کامیاب او رپرسکون زندگی کاراز اصل میں صبر ، شکر، قناعت اورراضی برضا ئے رب رہنا ہے ۔ دنیا کے ماہرین اور دانشوروں نے جو اصول بیان کیے ہیں وہ اصل میں انہیں باتوں کا خلاصہ ہیں اور اگر غور کیا جائے تویہ سب اصول قرآن پاک اور احادیث کی تعلیمات میں موجودہیں ۔اور عام طور پر مفکرین بھی وہیں سے اخذ کرتے ہیں۔
مسٹر برٹن آف مسوری (امریکہ) لکھتا ہے کہ محمد ﷺ کا ارشاد ہے کہ نیک کام وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے چہرے پر خوشی کی مسکراہٹیں بکھیردے ۔ مسٹر ایڈلر کہتا ہے کہ ہر روز ایک نیک کام ایسا کرو جو کسی کے چہرے پر تبسم پیدا کرے۔ ولیم جیمز کہتا تھا کہ دین سے محبت کرنے سے پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں اور راضی برضا رہنے سے سکون میسر ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر برلی کا کہنا ہے کہ جو شخص صحیح معنوں میں مذہب کا پابند ہوتا ہے کبھی اعصابی اور ذہنی امراض کا شکار نہیں ہوتا ۔ مسز بیارڈ کہتی ہے کہ میں کبھی بن دعا مانگے نہیں سوتی جب تک خدا کا شکر ادا نہ کروں کھانا نہیں کھاتی۔ اس سے قلبی راحت ہوتی ہے ۔ایک اور مفکر لکھتا ہے کہ کامیاب زندگی کے حصول کے لیے سچا دین ، پوری نیند،سکون بخش موسیقی ، دن میں چند قہقہے ، خدا پر ایمان ضروری ہے ۔اسی طرح تندرست رہنے کے لیے قناعت اور بندوں یا رب سے شکوہ نہ کرنا از بس ضروری ہے ۔ ولیم جیمز لکھتا ہے کہ پختہ ایمان زندگی کا سہارا ہے ۔ اسکی عدم موجودگی کا نتیجہ شکست وریخت اور انحطاط ہے ۔ مہاتما گاندھی کا کہنا تھا کہ بھجن یکسوئی اور سکون فراہم کرتے ہیں ۔
خواہشات کو محدودرکھیں اورہر چمکتی چیز پر للچائی نظریں نہ رکھیں ۔ جیسے بھی المناک واقعات گزریں دل کو سمجھائیں کہ یہ منجانب رب العالمین ہیں ۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کی زندگی مصائب وآلام سے دوچار نہ ہوئی ہو ۔ دنیا پرست کو اگر مصائب کا سامنا ہو تو وہ ہمت ہار جاتا ہے لیکن خدا پرست پر کامرانیوں کی بارش ہو یا غم کے پہاڑ ٹوٹیں ،وہ دونوں سورتوں میں یہی سمجھتا ہے کہ اللہ کی مرضی پوری ہو رہی ہے ۔ آفات اس کا دل نہیں توڑ سکتیں اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ اور تفاخر میں مبتلا نہیں کر سکتیں ۔وہ آزمائشوں پر پورا اترتا ہے ۔ یہی بامراد زندگی ہے ۔
گزرے ایام کو فراموش کر نا بھی پرمسرت زندگی کا راز ہے اور انہیں یاد رکھنا تضیع قوت ، ذہنی تفکرات اور اعصابی پریشانیوں کا باعث بنتا ہے ۔ گزرے ایام عیش وعشرت میں گزرے ہوں یا مصائب و آفات میں، ان کا بھلانا ہی بہتر ہے ۔حال ہی اصل ہے اس لیے خود کو موجودہ دور کا سامنے کرنے کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔
حضرت عیسی کی نصیحت ہے کہ کل کی فکر نہ کرو ورنہ قلب و ذہن مفلوج ہو جائیں گے ۔ حال کی بنیادوں کو ایسی چٹانوں پر استوار کرو جو متزلزل نہ ہوں تاکہ مستقبل سازگار رہے ۔ امریکہ کے امیر البحر ایٹ کنگ کا کہنا ہے کہ غرقاب جہاز واپس نہیں آسکتا لہذا آئندہ کے سفر کو بہتر بناؤ ۔ منطقی اور تعمیری منصوبہ بندی کرو ۔ اس کے برعکس یاسیت اور خوف اکثر اعصابی کشمکش اور شکست پر منتج ہوتے ہیں ۔ پریشانیاں اور فکرات جسم وذہن کے لیے دیمک اور گھن ثابت ہوتی ہیں ۔
