اکتوبر ۲۰۰۴کے ‘اخبار اردو’ میں محترمہ نجمہ بانو کا شذرہ بعنوان‘اردو املا:چند اصول اور قاعدے’ شائع ہوا ہے۔ اس میں محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا مضمون‘اردو املا:چند اصول اور قاعدے’ شائع شدہ ‘اخبار اردو’جون ۲۰۰۴کا حوالہ دیا گیا ہے ۔یہ مضمون بہت اہم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے مضامین لگاتار اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہیں، تاکہ املا کے بارے میں عوام ہی کی طرف سے نہیں بلکہ بڑے بڑے علمی اداروں اور اہم شخصیات کی طرف سے بھی جس غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اس کا تدارک ہو سکے۔ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مضمون کے سلسلے میں چند گزارشات پیش ہیں:
ڈاکٹر صاحب پیرا گراف ‘۴’ میں لکھتے ہیں:بعض عربی الفاظ کے آخر میں الف کی آواز ہے، مگر وہاں بجائے الف کے ‘ی’ اور ‘واؤ’ لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے(اسے کھڑا زبر بھی کہتے ہیں)جیسے :ادنیٰ،اعلیٰ،ربوٰ،...مگر اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پورے الف سے رائج ہیں ۔جیسے : تماشا،تقاضا،ربا،مدعا وغیرہ.. (کئی الفاظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں) ایسے لفظوں کا املا اس طرح مناسب ہوگا ،جیسے: ادنا،اعلا،تمنا،مدعا،مولا،دعوا،فتوا،معرا وغیرہ۔ باقی الفاظ اس طرح لکھنا مناسب ہوگا،جیسے: اولیٰ،مقفیٰ،عقبیٰ،مجلس شوریٰ،تقویٰ،موسیٰ، عیسیٰ ، تعالیٰ، یدِطولیٰ،سدرۃالمنتہیٰ،وغیرہ۔خیال رہے کہ‘ استعفا’ صحیح ہے،‘استعفیٰ’غلط ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اصول کیا ہے کہ جس کے تحت یہ تقسیم عمل میں لائی گئی ہے۔ اگر تو اس تقسیم کی بنیاد کسی ضابطے پر ہے تو وہ بیان کیا جانا چاہیے تھا۔لیکن اگر یہ تقسیم قیاسی نہیں ، بلکہ روایتی ہے تو پھر بیشتر الفاظ کی فہرست دے دی جاتی۔مثلاًرشید حسن خان نے اپنی کتاب ‘اردو املا’میں صفحہ ۸۸ تا ۹۸پر پہلی قسم (پورے الف والی)کی اچھی خاصی تفصیلی فہرست دی ہے۔ظاہر ہے ایک مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں،لیکن پھر بھی کسی حدتک اہم الفاظ کی فہرست دے دی جاتی تو مناسب ہوتا۔الف مقصورہ کے سلسلے میں انجمن ترقی اردو کی اصلاحِ رسم الخط کمیٹی کی تجاویز شائع شدہ رسالہ‘اردو’جنوری ۱۹۴۴ میں بھی یہی تجویز کیاگیا ہے کہ:‘‘عربی ناموں اور عام الفاظ میں الف مقصورہ کی بجائے پورا لف لکھاجائے۔جیسے :ابراہیم،سلیمان، حیات، ربااور اعلا،ادنا،مولانا وغیرہ’’(رشید حسن خان،‘اردو املا’،صفحہ ۴۷)۔
محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے دوسری قسم کے تحت جو دس الفاظ و مرکبات لکھے ہیں ، ان میں صرف آخری (سدرۃالمنتہیٰ) کو چھوڑ کر باقی تمام کا املا رشید حسن خان کی کتاب ‘اردو املا’ میں صفحہ ۴۸پر (‘‘قطعی طور پر طے شدہ’’کے الفاظ لکھ کر) پورے الف کے ساتھ درج کیا گیا ہے ۔لیکن میرے خیال میں ایسے الفاظ کے بارے میں انجمن ترقی اردو کی اصلاحِ رسم الخط کمیٹی کی تجاویز کے مقابلے میں املا و رموزِاوقاف سیمینارمنعقدہ۲۵تا ۲۷ جون ۱۹۸۵کی ذیلی کمیٹی کی سفارشات مندرجہ اخبار اردو مارچ ۱۹۹۹ء(پیرا گراف نمبر۱،صفحہ ۳)کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے،جن میں کہا گیا ہے:عربی کے ایسے الفاظ ، جن کے آخر میں ‘ی’پر چھوٹا الف (الف مقصورہ‘یٰ’) آتا ہے، مگر پڑھتے وقت ‘ی’ کی بجائے الف پڑھا جاتا ہے، انھیں اردو میں بھی عربی املا کے مطابق لکھا جائے،کیونکہ قرآن پڑھنے والے سبھی لوگ اس سے مانوس ہیں۔
