خداوند کریم، میرے پیارے وطن کی خیر کرے، کہ آجکل اِس کی فضاؤں میں عجیب قسم کی دھندچھائی ہے۔ سارا منظر گرد آلود اور غیر شفاف ہے۔ ہوائیں کسی طوفان کی خبر لا رہی ہیں۔ اور اس میں رچی بوُ دور پار کی زہر آلود سازشوں کا پتا دے رہی ہے۔ ہمارے دل میں ایک بے چینی اور بے کلی سی ہے کہ نہ جانے آنے والا وقت ’ وطن عزیز کے لیے کسی حادثے کاہی وقت نہ ہو۔اللہ نہ کرے ایسا ہو۔
نیا سال کیا طلوع ہوا، دُشمنان ِ وطن کی بن آئی ہے۔ صوبہ بلوچستان سے پے درپے جو اطلاعات آرہی ہیں ، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اضطراب پایا جاتا ہے۔ اگرچہ ابھی یہ اضطرا ب تہِ آب ہے، لیکن اسے سیل ِآب بنتے کون سی دیر لگتی ہے ۔ابھی تو بلوچستان سلگ رہا ہے،لیکن نہ جانے کب یہ سلگتی آگ بھڑک اُٹھے اور سب کچھ بھسم کر کے رکھ دے۔سیانے کہتے ہیں کہ 71ء میں جب وطن ِعزیز دو لخت ہوا تھا ، اس وقت بھی کچھ اسی قسم کا موسم تھا ۔ حبس ، گھٹن اور آلود ہ فضا ۔ اُس وقت بھی ، کچھ اِسی قسم کے نعرے تھے۔ اُس وقت بھی’ حکومتی چہرے کچھ اسی قسم کی بولیاں بول رہے تھے جو آج ہمیں سُنائی دے رہی ہیں۔ کہنے کو تو صاحب ِصدر کہتے ہیں کہ یہ 71ء نہیں 2005ء ہے، وہ بھی جواباً یہی کہہ رہے ہیں کہ حضور والا !ہاں ہاں، یہ 71ء نہیں، 2005ء ہے۔کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟؟اللہ نہ کرے ایسا ہو!!
اب تک کی جو خبریں آئی ہیں وہ خاصی تشویش ناک ہیں۔ کئی مقامات پر ریل کی پٹڑی اکھاڑ دی گئی ہے جس کے باعث ریلوے کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس صوبے میں رات کی ٹرینیں بند کر دی جائیں۔گیس پائپ لائن کو کئی مقامات پر نقصان پہنچایا گیا۔ جنوری کے آغاز میں سوئی کے مقام پر گیس پائپ لائن پر جو بڑا حملہ کیا گیا تھا صرف اس سے ملک بھر میں گیس کی سپلائی بند ہو جانے سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ بجلی کی تنصیبات،ذرائع مواصلات اور پانی کے ذخائر ان تخریب کاروں کا خصوصی نشانہ ہیں۔ قومی املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنانا ،آئے دن لوٹ مار کرنا،دوسرے صوبے کے لوگوں کو دھمکانا اور قتل و غارت گری کرنا ان لوگوں کا من پسند مشغلہ ہے۔
حقیقت میں بلوچستان محبتوں کی سرزمین ہے۔ رقبے کے اعتبار سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ اس میں کئی پہاڑی سلسلے ہیں۔ جو دیکھنے میں خشک ، بنجر اور ویرانیاں لیے ہو ئے لیکن اپنے اندر معدنیات کا بے پناہ خزانہ پوشیدہ رکھتے ہیں ۔ نیم پہاڑی علاقے اور زرعی زمینیں بھی ہیں، لیکن پانی کی شدید کمی کے باعث کوئی خاطرخواہ زرعی پیداوار نہیں ہے ۔ البتہ بعض علاقوں میں کئی قسم کے پھلوں کے باغات ہیں ۔ آب وہوا کے تنوع کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی سردترین وادی مہترزئی بھی بلوچستان میں ہے اور ملک کاگرم ترین علاقہ سبی اور ڈھاڈر بھی یہیں واقع ہے۔
