ایک منحوس شکل والا شخص بڑے غصے سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ ایک معصوم صورت بچی باہر نکلی۔ اسے دیکھتے ہی آنے والے نے بڑی بدتمیزی سے پوچھا:‘‘تمہارا باپ گھر پر ہے؟’’بچی کے لیے صبح صبح اس شخص کی شکل دیکھنا ہرگز کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اس نے سنبھل کر قدرے سہمے مگر ناگوار لہجے میں کہا:‘‘مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت وہ کہاں ہیں۔’’یہ ترت جواب سن کر اس بد شکل کو بہت طیش آیا، ایک زوردار طمانچہ اس معصوم کے منہ پر مارا۔ تھپڑ اس قدر تیز تھا کہ اس کے کان سے بالی نیچے گر پڑی۔ظالم شخص پھنکارتا ہوا وہاں سے کچھ دوسرے لوگوں کے پاس پہنچا۔ وہ اسی کے انتظار میں تھے۔ ان کے قریب پہنچ کر بولا:‘‘مجھے اب یقین ہوگیا کہ وہ بستی سے باہر نکل گیا ہے……’’اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے، چلو کھوجیوں کے پاس چلتے ہیں۔ صبح صبح بستی سے باہر صرف وہی گئے ہیں۔ گھوڑے پر گئے ہوں یا اونٹ پر، ان کے پاؤں کے نشان ہمیں ضرور اس تک پہنچادیں گے۔’’اور انہوں نے ایسا ہی کیا…… کھوجیوں کی مدد سے وہ اپنے شکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
اس تلاش کو دودن ہوچکے تھے، مگر وہ اپنے مطلوب کو ڈھونڈ نہ سکے۔ اس دوران میں انہوں نے پوری بستی کے بہادروں کو ایک عظیم انعام کی پیش کش کی تھی:‘‘ جو بھی ابن ابی کبثہ کو تلاش کر کے لائے گا، اسے سو اونٹوں کا انعام دیا جائے گا۔’’یہ اس زمانے میں ایک زبردست انعام تھا۔
ایک بستی میں چند بہادر بیٹھے تھے کہ ایک قاصد آیا۔ اس نے ان بہادروں کو بھی سو اونٹوں کے انعام کے متعلق بتایا تو ایک شخص بولا:‘‘ میں ابھی سفر سے واپس آرہا ہوں۔ راستے میں مجھے تین آدمی ملے۔ میرا خیال ہے کہ ان میں دو تو وہی تھے جن کی تلاش پر انعام رکھا گیا ہے اور تیسرا ان کو راستہ بتانے والا ہوگا۔’’مجلس میں بیٹھے ایک بہادر سوار‘‘ابن مالک’’ نے کہا:‘‘نہیں بھئی، وہ لوگ تو اپنی گم شدہ اونٹنی تلاش کر رہے تھے۔ میں انہیں جانتا ہوں!’’ ‘‘اچھا …… شاید ایسا ہی ہو!’’
