‘‘حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خدمت میں ایک عورت آئی ،جو اپنے پوتے کے ترکے سے حصہ چاہتی تھی ۔ آپ نے اس سے کہا کہ کتاب اللہ میں تیری وراثت کا ذکر نہیں ۔نہ میرے علم میں نبی صلعم کا کوئی اسوہ ہے ... تم اسوقت واپس جاؤ ۔میں دوسرے اصحاب نبی سے دریافت کروں گا ۔چنانچہ عام صحابیوں سے اس بارے میں دریافت فرمایا۔حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے نبی صلعم کے اس فیصلہ کی اطلاع دی کہ آپ ؐ نے پوتے کے ترکے سے دادی کو آدھی میراث دی تھی ۔حضرت صدیق ؓ نے دوسرے صحابہ سے پوچھا کہ کسی اورشخص کو بھی اس کا علم ہے ۔محمد مسلمہ انصاری نے مغیرہ بن شعبہ کی تائید کی ۔تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اس سنت نبوی کے مطابق اس عورت کو میراث دلوائی ...حضرت عمر ؓ نے ایک بار دیت کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ دیت مقتول کے قریبی ورثا کو ملے گی ۔بیوی کو اس سے حصہ نہ ملے گا ۔لیکن جب ایک صحابی ضحاک بن سفیانؓ نے آپ ؓ کو مطلع کیا کہ نبی صلعم نے ایشم ذیابی کی بیوی کی ان کی دیت میں سے حصہ دیا تھا تو آپ ؓ نے فورا ً رجوع کر لیا۔اسی طرح ایک مرتبہ جنین کے ضائع کر دینے کا مسئلہ سامنا آیا ۔آپ نے لوگو ں سے اس بارے میں سنت نبوی دریافت کی ۔ایک صحابی مالک بن بانغہ نے اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا ....حضرت عمرؓ نے جب فیصلہ نبویؐ سنا تو بہت خوش ہوئے ۔ بخاری میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ابتدائے خلافت میں مجوسیوں پر جزیہ نہیں عائد کیاتھا ۔لیکن جب ان کو علم ہو ا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر کے مجوسیوں پر جزیہ لگایا تھا تو اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور جزیہ عائد کر دیا۔’’
یہ واقعات پیش اس لئے کیے گئے ہیں کہ خلفائے راشدین کسی فیصلہ نبوی میں ترمیم و تنسیخ جرم سمجھتے تھے اور خود اپنے فیصلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے سامنے فوراً منسوخ کر دیتے تھے ۔ لیکن ایک دوسرا استنباط بھی تو انہیں واقعات سے کیاجا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ کتنے مسئلے ایسے بھی تھے کہ ان میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ جیسے مقرب و معزز صحابی بھی رسول ؐ کے فیصلوں سے لا علم اور بے خبر رہ جاتے تھے اور بالآخر انہیں علم ایسے صحابیوں سے حاصل کرنا ہوتا تھاجو مرتبہ تقرب میں ان سے کہیں پیچھے اور نسبتاً گمنام ہوتے تھے۔ اور پھر اس نتیجے سے ایک دوسرا نتیجہ وسیع تر اور دین کی بہت سی شاخو ں میں کام آنے والا یہ نکلتا ہے کہ کسی فاضل کے لئے یہ لازمی نہیں کہ وہ اپنے مفضول سے ہر ہر جزیہ میں فائق و افضل ہی ہو۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ شاگرد اپنے استاد کو اور کامل ،اکمل کو لقمہ دے سکے ،اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے سے بہت سے اشکال از خود دور ہو جاتے ہیں۔ (صدقِ جدید’ 13اکتوبر 1958)