وطن عزیز میں ،آجکل جس مسئلے پر زور شور سے بحث و تمحیص جاری ہے وہ محترم جنرل پرویز مشرف صاحب کی وردی کا مسئلہ ہے ۔سرکاری ذرائع ابلاغ اس بات پر اپنا پورا زورِ استدلال صرف کررہے ہیں کہ جنرل صاحب کی وردی اتارنے یا نہ اتارنے کے مسئلے کا پاکستان کے عام شہری کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئیے دیکھیں کیا واقعی ایسا ہے؟
اگر تو اس لفظ کے لغوی استعمال کو دیکھاجائے تو یقینا وردی، آپکا اور میرا مسئلہ نہیں بنتا۔جنرل صاحب کی وہ وردی ، جو ایک مخصوص رنگ کے کپڑے کی تراش خراش سے وجود میں آئی ہے اورجسے وہ ایک فوجی ہونے کے ناتے صبح و شام اتارتے اور پہنتے رہتے ہیں، اس سے تو یقینا عوام کو کوئی سروکار نہیں ہے کیوں کہ انہیں نہ تو اس کے رنگ پر اعتراض ہے او ر نہ اس کی تراش خراش پر ۔ انہیں تو بحث ہے اس وردی سے جس کا کوئی رنگ نہیں لیکن پھر بھی اس کے ہزاروں رنگ ہیں جس کی کوئی تراش خراش نہیں لیکن پھر بھی وطن کی ہر تراش اور ہر خراش اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ِاس لحاظ سے لفظ وردی آج کے ماحول میں ایک سیاسی استعارے کی شکل اختیار کر چکاہے اوراس نے ایک ایسا روپ دھا ر لیا ہے کہ جس سے نہ صرف ہم سب کا بلکہ اس پاک سر زمین پر پیدا ہونے والے ہر بچے کا حال اور مستقبل بھی وابستہ ہو گیا ہے کہ حکمرانوں کا ایک ایک عمل قوموں کی کئی نسلوں کو متاثر کرجاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے تو وہ دانشوربڑ ے ہی ‘‘سادہ لوح’’ معلوم ہوتے ہیں جو رات دن قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ وردی تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ دانشور’ وردی کی بقا کے سلسلے میں جو دلائل دیتے ہیں، اُن کے پس پردہ ، جو بات صاف طور پر دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا سارا نظام ایک فرد واحد کی شخصیت و صلاحیت پر انحصار کر رہا ہے اور موجود ہ عالمی منظر میں یہ فرد واحد ملک کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے مزید برآں یہ کہ اس فرد واحد کے پیچھے فوج کی قوت بھی ہے۔لہٰذا اگر یہ فرد واحد نہ رہے، تو اس نظام کے پیچھے نہ تو فوج کی قوت برقرا ر رہے گی اور نہ ہی عالمی حمایت’ نتیجتا یہ دھڑام سے نیچے آ رہے گا۔ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔مگر غور کیا جائے تو یہی دلائل ان کے خلاف بھی جاتے ہیں۔ کیونکہ جہاں نظام فرد واحد پر قائم ہوتا ہے۔ تو اس کے منظر سے ہٹتے ہی سارا نظام واقعتادھڑام سے نیچے آ رہتا ہے۔ جمہوریت پسند حلقوں کا یہی تو مؤقف ہے کہ نظامِ سلطنت کو فرد واحد کے بجائے اداروں پر قائم کیا جائے۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں ۔ ادارے اور دستوری نظام قائم رہتے ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ دانشور’ وردی کے حق میں جتنے بھی دلائل دیتے چلے جائیں وہی دلائل با لآخر ان کے خلاف ہوتے جائیں گے۔
یہ دانشور اس بات سے بے خبر نہیں کہ محترم جنرل صاحب نے اپنی حکومت کے آغاز میں ، اپنی آمد کا جواز ایک بڑی ہی خوبصورت تشبیہہ سے بیان کیا تھا کہ کہ وہ تو دریائے سیاست میں کودنا نہیں چاہتے تھے ،انہیں تو دھکا دیا گیا ہے۔ تو ہماری عرض یہ ہے کہ جسے دھکا دیا جائے وہ جلد از جلد دریا سے نکلنے کی سعی کرتا ہے یا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ہم بڑے اخلاص اور درد مندی سے ان دانشوروں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بجائے وردی کا جواز ثابت کرنے کے محترم جنرل صاحب کی خدمت میں یہ عرض کریں کہ جوں جوں وہ واپسی کے راستے بند کرتے چلے جائیں گے دہشت گرد ی کی طرف مائل قوتوں کو مزید تقویت ملتی چلی جائے گی۔وہ قوم وملک کو جس روشن خیالی اور اعتدال پسند ی کی طرف لے جانے چاہتے ہیں اس کی راہ میں یہ وردی بھی حائل ہے ۔موجودہ فضا مایوسی اور محاذ آرائی کی فضا ہے ۔ داخل میں اطمینان نہ ہو تو خار ج بھی متاثر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو محتا ج بیان نہیں۔ اور داخلی اطمینان سارے کا سارا اس امر پر منحصر ہے کہ جس ادارے کے ذمہ جو کام ہو وہ اسی کی فکر کرے اور اس طرح بالواسطہ طور پر دوسروں اداروں کو پنپنے کا موقع دے کر ملک و قو م کی مضبوطی کا باعث بنے ۔