مسائل تو بے شمار ہوتے ہیں اور سب اکٹھے حل نہیں ہو سکتے۔ انہیں بتدریج حل کرو ورنہ جسمانی اور ذہنی ساخت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ ایک وقت میں ایک کام کرتے جاؤ ۔ ایک دوسرے سے گڈ مڈ اورخلط ملط کر کے معاملات کو نہ الجھاؤ ۔سر ولیم اوسلر جو اعلی درجے کا معالج ، فن حیات کا ماہر اور عظیم بناض تھا لکھتا ہے کہ ایک وقت میں ایک کام کرو ۔ تمام الجھنوں اور گوناگوں پریشانیوں کو یکجا نہ کرو۔
برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ اس قدر مصروف رہیں کہ غمگین ہونے کا وقت ہی نہ ملے ۔ مصروفیت اس قدر ہو کہ پریشانی وتفکرات کے لیے وقت ہی نہ ملے ۔ سکون کے حامل لاکھوں میں گنتی کے محدودافراد ہوتے ہیں ۔ مسٹر او ڈولے کہتا ہے کہ اگر میں دفتری اور کاروباری مسائل کو اپنے ہمراہ رہائش گاہ پر لے جاؤں تو میری صلاحیتیں فنا اور صحت تباہ ہو جائے اور گھر جا کر سکون کی نیند سے محروم ہو جاؤں ۔
نومبر 1996 میں مجھے حکیم سعید کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ۔ میرے استفسار پر حکیم صاحب نے فرمایا کہ میری صحت کاراز شب وروز مصروفیت ہے ۔فراغت سے فکر آمیز خیالات پروان چڑھتے ہیں ۔ مرتے دم تک مصروف رہو اور انسانی بہبود کے کاموں میں لگے رہو ۔
جس وقت راک فیلر کی سالانہ کمائی 5 لاکھ ڈالر تھی اسے علم ہوا کہ سمندر طوفان کی زد میں ہے ۔ اور اس کا دخانی جہاز جس میں 40 ہزار ڈالر کا اناج ہے ڈوبنے کا خدشہ ہے اس نے 150 ڈالر دے کر بیمہ کروا لیا ۔ لیکن جہاز صحیح سلامت ساحل پر پہنچا تو اسے 150 ڈالر کا شدید اتناصدمہ پہنچا کہ ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہو گیا ۔ اس کی کنجوسیاں اس قدر زبان زد عام تھیں۔وہ دولت کمانے میں مگن تھا تو ڈاکٹروں نے اسے لرزہ خیز حقیقت سے آگاہ کیا دولت کا انتخاب کرویا صحت کا معاملہ ۔ چنانچہ اس نے صحت کا انتخاب کیا۔وہ گاف کھیلتا، گنگنانا، باغبانی او رھنسی مزاق کے لیے اوقات وقف کرتا ، اورضرورت مندوں کی خدمت کر کے حقیقی مسرت حاصل کرتا۔ شکاگو کا خسارہ زدہ کالج اس کے عطیات سے امریکہ کی چوتھی بڑی یونیورسٹی بن گیا ہے ۔ حبشیوں کے لیے اس نے راک فیلر ویلفئیر ادارہ قائم کر کے جہالت اور بیماری کے خلاف جنگ کی ۔ یہی اسلام سکھاتا ہے
1932 میں اس نے ہیضے کے لاکھوں مریضوں کو بچایا ۔ تپ دق ۔ ملیریا ۔خناق ۔ انفلونزا اور بیشمار بیماریوں کا قلع قمع کرنے کے لیے دولت کا منہ کھول دیا ۔ پھر اسے ذہنی سکون مل گیا ۔ اسلام اسی کا درس دیتا ہے ۔ راک فیلر سٹینڈرڈ آئل کمپنی کا چیئرمین تھا ۔جب قوانین کی خلاف ورزی پر اس کی کمپنی مقدمہ ہار گئی تو راک فیلر کے وکلا کا اندیشہ تھا کہ اسے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا ۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا عدالتی مقدمہ تھالیکن 150 ڈالر کا خسارہ نہ برداشت کرنے والے نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور کہا کہ میں خدا کی کون کون سی نعمتوں کا انحراف اور ناشکری کروں ۔ کہنے لگا انسان کویہ سو چنا چاہیے کہ کیا اس کے پاس اس کی بنیادی ضروریات کی کفالت کے لیے تھوڑی سی پونجی ہے ۔ دنیا میں انسان کو یہی درکار ہے ۔ رات کو پرسکون نیند حاصل کرونگا ۔ 53 سال کی عمر میں موت کی آغوش میں جانے کے لیے تیار 98 سال تک زندہ رہا