بلو چستان کا معاشرتی اور سماجی ڈھانچہ دیگر صوبوں خصوصاً پنجاب سے بالکل مختلف ہے۔یہاں کی روایات’ مسلم ہونے کے باعث، ایک گونہ اشتراک رکھنے کے باوجود،دیگر صوبوں سے بہت کچھ مختلف بھی ہیں۔ اس صوبے میں آبادی کی بڑی اکثریت بلوچ اور پختون قبائل پر مشتمل ہے۔اس کا شمال مشرقی حصہ یعنی چمن ، پشین، لورا لائی اور ژوب پختونوں کا گہوارہ ہے ۔ ضلع قلّات میں بروہی زبان والوں کی اکثریت ہے۔ مکران میں اور دیگر حصوں میں بلوچ آباد ہیں۔ ان میں مضبوط قبائلی نظام ہے۔ صدیوں سے قوم کے اندر انکی اپنی روایات قانون کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہر قبیلے میں ایک سربراہ ہوتا ہے۔ جسے تمن یا سردار کہا جاتا ہے۔ یہ سردار صاحبان خود تو آکسفورڈ اور واشنگٹن سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لیکن اپنے عوام کو ان پڑھ اور جاہل رکھنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ اس صوبے میں کئی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ ایک سے زیادہ زبانیں بول اور سمجھ سکتے ہیں۔
بلوچستان کے لوگ، بہادر ، جفا کش ، غیرت مند اور سادگی پسند ہیں۔ یہ لوگ سادہ مزاج ، عجزو انکساری کے پیکر اور انسان دوست ہیں۔بلوچستان کے شہری اسلام سے گہری محبت رکھنے والے اور اسلام کی روایتی تشریح پر سختی سے عمل کرنے والے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مضبوط قبائلی نظام ہونے کے باوجود مذہبی سیاسی پارٹیوں کو یہاں انتخابات میں کثیر تعداد میں ووٹ ملتے ہیں۔ یہ سیاسی عجوبہ ہے کہ بلوچستان ایسے صوبے میں کئی مقامات پر متعدد مرتبہ بوریہ نشین علماء نے بڑے بڑے قبائلی سرداروں اور قوم پرست سیاستدانوں کو انتخابات میں شکست سے دوچار کیا ہے۔ اپنی زمین کی جغرافیائی سختی اور موسم کی درشتی کے باعث ، یہ لوگ اوپر سے سخت جان اور کھردرے دکھائی دیتے ہیں، لیکن اندر سے نہایت نرم خو، محبت و اخلاص کے پیکر اور ہمدرد وغم گسار ہوتے ہیں ۔ اگر آپ بلوچستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کریں ، تو دور دور تک بے آب وگیاہ وادیاں، چاروں طرف خشک اور بنجر پہاڑ اور گرم تپتے صحرا آپ کا استقبال کریں گے اوران بے آب و گیاہ وادیوں میں رہنے والاتنومند انسان اپنی زیست کے تار کو برقرار رکھنے کے لیے تگ و دو کرتا نظر آئے گا۔
بلوچستان کے لوگوں کو، ان پڑھ اور پسماندہ رکھا گیا ہے۔ آبادی انتہائی کم ہے ، معاشرہ قبائلی روایات میں جکڑاہوا ہے اور جدید زمانے کی ترقی کی لہریں یہاں عام طور سے نہیں پہنچ سکی ہیں، جس کے باعث بے پناہ وسائل والا یہ صوبہ ، ابھی تک پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ زندگی کی بنیادی ضروریات تک کا مہیا نہ ہونا، ایک المیے سے کم نہیں ۔ عام شہری کے لیے، نہ تو سر ڈھانپنے کے لیے معقول چھت ہے ، نہ ہی تن ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس اور نہ ہی جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے متوازن خوراک ۔ تعلیم و صحت کی سہولیات کی تو اور بھی بری حالت ہے۔ دور دور تک ہسپتال اور مستند ڈاکٹر زتو کجا’ تعلیم یافتہ ڈسپنسر تک نہیں ملتے ۔ جب شب و روز یوں تلخ ہوں، تو احساس محرومی اور بد گمانیاں پیدا ہو ہی جایاکرتی ہیں ۔ اس ماحول میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور نفرتوں کا لاوابننا شروع ہوجا تا ہے۔بدقسمتی سے بلوچستان میں یہ لاوا موجود ہے اور دن بدن پک رہا ہے۔اب تو کہیں کہیں سے یہ لاوا پھوٹنا بھی شروع ہو چکا ہے۔ غربت ۔ بے روزگاری ۔ جہالت ۔ اظہارِ رائے پر پابندی ۔ ضمیر پر پہرے۔ جبر کا نظام اور اغیار کی سازشیں ، احساسِ محرومی کو ایک نئی شکل دے رہی ہیں یعنی ہر آنے والا دن بلوچستان میں علیحدگی پسندی کے رحجان میں اضافہ کر رہا ہے۔