بہتر یہ ہوگا کہ اصولاًتو انھیں بھی پورے الف سے لکھنے کو ترجیح دی جائے، لیکن ایسے قرآنی الفاظ کو الف مقصورہ کے ساتھ لکھنا بھی درست سمجھا جائے۔
پیرا گراف ‘۵’میں کہا گیا ہے کہ سابقوں اور لاحقوں(بہ،چہ،کہ)کو ملا کرلکھنا بہتر ہو گا’ مثلا بلکہ’ چنانچہ’ کیونکہ،جبکہ،بشرطیکہ غرضیکہ،بخدا،بخوبی، بدقت،بہرحال،بدستور، بدولت وغیرہ۔
پیراگراف ‘۶’ رحمن اور اسمٰعیل جیسے عربی الفاظ سے متعلق ہے اور بتایا گیا ہے کہ انھیں بھی پورے الف سے لکھا جائے۔ اس سے کمپوزنگ میں آسانی رہتی ہے۔اس تجویز کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
پیراگراف‘۷’ میں بتایا گیا ہے کہ :عربی اورترکی کے کچھ الفاظ (اسی طرح غیر عربی،انگریزی،ہندی،اور یورپی زبانوں کے الفاظ بھی) ‘ہ’ سے نہیں بلکہ الف سے لکھنا درست ہے، مثلاً: ملغوبا، قورما، سانچا، ڈاکیا، شوربا، ڈھانچا، معما، تماشا، بقایا، تمغا، مچلکا، حلوا، مربا، چغا، خون خرابا، ناشتا، خارا، دارونما، کٹورا، غنڈا، راجا، ڈراما، دھماکا، دھوکا، بھروسا، کلیجا، پتا، باڑا، بلبلا، تارا، گھونسلا، میلا، انگارا، فرما، انڈا، وغیرہ۔
اس کے بعد کی عبارت نئے پیراگراف میں آنی چاہیے تھی، جو درج ذیل ہے:بطور استثنا، بعض لفظوں کا املا یہ ہوگا (کیونکہ یہ اسی طرح رائج ہیں) نقشہ، کمرہ، زردہ، غبارہ، عاشورہ، خاکہ، بارہ، تکیہ، مہینہ، سموسہ، سقہ، ماشہ، تولہ، آزوقہ، پسینہ، روپیہ، وغیرہ۔
اس فہرست میں سولہ الفاظ درج ہیں۔ ان میں سے نصف (۸)الفاظ تو ایسے ہیں جو رشید حسن خان نے الف سے لکھے ہیں (نقشا، زردا،غبارا،خاکا،مہینا،سموسا،پسینا،روپیا)۔ ‘عاشورا،تولا،سقا،’کو ‘اخبارِاردو’مارچ ۱۹۹۹ء میں پورے الف کے ساتھ لکھا گیا ہے۔‘تکیہ’ کا لفظ ایک تو خانقاہ کے لیے مستعمل ہے، اسے ہائے مختفی ہی سے لکھا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے معانی سرہانے کے ہیں۔اس مفہوم میں اسے پورے الف سے ‘تکیا’ لکھاجائے تو زیادہ بہتر ہے۔‘کمرہ’ کو فرہنگ تلفظ(شائع کردہ مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۵ء)میں ہائے مختفی ہی سے لکھا گیا ہے،لیکن یہ بھی درج کیا گیا کہ اصلاًیہ لفظ اطالوی‘camera’ہے۔ (صفحہ ۷۶۹)۔اس لحاظ سے تو اس کا تلفظ ‘کمرا’ ہونا چاہیے،کیونکہ بولتے وقت بھی اس کا تلفظ پورے الف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ‘فرہنگ عامرہ’ نے اسے پورے الف کے ساتھ ‘کمرا’ ہی لکھا ہے(صفحہ۴۹۸)۔اب صرف تین الفاظ باقی رہ گئے ہیں:بارہ،ماشہ اور آزوقہ۔ ان کا تلفظ بھی ہائے مختفی کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس لیے ان الفاظ کو اسی طرح لکھنا بہتر لگتا ہے۔
پیراگراف‘۸’اسمائے معرفہ سے متعلق ہے۔ درست وہی ہے جو محترم ہاشمی صاحب نے لکھا ہے۔لیکن بعض لوگ امریکا،افریقا، بنگلادیش بھی لکھتے ہیں ،یکسانیت کے نقطہ نظر سے بہتر یہی ہے کہ ہائے مختفی ہی سے لکھا جائے۔
پیراگراف‘۹’انتہائی ضروری اور مفید ہے۔ اس معاملے میں ہمارے ہاں بہت بے احتیاطی سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتِ حال ہے۔ان الفاظ کو بولتے وقت کوئی شخص بھی ہمزے کی آواز ادانہیں کرتا(سوائے مثلاً‘گئے’کے)۔لیکن لیے،کیے،دیے،لیجیے،چاہیے وغیرہ لکھتے وقت نہ جانے کیوں اوپر ہمزہ لگا دیا جاتا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اس کے بارے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس قاعدے کی جتنی تشہیر ممکن ہو ،کی جانی چاہیے،بلکہ میڈیا سے ایک مہم کے طور پر اس سلسلے میں مدد لی جائے۔
