انور کے والد صاحب کو بیمار ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہونے کو تھا۔ آج ان کی پوری رات کراہتے ہوئے گزری تھی۔ کھانسی کا دورہ تو ان کے لیے خاص طور پر بہت تکلیف دہ ہوا کرتا تھا کہ اس میں بعض اوقات سانس بھی رکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی، آج شب ،یہ بھی کئی بار ہو چکا تھا۔ ابھی چند منٹ قبل ہی ان کی آنکھ لگی تھی۔ اسی اثنا میں قریبی مسجد سے اذانِ فجربلند ہوئی۔ انور کو اذان کا سننا بہت اچھا لگتا تھا، مگر اس وقت اس پر یہ آواز گراں گزر رہی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں یہ آواز والد صاحب کے آرام کو پھر تکلیف میں نہ بدل دے۔
ابھی نماز میں آدھ گھنٹا باقی تھا۔ اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر کے لیے سستا لے۔ وہ کرسی پر نیم دراز ہوا۔ اس کی نظر ابھی تک اپنے والد پر جمی ہوئی تھی۔ کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ اسے محسوس ہوا جیسے سامنے چارپائی پر وہ خود لیٹا ہوا ہے اور اس کے والد اس کی جگہ پر ہیں۔ آج سے بیس برس قبل جب وہ پندرہ برس کا تھا تو وہ بھی ایسا ہی شدید بیمار ہوا تھا اور اس کے والد نے بھی کتنی راتیں اس کے سرہانے یوں ہی بیٹھے بیٹھے گزاردی تھیں۔ مزدور باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے اپنی سائیکل بھی بیچ ڈالی تھی اور اس کی ماں نے اپنے جہیز کی آخری نشانی، انگوٹھی بھی فروخت کر دی تھی، مگر پھر بھی اس کے علاج کے اخراجات سنبھل نہ پائے تھے۔ دن کو مزدوری کی محنت اور راتوں کو جاگنے کی مشقت نے ایک دن اس کے باپ کو شدید بخار میں مبتلا کر دیا، وہ ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے کوئی ایسی دوا دے دیں کہ میرا بخار فوراً اتر جائے تاکہ میں کام پر جا سکوں، ورنہ شام کو اپنے بچے کے لیے دوا نہ خرید سکوں گا۔ بالآخر باپ کی محنت رنگ لائی۔ بیٹا صحت مند ہوا، مگر انور کی تو ساری محنت رائیگاں جا رہی تھی۔ صورتِ حال یہ تھی کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ وہ بھی ہر جتن کر رہا تھا، مگر بے سود۔ ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر وہ حکیموں کے پاس پہنچا۔ کل شام وہ ساتویں حکیم سے ہو کر آیا تھا، مگر عجیب بات تھی کہ سب حکما کی ایک ہی رائے تھی کہ تمھارے باپ کی بیماری بالکل قابل علاج ہے، مگر دوا بنانے کے لیے خالص دیسی گلاب کا خالص عرق چاہیے۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ مسلسل خالص عرقِ گلاب کی تلاش میں سرگرداں تھا، مگر خالص عرق گلاب ہر جگہ ناپید تھا۔ اسی لمحے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود دیسی گلاب حاصل کرکے عرق کشید کرے گا۔ صبح ہوتے ہی وہ قبرستان میانی صاحب کے باہر پھول بیچنے والوں کے پاس پہنچا اور ان سے معلومات لیں کہ دیسی گلاب کہاں مل سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس سال دیسی گلاب کی فصل کیڑا لگنے سے مکمل تباہ ہو گئی ہے، اب تو اس کا حصول ممکن نہیں۔ وہاں سے چلتا چلتا وہ بازار گل فروشاں لوہاری گیٹ پہنچا۔ وہاں سے بھی اسے یہی جواب ملا۔ وہ پھر بھی مایوس نہ ہوا، اس کی اگلی منزل شرق پور روڈ تھی۔ وہاں پھول بیچنے والے بکثرت موجود تھے۔ ان کے پاس ہر قسم کا گلاب موجود تھا، سوائے دیسی گلاب کے۔ اس نے ان سے فرداً فرداً پوچھا کہ دیسی گلاب کے ملنے کی کوئی صورت ہے؟ انھوں نے بتایا کہ اب تو یہ ممکن نہیں، اگلی فصل تک انتظار کرنا ہو گا۔ انور بڑبڑایا: اگلی فصل تک؟ اس پر تو ایک ایک لمحہ بھاری ہو رہا تھا۔ اسی دوڑ دھوپ میں دن کے دس بج چکے تھے، اس نے سوچا کہ شرق پور کے پاس عباس پور گاؤں جا کر خود گلاب کی فصل دیکھے کہ شاید کچھ پھول کیڑے کی دست برد سے بچ گئے ہوں۔ ابھی اس نے موٹر سائیکل کا رخ ادھر کیا ہی تھا کہ اسے خیال آیا کہ آج تو والد صاحب کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔ انھیں ایک دفعہ دیکھ کر پھر جاتا ہوں۔ وہ گھر کی طرف پلٹا۔ ابھی گھر کے دروازے ہی میں تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ وہ تیزی سے والد صاحب کی چارپائی کی طرف لپکا۔ والد صاحب کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ زرد ہو چکا تھا۔ نبض کی حرکت احساس سے ماورا ہو چکی تھی۔ گردن ایک طرف ڈھلک گئی تھی اور جسم کی بچی کھچی گرمی بھی سردی کا روپ دھار چکی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ جب صبح وہ عرق گلاب کی تلاش میں نکلا تھا تو لگتا ہے کہ اسی وقت ان کی روح بھی عدن کے باغوں کی تلاش میں نکل گئی تھی۔ پھر اس نے آنکھیں دیکھیں تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ابھی روشن ہیں اور جیسے وہ سوال کر رہی ہیں کہ مل گیا عرقِ گلاب؟ سوال کرتی آنکھوں نے اس کے اندر ایک موہوم سی امید کا دیا روشن کر دیا تھا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا کہ حکیم صاحب کو بلا کر لائے کہ شاید وہ اس کی امید کی تائید کر دیں۔ اس کی والدہ نے بھاگتے ہوئے انور کے ہاتھوں میں ایک دفعہ پھر عرقِ گلاب کے لیے خالی بوتل تھما دی تھی۔ حکیم صاحب کے مطب کے باہرہی سے اس نے انھیں آواز دی کہ جلدی آئیے، مگر اس نے دیکھا کہ وہ بڑے انہماک سے اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ حکیم صاحب اس کی آواز سن کر چونکے۔ انھوں نے اپنی عینک اتاری اور کہا: اندر آجاؤ جلدی سے۔ تمھارے کام کی ایک چیز ہے۔ وہ اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ حکیم صاحب ایک خبر کونشان زد کر رہے تھے۔ اخبار کے صفحہ اول پر یہ خبر تصویر کے ساتھ نمایاں انداز میں چھپی ہوئی تھی کہ کل گورنر پنجاب نے انڈیا سے خصوصی طور پر برآمد کردہ دیسی گلاب سے تیار شدہ ۵۰ من خالص عرق گلاب سے دربار داتا صاحب کو غسل دیا۔