بلوچستان کے عوام کواچھّی طرح سے علم ہے کہ اُن کی بقا اور ترقی پاکستان کے اندر ہے ، باہر نہیں ۔ ایک سے زیادہ بار وہ اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہاں علیحدگی پسندی کی تحریک پنپ رہی ہے ۔ قیام پاکستان کی تحریک میں بلوچستان کے لوگوں کا کردار ، کسی بھی دوسرے علاقے کے لوگوں سے کسی طور کم نہیں ۔ نظریہ پاکستان سے وابستگی اور اسلام سے محبت کرنے میں بھی یہ لوگ کسی سے کم نہیں ’تو پھر آخر وہ کون سے عوامل ہیں کہ ایسے صوبے میں نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔
ہمارے نزدیک یہ عوامل درج ذیل ہیں۔
۱۔ جمہوری آزادیوں کا فقدان۔
۲۔ غیر عادلانہ نظام حکمرانی۔
۳۔ ترقیاتی منصوبوں پر عدم توجہی۔
ان میں سے ہر ایک عامل تفصیلی گفتگو کا طالب ہے لیکن سردست اس تفصیل کو ہم نظر انداز کررہے ہیں ۔ اگر یہ طے ہو جائے کہ ان عوامل سے فائدہ اٹھا کر ، چند نادیدہ قوتیں اپنے آپ کو علیحدگی پسندی پر مجتمع کرکے ، تخریب کاری اور فساد پیدا کر رہی ہیں۔ یہ نادیدہ قوتیں ،وہ اندرونی اور بیرونی عناصر ہیں، جو کسی جگہ کے اندرونی مسائل کا ہواکھڑ ا کر کے ، عوام الناس میں بے چینی اوراضطراب پیدا کرتے ، انہیں علیحدگی پسندی پر ابھارتے اور پُرتشدد کارروائیوں کو منظم کرتے ہیں۔ ایسے عناصر نے آج کے منظر نامے میں ، بلوچستان پر یلغار کر رکھی ہے۔
اگر یہ طے ہو جائے کہ ان عناصر کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟اور دوسر ا یہ کہ وہ کون ہیں جنہیں پاکستان کی ترقی اور مسلمان عوام کی خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی تو بلوچستان کے مسئلے کا پائدار حل نکل سکتا ہے۔
بلوچستان کی طویل سرحد دو برادر اسلامی ملکوں ایران اور افغانستان سے ملتی ہے بلوچستان میں ہونے والی تخریب کاری کے مراکز کا شک ان برادر اسلامی ملکوں پر کیا جائے گا۔ابھی حال ہی میں ، گورنر بلوچستان نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں واضح طور پر کہا ہے کہ بلوچستان میں تخریب کاری کے لیے پچاس کروڑ روپے مالیت کا جدید اسلحہ افغانستان سے سمگل کر کے لایا گیا ہے۔ اس سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ صوبہ میں حالیہ تشدد کے پیچھے بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا لازماً حصہ ہے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ ہمارا زیرک دشمن ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہ رہا ہے۔ان نادیدہ تشدد پسند قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ، ہم جہاں اُن اسباب و عوامل کو ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہیں حکومت ِ وقت نے جس آہنی ہاتھ سے ان قوتوں سے نبٹنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس کی بھی تائید کرتے ہیں۔ ملک کی بقاء کو جب چیلنج کیا جائے گا، تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے عناصر سے سختی سے پیش آئے۔
