یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ اُمت میں طبقات کا اتنا اختلاف ہے’ اذہان کا اتنا تفاوت ہے’ حالات ایسے مختلف ہیں کہ کوئی تحریک یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ تمام طبقات کو متاثر کرسکتی ہے’ ان کی تسکین کا سامان کرسکتی ہے اور ان کی استعداد کے مطابق دینی غذا فراہم کرسکتی ہے’ کوئی ذہن تقریر سے متاثر ہوتا ہے’ کسی پر لٹریچر اثرانداز ہوتا ہے اور کوئی کسی دوسرے ذریعہ سے متاثر کیا جاسکتا ہے’ اس طرح ایک واحد طریقۂ کار سے ہرجگہ ہر حالت میں کامیابی مشکل ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے اور اس کے مطابق چلنے میں لوگوں سے بڑی غلطیاں ہوتی ہیں۔
بہت سے لوگ قابلِ قدر اور بڑے مخلص ہیں’ لیکن ان لوگوں کا اس وقت تک دل خوش نہیں ہوتا’ جب تک کہ ہر شخص انھیں کے مخصوص طرز پر کام نہ کرے اور سب ایک ہی کام نہ کرنے لگیں’ جب کہ عمومی اور انقلابی تحریکوں کا معاملہ یہ نہیں ہوتا۔ وہاں ہر چیز اس کے صحیح مقام پر رکھی جاتی ہے اور ٹھیک چوکھٹے پر بٹھائی جاتی ہے’ ہرشخص سے وہی کام لیا جاتا ہے جس کا وہ زیادہ اہل ہے اور جس میں وہ دوسروں سے ممتاز ہے۔
ہم کو تو دوسری دینی کوششوں اور ان کے ذمہ داروں کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے بہت سے لوگوں کو سنبھال رکھا ہے’ جو ہماری گرفت میں نہیں آسکتے تھے’ یہ اللہ کی طرف سے نظام سمجھنا چاہیے کہ کچھ لوگ اس راستہ سے دین تک آجائیں اور کچھ اُس راستہ سے آجائیں۔