میرا آبائی گاؤں بورے والا ہے۔ آج کل تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لاہور میں مقیم ہوں۔ایک دن میں گھر سے نکل ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسور اٹھایا۔ دوسری طرف چھوٹا بھائی تھا۔ وہ بولا: "بھائی جان، آپ خیریت سے تو ہیں نا؟" میں نے کہا: "ہاں!" پھر اس نے کہا: "اصل میں رات ایک بس جو لاہور سے بورے والا آ رہی تھی اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور اس میں موجود چھ آدمی مارے گئے ہیں ہم سب گھر والے پریشان تھے کہ کہیں آپ تو اس بس میں موجود نہیں تھے۔" میں نے کہا: "میں آپ اور ہم سب اس بس میں نہ ہونے کے باوجود موت کے اتنے ہی قریب ہیں جتنا کہ وہ لوگ جو بس میں موجود تھے۔"
اسی طرح چند روز پہلے میں جناح ہسپتال میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے ملنے گیا۔ ہم ڈاکٹرز آفس میں بیٹھے تھے کہ ایک نوجوان (جس کا بھائی ہسپتال میں داخل تھا) اندر داخل ہوتے ہی بولا: "ڈاکٹر صاحب، آپ نے میرے بھائی کی بلڈ رپورٹ دیکھ لی ہے؟" ڈاکٹر صاحب نے کہا: "ہاں۔" اس نے پوچھا: "ڈاکٹر صاحب کوئی خطرے والی بات تو نہیں؟"
میں نے سوچا کہ جس خطرے (موت) کو وہ صرف اپنے بیمار بھائی سے متعلق سمجھ رہا ہے اصل میں ہم سب اس خطرے سے ہر وقت دوچار ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص موت کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ موت کا یہ واقعہ ان لوگوں کے ساتھ ہی پیش آ سکتا ہے جو حالت سفر میں ہوں یا پھر کسی بیماری میں مبتلا ہوں اور پھر اپنے آپ کو تسلی دے لیتا ہے کہ مجھے تو موت کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ میں نہ تو بیمار ہوں اور نہ حالت سفر ہی میں ہوں۔"
ان واقعات سے آج کے انسان کی نفسیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کس طرح اپنے آپ کو مالک کائنات کی پکڑ سے محفوظ سمجھتا ہے۔ بلاشبہ یہی وہ نفسیات ہے جس نے آج انسان کو اپنے پروردگار سے غافل کر رکھا ہے۔
جب کسی صحت مند انسان کی موت آتی ہے تو وہ اس چیز کا واضح اعلان ہے کہ موت کے لیے بیماری ضروری نہیں۔ اس طرح گھر میں بیٹھے "محفوظ" شخص کو موت آتی ہے تو وہ اس چیز کا واضح اعلان ہے کہ موت کے لیے حالت سفر میں ہونا ضروری نہیں۔ اس طرح جب کسی نوجوان کی موت آتی ہے تو وہ اس چیز کا واضـح اعلان ہے کہ موت کے لیے بڑھاپا ضرروری نہیں۔
کاش! یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے کہ ہم میں سے ہر شخص موت کے دروازے پر کھڑا ہے۔ کاش! ہمیں اس حقیقت کا واقعی احساس ہو جائے کہ کسی بھی لمحے ہماری مالک کائنات سے اچانک ملاقات ہو سکتی ہے۔ اور وہ ملاقات محض ملاقات نہیں بلکہ نتیجہ خیز ملاقات ہوگی۔ یعنی اس ملاقات کا نتیجہ ابدی خوشی یا ابدی رسوائی کی صورت میں نکلے گا۔
آئیے، مالک کائنات کی اچانک پکڑ سے پہلے ہی اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیں۔ آئیے، اس مالک کائنات کے احتساب سے پہلے ہی اپنا احتساب کر لیں۔ آئیے، اس عارضی زندگی کی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ابدی زندگی کے لیے تیاری کر لیں۔