ترتیب و تہذیب: جمشید علی خان
رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف نوراللہ مرقدہ نے یہ تقریر دل پذیر اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل گوجرانوالہ میں نماز جمعہ سے قبل فرمائی تھی۔ گویا یہ آپ کی زندگی کا آخری جمعہ تھا۔ جس میں آپ نے تقریر فرمائی۔ اس سے اگلے جمعہ کو لاہور بلال پارک مین آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ تقریر ہم خدام الدین کی پرانی فائلوں سے حاصل کر کے ترتیب و تہذیب مزید کے بعد ہفت روزہ خدام الدین اور میر عبدالحلیم، گوجرانوالہ کے شکریے کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میرے بھائیو اور دوستو!
انسان کو حق تعالیٰ شانہ’ نے تھوڑے دنوں کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے اور محنت کی دولت دے کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اپنی محنت کو اپنے اوپر خرچ کرکے خود کوقیمتی بنا لے۔ اگر اس نے اپنی محنت کو اپنے اوپر خرچ کرکے اپنے کو قیمتی بنا لیا تو حق تعالیٰ شانہ’ دنیا میں بھی رحمتوں کی بارش برسائیں گے۔ اور جب یہ مر جائے گا تو اسی قیمتی ہونے کے اعتبار سے اسے جنت کے درجے عطا فرمائیں گے۔ میرے عزیز دوستو! یہ جو انسان کی محنت ہے۔ یہ دو رخی ہے۔ اس محنت سے انسان دورخ پہ بنتا ہے۔ باہر چیزوں کی شکلیں بنتی ہیں۔ سڑکوں کی شکل، موٹروں کی شکل، سواریوں کی شکل اور غذاؤں کی شکل، انسان کے اندریقین کی شکلیں بنتی ہیں۔جس طرح باہر چیزوں کی شکلیں بنتی ہیں۔ اس طرح اندر میں ایمان کی، یقین کی، اخلاق کی، محبت کی، عداوت کی شکلیں بنتی ہیں۔ جو باہر بن رہی ہیں۔ وہ شکلیں ہر جگہ منتقل نہیں ہوتیں آپ لاہور جائیں گے تو آپ نے بیس، تیس، چالیس، پچاس سال کی محنت سے جتنی دکان کی شکل بنائی ہے اور کوٹھی کی شکل بنائی ہے۔ یا عیش کی شکلیں بنائی ہے وہ آپ کے ساتھ لاہور نہیں جائیں گی کراچی نہیں جائیں گی۔ ملتان نہیں جائیں گی جو باہر کا بنا ہوا ہے وہ یہیں چھوڑ کے جاؤ گے، کچھ پیسے لے جاؤ گے، کچھ نقدی لے جاؤ گے اکثر باہر کا بنا ہوا چھوڑ جاؤ گے۔ اور پھر اس دنیا سے جب آپ آخرت کی طرف جائیں گے تو باہر کا جتنا بنا ہوا ہے وہ سو فیصد یہاں چھوڑ کے جانا پڑے گا۔ بدن کے کپڑے تک چھوڑ کے جانے پڑیں گے۔ تو باہر کا جتنا بنا ہوا ہے تو یہ دنیا میں کسی نے کہیں ساتھ چھوڑا ،کسی نے کہیں ساتھ چھوڑا، کسی نے کہیں ساتھ چھوڑا آخری چیزیں جو ساتھ چھوڑیں گی وہ اس وقت ساتھ چھوڑیں گی۔ جب یہ روح جسم سے نکل کر خدا کی طرف چلے گی۔ اس وقت جوکچھ تھا یہ دنیا کا’ باہر کا بنا ہوا۔ وہ سارا یہیں کا یہیں رہ جائے گا۔
لیکن میرے عزیز دوستو! جو انسان کے اندر بنتا ہے۔ انسان اسے چوبیس گھنٹے جہاں جاتا ہے۔ اپنے ساتھ لے کے جاتا ہے۔ اگر لاہور جاؤ گے اندر کا بنا ہوا سارا لے کے جاؤ گے۔ کراچی جاؤ گے سارا لے کے جاؤ گے۔ دنیا کے کسی ملک میں جاؤ گے اندر کا سارا لے کے جاؤ گے جو یقین اندر میں بنا ہوا، ساتھ جائے گا۔ اور جو محبت اندر میں بنی ہوئی، ساتھ جائے گی جو عداوت اندر میں بنی ہوئی، ساتھ جائے گی جو علم اندر میں بنا ہوا ،ساتھ جائے گا جو دھیان اندر میں بنا ہوا، ساتھ جائے گا جو اعتماد اور بھروسہ اندر میں بنا ہواوہ ساتھ جائے گا تو اندر کا بنا ہوا ہر وقت ساتھ چلتا ہے اور باہر کا بنا ہوا ہر وقت ساتھ نہیں چلتا یہاں تک کہ جب دنیا سے آخرت کی طرف انسان منتقل ہو گا تو اندر کے بنے ہوئے کو سو فیصد ساتھ لے جائے گا۔