پھر تھوڑی دیر بعد ابن مالک خاموشی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ جاتے ہی اپنی لونڈی سے بولا:‘‘ میری گھوڑی تیار کر کے بستی کے باہر لے جاؤ۔ یاد رکھنا، کسی کی نظر تم پر نہیں پڑنی چاہیے۔ بستی کے باہر ٹیلے پر میرا انتظار کرو’’۔پھر وہ اپنے غلام سے مخاطب ہوا:‘‘ تم میرے تمام ہتھیار لے کر گھروں کے پیچھے سے ہوتے ہوئے اس ٹیلے پر پہنچو، جہاں میں نے گھوڑی کو کھڑا کرنے کا حکم دیا ہے۔’’خود ابن مالک بستی میں ادھر ادھر پھرنے کے بعد بتائی گئی جگہ پر پہنچا۔ اسے یقین تھا کہ کسی نے بستی کے باہر جاتے اسے نہیں دیکھا۔ مقررہ جگہ پر گھوڑی اور ہتھیار پہنچ چکے تھے۔ اس نے زرہ پہنی، ہتھیار لگائے، گھوڑی پر زین کسی اور خفیہ مہم پر روانہ ہوگیا۔ابن مالک کو یقین تھا کہ محفل میں جس شخص نے راستے میں ملنے والے تین افراد کا ذکر کیا تھا ، وہ وہی ہیں، جن کی تلاش پر سو اونٹوں کا انعام رکھا گیا ہے۔ اس نے بڑی چالاکی سے جھوٹ بولاتھا اور اب سو اونٹوں کا انعام حاصل کرنے چل پڑا تھا۔ابن مالک کی گھوڑی سرپٹ بھاگ رہی تھی۔ کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ دور اونٹ پر ایک مسافر کو دیکھ رہا تھا۔ دوسرا شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل ہی چل رہا تھا۔ اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اس نے اپنی رفتار اور تیز کر دی۔ اب وہ پیچھا کرنے والوں کے خاصا قریب پہنچ چکا تھا۔ اچانک اس کی گھوڑی نے ٹھوکر کھائی اور گر پڑی۔ابن مالک نے گھوڑی کو دل ہی دل میں برا بھلا کہا اور دوبارہ سوار ہو کر پھر اسے ایڑ لگا دی۔ اب وہ اپنے شکار کے بہت قریب پہنچ چکا تھا، مگر چند گز کے فاصلے پر گھوڑی نے دوبارہ ٹھوکر کھائی اور بری طرح زمین پر آرہی۔ خود ابن مالک گھوڑی کے نیچے آکر مرتے مرتے بچا۔وہ تو پہلی ہی دفعہ گھوڑی کے گرنے کو برا شگون سمجھا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی گھوڑی کبھی بھی یوں نہیں گری تھی۔ اس کے دل نے کہا:‘‘ اے ابن مالک، کہیں انعام کے لالچ میں تو واقعی کسی بزرگ ہستی کو نقصان پہنچانے تو نہیں لگا……’’ مگر ضمیر کی یہ آواز سو اونٹ پانے کی خواہش کے مقابلے میں دم توڑ گئی اور وہ دوبارہ اٹھا اور پھر شکار کی طرف بڑھا…… قریب جاکر اس نے اپنا نیزہ سیدھا کیا، لیکن پھر وہ کچھ ہوگیا جس کا اس نے تصور بھی نہ کیا تھا۔اس دفعہ اس کی گھوڑی گھٹنے گھٹنے ریت میں دھنس گئی! لگتا تھا کہ ریت نے اس کے دونوں پاؤں جکڑ لیے ہیں…… گھوڑی زور لگانے کے باوجود نہ ہل سکی۔حقیقت اب واضح ہوچکی تھی۔ ابن مالک خوف میں ڈوبی ہوئی آواز میں چیخا:‘‘مجھے بچاؤ…… اپنے سچے اللہ سے میرے لیے دعا کرو…… میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کا پیچھا نہیں کروں گا!’’