اپنے حقوق کے لیے پرامن راستوں اور عدم تشدد کی راہوں کے ہم حامی ہیں لیکن بدقسمتی سے عوام کے جائز حقوق کی بازیابی کے نام پر، بلوچستان میں جو پرتشدد کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور قومی تنصیبات کو جس طرح نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اس کی کسی طور تائید نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے حکومتِ وقت نے قومی تنصیبات کے تحفظ کے لیے ، جس عزم کا اظہار کیا ہے اور پرتشدد کارروائیاں کرنے والے ، مسلح گروپوں سے جس طرح نبٹنے کا عزم کیا ہے، اس پر ہم اس کی تحسین کرتے ہیں۔
موجودہ فوجی حکومت نے ، جیوپولیٹیکل حالات کا کماحقہ ٗ ادراک کرتے ہوئے بلوچستان میں چند بڑے بڑے ترقیاتی پروجیکٹس کا آغاز کیا ہے۔ یہ میگا پروجیکٹس نہ صرف بلوچستان کے عوام کی خوش حالی کے ضامن ہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت کو بھی سہارا دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ان بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں سب سے اہم منصوبہ گوادر پورٹ کی تعمیر ہے۔ بلوچستان کے پاس ایک بہت بڑا ساحل ہے جس سے ماضی میں فائدہ نہ اُٹھایا جا سکا۔ یہ ایک قومی منصوبہ ہے۔ اس کے ثمرات اور اس سے فوائد بین الاقوامی طور پر ملنے والے ہیں۔ اس کی تعمیر میں ممکن ہے کہ مقامی لوگوں کے مفادات کو کسی درجے میں ٹھیس پہنچ رہی ہو، عین ممکن ہے کہ اس منصوبہ کی جزئی تفصیلات میں مقامی لوگوں کو اختلافات بھی ہوں، لیکن بہ حیثیت مجموعی یہ منصوبہ بلوچستان کے لوگوں کی خوش حالی کا منصوبہ ہے۔ اس سے لاکھوں کے حساب سے روزگار پیدا ہونے کے مواقع ہیں ۔ اس لیے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اس کی تعمیر وترقی کے لیے تمام تر سہولتیں مہیا کرنا موجودہ حکومت کی ترجیح اوّل ہے اور ہونی بھی چاہیے۔اسی طرح کا ایک اور منصوبہ ، جوپایہ تکمیل کو پہنچا چاہتا ہے ، کوسٹل ہائی وے کی تعمیر ہے۔ یہ بھی بلاشبہ عظیم الجثہ اور کثیر الفوائد منصوبہ ہے ۔ اس کے تحت ، نہ جانے کتنے اور چھوٹے بڑے منصوبے قائم ہونگے اور روزگار کے وسیع امکانات پیدا ہوں گے۔ ان کے علاوہ میرانی ڈیم، کچھی کینال، سبک زئی ڈیم، صاف پانی مہیا کرنے کی کئی اسکیمیں ، پٹ فیڈر کینال، ژوب ڈیرہ روڈ وغیرہ وغیرہ، ایسے منصوبے ہیں جو مستقبل قریب میں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے لیے خوشحالی کی نوید لانے والے ہیں۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت کا مطلب سوائے ملک دشمنی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان منصوبوں کی مخالفت کون کر رہا ہے ؟ اور کیوں کر رہا ہے؟
یہ تو عین ممکن ہے کہ کوئی دشمن ، ترقی اور خوشحالی کے ان منصوبوں کو سبو تاژکرنا چاہتا ہو لیکن حکومت وقت کا یہ دعویٰ تسلیم کرنابہرحال مشکل ہے کہ کوئی بلوچ قوم پرست ان کا مخالف ہو سکتا ہے۔ انھیں ان منصوبوں سے جو شکایات ہیں ، یا جن خدشات کا وہ اظہار کرتے ہیں ان کی نوعیت دوسری ہے’ ان کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا چاہیے۔ قوم پرستی کوئی جرم نہیں ۔اپنے حقوق کی بات کرنا اور اپنے عوام کی بہتری کے لیے سوچ بچار کرنا، کسی طور بھی غداری نہیں ہے ۔ بدقسمتی سے ارباب ِ اقتدار اتنا حوصلہ نہیں رکھتے ہوتے کہ وہ اپنے خلاف اُٹھنے والی کسی آواز کو گوشِ ہو ش سے سُن سکیں۔ وطنِ عزیز میں یہ جو روایت رہی ہے کہ قوم پرستوں اور اپنے عوام کے حقوق کی بات کرنے والوں کو غدار کہا جاتا رہا ہے، اسے اب ختم ہونا چاہیے۔ بلاشبہ ، حدسے بڑھا ہوا قوم پرستی کا جذبہ ، غداری کی سرحد تک جا پہنچتا ہے ، لیکن اگر اس کو حکمت ’ دانائی اور خلوص و ہمدردی سے نبٹایا جائے تو یہی جذبہ مثبت رخ اختیار کرکے قومی کارکردگی میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔
بلوچستان میں، اضطراب کی حالیہ لہر اور پرتشدد کارروائیاں اس وقت شروع ہوئیں جب سوئی کے علاقے میں رات کو ایک محترم لیڈی ڈاکٹر کے گھر چند ناعاقبت اندیش لوگوں نے دھاوا بولا۔ اس کی تفصیلات تو قومی اخبارات میں آچکی ہیں اور یہ کہ اس پر معمول کی قانونی کارروائی بھی جاری ہے، اس لیے ہم مزید کچھ عرض کرنے سے قاصر ہیں لیکن اس پر افسوس کا اظہار ضرور کرتے ہیں اورجن بدترین جسمانی ، نفسیاتی حالات میں وہ ڈال دی گئی ہیں۔اس پران سے اظہار ہمدردی بھی کرتے ہیں۔اور جس صبرو تحمل سے وہ اوران کا خاندان ان حالات کو برداشت کر رہے ہیں اس پر انھیں ہدیہ تبریک بھی پیش کرتے ہیں۔ اوّل تو یہ واقعہ ہی بہت اشتعال انگیز تھا دوسرے اس کے ملزموں کو گرفتار کرنے میں حکومت کی طرف سے جس روایتی سُستی اور سہل انگاری کا مظاہرہ کیا گیا ہے ، اُس سے بھی بلوچ قوم کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے ۔ یہ عزت اور غیرتِ قومی کا معاملہ ہے۔ اس کی نوعیت ہر دوسرے جھگڑے اور معاملے سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک تسلّی بخش طریقے سے اس معاملہ کو نبٹایا نہیں جا رہا۔بدقسمتی سے ، اس شرمناک واقعے کی ذمہ داری فوج کے ایک افسر پر ڈالی جا رہی ہے۔ اس مذکورہ فوجی افسر کا تعلق صوبہ پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔ مبینہ طور پر وہ ایک ڈی سی او کا بھائی اور کچھ فوجی افسران کا رشتہ دار ہے۔ یہ سب عوامل اس کی فوری گرفتاری میں رکاوٹ بنے جس سے بلوچوں کے غم اور غصے میں اضافہ ہوا اور یوں یہ معاملہ ایک سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ ان حالات میں بلوچوں کا اشتعال میں آجانا اور پرتشدد تخریبی کارروائیاں کر گزرنا بالکل قابل ِ فہم ہے۔ اس لیے حکومت کے ذمہ دار حلقوں سے جہاں جہاں کوتاہی ہوئی ہے ان پر گرفت کیا جانا بھی ضروری ہے۔
حالات بڑے پرسکون اندا ز سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ بلوچوں کے دیرینہ مطالبات پر پارلیمانی کمیٹی بڑے اخلاص سے کام کر رہی تھی، کہ اس واقعہ نے اور اس پر حکومتی روایتی سستی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وہ آگ لگی کہ جو اب ہزار قربانیوں کے بعد ہی شاید بجھائی جا سکے ۔ زور آور کے سامنے ہمارا قانون جس طرح بے بس ہو جاتا ہے، اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔یہ بیماری صرف بلوچستان میں نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی روایتی سستی صرف شازیہ صاحبہ کے معاملہ میں رونما ہوئی ہے۔بلکہ بڑے آدمی کا قانون سے بالاتر ہونا ، بدقسمتی سے ملک بھر کی بیماری بلکہ کلچر بن چکا ہے۔
لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ ظلم کے ردعمل میں ، بلوچستان میں جو پرتشدد تخریبی کارروائیاں شروع ہوئی ہیں ان میں بلوچستان لبریشن آرمی کا نام بھی سننے میں آ رہا ہے۔ اگرچہ بلوچستان کی آزادی کے نعرے اور بلوچستان لبریشن آرمی کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جب اس طرح کا نام پریس میں آجاتا ہے اور وہ چند ایک پرتشدد تخریبی کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو بات خاصی آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ایسی نادیدہ قوتوں سے مقابلہ کرنے میں سیاسی حکمت و بصیرت پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
ارباب ِ اختیار سے ہم گزارش کریں گے کہ قوم پرستوں کے مطالبات کو ہمدردی اور اخلاص سے سنیں اور اس سے پہلے کہ وہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں کھلونا بن جائیں، آپ انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں۔
حکومت اور بلوچ رہنماؤں کو یہ بات پوری دیانتداری سے سمجھ لینی چاہیے کہ طاقت کے استعمال سے، اس طرح کے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ بجائے سلجھنے کے اُلجھ جاتے ہیں۔ دیرپا اور مستقل حل ہمیشہ مذاکرات اور باہمی افہام و تفہیم ہی سے سامنے آتاہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ معاملات اسی رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔جب تک وطن ِ عزیز میں قانون کی حکومت قائم نہیں ہوتی ’آئین کو بالادستی حاصل نہیں ہوتی اور جمہوری آزادیاں حقیقی معنوں میں اپنا کام نہیں کرتیں، اس طرح کے تخریبی اور بغاوتی مظاہرے ہوتے رہیں گے ۔قوموں کے طرزِ عمل میں ، آئین کی جو اہمیت ہے اور ملکوں کے استحکام میں کاغذ کی یہ دستاویز جو کردار ادا کرتی ہے ، افسوس ہے کہ اس کی اہمیت سے ہمارا مقتدر طبقہ کما حقہ آگا ہ نہیں ہے حکومتی پارٹی کے سربراہ جناب چوہدری شجاعت حسین صاحب جو آئینی ترامیم کا پیکج لارہے ہیں اس کے حسن و قبح پر تو بعد میں بات ہوگی یہاں ہم اُن سے صرف یہ عرض کریں گے کہ وہ پہلے کاغذ کے اس پرزے کا تقدس بحال کروا کے مقتدر قوتوں کو آئین کا احترام کرنا سکھائیں ،پھر ہی کہیں جاکر یہ پیکج اپنا کردار ادا کر سکے گا۔
اب آخر میں ہم کچھ تجاویز قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جس سے بلوچستان کے مسئلے کے حل کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔
۱۔ اگرچہ یہ معلوم ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بڑا قدیم ہے۔ لیکن حالیہ پر تشدد واقعات لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ سلوک کے بعدشروع ہوئے ۔ گویا اس واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو موجودہ تخریبی کار روائیاں نہ ہوتیں۔ پھر بھی فوری طور پر اس کیس کو انصاف کے اعلیٰ پیمانوں پر نبٹایا جانا ضروری ہے۔ اس معاملے میں اگر واقعی شفاف کارروائی روبہ عمل لائی جائے اور انصاف ہوتا دکھائی دے تو یقینا موجودہ آگ بجھانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس لیے اس کیس کے بڑے ملزموں کو فوری طور پر گرفتار کیا جانا ضروری ہے۔ اگرچہ مظلومہ کو انصاف دلانے میں خاصی تاخیر ہو چکی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ معاملے کو سلجھایا جا سکے۔