اب اگر وہ بنا جو قیمتی ہے تو یہ جہاں جاتا ہے کامیاب ہوتا ہے اور اگر اندر میں وہ بنا جو بے قیمت ہے تو جہاں جاتا ہے ناکام ہوتا ہے، اندر کا بنا ہوا اگر وہ ہے جس پہ خدا کامیاب کیا کرتے ہیں اور جو قیمتی ہے تو پھر جس لائن کو نکلو گے جس شکل سے گزرو گے کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر خدا نخواستہ وہ بن گیا، جو بے قیمت ہے وہ یقین بنا جس پر خدا پکڑ کرتے ہیں وہ محبت بنی جس پر خدا مصیبتیں ڈالتے ہیں اور وہ اعتماد بنا جس پہ خدا زندگی بگاڑتے ہیں۔ اور وہ علم بنا جس کو خدا جہل قرار دیتے ہیں وہ دھیان بنا جس کو اللہ غفلت کہتے ہیں۔ تو اگر اندر میں وہ بنا جس کے بننے پر خدا ناکام کیا کرتے ہیں تو دنیا میں انسان جہاں کو بھی نکلے گا۔ غیر مطمئن ہو گا۔ پریشان حال ہو گا۔ جب مرے گا تو اندر کا بنا خدا ہر ایک کو دکھائیں گے کہ تیرے میں کیا بنا۔
وحصل ما فی الصدور۔
اندر کا بنا ہوا دکھا دیں گے۔
صاحبزادے! یہ یقین بنا کے لائے ہو۔ یہ تو دوزخ والا یقین ہے یہ جنت میں نہیں لے جاتا ، یہ محبت تو دوزخ میں لے جاتی ہے یہ تو دنیا کی محبت ہے۔ یہ نہیں لے جاتی جنت میں۔ کہاں ہے وہ اللہ کی محبت وہ کون سے کونے میں رکھی ہے۔ لاؤ لا کر دکھاؤ، لاؤ وہ رسول اللہ کی محبت نکال کر دکھاؤ۔ وہ محبت جس پر آدمی جان و مال، ماں باپ اولاد تک قربان کر دے۔ کہاں ہے وہ محبت؟ یہ دل میں دکھاؤ کہ محبت کی جگہ دل ہے۔ زبان محبت کی جگہ نہیں۔محبت کی جگہ زبان نہیں ،اظہار کی جگہ زبان ہے۔ ایمان کی جگہ زبان نہیں ہے۔ زبان اظہار کی جگہ ہے۔ایمان کی جگہ تو دل ہے۔ محبت کی جگہ تو دل ہے۔ اعتماد کی جگہ تو دل ہے۔ زبان وہ بھی بولتی ہے جو دل میں ہے اور زبان وہ بھی بولتی ہے جو دل میں نہیں ہے۔ انسان زبان سے دھوکا کھا جاتا ہے۔ کل کو قیامت میں زبان سے وہی نکلے گا جو دل میں ہوگا۔ جو دل میں نہیں ہو گا وہ زبان پر نہیں آئے گا۔
اسی واسطے لکھا ہے علمائے محققین و مفسرین حضرات نے کہ یہاں دنیا میں کوئی کتنا ہی قرآن حفظ کر لے اور سارا پڑھ لے۔ اور ایسا یاد ہو کہ بے جھجکے بے اٹکے سارا قرآن پڑھ جاوے۔ لیکن کل کو قیامت میں جب قرآن پڑھنے کا وقت آئے گا کہ پڑھ اور جنت کے درجوں پر چڑھ، چڑھتا چلا جا بڑھتا چلا جا، تو اس طرح فرمایا کہ جتنا قرآن پر عمل ہو گا۔ زبان پر اتنا ہی آئے گا۔ عمل میں نہیں ہو گا تو قرآن پڑھا نہیں جائے گا۔
لکھا ہے علمائے محققین و مفسرین حضرات نے کہ یہاں دنیا میں کوئی کتنا ہی قرآن حفظ کر لے اور سارا پڑھ لے۔ اور ایسا یاد ہو کہ بے جھجکے بے اٹکے سارا قرآن پڑھ جاوے۔ لیکن کل کو قیامت میں جب قرآن پڑھنے کا وقت آئے گا کہ پڑھ اور جنت کے درجوں پر چڑھ، چڑھتا چلا جا بڑھتا چلا جا، تو اس طرح فرمایا کہ جتنا قرآن پر عمل ہو گا۔ زبان پر اتنا ہی آئے گا۔ عمل میں نہیں ہو گا تو قرآن پڑھا نہیں جائے گا۔