ہمیں جنرل صاحب کے اقتدار کے آئینی یا غیر آئینی ہونے سے بحث نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نظم ِ اجتماعی کی ایک شکل، بالحق نہ سہی ، بالفعل،قائم تو ہے ، اس لیے اس نظم سے محاذ آرائی کے بجائے افہام و تفہیم کی راہ اختیار کی جائے تا کہ ملک وقوم کم سے کم نقصان سے مطلوبہ منزل حاصل کرلے ۔اور مقتد رقوتوں کو اس افہام و تفہیم کی طرف لانے کی سب سے زیاد ہ ذمہ داری ان دانشوروں پر ہی عائد ہوتی ہے جو مخصوص عینک لگا کر دیکھنے کے عاد ی ہو گئے ہیں۔شاید یہ بھول گئے کہ عینک اترتے کون سا دیر لگتی ہے! ہمیں تسلیم ہے کہ اس حکومت نے کچھ کارہائے نمایاں بھی انجام دیئے ہیں اور بعض پہلوؤں سے جنرل صاحب کی کارکردگی یقینا قابل رشک بھی رہی ہے اور یہ کہ جنرل صاحب میں بعض قائدانہ صلا حیتیں اور شحصی خوبیاں بھی موجود ہیں، لیکن اس سب کے باوجود نوشتہ دیوار پڑھ لینے میں کیا حرج ہے۔ اور عقلمند کے لیے یہ پڑھ لینا تو اور بھی آسان ہوتاہے۔
اے دانشواران قوم ! آپ سے زیاد ہ اس حقیقت سے کون آگا ہ ہو گا کہ قوموں کی بقا اور ترقی میں مادی سے زیادہ اخلاقی اصولوں کا حصہ ہوتا ہے ۔ یہ عقیدت نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جس پہ پوری انسانی تاریخ مہر تصدیق ثبت کرتی نظر آرہی ہے۔اخلاقی اصولوں میں وعدے کی پابندی بہرحال ایک اعلی قدر ہے اور اگر کسی ملک کا مقتدر طبقہ اس قدر کا دلدادہ ہو تو عوام تو بہرحال ایک ‘‘منتظر’’طبقہ ہوتے ہیں ۔ اہل اقتدار کی اعلی اخلاقیات عوام کو بہر حال کہیں زیاد ہ اس کی پابند کر دیتی ہیں۔ عوام تو ابھی تک مشہور زمانہ نوے دن کے وعد ے نہیں بھولے ۔ تاویلات کے خوشنما پردے وقتی طور پر حقیقت کو چھپا تو سکتے ہیں لیکن اسے مٹا نہیں سکتے ۔ اور جب حقائق آشکار ہوتے ہیں تو پھر اپنے جلو میں بعض ایسی کہانیاں بھی لے آتے ہیں کہ جو سب کے لیے ناگوار ہوتی ہیں۔ سیفٹی والو بند رکھے جائیں تو پھر سٹیم نے بہر حال اپنے رستہ بناناہی ہوتا ہے ۔ اور جب سٹیم خود سے اپنا رستہ بنائے تو بہت کچھ کھو نا پڑتا ہے۔ اس لیے ہمار ی درخواست یہی ہے کہ قوم کو بجائے یہ سمجھانے کے کہ وردی تمہارا مسئلہ نہں ہے حقیقت سے آگاہ کریں کیونکہ سٹیم کی تباہ کاریوں کا اصل نقصان بے چارے عوام ہی کو بھگتنا ہوتا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ خود انحصار ی اور معاشی ترقی کے راستوں کے لیے ورد ی یقینا ایک اجنبی چیز ہے۔ سیاسی استحکام ہی دیرپا معاشی استحکام کا ضامن ہوتا ہے۔زمانے بھر کے تسلیم شدہ معاشی معیار نظر انداز کر کے نوٹ چھاپنا اورا اقوام عالم سے اپنے قرضے ملتوی کروا لینے کو معاشی ترقی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ معاشی ترقی جب جنم لیتی ہے تو ہر گھر ’ ہر گلی اور ہر بستی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ابھی تک وطن عزیز میں ایسی کوئی صورت حال دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔جن قوموں پہ دنیا کو یقین آ جائے کہ یہ ہر حال میں دستورو قانون کی پابند کریں گی ۔ دنیا وہیں اپنا سرمایہ لگانا پسند کرتی ہے ۔ عوام معاشی ترقی کے چاند کو اپنے آنگن میں اترتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس چاند کی چاندنی کو وردی نے گہنا رکھا ہے ۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی آپ اگر یہی کہیں گے کہ وردی میرا مسئلہ نہیں ہے تو پھر ہم سب کا اللہ ہی حافظ ہے!