شہادت سیدنا حضرت امام حسینؓ

مصنف : مولانا ابوالکلام آزاد

سلسلہ : گوشہ شہداء

شمارہ : فروری 2005

            دنیا میں انسانی عظمت و شہرت کے ساتھ حقیقت کا توازن بہت کم قائم رہ سکا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو شخصیتیں عظمت و تقدس اور قبول و شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہیں، عموماً تاریخ و حقیقت سے زیادہ افسانہ و تخیل کے اندر انھیں ڈھونڈا جاتا ہے۔ اسی لئے فلسفہ تاریخ کے بانی اول ابن خلدون کو یہ قاعدہ بنا دینا پڑا کہ جو واقعہ دنیا میں جس قدر زیادہ مقبول و مشہور ہو گا، اتنی ہی زیادہ افسانہ سرائی اسے اپنے حصار تخیل میں لے لے گی۔ ایک مغربی شاعر گوئٹے نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایہ میں بیان کی ہے وہ کہتا ہے: انسانی عظمت کی حقیقت کی انتہا یہ ہے کہ افسانہ بن جائے۔

            تاریخ اسلام میں حضرت امام حسینؓکی شخصیت جو اہمیت رکھتی ہے محتاج بیان نہیں۔ مگر ان کی شہادت کا واقعہ بھی تاریخ سے کہیں زیادہ افسانہ کی صورت اختیار کر چکا ہے؟ اگر آج ایک جویائے حقیقت چاہے کہ صرف تاریخ اور تاریخ کی محتاط شہادتوں کے اندر اس حادثہ کا مطالعہ کرے، تو اکثر صورتوں میں اسے مایوسی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس وقت جس قدر بھی مقبول اور متداول ذخیرہ اس موضوع پر موجود ہے، وہ زیادہ تو مرثیہ خوانی سے تعلق رکھتا ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ گریہ و بکا کی حالت پیدا کردینی ہے نہ کہ تاریخی حیثیت سے بیانِ واقعات۔ بعض چیزیں جو تاریخ کی شکل میں مرتب ہوئی ہیں، وہ بھی دراصل تاریخ نہیں ہیں۔ مرثیہ خوانی اور مجلس طرازی کے مواد ہی نے ایک دوسری صورت اختیار کر لی ہے۔

            اگر آج جستجو کی جائے کہ دنیا کی کسی زبان میں بھی کوئی ایک کتاب ایسی موجود ہے جو حادثہ کربلا کی ‘‘تاریخ’’ہو تو واقعہ یہ ہے کہ ایک بھی نہیں!

            ذیل میں ہم وفیاتِ مشاہیر عالم میں سے حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے واردات و ہوادث نقل کرتے ہیں۔ یہ حادثہ کربلا کی تاریخ نہیں ہے مگر تمام تاریخی واقعات کا مرتب مجموعہ ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس سلسلہ سے مقصود تاریخی بحث و نظر نہیں ہے، بلکہ مجرد واقعات ِوفات کا اس طرح یکجا کر دینا ہے کہ اس سے ایک مرتب سلسلہ بیان پیدا ہو جائے۔ البتہ واقعات کے تفحص و تحقیق میں پوری کاوش کی گئی ہے۔ شاید اس قدر کاوش و جستجو کے ساتھ ان حالات کا تاریخی مجموعہ دوسری جگہ نہ ملے۔

تمہید:

             یزید بن معاویہؓ پہلے سے ولی عہد مقرر ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ اورسیدنا حسین ؓ سے بھی بیعت کا مطالبہ کیا۔ امیر المومنین حضرت علیؓ نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تھا، اس لیے وہاں اہل بیت کے طرفداروں کی تعداد زیادہ تھی۔ انھوں نے حضرت امام حسینؓ کو لکھا کہ آپؓ تشریف لائیے ہم آپؓ کا ساتھ دیں گے۔ آپؓ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل کو اہل کوفہ سے بیعت لینے کے لیے بھیج دیا اور خود بھی سفر کی تیاری کرنے لگے۔

دوستوں کا مشورہ:

            آپؓ کے دوستوں اور عزیزوں کو معلوم ہوا تو سخت مضطرب ہوئے۔ وہ اہل کوفہ کی بے وفائی اور زمانہ سازی سے واقف تھے۔ انھوں نے اس سفر کی مخالفت کی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے کہا ‘‘لوگ یہ سن کر بہت پریشان ہیں کہ آپؓ عراق جا رہے ہیں۔ مجھے اصلی حقیقت سے آگاہ کیجیے۔’’ حضرت حسینؓ نے جواب دیا۔ ‘‘میں نے عزم کر لیا ہے۔ آج ہی کل میں روانہ ہو تا ہوں۔’’ ابن عباس بے اختیار پکار اٹھے: ‘‘خدا آپؓ کی حفاظت کرے۔ کیا آپؓ ایسے لوگوں میں جا رہے ہیں جنھوں نے اپنے امیر کو بے دست و پا کر دیا ہے، دشمن کو نکال دیا ہے، اور ملک پر قبضہ کر لیا ہے؟ اگر وہ ایسا کر چکے ہیں تو شوق سے تشریف لے جائیے لیکن اگر ایسا نہیں ہوا ہے۔ حاکم بدستور ان کی گردن دبائے بیٹھا ہے۔ اس کے گماشتے برابر اپنی کارستانیاں کر رہے ہیں تو ان کا آپؓ کو بلانا درحقیقت جنگ کی طرف بلانا ہے۔ میں ڈرتا ہوں، وہ آپ ؓ کو دھوکا نہ دیں، اور جب دشمن کو طاقتور دیکھیں تو آپؓ سے لڑنے کے لیے آمادہ نہ ہو جائیں۔ مگر آپؓ اس طرح کی باتوں سے متاثر نہ ہوئے اور اپنے ارادہ پر قائم رہے۔

ابن عباسؓ کا جوش:

            جب روانگی کی گھڑی بالکل قریب آ گئی تو ابن عباسؓ پھر دوڑے آئے۔ ‘‘اے ابن عم’’ انھوں نے منت سے کہا: ‘‘میں خاموش رہنا چاہتا تھا، مگر خاموش رہا نہیں جاتا۔ میں اس راہ میں آپ ؓکی ہلاکت اور بربادی دیکھ رہا ہوں۔ عراق والے، دغاباز ہیں۔ ان کے قریب بھی نہ جائیے۔ یہیں قیام کیجیے، کیونکہ یہاں حجاز میں آپؓ سے بڑا کوئی نہیں ہے۔ اگر عراقی آپؓ کو بلاتے ہیں تو ان سے کہیے پہلے مخالفین کو اپنے علاقے سے نکال دو، پھر مجھے بلاؤ۔ اگر آپؓ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیے وہاں قلعے اور دشوار گزار پہاڑ ہیں۔ ملک کشادہ ہے۔ آبادی عموماً آپؓ کے والد کی خیرخواہ ہے۔ وہاں آپؓ ان لوگوں کے دسترس سے باہر ہوں گے۔ خطوں اور قاصدوں کے ذریعہ اپنی دعوت پھیلائیے گا۔ مجھے یقین ہے ، اس طرح آپؓ کامیاب ہو جائیں گے۔’’

            لیکن حضرت حسینؓ نے جواب دیا: ‘‘اے ابن عم! میں جانتا ہوں تم میرے خیرخواہ ہو۔ لیکن میں اب عزم کر چکا ہوں۔’’

            ابن عباسؓ نے کہا: ‘‘آپؓ نہیں مانتے تو عورتوں اور بچوں کو تو ساتھ نہ لے جائیے مجھے اندیشہ ہے آپؓ ان کی آنکھوں کے سامنے اسی طرح قتل نہ کر ڈالے جائیں جس طرح عثمانؓ بن عفان اپنے گھر والوں کے سامنے قتل کیے گئے تھے۔’’

            تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد حضرت ابن عباسؓ نے جوش میں آ کر کہا:

            ‘‘اگر مجھے یقین ہوتا کہ آپؓ کے بال پکڑ لینے اور لوگوں کو جمع ہونے سے آپؓ رک جائیں گے تو واللہ میں ابھی آپؓ کی پیشانی کے بال پکڑ لوں۔’’ مگر آپؓ پھر بھی اپنے ارادہ پر قائم رہے۔ (ابن جریر)

عبداللہ بن جعفر کا خط:

            اسی طرح اور بھی بہت سے لوگوں نے آپؓ کو سمجھایا۔ آپؓ کے چچیرے بھائی عبداللہ بن جعفر نے مدینہ سے خط بھیجا:

            ‘‘میں آپؓ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہ خط دیکھتے ہی اپنے ارادے سے باز آجائیے۔ کیونکہ اس راہ میں آپؓ کے لیے ہلاکت اور آپؓ کے اہل بیت کے لیے بربادی ہے۔ اگر آپؓ قتل ہو جائیں گے تو زمین کا نور بجھ جائے گا۔ اس وقت ایک آپؓ ہی ہدایت کا نشان اور اربابِ ایمان کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ سفر میں جلدی نہ کیجیے میں آتا ہوں۔’’ (ابن جریر۔ کامل۔ مقتل ابن احنف وغیرذلک)

فرزدق سے ملاقات:

            مکہ سے آپؓ عراق کو روانہ ہوگئے۔ ‘‘صفاح’’ نامی مقام پر مشہور محب اہل بیت شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی۔ آپؓ نے پوچھا ‘‘تیرے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے؟’’ فرزوق نے جواب دیا۔ ‘‘ان کے دل آپؓ کے ساتھ ہیں مگر تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔’’ فرمایا: ‘‘سچ کہتا ہے۔ اب معاملہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ہمارا پروردگار ہر لمحہ کسی نہ کسی حکم فرمائی میں ہے۔ (ابن جریر)

مسلم بن عقیل کے عزیزوں کی ضد:

            زردد نامی مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ آپؓ کے نائب مسلم بن عقیل کو کوفہ میں یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے اعلانیہ قتل کر دیا اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ آپؓ نے سنا تو بار بار انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا شروع کیا۔ بعض ساتھیوں نے کہا۔

            ‘‘اب بھی وقت ہے۔ ہم آپؓ کے اور آپؓ کے اہل بیت کے معاملہ میں آپؓ کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں۔ للہ یہیں سے لوٹ چلئے۔ کوفہ میں آپؓ کا کوئی ایک بھی طرفدار اور مددگار نہیں ہے۔ سب آپؓ کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔’’

            آپؓ خاموش ہو گئے۔مگر مسلم بن عقیل کے عزیزوں نے ضد کیا اور کہا ‘‘واللہ ہم ہرگز نہ ٹلیں گے۔’’ انھوں نے کہا: ‘‘ہم اپنا انتقام لیں گے یا اپنے بھائی کی طرح مر جائیں گے۔’’ اس پر آپؓ نے ساتھیوں کو نظر اٹھا کر دیکھا اور ٹھنڈی سانس لے کر کہا ‘‘ان کے بعد زندگی میں کوئی مزہ نہیں۔’’ (ایضاً)

راستہ میں بھیڑ چھٹ گئی:

            بدوؤں کی ایک بھیڑ آپؓ کے ساتھ ہو گئی۔ یہ سمجھتے تھے کہ کوفہ میں خوب آرام کریں گے۔ آپؓ ان کی حقیقت سے واقف تھے۔ سب کو جمع کرکے خطبہ دیا۔

            ‘‘اے لوگو! ہمیں نہایت دہشت ناک خبریں پہنچی ہیں۔ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن بقطر قتل کر ڈالے گئے ، ہمارے طرفداروں نے بے وفائی کی۔ کوفہ میں ہمارا کوئی مددگار نہیں جو ہمارا ساتھ چھوڑنا چاہے چھوڑ دے۔ ہم ہرگز خفا نہ ہوں گے۔’’

            بھیڑ نے یہ سنا تو دائیں بائیں ہٹنا شروع ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد آپؓ کے گرد وہی آدمی رہ گئے جو مکہ سے ساتھ چلے تھے۔

حربن یزید کی آمد:

            قدسیہ سے جوں ہی آگے بڑھے، عبیداللہ بن زیاد والی عراق کے عامل حصین بن نمیر تمیمی کی طرف سے حر بن یزید ایک ہزار فوج کے ساتھ نمودار ہوا اور ساتھ ہو لیا۔ اس کو حکم تھا کہ حضرت حسینؓ کے ساتھ برابر لگا رہے اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑے ، جب تک انھیں عبیداللہ بن زیاد کے روبرو نہ پہنچا دے۔ اسی اثناء میں نماز کا وقت آگیا۔ آپؓ تہبند باندھے، چادر اوڑھے، نعل پہنے تشریف لائے اور حمد و نعت کے بعد اپنے ساتھیوں اور حر کے سپاہیوں کے سامنے خطبہ دیا:

            ‘‘اے لوگو! اگر تم تقویٰ پر رہو اور حقدار کا حق پہنچانو، تو یہ خدا کی خوشنودی کا موجب ہو گا۔ ہم اہل بیت ان مدعیوں سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں۔ ان لوگوں کا کوئی حق نہیں۔ یہ تم پر ظلم و جور سے حکومت کرتے ہیں۔ لیکن اگر تم ہمیں نا پسند کرو، ہمارا حق نہ پہچانو، اور تمھاری رائے اب اس کے خلاف ہو گئی ہو، جو تم نے مجھے اپنے خطوط میں لکھی اور قاصدوں کی زبانی پہنچائی تھی، تو میں واپس چلے جانے کے لیے بخوشی تیار ہوں۔’’

اہل کوفہ کے خطوط:

            اس پر حر نے کہا ‘‘آپؓ کن خطوں کا ذکر کرتے ہیں؟ ہمیں ایسے خطوں کا کوئی علم نہیں۔’’ آپؓ نے عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ وہ دونوں تھیلے نکال لائے جن میں کوفہ والوں کے خط بھرے ہیں۔ عقبہ نے تھیلے انڈیل کر خطوں کا ڈھیر لگا دیا۔ اس پر حر نے کہا ‘‘لیکن ہم وہ نہیں جنھوں نے یہ خط لکھے تھے ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ آپؓ کو عبیداللہ بن زیاد تک پہنچا کے چھوڑیں’’ حضرت امامؓ نے فرمایا ‘‘لیکن یہ موت سے پہلے ناممکن ہے۔’’

             جب گفتگو زیادہ بڑھ گئی تو حر نے کہا ‘‘مجھے آپؓ سے لڑنے کا حکم نہیں ملا ہے۔ مجھے صرف یہ حکم ملا ہے کہ آپؓ کا ساتھ نہ چھوڑوں یہاں تک کہ آپؓ کو کوفہ پہنچا دوں۔ اگر آپؓ اسے منظور نہیں کرتے تو ایسا راستہ اختیار کریں جو کوفہ جاتا ہو نہ مدینہ۔ میں ابن زیاد کو لکھتا ہوں۔ آپؓ اگر پسند کریں تو خود بھی یزید یا عبیداللہ کو لکھئے۔ شاید خدا میرے لیے کوئی مخلصی کی صورت پیدا کر دے، اور آپؓ کے معاملہ میں امتحان سے بچ جاؤں۔’’ یہ بات آپؓ نے منظور کر لی اور روانہ ہوئے۔(ابن جریراور کامل وغیرہ)

کربلا میں ورود:

            آخر آپؓ ایک اجاڑ سرزمین پر پہنچ کر اتر پڑے۔ پوچھا‘‘اس سرزمین کا نام کیا ہے؟’’ معلوم ہوا ‘‘کربلا’’ آپؓ نے فرمایا ‘‘یہ کرب اور بلا ہے!’’ یہ مقام پانی سے دور تھا۔ دریا میں اور اس میں ایک پہاڑی حائل تھی۔ (الامتہ والسیاسہ) یہ واقعہ ۲ محرم ۲۱ ہجری کا ہے۔

عمر بن سعد کی آمد:

            دوسرے دن عمر بن سعد کوفہ والوں کی ۴ ہزار فوج لے کر آپہنچا۔ عبیداللہ بن زیاد نے عمر کو زبردستی بھیجا تھا۔ عمرو کی خواہش تھی کہ کسی طرح اس امتحان سے بچ نکلے اور معاملہ رفع دفع ہوجائے۔ اس نے آتے ہی حضرت حسینؓ کے پاس قاصد بھیجا اور دریافت کیا، آپؓ کیوں تشریف لائے ہیں؟ آپؓ نے وہی جواب دیا جو حر بن یزید کو دے چکے تھے: ‘‘تمھارے اس شہر کے لوگوں ہی نے مجھے بلایا تھا۔ اب اگر وہ مجھے ناپسند کرتے ہیں تو میں لوٹ جانے کے لیے تیار ہوں۔’’

