انگریزی جس کا اس وقت اس قدر چرچا ہے۔ چودھویں اور اس کے بعد پندرھویں اور سولہویں صدی میں آہستہ آہستہ ابھرنے لگی اور سولہویں صدی کے بعد یہ زبان مزید نکھرنے لگی۔ اگر اس کی لغت پر نظر ڈالیں تو اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ بکثرت شامل ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ الفاظ انگریزی زبان کے اس طرح جزو بن گئے ہیں کہ اس وقت کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انگریزی کے اپنے الفاظ ہیں۔ یونانی، لاطینی، فرانسیسی کے علاوہ عربی اور فارسی کے بھی بے شمار الفاظ انگریزی زبان کے ذخیرہ الفاظ کی زینت بن گئے۔ مثلاً اٹیک (عتیق)، ارتھ (ارض)، ایلی فنٹ (الفیل)، سیرپ (شرب، شربت)، کینڈل (قندیل)، جیکال (شغال) وغیرہ۔
اردو الفاظ کا انگریزی میں شمولیت کا پس منظر
پہلا دور:
انگریزوں کی برصغیر سے ابتدائی واقفیت۔ اس دور میں انگریز سیاح یہاں کے جانوروں ، درختوں اور پارچہ جات سے متعلق الفاظ اپنی زبان میں استعمال کرنے لگے۔ یہ دور سولہویں صدی کی ابتداء سے سترہویں صدی کی ابتداء تک محیط ہے۔
دوسرا دور:
سترھویں صدی کی ابتداء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اختیارات کی وجہ سے انگریزوں کا برصغیر کی سیاست میں عمل دخل زیادہ ہونے لگا۔ اس دور میں اردو الفاظ انگریزی میں داخل ہوئے۔
تیسرا دور:
اٹھارھویں صدی کی ابتداء میں انگریزوں کا برصغیر میں موجود دوسری یورپی اقوام مثلاً ولندیزی، فرانسیسی، پرتگالی وغیرہ سے واسطہ پڑا۔ اور اسی صدی کے وسط میں انگریزان لوگوں کو ناکارہ کرکے خود یہاں کے حکمران بننے کی کوشش میں لگے رہے۔
ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی کے مطابق اس کا ایک دور انیسویں صدی کے وسط کے بعد ۱۸۵۷ء سے شروع ہوتا ہے چونکہ اس دور میں انگریز پورے برصغیر پر حکمران بن گئے اس لیے انیسویں صدی میں دوسری صدیوں کی نسبت الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔
انگریزی لغات میں آکسفورڈ انگلش ڈکشنری، آکسفورڈ ایڈانسڈ ڈکشنری، لانگ مین عصری انگلش ڈکشنری، چیمبرز ڈکشنری وغیرہ میں اردو الفاظ کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔
صوتی تبدیلی:
چونکہ انگریزی لہجہ اور اردو لہجہ میں فرق کی وجہ سے ابتدائی دور کے انگریزوں نے اردو الفاظ کو عجیب صوتی تغیر میں تحریر کیا ہے مثلاً برآمدہ کو ۱۷۱۱ء میں انگریزی میں ورانڈہ(Verandah)کی شکل میں داخل ہوا۔ اور یہی شکل مقبول ہو گئی۔ بیرا انگریزی میں بیرر(Bearer)بن گیا۔ پیسہ انگریزی میں جا کر پائس(Pice)بن گیا۔ پھٹ (پھٹا) انگریزی میں فٹ (Phot)کی شکل میں داخل ہوا۔ روپیہ انگریزی میں روپی (Rupee) بن گیا۔ سیاح ولیم ہاکنز نے اسے (Rupias) روپیاز لکھا ہے اور جمع کی صورت میں (Rupiae)روپے لکھا ہے۔
معنوی تبدیلی:
اردو کے کئی الفاظ جو یہاں کی سماجی، معاشرتی اور معاشی زندگی کے متعلق تھے۔ وہ بھی انگریزوں نے اپنائے۔ مگر طویل مسافت، سفر کی تھکاوٹ اور پردیس میں انگریزی لبادہ اوڑھنے کی وجہ سے صوتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ معنوی تبدیلی بھی رونما ہوئی۔ مثلاً پونا (شہر کا نام) انیسویں صدی میں برطانیہ میں ایک اعلیٰ پینٹنگ کا نام بن گیا۔ تماشا سترھویں صدی میں انگریزی میں اپنے اصلی نام میں داخل ہوا۔ لیکن انیسویں صدی میں معنوی تبدیلی ہوئی۔ چنانچہ ۱۸۶۲ء میں اس کے معنی ہنگامہ، بھاگ دوڑ اور شوروغل کے بھی ہو گئے۔ اسی طرح چٹاگانگ (شہر کا نام) انگریزی میں ایک قسم کی گھریلو مرغی کے لیے مستعمل ہوا۔
ذیل میں کچھ اردو کے الفاظ ہیں جو کہ اپنے اصلی معنی کے علاوہ صوتی یا معنوی تبدیلی کے ساتھ انگریزی میں شامل ہوئے۔
گوا (Goa):