اس لیے میرے عزیزو اور دوستو! اللہ رب العزت نے محنت کی دولت عطا فرمائی اور مسجد کے اندر آواز لگوائی کہ دیکھو اپنے اپنے نقشوں سے نکل کر آؤ وقت تمھارے پاس موجود ہے آنکھ کھل جائے گی تو وقت جاتا رہے گا۔ قرآن میں ہے وہ یوں کہیں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ لیا۔
ربنا ابصرنا وسمعنا فارجعنا نعمل صالحا انا موقنونo
ترجمہ: اے رب دیکھ لیا سن لیا (سب ہماری سمجھ میں آگیا) اب آپ دنیا میں واپس بھیجئے ہم اچھے عمل کرکے، آئیں گے۔
تو گویا آخرت عمل کرنے کی جگہ نہیں، جیسے یہ ماں کا پیٹ ،یہ کمائی کی جگہ نہیں، کمانے کی جگہ دنیا ہے۔ تو عمل پر محنت کا میدان یہ دنیا ہے اب اگر آدمی مر جائے گا تو آخرت میں عمل کا میدان نہیں رہے گا۔ محنت کا میدان ختم ہو جائے گا۔ آج جیسے بنیں گے ویسا درجہ قائم ہو جائے گا۔ خراب بن گئے تو دوزخ، اچھے بن گئے تو جنت۔ جس شکل کے اچھے بنے اس شکل کی جنت ملے گی۔ تمھارے دل میں ان چیزوں کو دیکھا جائے گا کہ تم میں یہ ہیں یا نہیں، سب سے پہلی بات! اللہ اکبر! زمین، آسمان، ہوا، پانی، آگ، پہاڑ جتنی چھوٹی شکلیں ہیں۔ ان سب سے اللہ بہت بڑے ہیں۔ تمھارے ہاتھوں کی شکلیں تو ہوا کے سامنے کچھ نہیں اور ہوا اللہ کے سامنے کچھ نہیں ۔ تو یہ آگ اگر مشرق سے مغرب تک لگا دی جائے۔ جتنی اس میں شکلیں بنی ہوئی ہیں ایک دن کی تاب نہ لا سکیں۔ اور یہ ساری راکھ ہو جائیں۔ یہ پوری زمین اگر اسے ہلا دیا جائے جامنوں کی طرح جس طرح جامنوں کو نرم کرنے کے لیے شاخوں کو ہلاتے ہیں۔ اگر خدا چند منٹوں کے لیے اسے ہلا دیں تو تمھارے ہاتھوں سے جو کچھ بنا ہوا ہے۔ وہ سارا زمین کے اندر مل کر ختم ہو جائے گا۔ یہ زمین اور تمھارے ہاتھوں سے جو کچھ اس پر بنا ہے۔ اللہ کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اگر یہ سارا کائناتی خزانوں میں جس قدر پانی ہے۔ اس کو پوری دنیا میں بھر دیا جائے۔ طوفان نوح کی طرح تو یہ انسانوں کے ہاتھوں کا جس قدر بنا ہوا ہے ایک دن کی تاب نہیں لا سکتا، سارا ٹوٹ کے ختم ہو جائے گا۔ تمھارے ہاتھوں کا بنا ہوا ’پانی کے سامنے کچھ نہیں اور پانی خدا کے سامنے کچھ نہیں اللہ اکبر۔ اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑے ہیں۔ اللہ کی بڑائی کی تحقیق کرو قرآن سے۔ اللہ کی بڑائی کی تحقیق کرو حدیثوں سے اللہ جیسے بڑے ہیں۔ ویسی بڑائی دل میں اتارو۔ ان کی بڑائی کو تم خالی اللہ اکبر کہہ کر نہیں جانو گے۔ خدا کی بڑائی کو بول بول کر، سن سن کر اپنے دلوں میں اتار لو۔ اور ملک و مال اور زمین و آسمان اور راکٹ و ایٹمیات اور دنیا بھر کے کارخانے اور ملیں اور دنیا بھر کا سونا اور چاندی اور دنیا بھر کا لوہا اور پیتل ان سب کی بڑائی دل سے نکال دو مرنے سے پہلے پہلے اور مرنے سے پہلے پہلے دل میں خدا کی بڑائی اتار لو۔ اگر غیروں کی بڑائی کو لے کر مرے تو روسیاہ اٹھو گے اور وہ پٹائی ہو گی کہ الامان الحفیظ۔ ان کی بڑائی کو دل میں یوں جماؤ کہ جتنا کچھ آسمان اور زمین میں ہے یہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ معبود ہے۔ اللہ مقصود ہے۔ اللہ مطلوب ہے۔ اللہ عزت دینے والے ہیں اللہ غیروں کے بغیر جو جی میں آئے اپنی قدرت سے کر دیں اور غیروں سے خدا کے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔ غیروں سے نہ ہونے کو دل میں اتار لو، زمین سے آسمان، مشرق تا مغرب اپنی محنت کا یقین نکال کر کہ ہماری محنت سے کچھ نہیں ہو گا۔ خدا کے بغیر۔ خدا سے تمھاری محنت کے بغیر سب کچھ ہوتا ہے۔ دنیا کی چیزوں سے کچھ نہیں ہوتا خدا کے بغیر۔ اور خدا سے دنیا کی چیزوں کے بغیر سب کچھ ہوتا ہے۔