            عمر بن سعد کو اس جواب سے خوشی ہوئی اور امید بندھی کہ یہ مصیبت ٹل جائے گی۔ چنانچہ فوراً عبیداللہ بن زیادکو خط لکھا۔

اس کے بعدبھی تین چار مرتبہ باہم ملاقاتیں ہوئیں آپؓ نے تین صورتیں پیش کیں:

(۱)       مجھے وہیں لوٹ جانے دو جہاں سے میں آیا ہوں۔

(۲)       مجھے خود یزید سے اپنا معاملہ طے کر لینے دو۔

(۳)      مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر بھیج دو۔ وہاں کے لوگوں پر جو گزرتی ہے وہ مجھ پر گزرے گی۔’’

عمر کا خط:

            بار بار کی گفتگو کے بعد عمر بن سعد نے ابن زیاد کو پھر لکھا:

            ‘‘خدا نے فتنہ ٹھنڈا کر دیا۔ پھوٹ دور کر دی۔ اتفاق پیدا کر دیا۔ امت کا معاملہ درست کر دیا۔ حسینؓ مجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک کے لیے تیار ہیں …… اس میں تمھارے لیے بھی بھلائی ہے اور امت کے لیے بھی بھلائی ہے۔’’

شمر کی مخالفت:

            ابن زیاد نے خط پڑھا تو متاثر ہو گیا۔ عمر بن سعد کی تعریف کی اور کہا ‘‘میں نے منظور کیا’’ مگر شمر بن زی الجوشن نے مخالفت کی اور کہا ‘‘اب کہ حسینؓ قبضہ میں آ چکے ہیں اگر بغیر آپؓ کی اطاعت کے نکل گئے ، تو عجب نہیں عزت و قوت حاصل کر لیں اور آپؓ کمزور و عاجز قرار پائیں۔ بہتر یہی ہے کہ اب انھیں قابو سے نکلنے نہ دیاجائے۔ جب تک وہ آپؓ کی اطاعت نہ کر لیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حسینؓ اور عمر باہم رات رات بھر سرگوشیاں کیا کرتے ہیں۔

ابن زیاد کا جواب:

            ابن زیاد نے یہ رائے پسند کر لی اور شمر کو خط دے کر بھیجا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ اگر حسینؓ مع اپنے ساتھیوں کے اپنے آپؓ کو ہمارے حوالے کر دیں تو لڑائی نہ لڑی جائے۔ لیکن اگر وہ یہ بات منظور نہ کریں تو پھر جنگ کے سوا چارہ نہیں۔ شمر سے کہہ دیا کہ اگر عمر بن سعد نے میرے حکم پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا، جب تو تم اس کی اطاعت کرنا، ورنہ چاہئے کہ اسے ہٹا کر خود فوج کی ریاست اپنے ہاتھ میں لے لینا اور حسینؓ کا سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دینا۔

عشرہ کی صبح:

            جمعہ یا ہفتہ کے دن دسویں محرم کو نماز فجر کے بعد عمر بن سعد اپنی فوج لے کر نکلا۔ حضرت حسینؓ نے بھی اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں ۔ ان کے ساتھ صرف ۳۲ سوار ، ۴۰ پیدل کل ۷۲ آدمی تھے۔

دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے:

            دشمن کا رسالہ آگے بڑھتے دیکھ کر آپؓ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ ‘‘الٰہی ہر مصیبت میں تو ہی میرا بھروسا ہے! ہر سختی میں تو ہی میرا پشت پناہ ہے! کتنی مصیبتیں پڑیں، دل کمزور ہو گیا، تدبیر نے جواب دے دیا، دوست نے بے وفائی کی، دشمن نے خوشیاں منائیں، مگر میں نے صرف تجھی سے التجا کی اور تو نے ہی میری دست گیری کی! تو ہی ہر نعمت کا مالک ہے۔ تو ہی احسان والا ہے۔ آج بھی تجھی سے التجا کی جاتی ہے۔’’ (شرح نہج البلاغہ)

دشمن کے سامنے خطبہ:

            جب دشمن قریب آگیا تو آپؓ نے اونٹنی طلب کی۔ سوار ہوئے۔ قرآن سامنے رکھا ، اور دشمن کی صفوں کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز سے یہ خطبہ دیا:

            ‘‘لوگو! میری بات سنو۔ جلدی نہ کرو۔ مجھے نصیحت کر لینے دو۔ اپنا عذر بیان کرنے دو۔ اپنی آمد کی وجہ کہنے دو۔ اگر میرا عذر معقول ہوا اور تم اسے قبول کر سکو، اور میرے ساتھ انصاف کرو، تو یہ تمھارے لیے خوش نصیبی کا باعث ہو گا اور تم میری مخالفت سے باز آجاؤ گے لیکن اگر سننے کے بعد بھی تم میرا عذر قبول نہ کرو اور انصاف کرنے سے انکار کر دو، تو پھر مجھے کسی بات سے بھی انکار نہیں ہے۔ تم اور تمھارے سارے ساتھی ایکا کرلو، مجھ پر ٹوٹ پڑو، مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو۔ میراا عتمادہر حال میں صرف پروردگار عالم ہے اور وہ نیکوکاروں کا حامی ہے۔’’

            ‘‘لوگو! میرا حسب نسب یاد کرو۔ سوچو میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو۔ خوب غور کرو کیا تمھارے لیے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا روا ہے؟

            کیا میں تمھارے نبیؐ کی لڑکیؓ کا بیٹا ، اس کے عم زادؓ کا بیٹانہیں ہوں؟ کیا سید الشہداء حمزہؓ میرے باپ کے چچا نہیں تھے؟ کیا جعفر طیارؓ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشہور قول نہیں سنا کہ آپؓ میرے اور میرے بھائی کے حق میں فرماتے تھے ‘‘سید الشباب اہل الجنتہ’’ (جنت میں نو عمروں کے سردار)۔

            اگر میرا یہ بیان سچا ہے، اور ضرور سچا ہے کیونکہ واللہ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے لے کر آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ تو بتلاؤ، تمھیں برہنہ تلواروں سے میرا استقبال کرنا چاہیے؟ اگر تم میری بات کا یقین نہیں کرتے تو تم میں ایسے لوگ موجود ہیں جن سے تصدیق کر سکتے ہو۔ جابر بن عبداللہ انصاری سے پوچھو۔ ابو سعید خدری سے پوچھو۔ سہل بن سعد ساعدی سے پوچھو۔ زیدبن ارقم سے پوچھو، انس بن مالک سے پوچھو۔ وہ تمھیں بتائیں گے کہ انھوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہ صلعم کو یہ فرماتے سنا ہے یا نہیں؟ کیا یہ بات بھی تمھیں میرا خون بہانے سے نہیں روک سکتی واللہ اس وقت روئے زمین پر بجز میرے کسی نبی کی لڑکی کا بیٹا موجود نہیں۔ میں تمھارے نبیؐ کا بلاواسطہ نواسا ہوں! کیا تم مجھے اس لیے ہلاک کرنا چاہتے ہو کہ میں نے کسی کی جان لی ہے؟ کسی کا خون بہایا ہے؟ کسی کا مال چھینا ہے؟ کہو کیا بات ہے؟ آخر میرا قصور کیا ہے؟’’

کوفہ والوں کا جواب:

            آپؓ نے بار بار پوچھا مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ آخرآپؓ نے بڑے بڑے کوفیوں کو نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔ ‘‘اے شبث بن ربعی! اے حجار بن ابجر! اے قیس بن الاشعث! اے یزید بن الحارث! کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ ‘‘پھل پک گئے، زمین سرسبز ہو گئی، نہریں ابل پڑیں، آپؓ اگر آئیں گے تو اپنی فوج جرار کے پاس آئیں گے۔ جلد آئیے۔’’ اس پر ان لوگوں کی زبانیں کھلیں، اور انھوں نے کہا: ‘‘ہرگز نہیں، ہم نے تو نہیں لکھا تھا۔’’ آپؓ چلا اٹھے‘‘سبحان اللہ کیا جھوٹ ہے واللہ، تم ہی نے لکھا تھا!’’ اس کے بعد آپؓ نے پکار کر کہا: ‘‘اے لوگو! چونکہ تم اب مجھے نا پسند کرتے ہو اس لیے بہتر ہے مجھے چھوڑ دو، میں یہاں سے واپس چلا جاتا ہوں۔