وہ جنہیں زندہ یا مردہ حاصل کرنے کی نیت سے آیا تھا ، عجیب مہربان ہستی تھے! انہوں نے اللہ سے دعا کی تو ابن مالک کی اونٹنی ریت سے باہر آگئی۔ باہر آتے ہی ابن مالک کی نیت پھر بدل گئی ۔ وہ دوبارہ ان پر حملہ آور ہوا۔اس دفعہ اس کی گھوڑی پہلے سے بھی زیادہ زمین میں دھنس گئی!اپنا یہ حشر دیکھ کر وہ منتیں کرنے لگا۔ اپنے آپ کو ملامت کرتے، آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہاتے فریاد کرنے لگا:‘‘ اے محمد(ﷺ) میرا سارا سازو سامان واپس لے لیں، میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اب اس مصیبت سے نکل گیا تو واپس ہوجاؤں گا، اور آپ کے تعاقب میں آنے والوں کو بھی ادھر نہیں آنے دوں گا۔’’
وہ جن کا پیچھا کر رہا تھا، اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دنیا کی سب سے مہربان ہستی تھے اور رسولوں کے معاملے میں اللہ کا قانون یہ ہی ہے کہ کوئی کافر انہیں مغلوب نہیں کرسکتا اسی لیے ابن مالک پر یہ افتاد پڑ رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عظیم ترین صحابیؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ تھے۔ اللہ کے رسول ؐ نے ایک مرتبہ پھر اسے معاف کر دیا اور فرمایا:‘‘جاؤ واپس پلٹ جاؤ، سامان کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ، البتہ لوگوں کو ہمارے تعاقب میں نہ آنے دینا۔’’آپؐ کے معاف کرتے ہی اس کی گھوڑی پھر زمین کی گرفت سے آزاد ہوگئی۔ ابن مالک حیران بھی تھا ، خوف زدہ بھی اور اپنے شکار کا شکر گزار بھی۔ اس نے واپسی کی طرف چند قدم بڑھائے ، پھر رکا اور بلند آواز سے بولا:‘‘اجازت ہو تو ایک بات کروں، اللہ کی قسم کوئی بری حرکت نہیں کروں گا۔’’ ارشاد ہوا:‘‘پوچھو کیا بات ہے؟’’‘‘اے محمدؐ! مجھے یقین ہے کہ آپ کا دین پورے عرب میں غالب ہوکر رہے گا…… مجھ سے وعدہ کریں جب میں آپ ؐ کی سلطنت میں آؤں، تو آپ ؐ میری عزت کریں گے…… اور مہربانی کر کے یہ وعدہ مجھے لکھ کر دیں……’’حضورؐ نے حضرت ابو بکر کو حکم دیا تو انہوں نے وہاں پر ایک دستیاب ہڈی پر یہ وعدہ لکھ کر اس کے حوالے کر دیا۔وہ پلٹا تو اس دفعہ آپؐ نے اسے آواز دی: ‘‘سراقہ بن مالک! جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے تو تمہیں کیسا لگے گا؟’’ ابن مالک حیران ہو کر بولا:‘‘کسریٰ بن ہرمز، شہنشاہِ ایران کے کنگن!’’
‘‘ہاں کسریٰ بن ہرمز کے کنگن!’’وہ اسے حیران چھوڑ کر یثرب کی طرف دوبارہ بڑھنے لگے۔
سراقہ ابھی راستے ہی میں تھا کہ اسے کچھ لوگ ملے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے۔ ‘‘واپس چلے جاؤ، میں نے تلاش میں چپہ چپہ چھان مارا ہے، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ پاؤں کے نقوش دیکھنے میں میرا کوئی مقابلہ نہیں ، جاؤ انہیں کہیں اور تلاش کرو۔’’ اور ڈھونڈنے والے سراقہ کے کہنے پر واپس چلے گئے۔
سراقہ کو جب معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ؐ حفاظت سے یثرب پہنچ گئے ہیں تو اس نے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سب کو بتایا۔ منحوس شکل والے شخص ‘‘ابوجہل ’’ کو جب اس کا علم ہوا تو وہ سخت غصہ ہوا، اسے گالیاں دینے لگا۔ سراقہ نے ابو جہل کی گالیوں کے جواب میں کہا:‘‘اللہ کی قسم، جب تم دیکھتے کہ گھوڑی کی ٹانگیں زمین میں دھنس گئی ہیں اور میں بے بس ہوگیا ہوں تو تمہیں بھی کوئی شک نہ رہتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں…… بھلا ان سے مقابلہ کون کر سکتا ہے!’’
