اصلاح و دعوت
مسابقت کا اصل میدان
شہزاد سلیم؍ ترجمہ ، محمد صدیق بخاری
نہ تو سارے انسان ایک جیسے ذہین اور چست و چالاک ہوتے ہیں اور نہ ہی سارے خوبصورت ۔اسی طرح نہ تو سارے پیدائشی رئیس ہوتے ہیں اور نہ ہی سارے شہرت کی بلندیوں کو چھو پاتے ہیں۔تاہم ذہین ، خوبصورت اور رئیس ہونے یا شہرت پانے کی خواہش البتہ سب رکھتے ہیں ۔اور جب ان کی یہ خواہش کما حقہ پوری نہیں ہو پاتی تو انسانوں پر ایک قسم کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ سی چھا جاتی ہے ۔ بعض تو احساس کمتری کا شکار ہو کر زندگی میں دلچسپی ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ احساس محرومی ان کا روگ بن جاتا ہے اور برتری حاصل کر نے کی خواہش ان پر خبط بن کر چھا جاتی ہے ۔
قرآن اس مرض کا علا ج بتاتا ہے کہ اصل میں مسابقت کا میدان کوئی او ر ہے ۔خلقی یا فطری صلاحیتوں کا میدان دوڑ کا میدان نہیں ہے اس کے برعکس نیکی اور تقوے کا میدان وہ میدان ہے جس میں مسابقت کے لیے راستہ کھلا ہے۔اس میدان میں کوئی جتنا چاہے دوڑ ے یہاں کوئی پابند ی نہیں۔ بلکہ قدرت نے یہاں سب کو اپنی صلاحیتیں بڑہانے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع عطا کر رکھے ہیں۔ اور یہ میدان غریب امیر ، خوبصورت بد صورت ، ذہین و غبی سب کے لیے کھلا ہے ۔غلط جگہ او رغلط میدان میں اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے سے مایوسی اور احساس محرومی پیداہوتا ہے ۔ اگر واقعتا کسی کو اپنی صلاحیتیں آزمانے اور دوڑ لگانے کا شوق ہو تو وہ نیکی اور تقوے کے میدان میں آئے ۔ یہاں مسابقت اور تنافس پر کوئی پابند ی نہیں بلکہ مستحسن ہے ۔ و فی ذلک فلیتنافس المتنافسون۔
’’ اور جس چیز میں اللہ نے تمہیں ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہے اس کی تمنا نہ کرو ۔ مردوں کو حصہ ملے گا اس سے جو
انہوں نے کمایا اورعورتوں کو حصہ ملے گا اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور اللہ سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔‘‘(۳۲:۴)