ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چندبیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شر انگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لیے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا: ‘‘حضور دیکھیے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں۔’’گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا: ‘‘جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔’’ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوارخانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔میں نے بڑھیا سے کہا، ‘‘بی بی، لو تمھارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو۔’’بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لیے اس نے نمبردارسے پوچھا، ‘‘کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟’’نمبردار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آگیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے۔یہ سولہ آنے واحد ‘‘رشوت’’ ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے مالا مال کر دیا ہے۔