پیراگراف ‘۱۰’ میں بھی ایک اہم بات بتائی گئی ہے کہ درست املا‘ان شاء اللہ ’ ہے نہ کہ ‘انشاء اللہ’۔
پیرا گراف ‘۱۱’میں بتایا گیا ہے کہ اضافت کے قاعدے میں مضاف کے آخری حرف کے نیچے زیر آتا ہے۔ جیسے ماہِ رمضان...مگر جن لفظوں کے آخرمیں یائے ساکن ہوتی ہے، اضافت کی صورت میں اس ‘ی’ کے نیچے زیر آئے گا(نہ کہ ہمزہ)مثلاً مرضیِ خدااور آزادیِ وطن وغیرہ۔ ایسے مقامات پر ‘ی’ کے بعد ہمزہ لکھنا مرزا غالب کے الفاظ میں ‘عقل کو گالی دینا ہے’۔
پیرا گراف ‘۱۲’ میں ایک انتہائی اہم بات بتائی گئی ہے اور ایک ایسی بے احتیاطی کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے جس کا ارتکاب بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ عربی جمع اور مصادر کے آخر میں ہمزہ آتا ہے۔(لیکن) اردو میں ان کے آخر میں ہمزہ نہیں لکھیں گے، مثلاً: ابتدا، انتہا، ارتقا، التوا، ابتلا، استدعا، اولیا، انبیا، جہلا، وزرا، فقرا، حکما، غربا، املا، اخفا، القا وغیرہ۔
پیرا گراف ‘۱۳’ میں اسی قاعدے کا انگریزی الفاظ پر اطلاق بتایا گیا ہے کہ مارشل لا وغیرہ الفاظ کے آخر میں ہمزہ آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پیرا گراف ‘۱۴’میں جملہ واضح نہیں۔ اسے اس طرح کی کوئی صورت دے دی جائے تو بات واضح ہو جائے گی: ‘‘الف پر ختم ہونے والے الفاظ اگر مرکب اضافی میں مضاف بن کر آئیں تو انھیں لکھنے کی صحیح صورت یہ ہوگی: حکمائے اسلام،ابتداے کار، یعنی‘ے’ پر ہمزہ نہیں گا ، کیونکہ ‘ے’ اضافت کی علامت ہے۔’’ اس کی جو توجیہ مضمون میں کی گئی ہے، مناسب نہیں لگتی ۔اور لوگوں نے بھی یہ قاعدہ بیان کیا ہے۔ اس میں لکھنے والے کے لیے تو ایک حد تک سہولت کا پہلو نکلتا ہے، لیکن یہاں تلفظ میں ہمزہ باقاعدہ موجود ہوتا ہے۔اگر اسے درج بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ اسی مضمون میں پیراگراف ‘۸’ کے آغاز میں ‘اسمائے معرفہ’ لکھا گیا ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو پیرا گراف ‘۱۵’ والی صورت (مرکب عطفی)میں بھی جہاں ہمزہ بولا جاتا ہے اسے لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے،مثلاً : شعراؤادبا،فقراؤمساکین،آباؤ اجداد۔ لیکن کتاب و سنت جیسی مثالوں میں نہ تو ہمزہ موجود ہے ، نہ بولا جاتا ہے اور نہ اسے لکھنے کا کوئی جواز بنتا ہے۔ تاہم سہولت اور یکسانیت کی غرض سے اگر یہ طے کر لیا جائے کہ ان صورتوں میں ہمزہ نہیں لگایا جائے گا تو یہ بھی ایک مناسب بات ہوگی۔
پیراگراف ‘۱۶’ ‘۲۶’ میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ انتہائی اہم اور مفیدہے۔ ان امور کی اشاعت مسلسل کی جاتی رہنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ محترم ڈاکٹر ہاشمی صاحب کو جزا دے خیر دے، انھوں نے نہایت اہم امور کی طرف متوجہ فرمایا ہے، مثلاً پیرا گراف‘۱۶’ میں قانونِ امالہ کا بیان ہے۔ اس کے متعلق بے احتیاطی بہت عام ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :جن واحد مذکر لفظوں کے آخر میں ‘ہ’ یا الف ہو اور ان کے فوراً بعد تک ، سے،کو،کے،کی،میں ،پر، وغیرہ میں سے کوئی حرف ِامالہ آجائے تو آخری ‘ہ’ یا الف کو ‘ے’ سے بدل دیا جاتا ہے، مثلاًآپ کے بارے میں (نہ کہ ‘بارہ میں’)، تمھارے بھروسے پر( نہ کہ ‘بھروسا پر’)، وغیرہ۔ البتہ بعض الفاظ مثلاً امریکہ، دادا، نانا، چچا، ابا، ایشیا، برما، ہمالیہ، والدہ، جمیلہ، وغیرہ امالہ قبول نہیں کرتے۔