوں کی جڑ کرپشن نظر آتی ہے۔ اب جب کہ ہمارے حکومتی ایوانوں میں یہ بات محسوس کر لی گئی ہے کہ حکومتی اور وزراتی سطح پر کرپشن ختم کیے بغیر عمدہ حکومت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ، تو یقینا اس اقد ام کی تحسین کی جانی چاہیے اورحکمران طبقے میں، جو عناصر اس قسم کی ورکشاپس کا اہتمام کررہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ قبل ازیں، موجودہ فوجی حکومت نے، احتساب کے نام پر ، کچھ قابل ذکر کام کیا ہے ، لیکن وہ سارا منفی نوعیت کا ہے۔ یعنی جن لوگوں نے وطن عزیز کا پیسہ ہضم کیا تھا ان کی پکڑ دھکڑ پر مبنی ہے ،اگر چہ فاریکس کمپنیوں کے ضمن میں یہ پکڑ دھکڑ بھی بے فائد ہ رہی کہ عوام کا پیسہ ابھی تک انہیں نہیں مل سکا، لیکن موجودہ ورکشاپ کی شکل میں جس کام کا آغاز کیا گیا ہے (اگر ختم نہ کردیا گیا تو ) یہ شفاف معاشرے کے قیام کی طرف ایک مثبت قدم ہو گا۔
اس ورکشاپ کو اگر ہم دینی اصطلا ح میں بیان کر نا چاہیں تویوں کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں تزکیے کا احساس پیدا ہو گیا ہے ۔ انسانوں کے ذہنوں کو پاکیزہ اور ان کے اعمال کو شفاف بنانے کے عمل کو ، ہمارے دین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اور اسے ہی تزکیہ کہتے ہیں۔ تزکیہ کا مفہوم، کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا، اس کو نشوونما دینااور اس کو پروان چڑھانا ہے۔ نفس کو غلط رحجانات اور میلانات سے موڑ کر ،نیکی اور خدا ترسی کے راستے پر ڈال دینا اور اسے درجہ کمال پر پہنچنے کے لائق بنادینا ہے ۔یہ علم و عمل کی پاکیزگی کا نام ہے ۔ یہ اخلاق و کردار کو سنوانے کا نام ہے۔ فکر کے زاویے بدلنے، خواہشات و ارادوں کے رخ کو تبدیل کرنے اور عقل کو راہ راست پر ڈالنے کا نام ہے۔ مذکورہ ورکشاپ اسی عمل کی جا نب ایک قد م ہے۔
دین اسلام ایک زندہ ومتحرک دین ہے۔ یہ زندگی رکھتا ہے اس میں دنیا سے کنارہ کشی اوررہبانیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دین کا مطالبہ یہ ہے کہ دئیے گئے دنیاوی حالات میں رہتے ہوئے، اللہ کریم کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ اللہ کریم نے یہ دنیا برتنے کے لیے بنائی ہے، کنارہ کشی کے لیے نہیں ۔ اگر اللہ کریم کو رہبانیت مطلوب ہوتی ، تووہ یہ جیتی جاگتی دنیا تخلیق ہی نہ کرتے اور نہ ہی اس کے اندر ایسی مخلوق پیدا کرتے جس میں عقل و شعور اور ارادہ و عمل کی قوتیں بھردی گئی ہوں۔ارادہ و عمل کی اسی قوت کو صحیح رخ پر استعمال کرنے کا نام تزکیہ ہے اور یہ ایک جہد ِمسلسل اور سعیِ پیہم کا نام ہے ۔
تزکیہ کا عمل ، انسانی معاشرے کے کسی خاص گروہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق تمام افراد اور تمام گروہوں، بلکہ پورے معاشرے سے یکساں طور پر ہے۔ وہ لوگ، جن کے ہاتھوں میں معاشرے کی باگ ڈور ہوتی ہے، ان کے لیے تواس عمل کی ضرورت بدرجہ اتم ہے۔لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے اس پروگرام کی اس دینی اہمیت کا کوئی اندازہ ہوگا۔ اس کے باوجود ہم اس کی تحسین کر تے ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ اس عمل کو نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ اس کا ایک باقاعدہ مستقل نظام تشکیل دیا جائے۔ ہماری رائے ہے کہ سول سروسز اکیڈمی کی طرز پر ، منتخب افراد کے لیے ایک تربیتی ادارہ بنایا جائے۔ اور اس میں مختلف دورانیے کے تربیتی کورسز ترتیب دیے جائیں۔ ان کورسز کا ہدف ، دیگر معلوماتی اور پیشہ وارانہ معلومات کے علاوہ، قلب وشعورکو بدلنا ، عمل میں دیانتداری اور قانون کا احترام پیدا کرناہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نوعیت کے پروگراموں کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ اسے مرکز سے صوبوں تک اور صوبوں سے تحصیلی ایوانوں تک پھیلایا جائے اور اس کے شرکاء میں، وزراکرام کے علاوہ مقننہ کے دونوں ایوانوں کے ارکان ، بیوروکریسی اور اعلیٰ عدالتی ذمہ داروں کو بھی شامل کیا جائے۔
مذکورہ ورکشاپ میں ، صدر محترم نے بلاشبہ صحیح فرمایا تھا کہ ہمارے ذمہ داروں اور افسروں میں 10 فیصد لوگ یقینا ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو کسی طور پر کرپٹ نہیں کہا جاسکتا اور یہ کہ جن کی امانت و دیانت پر سو فیصد اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ بڑے مضبوط کردار کے اور اندرونی ساخت کے اعتبار سے نہایت شفاف کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ صدر صاحب کے بقول، دوسرے 10 فیصد لوگ ایسے ہیں کہ جو کرپٹ اور بددیانت ہونے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور یہ لوگ ناقابل اصلاح ہوتے ہیں۔ باقی کے 80 فیصد لوگ ‘‘ چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی’’ کا مزاج لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ صدر صاحب نے بجا طور پر یہ فرمایا کہ ہماری ان اصلاحی کاوشوں کا ٹارگٹ یہ 80 فیصد لوگ ہیں۔ ہم بھی جس تربیتی ادارے کے قیام کی بات کررہے ہیں، اس کا بھی یہی مقصد ہے کہ ان 80 فیصد لوگوں کو ایسا ماحول مہیا کیا جائے کہ یہ لوگ اول الذکر مضبوط کردار کے حامل لوگوں کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا مستقل تربیتی ادارہ تشکیل دینا ، حکومت کے منصبی فرائض میں سے ہے ۔ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ہے ،
‘‘ یہ وہ لوگ ہیں ، جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے ۔ ’’ (الحج۔41)
آخر میں ہم یہی عرض کریں گے کہ حکومتی اہلکاروں کے احتساب و تربیت کا جو کام شروع کیا گیا ہے اسے جاری رکھا جائے اور اس کے لیے ایک مستقل نظام وضع کیا جائے۔ یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ بس اس کے لیے خلوص اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔
صدرمحترم اور وزیراعظم صاحب ، ہر دو کے خلوص کا امتحان ہے۔