یہ اسم معرفہ اسم نکرہ بن گیا۔ اور انیسویں صدی میں ۱۸۶۳ء میں دلدل کے مگرمچھ کو گوا کہا جانے لگا۔
بازار (Bazar/Bazzar):
یہ لفظ انگریزی میں ۱۵۹۹ء میں ملتا ہے اور انگریزی کی تمام ڈکشنریوں میں موجود ہے اور اس کے معنی اردو والے معنی کے ساتھ ساتھ میلہ، بڑی دکان، اعلیٰ قسم کی اشیاء ارزاں نرخوں پر فروخت کی دکان کے ہیں۔
مغل:
اس کے معنی سترہویں صدی میں معزز۔ ذی مرتبہ شخص یا خود مختار حکمران کے ملتے ہیں۔ مگر اٹھارھویں صدی میں آلوچہ کی ایک قسم کو مغل کہا جانے لگا۔
نواب:
اٹھارھویں، انیسویں صدی میں اس یورپین کو کہتے جو برصغیر سے دولت کما کر وہاں گیا ہو۔
حکیم:
اس لفظ کا استعمال پہلی بار ۱۵۸۵ ء میں ہوا۔ انگلش فیکٹریزان انڈیا میں ۱۶۲۲ء میں ملتا ہے آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں اس کا استعمال ۱۶۳۸ء لکھا ہوا ہے اور اس کے معنی فزیشن (Physician)لکھے ہیں۔
گودام:
یہ لفظ صوتی تغیر سے انگریزی میں گوڈاؤن(Godown)کی صورت میں ملتا ہے۔ جس کے معنی (Were House)کے ہیں۔
حشیش:
اس کا ذکر ۱۵۹۸ء میں ملتا ہے۔ اے- جے بلس کے مطابق بھنگ کے سوکھے پتے ۔ یہ لفظ انگریزی میں سولھویں صدی میں ملتا ہے اور عربی زبان سے اردو میں آیا ہے۔
کڑھی (Curry):
انگریزی میں اس کا اولین ذکر ۱۵۹۸ء میں ملتا ہے۔ ۱۶۸۱ء میں اور اس کے بعد اس کا عام استعمال ہوا۔
پلاؤ:
انگریزی میں یہ لفظ ۱۶۱۲ء میں ملتا ہے اور اسے صوتی تغیر کے ساتھ مختلف ڈکشنریوں میں Pillaw, Pillaf, Pillowاور Pilow لکھا ہے۔
حلوا:
انگریزوں کے یہاں ۱۶۶۲ء میں ملتا ہے اور اس کے معنی ایک قسم کی مٹھائی کے تحریر کیے ہیں۔
چپاتی:
روٹی ۱۸۸۳ء سے قبل ۱۸۱۰ء میں ملتی ہے چیمبرز ڈکشنری میں اسے Chupatiاور Chupattieبھی لکھا ہے۔
گڑ:
گڑ کو انگریزوں نے چینی کی ادنیٰ قسم لکھا ہے۔ یہ لفظ ۱۸۳۵ء میں ان کے یہاں ملتا ہے۔
مصری:
مصری ۱۸۱۰ء میں انگریزی میں شامل ہوئی۔ اس کا ترجمہ شوگرکینڈی کیا گیا ہے۔
سپاہی:
سپاہی ہمیں سولہویں صدی میں ملتا ہے سترھویں صدی میں انگریز سیاح تھامس کوریت ۱۷-۱۶۱۲ء نے اس کا مطلب گھڑ سوار لکھا ہے۔ چیمبرزڈکشنری میں اس کا مطلب وہ ہندوستانی سپاہی ہے جس نے یورپین ملازمت اختیار کر رکھی ہو۔
حسنؓ ، حسینؓ:
انگلش فیکٹریز ان انڈیا کے مطابق ان کا اولین استعمال ۱۶۳۰ء میں ہوا۔ اس کا ترجمہ محرم میں مسلمانوں کا سینہ پیٹ کر ماتم داری کرنا لکھا ہے۔
حاجی:
اس کا استعمال انگریزی میں ۱۶۰۹ء میں ہوا۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں اس کا استعمال ۱۶۱۲ء لکھا ہے۔ اور اس کے معنی عام کے علاوہ اس عیسائی کے لکھے ہیں جو یروشلم زیارت کے لیے گیا ہو۔
امام:
یہ لفظ ہمیں انگریزی میں پہلی مرتبہ ۱۶۱۳ء میں ملتا ہے اور مروجہ تمام انگریزی لغات میں ملتا ہے اور اس کے معنی مسلمانوں کی مسجد کا امام ، مسلمان قائدین اور پیشواؤں کا لقب ہے۔
ڈکیٹ:
یہ لفظ انگریزی میں ۱۸۱۰ء میں داخل ہوا۔ اس کے معنی مسلح قزاق کے ہیں۔ چیمبرز ڈکشنری میں اس کے معنی ہندوستان اور رہزنوں کے گروہ کا فرد لکھا ہے۔
پردہ:
انگلش فیکٹریز ان انڈیا کے مطابق یہ لفظ ۱۶۲۱ء میں انگریزی میں مروج ہوا۔ لیکن آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق اس کا استعمال بہت بعد میں ہوا یعنی ۱۸۰۰ء میں لکھا ہے اور اس کے معنی یوں ہیں ‘‘پردہ جو عورتوں کو مردوں کی نظروں سے دور رکھے، یا عورت کی خلوت۔’’
گپ:
بمعنی Gossipیا (Silly Talk) پہلی مرتبہ۱۶۱۷ء میں ملتی ہے۔
شیمپو:
چیمبرز ڈکشنری میں اس کی اصل ہندی لفظ چانپنا(Champna)بمعنی بھینچنا۔ چپی کرنا لکھا ہے۔ اس کا قدیم استعمال ۱۶۳۲ء میں ملتا ہے۔
الماری (Almirah):
انگریزی میں ۱۸۷۸ء میں Cupboard کے معنی میں متعارف ہوئی۔ یہ پرتگالی زبان کا لفظ ہے جو اردو میں مستعمل ہوا۔ (جاری ہے)