اب ان دو اعتبار سے سارے انسان اندھے، جتنے انسان دنیا میں ہیں۔ دو باتوں کے اعتبار سے اندھے ہیں ایک انھیں خدا کی ذات ان کی بڑائی اپنے آپ نظر نہیں آتی۔ ایک انھیں غیر سے نہ ہونا اور خدا سے ہونا، دکھائی نہیں دیتا۔
اب اگر اللہ کی بڑائی دل میں اتارنی ہے اور اللہ سے اپنی زندگیوں کو بنوانا ہے تو ہمیں جب اللہ دکھائی نہیں دیتے تو اللہ کے اعتبار سے ہم استعمال خود کیسے ہو سکتے ہیں۔ جو چیز دکھائی دیتی ہے۔ اس کے اعتبار سے ہم استعمال خود ہو جائیں گے جو دکھائی دے گاوہ اپنے لیے طریقہ استعمال خود تجویز کرے گا ۔
اب کیا کرنا ہو گا۔ اندھے کے چلنے کی ترکیب یہ ہے کہ بینا کی آوازپر حرکت کرنے والا بن جائے یہ ہے اندھے کی کامیابی کا راز۔ اگر اندھا اندھے پن سے چل دے یا موٹر سے ٹکر کھا کر مرے گا یا کھمبے سے سر پھوٹے گا یا سانپ کو ہاتھ لگا دے گا۔ وہ کاٹے گا۔ یا بھوکا مرے گایا پیاسا مرے گا۔ یا تریاق کی جگہ زہر کھا جائے گا مر جائے گا۔ ٹٹولتا پھرے گا۔ چیزیں کھانے کو ہیں۔ لیکن ادھر ادھر سے گزر جائے گا۔ نابینا اپنی زندگی کے مسئلوں کا حل’ اپنی حالتوں کا حل اپنے اندھے پن سے نہیں کر سکتا، اسے بینا کی ضرورت ہے تو آواز لگائی جا رہی ہے کہ ساری دنیا کے انسان نابینا ہیں۔ اوروہ جو بینا ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ خدا نے انھیں آسمانوں پر بلایا ۔ خدا نے اپنی ذات کو انھیں دکھایا۔ خدا نے اپنی جنت دوزخ انھیں دکھائی۔ خدا نے اچھے برے عملوں کا نفع نقصان انھیں دکھلایا۔ خدا نے سود پر زندگی کس طرح بگڑتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھ سے دکھایا بلی کو بھوکا مارنے سے اور اسے باندھ کر رکھنے سے زندگی کس طرح بگڑتی ہے۔ آنکھ سے دکھایا تو اللہ رب العزت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بینا بنایا ہے۔ خدا کی ذات کو دیکھا خدا کی جنت دوزخ کو دیکھا۔ خدا کے بنائے ہوئے اچھے برے نقشوں کو اپنی آنکھ سے دیکھا، ان وجوہات کے اعتبار سے سارے انسان اندھے ہیں۔ اب یہ آواز لگائی جا رہی ہے کہ اگر زندگی بنانی ہے کامیاب اور اندر بنیادیں کامیابی کی بنانی ہیں تو دو تین چیزیں محنت کرکے بناؤ۔ خدا کی بڑائی کو دل میں اتار لو۔خدا سے ہونا غیر سے نہ ہونا دل میں اتار لو۔ غیر کا چھوٹا ہونا اور خدا کا بڑا ہونا دل میں اتار لو۔ اور سب کا، اندھا ہونا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بینا ہونا دل میں اتار لو اور اس کے بعد سب مشق کرو اس بات کی کہ بینا کی آواز پر استعمال ہونا آجاوے۔ پہلے طریقہ استعمال سیکھو۔ تجارت بعد میں کیجیو۔ پہلے بینا کی آواز پر گھر کی زندگی میں استعمال ہونا سیکھو۔ پیسے خرچ بعد میں کیجیو۔ مکان بعد میں بنائیو۔ سارے کام بعد میں کیجیو پہلے تو بینا کی آواز پر کھڑا ہونا۔ ان کی آواز پر بیٹھنا۔ ان کی آواز پر بولنا ان کی آوازپر سننا۔ ان کی آواز پر دیکھنا، یہاں تک کہ یہ دل میں یقین پیدا کرلو کہ میں تو اندھا ہوں۔ مجھے تو اپنی کامیابی کا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے بینا بنایا ہے وہ جس طرح کہہ گئے اس طرح اٹھنے بیٹھنے میں، اس طرح چلنے پھرنے میں ،اس طرح دیکھنے سننے میں، اس طرح لینے دینے میں ،اس طرح پکڑنے چھوڑنے میں میری کامیابی ہے اور یہ جو ملک و مال میں مجھے کامیابیاں دکھائی دے رہی ہیں یہ میرا اندھا پن ہے۔ مجھے غلط دکھائی دے رہا ہے۔ خالی اللہ اکبر چاہے تم ساری عمر کہو۔ اللہ کی بڑائی دل میں تب بیٹھے گی۔ جب اس کا قرآن سنو گے۔
پہلے محنت کرکرکے’ قرآن سن سن کر’ حدیثیں سن سن کر’ اللہ کی بڑائی کو جان جاؤ۔ ایک بڑائی وہ ہے جس کو جانتے ہو، سب سے بڑا بیٹا۔ سب سے بڑا پتھر سب سے بڑی کوٹھی۔ اس قسم کے اکبر بہت بولے جائیں دنیا میں اور اکبر کو دیکھ کے بول رہے ہو۔ دیکھ جان کے’ سمجھ کے بول رہے ہو۔ اور ایک اکبر کو بغیر دیکھے بغیر جانے بغیر سمجھے بول رہے ہو۔ جیسے بہت بڑا ڈاکٹر جس طرح کہے اس طرح کر لو۔ انھوں نے یہ پرہیز بتلایا ہے۔ اس کے کہنے پر چل رہے ہیں اور اللہ کو بھی بہت بڑا کہہ رہا ہے۔ رات دن انھوں نے کہا کہ سود مت کھائیو نہیں تو مصیبت میں آجاؤ گے۔ جھوٹ بول کے مت کھائیو۔ رشوت سے مت کھائیو۔ کسی کا دبا کے مت کھائیو۔ یہ کھا لو گے تو نقصان ہو گا۔ یہ کھا لو گے تو فائدہ ہو گا۔ لیکن مجال ہے کہ اس کے منع کئے ہوئے کو چھوڑ دیویں اور اس کے بتلائے ہوئے کو پکڑ لیویں ہے کوئی دنیا میں۔ آج ہے کوئی مسلمان ایسا کرنے والا۔ بہت بڑا ڈاکٹر جانتا ہے، بہت بڑا وزیر جانتا ہے۔ بہت بڑا سائنس دان جانتا ہے۔ بہت بڑی بندوق جانتا ہے۔ یہ ہر ایک جنس کی بہت بڑے کو جانتا ہے لیکن خدا کو جو بہت بڑا کہتا ہے۔ اس کو بے وقوف جانتا ہی نہیں۔ اس لیے کہ اس نے اس کی بڑائی کو دل میں اتارنے کے لیے کوئی محنت کی ہی نہیں۔ ان کی بڑائی پہ محنت کی ہے۔ ان کے پاس گیا ہے ان کے پاس اٹھا بیٹھا ہے۔ ان کی لائن کی کتابیں پڑھی ہیں۔ ان کی لائن کی چیزوں کو معلوم کیا ہے۔ لیکن اللہ کی لائن کی چیزوں پر کتنی محنت کی۔ یقین بنانے میں کتنے ہاتھ پیر مارے۔ ان کی بڑائی کو دل میں اتارنے خدا کی معلومات کو معلوم کرنے میں کتنا وقت صرف کیا۔ کتنا اس کی زندگی میں بولا۔ کتنا اس کی بڑائی کو سمجھا۔ غیروں کی تردید اپنی زندگی میں کتنی کی ،نبیوں کی زندگی اس طرح گزری کہ غیروں کی بڑائی کی تردید کرتے ہیں۔ ان کی تو زندگیاں گزری ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زندگی اسی میں گزر گئی۔ لیکن یہاں اس پھوٹی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلتا کہ ان سے کچھ نہیں ہوتا۔ خدا سے سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں اللہ سب کچھ ہیں تو ہماری زبانیں گونگی ہیں اللہ اکبر کے اعتبار سے، ہماری زبانیں گونگی ہیں۔ لا الہ الا اللہ کے اعتبار سے، ہمارے کان بہرے ہیں۔ اللہ اکبر کے اعتبار سے ۔ یہ دعو ت جو میں کہہ رہا ہوں۔ خدا کی بڑائی کی دعوت ہے اللہ سے ہونے’ غیرسے نہ ہونے کی دعوت ہے۔