٭٭٭
اس واقعے کوکئی برس بیت گئے۔ پھر وہ دن بھی آیا جب حضورؐ صحابہؓ کے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔سراقہ آپؐ کے پاس آیا۔ اس وقت حضورؐ انصاری صحابہؓ کے جھرمٹ میں تھے۔ سراقہ کو قریب دیکھ کر انہوں نے نیزے اس کی طرف سیدھے کر لیے۔ سراقہ ان سے بچتا بچاتا، گھوڑے پر سوار آپؐکے پاس پہنچا۔ آپؐ ایک اونٹنی پر سوار تھے۔ سراقہ نے وہی ہڈی اٹھارکھی تھی جس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی طرف سے وعدہ لکھ کر دیا تھا۔ بولا:‘‘ اے اللہ کے رسولؐ! یہ میں ہوں، سراقہ بن مالک۔ میرے پاس آپؐ کا لکھا ہوا وعدہ ہے!’’آپؐ نے فرمایا:‘‘سراقہ میرے پاس آؤ، آج وعدہ پورا کرنے کا دن ہے۔’’
اس نے سنا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
٭٭٭
وقت تیزی سے گزرنے لگا…… حتیٰ کہ حضرت عمر فاروق ؓ کا زمانہ آگیا۔ اسلام کا پیغام عرب نکل کر دنیا میں پھیلنے لگا۔ خلفائے راشدین ان ممالک کے لوگوں کے ان کے حکمرانوں سے آزاد کرانے کا فرض پورا کر رہے تھے جن کی طرف حضورؐ نے اپنی سفارتیں بھیجی تھیں اورانہیں اسلام کی طرف بلایا تھا۔ گویا صحابہؓ حضورؐ کے کام کو آگے بڑھا رہے تھے کیونکہ وہ آپؐ کی نیابت میں یہ کام کر رہے تھے۔ اس لیے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ دور ہوتی گئی۔ نہ ایرانی سلطنت اسلام کے آگے بند باندھ سکی اور نہ روم کی طاقت ان کا راستہ روک سکی۔
پھر ایک دن لشکر اسلام کا قاصد ایران فتح ہونے کی خوش خبری لایا ۔ اس کے ہمراہ بہت سارا سامان بھی تھا۔ مسجد نبویؐ میں بڑے بڑے صحابہؓ ، سیدنا عمر فاروقؓ کے ہمراہ موجود تھے۔قاصد نے مال غنیمت امیر المومنین کے سامنے رکھا۔ اس میں شاہ ایران کا تاج، سونے کے تاروں سے بنا شاہی لباس، قیمتی پیٹی، جس پر ہیرے جواہرات جڑے تھے اور سونے کے دو کنگن بھی موجود تھے۔ دیگر قیمتی نایاب اشیا اس کے علاوہ تھیں۔ سیدنا عمرؓ نے اس بیش بہا خزانے کو اپنی چھڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ پھر فرمایا:‘‘ جو لوگ مال غنیمت لے کر آئے ہیں، بلاشبہ وہ ایمان دار ہیں۔’’سیدنا عمرؓ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ قیمتی سامان بغیر کسی کمی کے، حفاظت کے ساتھ لانا واقعی امانت داری کا بہت بڑا امتحان تھا اور اسلامی قاصد اس امتحان میں پورے اترے تھے۔
حضرت عمرؓ نے حاضرین پر نظر دوڑائی۔ ان کی نگاہ سراقہؓ بن مالک پر جا کر رکی۔ انہیں معلوم تھا کہ سراقہؓ ایک دیہاتی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں سے سراقہؓ کو اپنے پاس بلایا۔ انہیں شاہ ایران کا لباس پہنایا۔ کمر پر ہیرے جواہرات کی پیٹی باندھی، سر پر تاج رکھا اور آخر میں ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنائے…… کسریٰ بن ہرمز، شہنشاہ ِایران کے کنگن!
سراقہؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اللہ کے رسول ﷺ کی زبانی ان ہونی بات برسوں بعد مکمل ہوگئی تھی!!
٭٭٭