‘‘تم نے اس سال ٹانگوں کی زکوٰۃ دی’’ میرے دوست نے عجیب سوال پوچھا، میں پریشان ہوکر رک گیا، سامنے اسلام آباد کا خوب صورت شہر بکھرا پڑا تھا،شام دھیرے دھیرے کھڑکیوں میں اتر رہی تھی، پہاڑ کی ہریالی میں برسات کی خوشبو رچی تھی، ہم چند لمحے پہلے پہاڑی ٹریک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ وہ مجھے ہالینڈ کی شاموں کے قصے سنا رہا تھا۔ وہ ایک ہفتہ پہلے گرمی کی چھٹیاں گزار کر لوٹا تھا، شام بھی خوبصورت تھی، منظر بھی لاجواب تھا اور گفتگو بھی زندگی سے بھر پورتھی لیکن چلتے چلتے نہ جانے اس کے دل میں کیا آیا، وہ رکا اور اس نے یہ لایعنی سوال داغ دیا، میری خاموشی میں حیرت بھی تھی اور پریشانی بھی، میرے دوست نے خوشبودار نفیس دلپذیر چھڑی سے جوتے کی نوک کریدی اور ہنس کر بولا:‘‘اچھا پھر تم نے اپنے بازوؤں، ہاتھوں،آنکھوں، کانوں اور زبان کا ٹیکس دے ہی دیا ہوگا۔’’میری پریشانی خوف میں بدل گئی، مجھے محسوس ہوا، میرے دوست کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کا دماغ بلندی پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، میں نے ڈرے ہوئے پرندے کی طرح آگے پیچھے دیکھا، دور دور تک کوئی بندہ بشر نہیں تھا ، صرف پہاڑ تھا ، جھاڑیاں تھیں،نیچے پہاڑ کے قدموں میں شہر تھا، وہ تھا اور میں تھا ۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں کرنٹ سا سرکنے لگا، مجھے لگا، وہ میری گردن دبوچے گااور مجھے مار کر کسی جھاڑی میں پھینک دے گا۔ وہ میری کیفیت بھانپ گیا، اس نے قہقہہ لگایا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ میں بھی ذرافاصلہ رکھ کر چل پڑا‘‘تین سال پہلے’’ اس کی آواز نشیب میں لڑکھڑاتی چٹان کی طرح میری سماعت سے ٹکرائی۔ ‘‘تین سال پہلے جب ایک شخص نے مجھ سے یہ سوال پوچھا تو میرے بھی یہی احساسات تھے لیکن غور کِیا تو میں نے جانا پاگل تو مَیں اس سوال سے پہلے تھا، تم بھی اسی نتیجے پر پہنچوگے۔’’میرا شک حقیقت میں بدل گیا، مجھے یقین ہوگیا، میرا دوست حقیقتاً پاگل ہوچکا ہے، میں نے زندگی میں اس کے منہ سے ایسی لا یعنی اور بے سرو پا باتیں نہیں سنی تھیں۔ وہ بولا دیکھو ہم معاشرتی زندگی میں جو کچھ کماتے ہیں حکومت اس میں سے حصہ وصول کرتی ہے، یہ حصہ وہ ماحول کو پہلے سے بہتر، پہلے سے زیادہ سازگار بنانے پر صرف کرتی ہے تا کہ ہم مزید کما سکیں زیادہ بہتر زندگی گزار سکیں،حکومت کے اس حصے کو ہم ٹیکس کہتے ہیں۔ مذہب بھی ہماری سالانہ بچتوں ، ہماری کمائیوں میں سے کچھ حصہ طلب کرتاہے اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔ ہم ہر سال ٹیکس دیتے ہیں، زکوٰۃ نکالتے ہیں، یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی، میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟’’ اس نے رک کر تصدیق چاہی، مجھے اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی وحشت نظر آئی، میں نے فوراً ہاں میں سر ہلادیا، وہ ہنسا، چھڑی کو تلوار کی طرح ہوا میں لہرایا اور آگے چل پڑا۔ ہم اپنا اصل فرض، اپنی اصل ذمہ داری بھول جاتے ہیں مجھے اس کی آواز جھاڑیوں سے الجھتی محسوس ہوئی ۔ہماری ٹانگیں ہیں ، یہ قدرت کا معجزہ ہیں، بہت بڑاانعام، بہت بڑی نوازش ہیں،میں نے لوگوں کو ٹانگوں کے بغیر بھی زندگی گزارتے دیکھا ہے، یقین کرو اس زندگی کو زندگی اور انسانوں کو انسان کہتے ہوئے دل دکھ سے اور لفظ خون سے بھر جاتے ہیں،ہمارے بازوہیں، ہماری زندگی کا آدھا گلاس ان کے بغیر خالی ہے، ہاتھ ہیں، ہم ان کے بغیر زندگی کو زندگی نہیں کہہ سکتے۔