۲۔ ملک کے طول و عرض میں فوجی چھاؤنیاں قائم کرنا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے۔حکومت نے اگر بلوچستان میں کسی جگہ پر مستقل چھاؤنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو بڑا احسن فیصلہ ہے ۔ عام حالات میں ہم اس کی تائید کر تے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ پیچیدہ صورتحال میں اگر سر دست یہ فیصلہ ملتوی کر دیا جائے تو زیادہ احسن ہوگا۔
۳۔ بلوچستان میں علیحدگی کی جو تحریک چل رہی ہے اس کی جڑیں نہ تو عوام میں ہیں اور نہ ہی ابھی تک اسے کوئی خاطر خواہ عوامی حمایت حاصل ہو سکی ہے۔ اس لیے ہم ارباب ِاقتدار سے گزارش کریں گے کہ وہ بلوچستان کے عوام سے براہِ راست رابطہ کریں۔ صدر ِ محترم،وزیر اعظم صاحب، وزرا کرام، پنجا ب کے حکمران اور حکومتی پارٹی کے قائدین بلوچستان کے دورے کریں اور جلسہ ہائے عام کے ذریعے عام شہری کو مخاطب کریں۔ ان کے پاس جاکر ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور موقع پر ان کو حل کریں۔ آپ وہاں جائیں گے تو آپ کو ان کی مشکلات کا احساس ہوگا۔
۴۔ حکومت نے تو اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کیاہے ہی، ہمیں افسوس ہے کہ ایم ۔ایم ۔اے اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ابھی تک اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی خاطر خواہ اجتماعی کوشش نہیں کی۔ خصوصاً اب جب کہ ایم۔ ایم ۔اے بلوچستان کی حکومت میں بھی شامل ہے تو یہ اس کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر لیتی۔ ہم ایم ۔ایم۔اے کے قائدین سے گزارش کریں گے کہ وہ فوری طور پر اپنی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں طلب کریں اور بلوچستان میں اٹھنے والی اس تحریک پر غور کریں اور اس سے نبٹنے کے لیے اقدامات تجویز کریں اور اپنے حصے کی ذمہ داری کو دلجمعی سے اداکریں۔
۵۔ حکومتِ وقت کی پارلیمانی کمیٹی ابھی تک اپنی سفارشات کو حتمی صورت نہیں دے سکی۔ اسے جلد از جلد اپنے کام کو نبٹانا چاہیے۔ اس سلسلے میں آئینی ترامیم کی بات کی جارہی ہے۔ اس موقع پر ہم گزارش کریں گے کہ سفارشات پیش کرتے وقت صرف صوبہ بلوچستان ہی نہیں دیگر صوبوں کی شکایات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان دیرینہ جنگ کو اب ختم ہونا چاہیے اور بین الصوبائی نزاعی معاملات کا مستقل آئینی حل نکالنا چاہیے۔
۶۔ اب جب کہ دستور میں صوبائی شکایات کا جائزہ لیا جارہا ہے تو اس موقع پر ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ موجودہ صوبوں کی مزید انتظامی تقسیم کر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، ہماری بہت سی مشکلات کا باعث انگریزوں کی طرف سے کی جانے والی یہ موجودہ صوبائی حد بندیاں بھی ہیں جو انھوں نے اپنے مفاد اور ضرورت کے تحت کی تھیں۔ ہماری رائے میں چھوٹے انتظامی یونٹ عوام کی سہولت کا باعث ہوں گے۔
۷۔ آخر میں ،لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ فریقین اپنے اندر مسئلے کو حل کرنے کے لیے اخلاص پیدا کریں۔ اگر دلوں میں بُعد اور ذہنوں میں منافرت بھری ہو تو اوپر کے سطحی اقدامات اور محض زبانی دعووں سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