عام حملہ:

            اب باقاعدہ جنگ جاری ہو گئی۔ طرفین سے ایک ایک دو دو جوان نکلتے تھے اور تلوار کے جوہر دکھاتے تھے۔ حضرت حسین ؓ کے طرفداروں کا پلہ بھاری تھا۔ جو سامنے آتا تھا مارا جاتا تھا۔ میمنہ کے سپہ سالار عمر بن الحجاج نے یہ حالت دیکھی تو پکار اٹھا ‘‘بے وقوفو! پہچان لو کن سے لڑ رہے ہو؟ یہ لوگ جان پر کھیلے ہوئے ہیں۔ تم اسی طرح ایک ایک قتل ہوتے جاؤ گے۔ ایسا نہ کرو۔ یہ مٹھی بھر ہیں۔ پتھروں سے انھیں مار سکتے ہو۔’’ عمر بن سعد نے یہ رائے پسند کی اور حکم دیا کہ مبازرت موقوف کی جائے اور عام حملہ شروع ہو۔ مسلم بن عوسبحہ اس جنگ میں آپؓ کی جانب سے پہلے شہید تھے۔ (ابن جریر کامل)

 بنی ہاشم کے مقتول:

            اسی طرح ایک ایک کرکے اکثر بنی ہاشم اور اہل بیت شہید ہو گئے۔ ان میں سے ذیل کے نام مورخین نے محفوظ رکھے ہیں:

            (۱) محمد بن ابی سعید بن عقیل (۲) عبداللہ بن مسلم بن عقیل (۳) عبداللہ بن عقیل (۴) عبدالرحمن بن عقیل (۵) جعفر بن عقیل (۶) محمد بن عبداللہ بن جعفر (۷) عون بن عبداللہ بن جعفر (۸) عباس بن علی (۹) عبداللہ بن علی (۱۰) عثمان بن علی (۱۱) محمد بن علی (۱۲) ابوبکر بن علی (۱۳) ابوبکربن الحسن (۱۴) عبداللہ بن الحسن (۱۵) قاسم بن الحسن(۱۶) علی بن علی الحسین (۱۷) عبداللہ بن الحسین۔

حضرت حسینؓ کی شجاعت:

            اب آپؓ پر ہر طرف سے نرغہ شروع ہوا۔ آپؓ نے بھی تلوار چلانا شروع کی۔ پیدل فوج پر ٹوٹ پڑے اور تن تنہا اس کے قدم اکھاڑ دیے عبداللہ بن عمار، جو خود اس جنگ میں شریک تھا، روایت کرتا ہے کہ میں نے نیزے سے حضرت حسینؓ پر حملہ کیا اور ان کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ اگر میں چاہتا تو قتل کر سکتا تھا مگر یہ خیال کرکے ہٹ گیا کہ یہ گناہ اپنے سر کیوں لوں۔ میں نے دیکھا دائیں بائیں ہر طرف سے ان پر حملے ہو رہے تھے، لیکن وہ جس طرف مڑ جاتے دشمن کو بھگا دیتے تھے۔ وہ اس وقت کرتہ پہنے اور عمامہ باندھے تھے واللہ میں نے کبھی کسی شکستہ دل کو جس کا گھر خود اس کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو گیا ہو، ایسا شجاع ثابت قدم، مطمئن، اور جری نہیں دیکھا حالت یہ تھی کہ دائیں بائیں سے دشمن اس طرح بھاگ کھڑے ہوتے تھے جس طرح شیر کو دیکھ کر بکریاں بھاگ جاتی ہیں۔

 آخری تنبیہ:

            اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ دشمن اگر چاہتا تو آپؓ کو بہت پہلے قتل کر ڈالتا۔ مگر یہ گناہ کوئی بھی اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن چلایا۔ ‘‘تمھارا برا ہو! کیا انتظار کر رہے ہو؟ کیوں کام تمام نہیں کرتے؟’’اب ہر طرف سے پھر نرغہ ہوا آپؓ نے پکار کر کہا ‘‘کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو’’ واللہ میرے بعد کسی بندے کے قتل پر بھی خدا اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ناخوش ہو گا۔’’

شہادت!