ذرا سوچو جو شخص انگلیوں سے برف کی ٹھنڈک اور گرم کپ کی حدت محسوس نہیں کر سکتا، اس کی زندگی کتنی ادھوری، کتنی نامکمل ہے، ہماری آنکھیں ہیں، دیکھو اس پہاڑ کی چوٹی سے شہر پر اترتی شام تک قدرت کے کتنے ہزار رنگ، کتنے لاکھ عکس ہیں، زندگی ان عکسوں، ان رنگوں کے بغیر مکمل سمجھی جا سکتی ہے؟ نہیں میں جب تک اپنی بیٹی کی آنکھوں میں تیرتی چمک نہ دیکھ لوں ، مجھے اپنے ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا، پھولوں کے رنگ، برسات کی اڑتی پھوار، کروٹیں بدلتا آسمان اور جھیلوں میں لرزتے کانپتے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے دائرے ہی میرے لیے زندگی ہیں۔ یہ آنکھیں نہ ہوں تو ہاتھوں کو رنگ ٹٹولنے پڑیں، چڑھتے سورج اور گہری ہوتی شام کے معانی ایک ہو جائیں، ایک گھنٹے میں بارہ کھرب چالیس ارب اسی کروڑ بہتر لاکھ شعاعیں پھینکنے والا سورج دوملی لیٹر کی پتلی میں غروب ہوجائے۔ ہمارے کان ہیں، ذرا سنو، تمہارے کان پہاڑ کی سرگوشیاں سن رہے ہیں، پتوں کی پازیب تم سے کچھ کہہ رہی ہے، وہ دیکھو ڈیزی کے پھول سے تتلی اڑی، اس کے پروں کی سرسراہٹ سنو،اس سر سراہٹ میں زندگی ہے، نیچے پہاڑ کے قدموں میں بہتے شہر سے آوازیں اٹھ اٹھ کر تم تک پہنچ رہی ہیں، ذرا سوچو ایک لمحے کے لیے سوچو، یہ ساری آوازیں گونگی ہوجائیں، تمہارے کان پتھر ہوجائیں، تم کچھ نہ سن سکو، تمہیں پانی نظر تو آئے، اس کے وجود سے اڑتی جھاگ دکھائی دے لیکن تم اس کی آواز نہ سن سکو تو تمہاری زندگی کتنی بہری ، کتنی گونگی ہو۔ ادھورا ہونے کا شدید احساس کہاں کہاں تمہارا راستہ روکے، لوگ تمہیں آواز کی بجائے ہاتھ لگا کر متوجہ کریں اور تم ٹھوکروں ، ٹکروں اور ٹھڈوں کو آوازیں سمجھو اور ہماری زبان ہے، یہ زبان ہماری سوچ، ہمارے خیال کو خدو خال دیتی ہے۔ انہیں ملکوتی حسن، انہیں بدن، انہیں جسم فراہم کرتی ہے، انہیں لفظوں ،تشبیہوں اور استعاروں کا لباس دیتی ہے، یہ زبان نہ ہو تو لفظ نہ ہوں ، لفظ نہ ہوں تو خیال کہیں سوچ کی گھاٹیوں ہی میں دم توڑ دیں، نہ میں تمہیں کچھ کہہ سکوں اور نہ تم مجھے کچھ کہہ سکو۔’’ وہ خاموش ہوگیا۔
میں اس کے خیالات کی روانی میں بہتا جارہا تھا۔ ‘‘میرے دوست! یہ ٹانگیں، یہ بازو، یہ ہاتھ، یہ آنکھیں، یہ کان، اور یہ زبان ہمارا اصل ریزرو بنک ہیں ہماری زندگی کی ساری کمائی، ہماری ساری پونجی اسی میں جمع ہے، اس میں سے کوئی ایک لاکر ہمیشہ کے لیے لاک ہو جائے تو ہماری پونجی، ہماری کمائی ضائع ہو جائے۔ ہم کنگا ل ہو جائیں، قلاش اور مفلس ہو جائیں۔غریب وہ نہیں ہوتا جس کے پاس زادِراہ نہیں ہوتا، غریب وہ ہوتا ہے جس کے پاس پاؤں نہیں ہوتے، اپنے ان پاؤں،ان بازوؤں اور ان آنکھوں کا ٹیکس دو، ان کی زکوٰۃ نکالو، اگر نہ نکالی تو قدرت یہ ٹیکس، یہ زکوٰۃ اسی طرح وصول کرے گی جس طرح حکومتیں قرقی کے ذریعے وصول کیا کرتی ہیں ۔’’ وہ خاموش ہوگیا ۔ ‘‘یہ زکوٰۃ کیسے دی جاتی ہے؟’’میں نے پہلی بار سوال کیا۔‘‘ہاں’’ اس نے چھڑی گھمائی ۔ سال میں ایک وہیل چیئر، لکڑی کی ایک ٹانگ، ایک بازو، ایک اندھے کی آنکھوں کا آپریشن، ایک آلہ سماعت زندگی کے اس ریزرو بنک کی زکوٰۃ ہے ۔ اور بہت سارا شکر اور ڈھیر ساری توبہ اس کی کمائی، اس پونجی کا صدقہ دو۔ ’’ وہ خاموش ہوا۔ اس نے کچھ سوچااور پھر آہستہ سرد ہوتی آواز میں بولا:‘‘ہم کتنے بے وقوف ہیں جو دنیا میں کماتے ہیں اس کا ٹیکس تو تمام عمر بھرتے رہتے ہیں لیکن جو دولت انعام میں ملتی ہے، جو کچھ ہمیں قدرت عطا کرتی ہے اس کا ہم شکر تک ادا نہیں کرتے،افسوس ہمارے پاس آنکھیں ہیں لیکن ہمیں اندھوں کا اندھا پن دکھائی نہیں دیتا، اپنے مولا کے رنگ نظر نہیں آتے...’’ (بشکریہ جنگ)