ڈاکٹر کارل الیکس نوبل انعام یافتہ لکھتا ہے کہ کوئی شخص دعا سے زیادہ قوت پیدا نہیں کر سکتا یہ اتنی حقیقی ہے کہ جتنی کشش ثقل ۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ جب انسان ہر قسم کی دوا سے مایوس ہو جاتا ہے تو مخلصانہ دعا اس کی بیماریاں اور پژمردگی دور کر دیتی ہیں ۔ دعا ریڈیم کی طرح روشن اور قوت کا سرچشمہ ہے ۔ جب ہم دعا مانگتے ہیں تو ہم ایک لازوال تحریکی قوت سے اپنا رشتہ منسلک کر لیتے ہیں ۔ جب ہم بیقرار ہو کر خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اپنے جسم اور روح دونوں کی بہتری کے لیے قدم اٹھاتے ہیں یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ انسان پورے خلوص اور اشتیاق سے رب العالمین سے طلب کرے اور اس کا نتیجہ ثمر آور نہ ہو ۔
ولیم جیمز لکھتا ہے کہ سچا مذہب پرست انسان اولعزم ، ثابت قدم اور مستقل مزاج ہوتا ہے اس کے اندر سلامتی طبع اور سکون قلب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے ۔ وہ ہر فرض سکون اور تحمل کے ساتھ انجام دیتا ہے یہی مقصد حیات ہے ۔
سینٹ فرانس دعا کیا کرتا تھا کہ خدایا تو مجھے امن کا ایک ہتھیار بنا ۔ جہاں نفرت ہے محبت دے دے، جہاں رقابت ہے وہاں عفو دے دے، جہاں شک ہے وہاں ایمان، جہاں مایوسی ہے وہاں امید ، جہاں اندھیرا ہے وہاں نور، جہاں غم ہے وہاں خوشی عطا فرما دے ۔ قلب کی گہرائیوں سے مانگی ہوئی دعا نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔
گرے ہوئے دودھ پر ماتم نہ کرو ۔ مرگ اور خسارے پر میں نے کبھی واویلا اور آہ وزاری نہیں کی ۔ تھکان ، غیبت، بغض وکدورت فراموش کر دیں، یہ انسان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں ۔ حکیم سعید کہتے تھے کہ فجر سے 2 گھنٹے قبل بیدار ہوتا ہوں ۔ حکیم مرحوم رمضان میں مہینہ بھر چنے کی دا ل سے روزہ افطار کرتے تھے ۔ نیند کم سے کم لیں، نہ آئے تو بیدار ہو کر عبادت یا مطالعہ میں وقت گزاریں ۔
غیر ممالک میں جب تبلیغی افراد کو لوگ گہری نیند میں دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔استفسار کرنے پر انکو بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی عبادت سکون فراہم کرتی ہے او ر سکون سے نیند آتی ہے چنانچہ وہ بھی اس طرف مائل ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اچھے کام کرو گے تو تمہارا ہی فائدہ ہے اور برائیوں سے تمہار ا ہی نقصان ہے کہ یہ تمہیں ناکامیوں سے ہمکنار کریں گی۔ دیانتداری ، شکر ،قناعت اور صلہ رحمی کے ثمر آور نتائج سے انسان کا ہی بھلا ہوتا ہے اللہ تعالی کو کچھ نہیں ملتا ۔
معالجین نے کامیاب اور پر مسرت زندگی کے یہ تین 3 اصول بھی بتائے ہیں۔ فکرو غم سے گریز ، کھلی فضا میں ورزش اور تھکاوٹ کے بعد آرام ۔ خوراک کاخاص خیال رکھیں ۔ جب تھوڑی سی بھوک ہو تو خوراک سے ہاتھ کھینچ لیں ۔
جو لوگ حوصلہ مند زندگی گزارتے ہیں۔ کبھی شکوہ نہیں کرتے ،راضی برضا رہتے ہیں اور سکون کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں جا بجا ارشاد ہے کہ غم اور خوف کا احساس نہ کرو کیونکہ افسردگی اور یاسیت سے انسان حوصلہ ہار جاتا ہے ۔ کامرانیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں جو مسلسل کاوش اور جدوجہد کرتے ر ہیں ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا