اللہ سے محبت، اللہ کی محبت اور اس کی قربت، اسے بڑھ کر ہمیں زندگی میں اور کیا چاہیے! مقام تو یہ بہت بلند ہے، اور دولت بھی بے حد قیمتی، لیکن اس قربت اور محبت کی طلب اور کوشش ہر مسلمان کے لیے کسی نہ کسی درجے میں ضروری ہے۔ فرمایا ‘‘مومن سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کر تے ہیں۔’’ (البقرۃ) اور ہدایت کی ‘‘سجدہ کرو، اوراپنے رب سے قریب ہوجاؤ۔’’ (العلق)
جب قرب الٰہی ہر ایک کے لیے ضروری ہوا ، تو یہ بھی ضروری ہوا کہ اس کا حصول ہر ایک کے بس میں ہو، اس کا راستہ آسان ہو، کہ دین آسان ہے۔ اس کے حصول کا آسان راستہ کیا ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنا، جو آپ نے کیا ، جس درجے میں کیا، جس طرح کیا، وہی ، اسی درجے میں، اسی طرح کرنے اور اپنی زندگی آپؐ کی زندگی کی طرح بنانے کی کوشش میں لگے رہنا…… یہ ہے قرب الٰہی کا آسان راستہ!‘‘اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری راہ چلو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔’’(آل عمران)
ہر شخص بقدر استطاعت ہی سعی کر سکتا ہے، اور بقدر سعی ہی سے توفیق الٰہی اور قرب الٰہی حاصل کر سکتا ہے ، لیکن یہ نہ سمجھیے کہ قرب الٰہی کے مقامات کے لیے مطلوب اعمال کچھ اتنے مشکل ہیں جو صرف خواص ہی سے بن پڑ سکتے ہوں اور یہ مقامات صرف انہی کا نصیب ہوں۔ ان میں سے کوئی عمل بھی ایسا نہیں جو، کسی نہ کسی درجے میں، ایک عام انسان کے لیے کرنا،نا ممکن یا مشکل ہو۔ جنت اور قرب الٰہی کے راستے کو تو کہا ہی ‘‘الیسریٰ’’ گیا ہے اور ‘‘الدین یسر’’ کی بشارت دی گئی ہے۔
قرب الٰہی کی جستجو اور ان اعمال کو کرنا یا کرنے کی کوشش کرتے رہنا، ہر لمحے کا کام ہے۔ لیکن بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جب ان کا حصول نسبتاً آسان ہوجاتاہے اور ان کے نتائج میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہر شب و روز میں ایسے کئی لمحات آتے ہیں۔ رات کے لمحات خصوصاً ایسے ہی لمحات ہیں۔ اسی طرح ماہ و سال کی گردش میں رمضان المبارک کا مہینا بھی ایسا ہی وقت ہے۔ یہ بات کہ ہر رات ایک گھڑی ایسی آتی ہے جب اللہ تعالیٰ دنیا کے آسمان پر اترتے ہیں اور اپنا دست کرم پھیلاتے ہیں رات کے لمحات کی قدروقیمت اور نتیجہ خیزی کو ظاہر کرتی ہے۔ اور یہ بات کہ ماہِ رمضان میں شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، فرض کا اجر ستر گنا ہوجاتا ہے اور نفل کا فرض کے برابر، رمضان کی قدروقیمت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ رات ہر روز آتی ہے اور رمضان ہر سال۔ ان قیمتی اوقات سے جتنا فائدہ اٹھاسکتے ہوں، اٹھایے۔ رمضان میسر ہو تو کیا کہنے، لیکن کسی وقت بھی ختم ہونے والی زندگی کا جو لمحہ بھی میسر ہو، اسی لمحے سے ان اعمال کو کرنے کا عزم کیجیے اور کرنا شروع بھی کر دیجیے جوعام لوگوں کو خیر کی طرف بلانے اور خیر کے لیے جمع کرنے کی پرخطر راہ سے گزرنے کے لیے نا گزیر ہیں۔
آسان عملی طریقے
۱۔ نماز میں خشوع
۲۔ قیام لیل
۳۔ ہمہ دم ذکر
۴۔ ذکر کا متعین وظیفہ
۵۔ موت کی یاد
۶۔ فہم قرآن
۱۔ نماز میں خشوع کی تدبیر:
پانچ وقت کی نماز ہم سب پڑھتے ہیں، لیکن روزانہ پانچ دفعہ اس نہر میں غسل کرنے کے باوجود بالعموم ہماری روحانی اور اخلاقی گندگیاں ویسی کی ویسی ہی رہ جاتی ہیں جیسی غسل سے پہلے تھیں اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور بات چیت کرنے اور ان کے سامنے اپنی فقیری اور محتاجی ، شکر اور محبت اور عجز و تذلل کے اظہار کے باوجود ہمیں اس سے کچھ تقرب حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے! حالانکہ نماز خود ہی تقرب ہے اور قرب الٰہی کے حصول کا یقینی نسخہ۔ اس صورت حال کو بدلنا ضروری ہے۔ جب محنت بھی لگ رہی ہے، وقت بھی لگ رہا ہے، تو اس سے نفع کیوں نہ ہو۔ اس نفع کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا بھی ضروری نہیں کہ اقامت صلوٰۃ کی ظاہری شرائط…… صحیح وقت، تعدیل ارکان اور جماعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ جو بالکل آپ کے اختیار میں ہے، ہر نماز میں خشوع کے حصول کی کوشش بھی کریں۔ یعنی نماز کو ایک بے روح رسم کے بجائے اپنے رب سے ملاقات اور گفتگو میں بدلنے کی کوشش کریں۔ یہ کوشش بھی ہمارے اختیار میں ہے۔ اس کے لیے نہ وقت درکار ہے، نہ محنت، نہ طویل نماز، نہ کوئی اضافی عمل، صرف توجہ درکار ہے۔ توجہ بھی خیالات کو بہکنے اور دل کو وسوسوں سے بچانے پر لگانے کی ضرورت نہیں، بلکہ ایک، یا ایک سے زیادہ، درج ذیل چیزوں پر توجہ مرکوز کرنا بھی کافی ہوسکتا ہے:
۱۔ جو لفظ یا کلمہ زبان سے کہیں، اس کے معنی ساتھ ساتھ دل میں دہرائیں۔
۲۔ اللہ میرے سامنے ہیں، جو میں کہہ رہا ہوں یا کررہا ہوں، اسے وہ سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں ۔
۳۔ اپنی غلامی اور تذلل کی جسمانی وضع پر نگاہ اور تصور جمادیں کہ اللہ تعالیٰ میری اس وضع کو دیکھ رہے ہیں۔
۴۔ میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور بات چیت کر رہا ہوں۔
۵۔ یہ میری آخری نماز ہوسکتی ہے۔
۶۔ میری یہ نماز آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی جائے گی، اپنے اختیار سے کوئی ایسی چیز نہ کروں کہ یہ قبول نہ ہو۔
خشوع کے حصول کی جو ترکیب قرآن نے بتائی ہے، وہ یہی ہے کہ دل کو دھڑکا لگارہے کہ اپنے رب سے ملاقات کرنا ہے اور اسی کے پاس واپس جانا ہے۔
آنے والی نماز ہی سے آپ خشوع پیدا کرنے کے لیے ان تدابیر پر عمل شروع کر دیں اور پھر ان پر برابر عمل کرتے رہیں تو انشا اللہ نماز سے آپ کو مطلوبہ زادِ راہ ملنا شروع ہوجائے گا۔
۲۔ قیام اللیل:
رات کی نماز فرض تو نہیں رکھی گئی ، کیونکہ عام انسان بیماری، کسب معاش اور قتال فی سبیل اللہ جیسی مشغولیات کی وجہ سے اس کو نباہ نہیں سکتا تھا۔ لیکن اس کی تاکید اور ترغیب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی صفات میں قیام لیل کا ذکر بار بار بڑے اہتمام سے کیا ہے: وہ‘‘ جو راتیں سجود و قیام میں گزارتے ہیں’’ (الفرقان، الزمر)وہ جو ‘‘ راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر رات کی آخری گھڑیوں میں استغفار کیا کرتے تھے۔’’(الذاریات) وہ ‘‘ جن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور لالچ کے ساتھ پکارتے ہیں۔’’(السجدہ)
تاکید کتنی ہی ہو، جس بات کی دین میں صرف ترغیب کی حد تک تاکید کی گئی ہے ہم اس کو ہر ایک کے لیے لازم نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہم دعوتِ عام اور جہاد میں مشغول ہر شخص سے قیام لیل کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ یہ آج کل کی مصروف زندگی میں ایک ایسا اضافہ ہوگا جس کو کم ہی لوگ نباہ سکیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی زبردست ترغیب کے بعد اگر آپ کے دل میں رات کی گھڑیوں میں اپنے رب سے لو لگانے کی ہوک اٹھے، تو آپ کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ اس کام کو کرنے کے آسان طریقے بھی ہیں۔
(۱) اگر آخر رات میں اٹھ کر نماز پڑھنا مشکل ہو ، تو پھر سونے سے پہلے ہی آٹھ رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر سونے سے پہلے نماز کے لیے وضو کرنا اور کھڑا ہونا بھی دشوار ہو ،تو عشا کی نماز کے ساتھ پڑھ لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کے ابتدائی حصہ میں، بلکہ ہر حصہ میں، پڑھنا ثابت ہے۔ اگر آپ ارادہ کر کے ایک دفعہ شروع رات میں پڑھنے لگیں گے تو انشا اللہ بیچ رات یا آخررات میں پڑھنا بھی نصیب ہوسکتا ہے۔
(۲) رات کی نماز کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ لازماً طویل قرأت ہی کریں۔ آخری دس سورتیں ہی ہر رات نماز میں پڑھ لیں، یا آخر کی کوئی اور چھوٹی سورتیں، تو یہ بھی کافی ہے۔ سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے، سورہ کافرون ایک چوتھائی کے ، سورہ نصر ایک چوتھائی کے، سورہ زلزال نصف کے اور سورہ تکاثر ایک ہزار آیات کے ۔ (اوکما قال صلی اللہ علیہ وسلم) چھوٹی سورتیں اپنے حجم کے لحاظ سے چھوٹی ہوں، اپنے مضامین اور اجر کے لحاظ سے بڑی سورتوں سے کسی طرح سے کم نہیں۔ نبی کریم ؐ سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ جس نے قیام میں دس آیات تلاوت کیں اس کا نام غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا اور جس نے ایک سو آیات کی تلاوت کی اس کا شمار قانتین میں ہوگا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں اذا زلزلت اور القارعہ ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھ لوں تو یہ اس سے بہتر سمجھتا ہوں کہ البقرہ اور آل عمران کو جلدی جلدی بغیر سمجھے پڑھ دوں۔
(۳) اگر یہ بھی آپ کے لیے مشکل ہو تو فجر اور عشا کی نمازیں، جو آپ کو بہر صورت باجماعت پڑھنا چاہییں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت پر یقین کے ساتھ باجماعت پڑھیں کہ‘‘جس شخص نے عشا کی نماز جماعت سے پڑھی، اس نے گویاآدھی رات قیام کیااور جس نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھی، اس نے گویا پوری رات نماز پڑھی۔’’ مشغول سے مشغول آدمی کے لیے بھی قیام اللیل کا ثواب حاصل کرنے کا یہ راستہ کتنا آسان ہے! بہت ہی بدقسمت ہوگا وہ جو فجر اور عشا کی جماعت ضائع کردے اور قیام اللیل کے اجر سے محروم ہوجائے۔ خصوصاً فجر، جس کے بارے میں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ‘‘میں صبح کی نماز جماعت سے پڑھوں یہ مجھے رات بھر کے قیام سے زیادہ محبوب ہے۔’’
(۴) روزہ کے لیے جب آپ سحری کے وقت اٹھتے ہیں، تو ذرا سی کوشش سے یہ بہ آسانی ممکن ہے کہ آپ چند منٹ پہلے اٹھ جائیں اور جتنا وقت ہو اس کے لحاظ سے دو چار رکعتیں پڑھ لیں اور اس کے بعد اور نماز نہ پڑھ سکیں تو اس کے بغیر بھی سجدے میں اپنی پیشانی زمین پر ٹیک دیں، اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں اور آہ و زاری کریں، اس سے اپنے گناہوں پر استغفار کریں، دین و دنیا کی ساری حاجتیں اور نعمتیں اس سے مانگیں، دل سوزی سے اپنی قوم کے لیے ، امت مسلمہ کے لیے، عالم انسانیت کے لیے ، ہدایت اور خیر کی دعا کریں اور خاص طور پر ان لوگوں کے لیے دل کو پگھلائیں جن کو اللہ کی راہ پر لانا آپ کی ذمہ داری ہے یا جو اس راہ پر آپ کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ بحیثیت مجموعی بھی اور افراد اور گروہوں کے نام لے کر بھی۔ اس طرح آپ‘‘ مستغفرین بالاسحار’’ کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے، آہ سحر گاہی کی لذت سے آشنا ہوں گے اور مخلوق خدا سے آپ کے تعلق میں دل سوزی اور بے لوثی پیدا ہوگی۔
رمضان ہو تو اتنا کرنا آپ کے لیے کچھ مشکل نہ ہوگا۔ رمضان کے علاوہ،جس رات بھی آپ قیام اللیل کریں اس کے بعد یہ عمل کریں۔ بلکہ جب بھی ممکن ہو سکے فجر سے کچھ پہلے اٹھ کر، سجدے میں پیشانی زمین پر ٹیک کر، یہ ہی عمل کریں، خواہ آپ تہجد نہ بھی پڑھ سکیں۔ کیا عجب کہ اس طرح بالآخر اللہ تعالیٰ آپ کو باقاعدگی سے ‘‘استغفار بالاسحار’’ کی توفیق بخش دے آہ سحر گاہی سے ہی آپ شیطان کے لیے خطرہ بن سکیں گے۔
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس ملت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
(۳) ہمہ دم ذکر:
نماز کا مقصود اللہ کا تقرب اور اس کا ذکر ہے۔ مگر ذکر میں جو کیفیت مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ آپ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اللہ کو یاد رکھیں اور یاد کریں: یذ کرون اللہ قیام و قعودا وعلیٰ جنوبھم۔ اس کیفیت کے حصول کے لیے یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ زندگی کا کوئی معمول یا مشغولیت ترک کریں۔ ‘‘اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے’’ کے الفاظ خود اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں ۔ صرف توجہ اور اہتمام درکار ہے۔زندگی کا ہر کام اسی طرح کرتے رہیں جس طرح کرتے ہیں، لیکن جب اور جتنا ممکن ہو اپنا دھیان اللہ تعالیٰ کی طرف کرنے کی کوشش کریں۔‘‘ وہ میرے ساتھ ہیں۔’’……‘‘ وہ مجھے دیکھ رہے ہیں۔’’ ……‘‘ وہ میری ہر بات سن رہے ہیں۔’’…… ‘‘وہ کھلا رہے ہیں اور پلا رہے ہیں۔’’……‘‘ہر چیز ان ہی کی بخشی ہوئی ہے۔’’……‘‘ جس چیز پر نگاہ پڑے وہ ان کی ہی پید اکی ہوئی ہے اور ان کی ہی ہے۔’’…… ‘‘ایک دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔’’……‘‘ اس نعمت کے بارے میں وہ سوال کریں گے۔’’…… ‘‘اس کام میں ، ان ہی کے چاہنے سے اور ان ہی کے حکم و تدبیر سے کامیابی ہوگی۔’’…… اور اس طرح کی دوسری یادیں۔ ا س طرح اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے لیے وقت کی بھی ضرورت نہیں، صرف توجہ چاہیے۔
پھر جب بھی ممکن ہو، اپنے دل کی یاد کو الفاظ کی شکل بھی دیں۔ مثلاً کوئی کام شروع کریں تو اللہ تعالیٰ کا نام لے لیں(بسم اللہ)، کسی نعمت سے فائدہ اٹھائیں تو ان کا شکر ادا کردیں(الحمد للہ) کوئی گناہ ہوجائے تو احساس ہوتے ہی استغفار کرلیں ۔ (رب اغفرلی)، حضورؐ کا خیال آئے، نام نامی آئے تو درود وسلام پڑھ لیں۔نبی کریم ؐ نے زندگی کے ہر کام کے لیے اذکار اور دعاؤں کی تعلیم اسی لیے دی ہے کہ کام بھی جاری رہیں اور ان ہی کاموں میں کثرت سے اللہ تعالیٰ بھی یاد رہیں۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ لازماً ان اذکار اور دعاؤں کو عربی میں یاد کریں۔ ان کے مفہوم کو اپنی زبان میں زبان سے کہہ لینا، یا دل ہی دل میں کہہ دینا ، بھی کافی ہے۔
پوری کوشش کے باوجود آپ یہ سب کچھ کرنا بار بار بھولیں گے، توجہ ہٹ جائے گی اور اہتمام جاری نہ رہ سکے گا۔ اس سے بھی گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ نسیان تو آدم کی فطرت میں ہے جب یاد آجائے کہ آپ یہ سب کچھ کرنا بھول گئے ہیں اور یہ معمول ترک ہوگیا ہے، دوبارہ اللہ کی طرف دھیان رکھنے اور یاد کرنے کا کام شروع کر دیں۔ اس طرح جب آپ بار بار بھولیں گے اور بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں گے، تو آپ کے لیے ‘‘اواب’’ کا مقام حاصل کرنے کا دروازہ کھل جائے گا، جن کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ (سورہ ق)
آپ بس ذکر کی اس صورت کا اہتمام شروع کر دیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ آپ کو صبح و شام ذکر، کثرت سے ذکر اور اٹھتے ، بیٹھتے، لیٹتے ذکر کی کیفیت حاصل ہوسکتی ہے۔
(۴) ذکر کا متعین وظیفہ:
ہر وقت دل میں اور زبان سے ذکراور مختلف اوقات میں ، مثلاً نماز کے بعد، صبح و شام اور مختلف کام کرتے ہوئے مخصوص اذکار کے علاوہ ، اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو اذکار کے ایک مختصر سے وظیفہ کی پابندی کی بھی کوشش کیجیے۔ ذیل میں ایک نصاب دیا جارہا ہے، جو دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیتا۔ اس میں ہر ذکر کی تعلیم و تاکید اور اجروفضیلت کئی صحیح احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ فجر اور مغرب کی نماز کے بعد اس وظیفہ کا اہتمام کریں۔ مغرب کے بعد مشکل ہو تو، فجر ہی کے وقت کر لیں۔ نماز کے فوراً بعد مشکل ہو ، تو کچھ پہلے اور کچھ بعد کرلیں۔ لیکن پہلے اور آخری ذکر کا التزام نماز فجر اور مغرب کے فوراً بعد ہی کرنے کی کوشش کریں۔
۱۔ لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہُ الملک ولہُ الْحمد یحیٖ ویمیت وھوا علیٰ کل شئیءٍ قدیر……دس مرتبہ
۲۔ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم……دس مرتبہ
۳۔ سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ ِ العظیم……دس مرتبہ
۴۔ اللھم صل وسلم علی عبدک ورسولک و حبیبک سیدنا محمداٍ لنَّبی الامی وعلیٰ اٰلِہٖ واصحابہٖ وبارک وسلم…… دس مرتبہ
۵۔ رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین…… سات مرتبہ
۶۔ اللھم اجرنی من النار…… سات مرتبہ
(۵) موت کی یاد:
موت اور موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے دن کو بھی قرآن کثرت سے یاد کراتا ہے اور یاد رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ یہ کام بھی اٹھتے ،بیٹھتے اور لیٹتے کرنا چاہیے۔ لیکن چند لمحات، منضبط طریقے سے، موت اور موت کے بعد اللہ سے ملاقات تک کے سفر کو یاد رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے صبح و شام کے وظیفے کی آخری دعا مفید ہوسکتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی مغرب اور فجر کے بعد سات دفعہ یہ دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ کے عذاب سے بچالے گا۔ دعا خود سے تو کام نہیں کرتی۔ دعا تو اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اس چیز کی طلب ہے، پیاس ہے، جو آپ مانگ رہے ہیں۔ جب آپ پانی مانگتے ہیں تو آپ کو پیاس لگی ہوتی ہے، آپ کھانا مانگتے ہیں تو بھوک لگی ہوتی ہے، جتنی شدت سے بھوک پیاس ہوتی ہے اتنی ہی بے چینی اور لگن سے آپ پانی اور کھانا مانگتے ہیں۔ اسی طرح آپ کے دل کو آگ سے بچنے کی فکر لگی ہو اور شدت سے لگی ہو۔ خوف ، اندیشہ، بے چینی اور اضطراب سے دل بھرا ہوا ہو اور پھر کہیں اللھم اجرنی من النارتو ان الفاظ کا اثر ہوگا۔ دل میں آگ لگی ہوگی تو الفاظ دل سے نکلیں گے، رنگ لائیں گے۔ مانگنے سے بھی بھوک پیاس لگنے لگتی ہے۔ یہ گویا دوطرفہ عمل ہے۔
اس دعا کو ایک خاص طریقے سے پڑھنے سے، یہ صبح و شام اپنے رب سے ملاقات کو یاد رکھنے کا موثر ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس طریقے میں کوئی وقت بھی نہیں لگتا۔ قرآن مجید میں آخرت کا سفربڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ میں ہر بار اس سفر کے کسی ایک مرحلے کی تصویر اپنے ذہن میں یاد کرکے کہتا ہوں، اللھم اجرنی من النار۔ اس طرح پورا سفر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
یہ طریقہ کیا ہے؟ آپ پہلی دفعہ کہیں تو موت کا وقت یاد کریں۔ قرآن مجید میں موت کے وقت کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ کسی ایک منظر کو اپنے ذہن میں قائم کر لیں۔ ایک یہ ہے : جب جان گلے تک پہنچ جائے گی، کوئی سہارا نظر نہ آئے گا جو موت سے بچالے، کوئی جھاڑ پھونک کرکے بھی نہیں بچاسکتا۔ یقین ہوجائے گا کہ بس اب تو دنیا کو چھوڑنا ہے۔ بھائی ، بہن،باپ، رشتہ دار، مال ودولت، مکان سب چھوڑنا ہیں۔ جسم کی سب قوتیں ختم ہوجائیں گی، پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ اب اللہ کی طرف جانا ہے اور سوائے اعمال کے کوئی سہارا نہیں۔ (القیامہ، ۷۵:۲۶۔۳۰)
یا اسوقت کو یاد کریں جب فرشتے آئیں گے اور چہروں اور پیٹھوں پر آگ کے کوڑے ماریں گے۔ یا موت کے کسی اور منظر کو ، چند سیکنڈ کے لیے، قرآن کے کسی حصے کے ذریعے ، ذہن میں لاکر آپ موت کا وقت یاد کریں اور پہلی بار کہیں اللھم اجرنی من النار
دوسری بار کہنے لگیں تو قبر کا مرحلہ یاد کریں۔ موت کے بعد قبر کی منزل ہے۔ کہا گیا ہے کہ قبر ہی دراصل فیصلہ کردے گی کہ آگے کیا ہوگا۔ یا تو یہ آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ۔ حضرت عثمانؓ جب قبر پر کھڑے ہوتے تھے تو اتنا روتے تھے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگ جایا کرتی تھی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ قبر کہتی ہے، میں تنہائی کا گھر ہوں ، میں کیڑوں کا گھر ہوں۔ تو ، قبر کا کوئی منظر ذہن میں یاد کریں اور کہیں اللھم اجرنی من النار۔
تیسرا مرحلہ یاد کریں جب آپ کو قبروں سے نکال کر اللہ کے سامنے کھڑا کر دیاجائے گا۔ لوگ دیوانہ وار اٹھ کر بھاگیں گے، ہوش اڑے ہوں گے، نگاہیں اٹھ نہ رہی ہوں گی، چہروں پر ذلت کی سیاہی ہوگی، ننگے ہوں گے مگر دیکھنے کا ہوش نہ ہوگا۔ سورج قریب آجائے گا، پسینہ اس طرح بہے گا کہ لوگ کانوں تک غرق ہوں گے۔ ہلکے سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ آدمی کو آگ کے جوتے پہنا دیے جائیں گے اور اس کا دماغ کھولے گا۔ اعمال نامے ہاتھ میں ہوں گے، اور سب خدا کے حضور کھڑے ہوں گے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قسمت کا فیصلہ ہورہا ہوگا۔ جس کے نیک اعمال بھاری ہوں گے تو وہ دل پسند زندگی پائے گا۔ جس کے اعمال بد بھاری ہوں گے تو اس کا ٹھکانہ آگ کا گڑھا ہوگا۔یہ منزل ہے حشر کی۔ کسی بھی منظر کو ذہن میں تازہ کر لیں، اور تیسری بار کہیں اللھم اجرنی من النار۔
چوتھی منزل پل صراط کی ہے۔ آپ سوچیں کہ میں جہنم پر سے گزروں گا، کہ ہر شخص وہاں پر وارد ضرور ہوگا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ہوا کی رفتار سے گزر جائیں گے، بعض لڑکھڑاتے ہوئے گزریں گے اور بعض وہیں اندر گر پڑیں گے۔ اس وقت تو اعمال ہی سواری ہوں گے، کوئی اور سواری نہ ہوگی۔ آپ اس منظر کو ذہن میں لائیں اور چوتھی بار کہیں اللھم اجرنی من النار۔
پانچویں بار اس آگ کو دیکھیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت اور تفصیل سے کیا ہے۔ آگ کا بستر ہے، آگ کی چھت ہے، پیپ کا پانی ہے، کانٹوں کا کھانا ہے، لوہے کے ہتھوڑے ہیں، سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جارہا ہے۔ ان میں سے کسی کوبھی یاد کریں اور پھر پانچویں بار کہیں اللھم اجرنی من النار۔
پھر وہاں ایک عذاب اور ہے۔ یہ رسوائی اور حسرت اور ندامت کا عذاب ہے، یہ نفسیاتی اور روحانی عذاب ہے۔ چھٹی بار اس کا تصور کریں۔ یہ حشر سے شروع ہوگا، مثلاً جب وہاں آپ کے سارے اعمال براڈ کاسٹ کر دیے جائیں گے(وَاِذا الصحفُ نُشِرَتْ) کیا آپ اس گھڑی کا سامنا کرسکتے ہیں؟ میں بھی جانتا ہوں، آپ بھی جانتے ہیں، کون یہ رسوائی مول لے سکتا ہے کہ اس کے سارے اعمال لاؤڈ اسپیکر پر بیان ہونا شروع ہوجائیں؟
کتنی رسوائی، کتنی ذلت ہمارے حصے میں آسکتی ہے؟ پھر وہاں زبردست ندامت و حسرت یہ ہوگی کہ ہماری اتنی مختصر سی عمر تھی، اس کو ہم نے کیوں ضائع کر دیا۔ پھر جہنم سے نکلنا چاہیں گے تو کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی۔ جن کا مذاق اڑاتے تھے ان کو ہی عیش و آرام میں دیکھیں گے۔ آپ ذلت کا ، رسوائی کا، حسرت کا، یہ عذاب یادکریں اور چھٹی بار کہیں اللھم اجرنی من النار۔
اور آخر میں ساتویں بار آپ یہ سوچیں کہ جو کچھ کل پیش آنے والا ہے ، یہ سب آج کی کمائی ہے۔ کل جتنے بھی مرحلے ہیں ، یہ آسان ہوں گے تو آج کے اعمال سے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آج اللہ تعالیٰ مجھے ان اعمال سے بچا لیں کہ جو کل میرے لیے آگ بننے والے ہیں اور پھر ایک بار کہیں اللھم اجرنی من النار۔
اس طرح آپ دنیا سے چلنا شروع کریں، موت کے وقت سے جہنم تک پہنچیں، پھر واپس لوٹ کر آج کی دنیا میں آجائیں……یہ سفر مکمل ہوجائے گا۔
منضبط طور پر موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات یادرکھنے کے لیے پانچ وقت کی نماز اور اللھم اجرنی من النار کی (درج بالا طریقہ کے مطابق) دعا، کے علاوہ وضو بھی بہت ممد ومعاون ہوسکتا ہے ۔اگر وضو کرتے ہوئے چند دعائیں پڑھی جائیں، زبان سے نہ ہوں تو دل ہی دل میں ۔ امام غزالیؒ نے احیا العلوم میں اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے غنیہ الطالبین میں ان کی تعلیم دی ہے۔ خاص طور پر، کلی کرتے ہوئے:میرے اللہ ، تیری کتاب کی تلاوت اور تجھے کثرت سے یاد رکھنے میں میری مدد کیجیے۔
ناک میں پانی دیتے ہوئے: میرے اللہ، میں آپ سے دوزخ کی بدبو سے پناہ مانگتا ہوں، مجھے جنت کی خوشبو عطا کیجیے۔
منہ دھوتے ہوئے: میرے اللہ تعالیٰ، جس دن منہ روشن ہوں گے میرا منہ اپنے نور سے روشن کیجیے، جس دن منہ کالے ہوں گے، میرا منہ کالا نہ کیجیے گا۔
ہاتھ دھوتے ہوئے: میرے اللہ ، میرا اعمال نامہ میرے داہنے ہاتھ میں دیجیے گا اور میرا حساب آسان کیجیے گا۔میرے اللہ ، میرے اعمال نامہ میرے بائیں ہاتھ میں نہ دیجیے گا۔
سر کا مسح کرتے ہوئے: میرے اللہ ، جس دن آپ کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، مجھے اپنے عرش کے تلے سایہ دیجیے گا۔
پاؤں دھوتے ہوئے:میرے اللہ، میرے قدم جمادیجیے گا جس دن قدم پھسل رہے ہوں گے۔
۶۔ فہم قرآن:
قیام لیل کا ایک بڑا مقصد قرآن کو ترتیل سے پڑھنا ہے، تاکہ اس کی آیات دل ودماغ اور روح میں جذب ہوسکیں۔ طویل قیام نہ کرسکنے، قرآن یادنہ ہونے اور عربی نہ جاننے کی وجہ سے اکثر لوگوں کے لیے اس مقصد کا حصول ممکن نہیں۔ لیکن اب جب کہ ہر ایک کے پاس مطبوعہ قرآن، ترجمہ کے ساتھ موجود ہیں، ارادے اور عزم کے ساتھ تھوڑا سا زائد وقت لگا کر آپ قرآن سے یہ فائدہ کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کر سکتے ہیں۔
آج ہی سے آپ طے کر لیں کہ روزانہ قرآن کی چند آیات…… ۳ سے ۱۰ تک، جتنی بھی بہ سہولت ممکن ہوں……ترجمہ سے پڑھا کریں گے۔ لفظی ترجمہ بھی پڑھیں، با محاورہ بھی۔ اس طرح پڑھیں کہ آپ جس کا کلام ہے اس کے سامنے ہیں۔
ایک دفعہ یہ بھی سوچ لیں کہ ان آیات میں کیا کوئی ایسی چیز ہے جو مجھے یاد رکھنا چاہیے ، یا کرنا چاہیے۔ آپ ۳ آیات بھی روزانہ پڑھیں تو تقریبا ۶ سال میں قرآن مجید مکمل پڑھ لیں گے۔ ایسے ۶ سال کے کتنے ہی عرصے اب تک گزر چکے ہیں ! اور اگر دس آیات روزانہ پڑھیں تو ۲ سال میں مکمل ہوجائے گا۔ لیکن آپ جتنا باقاعدگی سے پڑھ سکیں اس سے زیادہ بوجھ نہ اٹھائیں۔
ضروری نوٹ
(خرم مراد مرحوم نے قرب الہی کے اتنے ہی طریقے بیان کیے ہیں۔ لیکن ایک اہم بات نظر انداز ہو گئی ہے وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ ۔ بدنی عبادات کے بعد قرب الہی کے حصول کا سب سے اہم اوریقینی ذریعہ یہی ہے ۔ موجودہ دور میں بظاہر دین دار حضرات بھی زکوۃ ادا کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ دین کا اصل مطالبہ انفاق کا ہے نہ کہ زکوۃکا۔ زکوۃ سے تو مفر نہیں۔یہ تو ہر حال میں ادا کرنی ہے ۔ قرب تو انفاق سے حاصل ہوتا ہے جس طرح حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق نوافل سے ہوتا ہے کیونکہ فرض تو بہر حال اداکرنے ہی ہیں جتنا نوافل کااہتمام ہوگا اتنا ہی قرب بڑھے گا اسی طرح زکوۃکے ساتھ جتنا انفاق کا اہتمام ہوگا اتنا ہی قرب بڑھے گا۔ مدیر)