مرنے سے پہلے پہلے اس بات کو دل میں اتارلے کہ حضور کے طریقے میں استعمال ہونے میں کامیابی ہے اور ملک و مال کے چیتھڑوں میں کوئی کامیابی نہیں۔ اس کو اپنے پہ کھول لے۔ مرنے سے پہلے پہلے تیرے دل پہ کھل جائے۔ کیونکہ تیرے مرتے ہی قبر میں جب جائے گا تو پہلا سوال یہ ہوگا کہ بتا تیرا پالنے والا کون ہے۔ اگر اس پر محنت کی تھی کہ دکان سے پلتا ہوں۔ اپنی محنت سے پلتا ہوں۔ پیسے سے پلتا ہوں تو قبر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا رب خدا ہے جو دل میں نہیں تو زبان پر کیسے آئے۔ چاہے تو کروڑ مرتبہ روز پڑھ لیا کر۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اور اللہ اکبر تیرے دل میں بیٹھا ہوا نہیں ہے دل میں یہ ہے کہ میری محنت سے نقشے بنتے ہیں اور نقشوں سے میری زندگی بنتی ہے تو خدا کی قسم! یہ آدمی قبر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ میرے رب ہیں۔
دوسرا سوال ہو گا، تیرا دین کیا ہے۔ پلنے کے لیے کیا کیا۔ آخر پلنے کے لیے کیا کیا۔ کوٹھیاں بنوائیں نقشے بنائے۔ آخر کیا کیا پلنے کے لیے اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر یہ سب کچھ کیا تو چلو کہے گا۔ کہ پلنے کے لیے اسلام پہ چلا ہوں۔ اور اگر یہاں نقشوں ہی میں پلنا دکھائی دیتا رہا تو کوئی آدمی قبر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے پلنے کا طریقہ اسلام ہے۔ پھر یہ پوچھیں گے کہ اس آدمی کو کیا کہتا ہے۔حضور کا نام زندگی کے کسی مرحلے میں آیا ہی نہیں۔ شادی کی تو غیروں کے نام پر۔ مکان بنایا تو غیروں کے نام پر۔ فلانے جیسی کوٹھی بنائیں گے۔ فلانے جیسی موٹر خریدیں گے۔ کہیں پھوٹی زبان سے زندگی کے شعبوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ آیا۔ وہ کہیں گے کیا کہتا ہے اس آدمی کو۔ وہ کہے گا میں نہیں جانتا کس کو پوچھتے ہو۔ بھئی میرے تو بہت سے ہیں۔ کوئی کوٹھی میں میرا مقتدا ہے۔ کوئی لباس میں میرا مقتدا ہے۔ کوئی غذاؤں میں میرا مقتدا ہے۔ کوئی کامیابی میں میرا مقتدا ہے۔ میں تو ہزاروں کے پیچھے چلا ہوں۔ ایک ہو تو بتاؤں، تم بتاؤ تم کون سے کو پوچھو میں تو سمجھا نہیں۔ ایک آواز آوے گی۔ جھوٹا ہے کم بخت! اس کے لیے آگ کے بستر بچھا دو اور دوزخ کی کھڑکی کھول دو۔ اور آگ کے کپڑے پہنا دو۔ بس یہی تین سوال ہیں میرے عزیزو!
ان تین چیزوں کے لیے ان تین پر محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ یہ ہیں خدا پالنے والا ہے۔ حضور کے طریقے پر محنت کرنے سے خدا پالتا ہے۔ حضورؐ کا طریقہ یہ زبان پر چڑھ جائے، اور خدا پالنے والا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر محنت کرکے ہاتھ اٹھائیں گے۔ خدا پالے گا۔ بس پہلے نماز پر محنت کر لو۔ حضور کے طریقے پر نماز پڑھنی سیکھ جاؤ۔ اس کی دعوت دو اس کے علم کے حلقوں میں، فضائل کے مذاکروں میں، مسائل کے سیکھنے سکھانے میں، دعاؤں میں’ قرآن میں’ ذکر میں ’ تلاوت میں اور نمازوں میں۔ یہی ہمارا گھر میں محنت کا میدان ہے۔ یہی ہمارا بازار کا نعرہ ہے یہی ہمارا کوٹھیوں کا نعرہ ہے۔ یہی ہمارا حاکموں کے پاس جانے کا نعرہ ہے۔ کامیابی کے لیے نمازہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز بناؤ تو خدا کامیابی کے دروازے کھولے گا۔ پانچ باتوں پر نماز لے آؤ۔ نماز قبول ہو جائے گی۔ دروازے کھل جائیں گے۔ کلمے والے یقین پرلاؤکلمے نماز کے فضائل والا شوق۔ مسائل والے طریقے، اخلاص والی نیت ہو جائے گی اللہ والا دھیان ان پانچ چیزوں پر نماز آئے گی۔ نماز مقبول ہو جائے گی انہی پانچ پر کمائی آئے گی تو کمائی حضور والے طریقے پر آجائے گی۔ کلمے والے یقین پر کماؤ۔ تمھاری شکلوں سے پیسہ نہیں ملتا خدا کے دینے سے ملتا ہے۔ حضورؐکے طریقے پر کماؤ گے۔ خدا تمھیں بہت کچھ دے گا۔آخرت میں فضائل کے شوق پر مسائل کے طریقوں پر اللہ کے دھیان پر اور اخلاص والی نیت پر تمھاری کمائیاں تمھیں جنت میں پہنچائیں گی ۔گھر کی زندگی ان پانچ پر آئے گی تو گھر کی زندگی تمھیں جنت میں پہنچائے گی۔ اگر تمھاری معاشرت اور آپس کے میل جول ان پانچ پر آئیں گے تو تمھیں جنت میں پہنچائیں گے۔ یہ پانچ چیزیں اپنے میں پیدا کرنا۔ اور ان کے لیے وقت نکالنا اور اس کی محنت کا میدان قائم کرنا، اس کی دعوت دینا، اس کا ماحول بنانا، اس کے لیے پھرنا اور پھرانا اس کے لیے مسجدوں میں اکٹھا کرنا اور ہونا بس ایک چیز ہے کہ جو اپنا حصہ اس محنت میں ڈالے گا، اللہ کی ذات سے توقع ہے کہ خدا کی بڑائی اس کے بولنے میں آئے گی سننے میں آئے گی۔ نماز کے باہر ہمارے جس قدر شعبے ہیں وہ بھی حضورؐ کے طریقے پر آئیں گے۔ حضور کے طریقے پر آگئے تو حکومت کرکے بھی جنت میں جائیں گے۔ اگر حضورؐ کے طریقے پر نہ آئے تو محکومیت میں بھی دوزخ میں جائیں گے۔ اگر آپ حضورؐ کے طریقے پر چل پڑے تو مالداری میں بھی جنت میں جائیں گے۔ اگر حضورؐ کے طریقے پر نہ چلے تو فقیری میں بھی دوزخ میں جائیں گے ۔ اصل میں کامیابی کی جو گارنٹی ہے وہ تو حضورؐ کے طریقوں میں ہے۔ ایک دم سارے طریقے نہیں بدلا کرتے۔ ہاں البتہ محنت ایک دم شروع ہو جایا کرتی ہے۔ آدمی محنت ایک دم شروع کردیتا ہے۔ کھیتی کی محنت ایک دم شروع کر دیتا ہے۔ لیکن کھیتی ہوتے ہوتے ہوتی ہے۔ کوٹھی بنتے بنتے بنتی ہے بس محنت شروع کر دی جائے۔ اس لیے تبلیغ میں جو ہیں تھوڑی سی تربیت اپنی محنت کی کرنی ہے۔ کلمے نماز کا مسجد میں ماحول بنانے کی محنت، ایک دفعہ ہمت کرکے تین چلے دے دو۔ سال کا چلہ دیتے رہو۔ مہینے میں تین دن کے لیے نکلتے رہو۔ ہفتے کی دو گشتیں کرتے رہو۔ اپنی مسجد میں تعلیم تسبیح اور نفلوں کا اور ایمان کی دعوت کا ایک ماحول بنا لو۔ بس اگر اتنا کر لیا سارے مسلمانوں نے مل کر تو حضور کے زمانے کا دین زندہ ہو جائے گا اور ایک بات خوب سمجھ لو کہ جب آنکھ بند ہو گئی تو آنکھ بند نہیں ہو گی خواب والی بندہو گئی۔ جاگنے والی کھل گئی۔ یہ جو تمھاری نظروں کے سامنے ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں جب آنکھ کھلے گی، پھر کیا ہو گا۔ تمھارے سامنے یہ ہے اصل آنکھ کھل جائے گی۔ اس وقت پچھتاوے گا۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ جو بھی شریعت کے خلاف کمانا ہو گا وہ سود کے حکم میں ہے اور سود جو سور سے زیادہ سخت ہے تو اگر آپ کی گھر والی زندگی سود والے پیسے پر چل رہی ہے اور آپ کی کمائی حضورؐ کے طریقے سے ہٹ کر چل رہی ہے تو میاں پھر ایک منٹ کی گنجائش نہیں تاخیر کی کہ اس سے توبہ کی جائے۔ ایک منٹ کی گنجائش نہیں۔ تاخیر کی تو پھر تو باہر نکلو یقینوں کو ٹھیک کرو۔ اور اپنی کمائی کو، اپنے گھر کو حضورؐ کے طریقے پر لانا سیکھو۔ اپنی کمائی کو حضورؐ کے طریقے پر کیسے لاویں۔ یہود کے طریقوں کو تو ہم لے آئے۔ نصاریٰ کے طریقوں کو تو ہم لے آئے۔ مشرکین کے طریقوں کو تو ہم لے آئے۔ اپنی جان و مال کے خرچ کو ان کے طریقوں پر تو لے آئے۔ جنھوں نے ہمیں ذبح کیا۔ ہمارے ٹکڑے کئے اور چودہ سو برس تک ہمیں پیسا ہے اور اب بھی پیس رہے ہیں۔ ان کے طریقوں پر تو ہم اپنا سب کچھ لے آئے ہیں۔ تو زندگیوں کو یہود اور نصاریٰ تک تو پہنچا دیا ہم نے۔ اب اس تشکیل کو سیکھو کہ کس طرح یہود اور نصاریٰ کے طریقوں سے ہٹ کر حضورؐاور ان کے صحابہؓ کے طریقوں پر آجاویں ۔ حضورؐ کو امام بنایا ہی نہیں، آج امام بنا رکھا ہے۔ یہود کو اس اندھے یہود کو جس نے ہمیں ذبح کیا چودہ سو برس تک وہ امام بن چکے ہیں زندگی میں۔ نمازیوں نے بھی مقتدا بنایا یہود کو اور بے نمازیوں نے بھی اپنا مقتدا اور امام بنایا نصاریٰ کو۔
خالی اللہ اکبر چاہے تم ساری عمر کہو۔ اللہ کی بڑائی دل میں تب بیٹھے گی۔ جب اس کا قرآن سنو گے۔
ذوقِ ابراہیمی نہیں ہے۔ ذوق آذری ہے۔ ذوق موسوی نہیں ہے ذوقِ فرعونی ہے۔ ذوقِ محمدی نہیں۔ ذوقِ قارونی ہے، تو بھئی اگر یہی اچھا لگتا ہے تو مبارک ہے۔ چلئے آپ مرنے کے بعد دیکھئے گا۔ کیا ہو گا۔ اگر یہی اچھا لگتا ہے اور چلانا اسے ہی ہے۔ جسے اب چلا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے تو تین چلے کیا ہم ایک دن بھی نہیں چاہتے۔ کسی سے ایک دن بھی نہیں مانگتے اور میاں اگر اس سے مڑناچاہتے ہو کہ، ہم بڑے غلط پھنس گئے اور زندگی میں ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں پر کلہاڑیاں ماری ہیں۔ یہ سب ہم نے خود کیا ہے اور دنیا کے اندر جو ہم مصیبتوں کا شکار اپنے ہاتھوں سے ہوئے ہیں۔ اب ہم کیسے زندگی کے رخ کو پھیریں تو سب سے پہلے اپنے میں مجاہدے کی عادت ڈالیے۔ پہلے علم سیکھئے دعوت دینا سیکھئے۔ تعلیم کے حلقوں میں بیٹھنا سیکھئے تو کم سے کم مسجد والی زندگی کی مشق کیجیے۔ پھر آؤ اور اسے محلے میں چلاؤ۔ خاندان میں چلاؤ۔ رشتے داروں میں چلاؤ۔ نیت میں رکھو۔ سب سے منہ موڑنا ہے ان کو سیکھتے سیکھتے۔ پھر کسی کے جی کو لگ گئی تو خاندان بن گیا۔ ذوق کی تبدیلی کے لیے چاہیے وقت، اور جتنا اس کے لیے محنت کرو گے۔ ذوق بدلے گا۔
حضورؐ کے قریب ہونے میں ہمارا فائدہ ہے اور حضورؐ سے دور ہونے میں ہمارا نقصان ہے۔ اس لیے کہیں کہ اس ماحول کو بدلو۔ یہ ماحول نہایت زہریلا ہے اس کی تو ہر چیز غلط۔ اس کی ایک چیز بھی صحیح ہو تو کہیں کہ کچھ صحیح ہے مجھے بتا دو کہ اس کی کون سی چیز صحیح ہے۔ اب ایک بات ہماری مان لو۔ سو ڈیڑھ سو، دو سو روپیہ ساتھ لے کے ہمارے ساتھ لاہور چلو تین دن تو سنتے رہو۔ پھر جتنا وقت خدا تمھارے دل میں ڈال دے اتنا دے دیجیو۔ پیسے لے کے تین دن کے لئے چلو اور یہ نیت کرکے چلو کہ اللہ میرے جی میں ڈال دے اور یوں دعا کرو کہ اللہ تو اس کو میرے جی میں ڈال دے۔ اگر جی میں نہ آوے تو واپس چلے آئیو۔ اور اگر اللہ جی میں ڈال دے تو جتنا وقت اللہ جی میں ڈال دے۔ اتنا دے آئیو۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