            مگر اب وقت آ چکا تھا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے آپؓ کے بائیں ہاتھ کو زخمی کیا۔ پھر شانے پر تلوار ماری۔ آپؓ کمزوری سے لڑکھڑائے۔ لوگ ہیبت سے پیچھے ہٹے۔ مگر سنان بن انس نحفی نے بڑھ کر نیزہ مار ا اور آپؓ زمین پر گر پڑے۔ اس نے ایک شخص سے کہا ‘‘سر کاٹ لے’’ وہ سر کاٹنے کے لیے لپکا مگر جرأت نہ ہوئی۔سنان بن انس نے دانت پیس کر کہا: ‘‘خدا ترے ہاتھ شل کر ڈالے!’’ پھر جوش سے اترا۔ آپؓ کو ذبح کیا اور سر تن سے جدا کر لیا! جعفر بن محمد بن علی سے مروی ہے کہ قتل کے بعد دیکھا گیا کہ آپؓ کے جسم پر نیزے کے ۳۳ زخم اور تلوار کے ۳۴ گھاؤ تھے! سنان بن انس قاتل کے دماغ میں کسی قدر فتور تھا۔ قتل کے وقت اس کی عجیب حالت تھی جو شخص بھی حضرت کی نعش کے قریب آتا وہ اس پر حملہ آور ہوتا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کوئی دوسرا اس کا سر کاٹ نہ لے جائے۔ قاتل نے سر کاٹ کر خولی بن یزیداصبحی کے حوالہ کیا اور خود عمر بن سعد کے پاس دوڑا گیا۔ خیمہ کے سامنے کھڑا ہو کر چلایا:

او قر رکابی فضت و ذببا

انا قتلت الملک المحجبا

            مجھے چاندی سونے سے لاد دو، میں نے بڑا پادشاہ مارا ہے!

قتلت خیر الناس اما وابا

وخیر ہم اذ مینسبون نسبا

            میں نے اسے قتل کیا ہے جس کے ماں باپ سب سے افضل ہیں اور جو اپنے نسب میں سب سے اچھا ہے۔

            عمر بن سعد نے اسے اندر بلالیا۔ بہت خفا ہوا۔ کہنے لگا۔ ‘‘واللہ تو مجنوں ہے’’ پھر اپنی لکڑی سے اسے مار کر کہا ‘‘پاگل! ایسی بات کہتا ہے۔ بخدا اگر عبیداللہ بن زیاد سنتا تو تجھے ابھی مروا ڈالتا!(ابن جریر)

            حضرت حسینؓ کی شہادت پر بہت سے لوگوں نے مرثیے کہے۔ سلیمان بن قتہ کا مرثیہ بہت زیادہ مشہور ہوا۔

مررت علی ابیات آل محمد

فلم اربا کعھد یا یوم حلت

            میں خاندان محمدؐ کے گھروں کی طرف سے گزرا مگر وہ کبھی ویسے نہ تھے جیسے اس دن جب ان کی حرمت توڑی گئی!

فلا یبعد اللہ الدیار واملھا

وان اصبحت معن املھا وقدتخلت

            خدا ان مکینوں کو دور نہ کرے ! اگرچہ وہ اب اپنے مکینوں سے خالی پڑے ہیں!

وان قتیلا الطف من آل ہاشم

اذل رقاب المسلمین فذلت!

            کربلا میں ہاشمی مقتول کے قتل نے مسلمانوں کی گردنیں ذلیل کر ڈالیں۔

اکانو ارجاء ثم صعا روانزیۃ

فقد عظمت تلک الرزایا وجلت!

            ان مقتولوں سے دنیا کی امیدیں وابستہ تھیں مگر وہ مصیبت بن گئے۔ آہ! یہ مصیبت کتنی بڑی اور کتنی سخت ہے!

الم تر ان الارض مریضۃ

لفقد حسین والبلاد اقشعرت

            کیا تم نہیں دیکھتے کہ زمین حسین ؓ کے فراق میں بیمار ہے اور دنیا کانپ رہی ہے؟

وقد اعولت تبکی السماء لفتدہ

وانجمھا ناحت علیہ وصلوۃ

            آسمان بھی اس کی جدائی پر روتا ہے۔ ستارے بھی ماتم کرتے اور سلام بھیج رہے ۔