کیا بسنت ایک غیر اسلامی تہوار ہے؟

مصنف : مسز ثنا اسد سلہری

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : مارچ 2005

درج ذیل مضمون ایک رائے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں بات دلیل کے حوالے سے کی گئی ہے۔

 اس سے اختلاف رکھنے والے حضرات اگر اس نقطہ نظر کا مدلل جواب دینا چاہیں تو ان کے لیے بھی سوئے حرم کے صفحات حاضر ہیں ۔ (مدیر)

            ہمارے ہاں عام طور سے یہ رواج بن گیا ہے کہ مذہبی پس منظر رکھنے والے لوگ چیزوں کو مذہبی اور غیر مذہبی کے خانے میں بانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ تقسیم کر تے ہوئے وہ جانتے بوجھتے یا انجانے میں تہذیب و ثفافت کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔جس طرح ہر چیز کو غیر مذہبی سوچ اور ذہن سے پرکھناغلط ہے اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ ہر چیز کو مذہبی عینک ہی سے دیکھا جائے ۔ مذہب اور تہذیب کے دائرے یقینا الگ الگ ہیں ۔ لیکن یہ کہ مذہب کب تہذیب کے دائرے میں مداخلت کا حق دار ٹھہرتا ہے اور تہذیب کب مذہب کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اس کا جاننا او رواضح ہونا اشد ضرور ی ہے ۔ اسی لا علمی کی بنا پر ہم عموماً خلط مبحث کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کی تربیت بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہم معاملات کو جذباتیت اور اپنے مخصوص تعصبات سے آزاد ہو کر عد ل و انصاف کی روشنی اور خالص علمی اند از میں دیکھنا اور پرکھنا سیکھ سکیں۔

            بسنت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ۔ ہمارے ہاں عموما دینی پرچے اور دیندار کہلانے والے لوگ اسے ایک ہی عینک سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہندووانہ تہوار ہے ۔ حالانکہ تہواروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا (سوائے ان کے کہ جن کا آغاز ہی مذہب سے ہو یا وہ مذہب کی کسی روایت سے وابستہ ہوں۔جیسے عید الاضحی وغیرہ ) بالکل اسی طرح، جس طرح چھری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہی چھری سیب کاٹنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور یہی چھری گلا کاٹنے کے لیے بھی ۔ اسی طرح تہوار تفریح و خوشی کے جذبات کے مثبت اور صحت مند اظہار کا موقع بھی ہوتے ہیں اور منفی اظہار کا بھی اور اس کا انحصار مذہب سے زیادہ انسانوں کی تعلیم و تربیت اور ماحول پر ہوتا ہے ۔

             بسنت کو اس کے ‘‘مذہب’’ کے اعتبار سے دیکھنے کے بجائے اس کو اس کی افادیت کے پہلو ’ اخلاقی اساسات اور موجودہ شکل کے اعتبار سے دیکھنا زیاد ہ مناسب ہو گا۔ اور ان اعتبارات سے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ ہمارے لیے مہلک چیز ہے تو بلاشبہ عقل و شعور کا مطالبہ یہی ہو گا کہ اسے تر ک کر دیا جائے اور اگر اس کے برعکس ثابت ہو تو پھر یقینا بے جا تعصب اور تنگ نظر ی کو الوداع کہنا ہی بہتر ہو گا۔

            حقیقت میں بسنت پنجاب کا قدیم ثقافتی تہوار ہے جو موسم بہار کی آمد کے وقت افراد کے آپس میں مل جل کر خوشی منانے کا تہوار ہے ۔جہاں ایک طرف زمین قدرت کے رنگوں سے بھرنے لگتی ہے تو وھیں آسمان پتنگوں کے رنگوں سے دل کش اور خوبصورت ہونے لگتا ہے۔ جس کو دیکھ کر خالق کائنات کے لیے جذبہ شکر پیدا ہوتا ہے جس نے خوبصورتی اور حسن کائنات کو دیکھنے کے لیے ہمیں حسِ شعور او ر آنکھوں سے نوازا۔یاد رہے کہ پتنگ اڑانے کا کھیل بھی کوئی بسنت یا ہند ستان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جاپان اور چین میں بھی اس کی مضبوط تاریخ موجود ہے۔

            دین کا اصلاً موضوع اخلاقیات کی اصلا ح ہوتا ہے اس لیے دین کو تفریح یا تہواروں سے کوئی غرض نہیں ہوتی البتہ دین وہاں جذبات کو بعض حدود کا پابند ضرور کرتا ہے جہاں اخلاقی بگاڑ کا خدشہ ہو ۔تا کہ انسان اور حیوان یا دوسرے لفظوں میں انسانی معاشرے اور جنگل کی زند گی میں تمیز قائم رہے۔

            بسنت کے تہوار کو منانے میں کوئی برائی نہیں بشرطیکہ وہ ایمان او ر اخلاق میں کمی کا سبب اور ان کی زندگی کے لیے خطر ہ نہ بنے ۔ ان دو عوامل کو مد نظر رکھنا ہر حال میں ضروری ہے۔ البتہ ان کی قربانی دے کر بسنت منانا یقیناگھاٹے کا سودا ہے ۔

             ایمانی اور اخلاقی طو ر پر اس بات کو کوئی مہذب معاشرہ اور فرد پسند نہیں کرے گا کہ بدکلامی ’ بیہودگی اور آوازوں کا شور اور کھیل کے نام پر ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا جائے ۔ ہمسایوں اور بیماروں کی تکلیف کا احساس نہ کیا جائے اور شرفا کا اپنے گھروں کے صحن اور چھتوں پر آنا بھی مشکل ہو جائے ۔ حتی کہ انسانی زندگی بھی اس کی زد میں آ جائے ۔ دھات کی تاروں کی بھینٹ چڑ ھ کر لوگ زندگی سے محروم ہو جائیں۔اور کتنے ہی موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہوئے اپنی شہ رگ کٹوا بیٹھیں۔

            ان تمام قباحتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں اس تہوار نے عجیب شکل اختیا رکر لی ہے ۔ او راس کی بنیادی وجہ معاشرے کے اقدا ر اور روایات کی توڑ پھوڑ اور تبدیلی ہے ۔ اس تبدیلی نے اس تہوار میں میوزک نا ئٹ’ میوزیکل پروگراموں اور اختلاط مردوزن کا اضافہ کر دیا ہے۔ جن کی وجہ سے ایمان و اخلاق پہ زد پڑتی ہے۔ اس لیے ان رویوں کی اصلاح بہر حال ضروری ہے ۔ اسی طرح اس رویے کی اصلا ح بھی ضروری ہے جس کی رو سے ہم اس پہ غیر اسلامی کا فتوی لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ غیر اخلاقی پروگرام عید پر منائے جانے لگیں تو کیا عید ناجائز ٹھہر ے گی۔ عید یقینا موجود رہے گی لیکن ان غیر اخلاقی رویوں کی اصلاح کی کوشش بھی کی جائے گی اور انہیں ترک کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جائے گا۔

            ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں ہر وقت اور ہر جگہ ایسے افراد ہوں جو تمام تہواروں کو ایمان واخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے منا کر یہ مثال قائم کریں کہ جذبات کو دین کی قائم کردہ حدود میں رکھتے ہوئے بھی ان سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے لیکن یہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے پیش نظر ہر وقت یہ بات رہے کہ انسان ہر وقت اور ہر جگہ اپنے مالک کی آزمائش سے گزر رہا ہے کیونکہ ہمیں یہاں اس دنیا میں آزمائش ہی کی غرض سے بھیجا گیا ہے۔

٭٭٭