جیت کس کی ؟

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2006

            آج بھی روزانہ کی طرح پریڈ گراؤنڈ میں، پریڈ کے بعد دیر سے آنے والے سپاہیوں کو سزا دی جا رہی تھی اور کسی بھی فوجی کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ وہ چاہے سزا دینے والا ہندو حوالدار ہو یا اپنے آفس میں آرام کرسی پر دراز انگریز میجر ۔

            گرمی اپنے عروج پر تھی اور سب خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سخت گرمی کے موسم میں صبح نو بجے بھی انسان کو سائے کی اشد تلاش ہوتی ہے ۔ صبح سے دوپہر ہو چلی تھی اور اب پریڈ گراؤنڈ میں صرف ایک ہی سپاہی تھا جو کہ نامعلوم کس گناہ کی اتنی سخت سزا جھیل رہا تھا ۔ ہندو حوالدار اسے مسلسل پریڈ گراؤنڈ کے چکر لگوا رہا تھا اور کسی طرح بھی اسے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا ۔ میجر بھی صبح سے اس سپاہی کو دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں ہندو حوالدار کو اتنی سخت سزا دینے پر کوس بھی رہا تھا۔ گرمی اور پیاس کے مارے اس سپاہی کی حالت بری تھی ۔ سپاہی نے حوالدار سے آرام کی درخواست بھی کی مگر حوالدار نہ جانے کس جرم کی سزا اسے دے رہا تھا ۔ آخر کار سہ پہر کے وقت اسے آدھ گھنٹہ آرام کی چھٹی ملی ۔ سپاہی پریڈ گراؤنڈ کے قریب واقع نہر کی جانب دیوانہ وار بھاگتا چلا گیا ۔ میجر اسے بغور دیکھ رہا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ جاتے ہی غٹاغٹ پانی پیے گا اور پھر اس کے بعد ہی کچھ اور سوچے گا لیکن میجر کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سپاہی نے پانی منہ میں ڈالتے ہی باہر اگل دیا اور پھر اپنے جسم کے مختلف اعضا دھوئے اور فورا ایک طرف رخ کر کے اپنی عبادت میں مصروف ہو گیا ۔ عبادت کرنے کے بعد بھی اس نے پانی نہیں پیا اور وقت ختم ہونے پر حوالدار نے اسے دوبارہ اسی جہنم میں سزا کے لیے چھوڑ دیا ۔ یہ دیکھ کر میجر سے نہ رہا گیا ، اس نے فورا حوالدار کو کہہ کر اس سپاہی کی سزا معاف کروائی اور اسے اپنے آفس میں بلوایا ۔ میجر نے سپاہی سے کہا کہ اس شدید گرمی کے عالم میں تم صبح سے مسلسل سزا کاٹ رہے ہو، جب تمہیں آرام کا موقع ملا تو تم نے وہی کیا جو ایک پیاسا کرتا ہے یعنی نہر کی طرف بھاگے لیکن نہر پر جا کر تم نے پانی نہیں پیا ، کیوں ؟ سپاہی نے کہا : میجر صاحب میں مسلمان ہوں اور اس وقت میں روزے کی حالت سے ہوں ۔ روزے کی حالت میں ہمارے خالق نے ہمیں کھانے پینے کی ممانعت کر رکھی ہے لہذا میں کیسے پانی پی لیتا ۔ میجر نے کہا اس وقت تو کوئی انسان تمہیں نہیں دیکھ رہا تھا تم تھوڑا سا پانی پی لیتے ، ایک دو گھونٹ کی کیا بات تھی ۔ سپاہی نے فورا کہا : میجر صاحب! کوئی انسان تو مجھے نہیں دیکھ رہا تھا لیکن میرا اللہ تو مجھے دیکھ رہا تھا ۔

            انگریز میجر کو اس بات نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا اور کچھ ہی عرصہ بعد وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ۔ میجر کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اسلام جیت گیا اگرچہ اس دن بظاہر وہ مسلمان سپاہی ہندو حوالدار سے ہار گیا تھا۔

 ٭٭٭

            کافی عرصے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کا زمین کے ایک ٹکڑے پر جھگڑا چل رہا تھا معاملہ انگریز کی عدالت تک پہنچا۔عدالت نے ثالث مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔جس سے زمین کا جھگڑا چل رہا تھا ،ہندووں نے اسی کے بیٹے کوثالث مان لیا۔مسلمان خوش ہو گئے کہ اب معاملہ آسان ہو گیا۔ثالث نے دونوں فریقین کے دلائل سنے اور کاغذات ملاحظہ کیے اور جب شام کو فیصلے کا وقت آیا تو بیٹے نے باپ کے خلاف فیصلہ سنا دیا اور قرار دیا کہ یہ زمین ہندووں کی ہے ۔اس فیصلے کے ساتھ ہی مسلمانوں میں صف ماتم بچھ گئی ۔اس شام اس گاؤں میں مسلمان ہار گئے تھے لیکن اسلام جیت گیا کیونکہ صج سے پہلے پہلے ہندووں کے سو سے زائد گھرانے مسلمان ہو چکے تھے ۔

 ٭٭٭

            میں مسجد میں داخل ہوا ہی تھا کہ دیکھا کہ بابا جی مسجد میں بیٹھے منبر کو تھامے زارو قطار رو رہے ہیں ، میں فورا بابا جی کے پاس گیا اور پوچھا بابا جی کیا ہوا ۔ کہنے لگے آج سب کچھ برباد ہو گیا۔

            بابا جی ہمارے علاقے میں کافی عرصہ سے رہائش پذیر تھے اور انتہائی نیک اور صالح انسان تھے ۔ ان کے ایک عیسائی کے ساتھ بہت اچھے اور پرانے مراسم تھے، وہ ان کی بہت عزت کرتا تھا ۔ اکثر وبیشتر وہ اسے موقع کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرتے رہتے تھے ۔ عیسائی بھی اسلام کی حقانیت کا قائل ہو چلا تھا لیکن آج ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ وہ غیض وغضب میں بھرا بابا جی کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ مجھے کس دین کی دعوت دے رہے ہیں جس کے پیروکار خود تو دھوکے باز ہیں ۔ معلوم ہوا کہ اس عیسائی کا ایک بہت ہی ‘‘نامور’’ دیندار گھرانے کے سربراہ سے جائیداد کا جھگڑاچل رہا تھا ۔( موصوف پراپرٹی کا کام کرتے ہیں) ۔ اس عیسائی نے ان سے ایک پلاٹ خریدا ۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے پلاٹ پر گیا تو وہاں اس نے معماروں کو پلاٹ کی چاردیواری کر تے پایا۔ اس نے بہت شور مچایا لیکن سب بے سود ۔ اسے معلوم ہوا کہ ان صاحب نے وہ پلاٹ اس کے ساتھ ساتھ کسی اور کو بھی بیچ رکھا تھا اور اسی پلاٹ کا دوسرا مالک گھر کی تعمیر شروع کروا چکا تھا ۔ وہ سیدھا بابا جی کے پاس چلا آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے مجھے اچھی اچھی کتابی باتیں بنا کر تو پاگل بنا لیا لیکن اگر یہی آپ کا دین ہے تو آپ کے دین اور اس کے پیروکاروں سے تو میں ویسے ہی بہتر ، ایسے دین سے میری توبہ ۔ آئندہ مجھے ملنے یا مجھے اپنا دین سمجھانے کی مت کوشش کرنا۔

            یہ واقعہ سناتے ہی بابا جی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور کہنے لگے بیٹا ! آج مسلمان جیت گئے اور اسلام ہار گیا۔

 ٭٭٭

             زندگی میں بہت سے مواقع پر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہمارے عمل سے مسلمان جیتیں یا اسلام ۔ ایسے مواقع پر ہم اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں! یہ اصل بات ہے ۔

 ٭٭٭