کلاس روم میں چالیس کے قریب بچے حفظ کر رہے تھے۔ لاہور کے ایک بڑے مدرسے کے اس کلاس روم میں، میں ایک استادمحترم سے ملنے کی غرض سے پہنچا تھا استاد صاحب نے چند بچوں کا تعارف کروایا کہ یہ ‘‘ الف ’’ صاحب کا بیٹا ہے ، یہ ‘‘جیم’’ صاحب کا بیٹا ہے ، یہ ‘‘س’’ صاحب کا ، یہ ‘‘ف’’ صاحب کا اور یہ‘‘ن’’ صاحب کا ۔چونکہ میں ان صاحبان سے بخوبی واقف تھا اس لیے استاد صاحب نے صرف نام بتانے پر ہی اکتفا کیا لیکن بعد میں مجھے علم ہوا کہ اگر کوئی اور مہمان آئے تو استاد صاحب ان حضرات کا سماجی مقام ، ان کاسرکاری عہدہ ، ان کا تقوی اور نیک کاموں کی طرف ان کی رغبت کو بھی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔اس بیان سے استاد صاحب کا کیا مقصد ہوتا ہے ، ان حضرات کا مقام رفیع جانچنے کا ان کے ہاں کیا پیمانہ ہے اوراستاد صاحب کا اندازِ تعارف کیا ہوتاہے اور وقت تعارف ان کے احساسات کیا ہوتے ہیں ،یہ الگ سے ایک موضوع ہے ۔سر دست تو مجھے الف، جیم ، س، ف او ر ن صاحبان کا تعارف، آپ سے کروانا ہے اور چند ایک سوالات آپ کے سامنے رکھنے ہیں کہ جن کے جوابات آپ سے ملنے کی امید ہے۔
الف صاحب اس وقت محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی ہیں۔اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔جب پولیس میں بھرتی ہوئے تھے تو ان کے جذبات بہت اچھے تھے۔ کئی برس بہت دیانتداری سے کام کرتے رہے ۔اور ‘‘فیلڈ ’’ ڈیوٹی سے ہمیشہ بچتے رہے کہ اس میں کرپشن کے امکانات بہت ‘‘روشن ’’ ہوتے ہیں۔مگر دوستوں نے سمجھایا کہ کب تک بیوقوف بنے رہو گے آخر تمہارے بھی بچے ہیں۔یہ بات ان کے دل کو لگی ۔ سوچا کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کاکیا بنے گا۔(مگر یہ کبھی نہ سوچا کہ میرے مرنے کے بعد میرا کیا بنے گا، یا، بچوں کے مرنے کے بعد بچوں کا کیا بنے گا!)چنانچہ ایک تھانے میں ایس ایچ او بنے ۔فیلڈ میں پہنچے تو پچھلے بیس برس کی نمازیں روزے ‘‘سیلاب’’ میں خس و خاشاک کی طرح بہ نکلے۔بس پھر کیا تھا وہ ماضی کی ‘‘لیٹ ’’کا مداوا کرنے لگے ۔چا رہی سالوں میں خوبصورت علاقوں میں بڑ ے مکان بھی بن گئے اور جدید ماڈل کی گاڑیاں بھی آ گئیں۔حتی کہ ان کے ساتھی کرپشن کے نئے نئے طریقے ان سے دریافت کرنے لگے ۔یہ بھی شنید ہے کہ دو مجرموں کو بلکہ ملزموں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرکے سرکار کے منظو رنظربھی ٹھہرے اور ایس ایچ اوسے ڈی ایس پی بن گئے۔اورایک دن بیوی کے کہنے پر یہ بھی مان گئے کہ آخر انہیں بھی مرنا ہے اورمرنے کے بعد جنت بھی ہے اور جہنم بھی، اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ چنانچہ جنت میں جانے کے لیے انہوں نے اپنے ایک بیٹے کوحفظ قرآن کی مہم پر لگا دیا ۔ سنا ہے کہ اس دن کے بعد وہ مزیداطمینان سے نئے نئے معرکے سر کرنے لگے ہیں۔
‘‘ج’’ صاحب ڈاکٹر ہیں۔ایک بڑ ے ہسپتال میں پر وفیسر ہیں اور شام کو کلینک بھی کرتے ہیں۔پچھلے برس انہیں یہ اعزاز حاصل ہواکہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی نئی میڈیسن کا سیل ٹارگٹ پورا کرنے میں وہ ایشیا میں پہلے نمبر پر ٹھہرے۔اس کے انعام میں انہیں سوئٹزر لینڈ کا وزٹ اور ایک عدد گاڑی انعام میں دی گئی۔ مگر اس دوا سے جن مریضوں کے گردے فیل ہوئے وہ ابھی تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور بعض تو آخرت کو سدھار چکے ہیں۔شہر میں بہت سے کلینک ہیں جنہیں ڈسپنسر ان کے نام سے چلا رہے ہیں اوران کا ماہانہ انہیں پہنچ جاتا ہے۔ لیبارٹریز کا بل علیحد ہ ہے ۔ کتنے مریض ایسے ہیں کہ جن کے وہ ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں جن کی اصل میں انہیں ضرورت ہی نہیں ہوتی اور وہ بھی ان لیبارٹریوں سے جن سے ان کا کنٹریکٹ ہے ۔جعلی ادویات کی ایک فیکٹری بھی ان کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے اور ان دواؤں کی اکثر کھپت بھی ان کلینک پر ہو جاتی ہے جو ان کے نام سے غیر ڈاکٹر چلا رہے ہیں۔مگر اس سب کے باوجود انہیں جنت کی بہت فکر ہے اور اس کے لیے انہوں نے بھی اپنے ایک بیٹے کو حفظ میں داخل کروا یا ہے اور قاری صاحب کی بھی وقتاً فوقتاً بہت خدمت کرتے رہتے ہیں اور قاری صاحب بھی انہیں جنت کی آس دلاتے رہتے ہیں۔
‘‘س ’’ صاحب ایک گھی مل کے مالک ہیں۔ اس گھی مل کے سائے میں دس ہوم فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جہاں مضر صحت غیر معیاری آئل اسی برانڈڈ نام سے پیک کیا جاتا ہے اور مارکیٹ میں اسی قیمت پر فروخت کیاجاتا ہے۔ اس مل کے کوالٹی کنٹرول آفیسر کے بقول گھی میں سے مضر صحت کیمیکل اور گیسوں کو صاف کرنے پر جو خرچ آتا ہے اس کو بچانے کے انمول نسخے ان کے پاس ہیں اور سب سے آسان یہ ہے کہ ان کیمیکلز اور گیسوں کو مطلوبہ حد تک صاف ہی نہ کیا جائے ۔ اور زبان بندی کے لیے ان آفیسر کو بھی اچھا خاصا معاوضہ ملتا ہے اور دیگر سرکاری اہل کاروں کو بھی۔مزدوروں اور ملازموں کے بہت سے حقوق جمع کر کے یہ ہر سال ان کی طرف سے عمرے اور حج پر جاتے ہیں اور ان کے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ کتنے ایسے ہوں گے جو اللہ کے حضور یہ دعوی کریں گے کہ ہمیں اس گھی کی وجہ سے کینسر ہو گیا مگر ان کا خیال ہے کہ یہ سب دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے کیونکہ ان کا حافظ بیٹا انہیں جنت میں لے جائے گا۔
‘‘ف’’ صاحب کا ڈیری کا بزنس ہے ۔لاہور میں ان کادودھ سپلائی کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے ۔ اور اس کے لیے خانیوال تک سے دودھ ان کے سینٹر میں پہنچتا ہے ۔ پانی کے علاوہ دودھ کو تازہ رکھنے کے لیے ان کے پاس ایک انمول نسخہ ہے جسے وہ موسم گرمامیں اکثر آزماتے رہتے ہیں اور یہ نسخہ ان کے ایک ڈاکٹر دوست نے انہیں عنایت کیا تھا بلکہ سپلائی بھی کیا تھا۔ مردہ خانوں میں لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک خاص قسم کا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے اس کی ایک خاص مقدار یہ دودھ کے کنٹینروں میں بھی استعمال کرتے ہیں تا کہ گرمی میں دودھ خراب نہ ہونے پائے ۔ اور دودھ واقعتا محفوظ رہتا ہے اور ان کا ایمان بھی کہ ان کا بیٹا حافظ ہے ۔اس کے علاوہ وہ سال بعد محفل نعت بھی کرواتے ہیں اور اس میں عمرے کے دو ٹکٹ بھی عنایت کر تے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی اپنوں کو ہی جاتے ہیں مگر جاتے تو ہیں۔
‘‘ن’’ صاحب کہنے کو تو ایک قصاب ہیں مگر بہت بڑے ۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی دکان سے کاروبار شروع کیا تھا لیکن اب بڑی بڑ ی سات دوکانوں کے مالک ہیں۔ اصل میں بہت جلد وہ اس کاروبار کے رازوں کا سراغ پا گئے تھے اور اب پچھلے دس برس سے وہ ان پرکامیابی سے عمل کر رہے ہیں۔ اور آدمی ویسے بھی ذہین ہیں کچھ گر انہوں نے خود بھی ایجاد کر لیے ۔ گائے کو ذبح کرنے کے بعد ا س کے دل کی نالیوں کے ساتھ پریشر پمپ کے ذریعے پانی اس کے جسم میں داخل کر نا ان کا خاص نسخہ ہے جس سے گائے کے وزن میں ایک من کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔کم تولنا، بیمار جانوروں کا گوشت فروخت کرنا ، اوربکر ے کے نام پر بھیڑ اورگائے کے نام پر بھینس کا گوشت بیچنا توان کا عام معمول ہے ۔ اب یہ اپنی برادری میں بطور کنسلٹنٹ بھی کام کرتے ہیں اور وٹنریری ڈاکٹر اور بلدیہ سے معاملات بھی طے کرواتے ہیں۔ چونکہ صاحب درد انسان ہیں ا س لیے ان کاموں کی فیس بہت معمولی لیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ماہانہ گیارہویں شریف کا ختم بھی بڑے اہتمام سے دلواتے ہیں ، رمضان میں افطاری کااہتمام بھی خو ب کرتے ہیں اور اس میں بلدیہ کے افسروں کو خاص طو ر سے مدعو کرتے ہیں اوراب تو اللہ کا فضل ہو گیا ہے کہ بیٹے کوحفظ قرآن کی کلاس میں بھی داخل کروا دیا ہے ۔ اب جنت میں جانے سے انہیں کون سی چیز روک سکے گی۔
محترم قارئین یہ وہ الف جیم۔۔۔۔۔۔ہیں جن سے میں آگاہ ہوں، یقینا آپ کے ارد گرد بھی ایسے بہت سے چھوٹے بڑے الف، جیم ،سین، ف اور نو ن موجود ہو ں گے جو جنت کے متلاشی اور طالب ہوں گے اور جنہوں نے جنت میں جانے کے لیے ایسے بہت سے ‘‘شارٹ کٹس’’ اختیار کر رکھے ہو ں گے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان جنت کا طالب ہے کیونکہ وہ جنت سے نکالا گیا تھا اور جنت اس کے لا شعور میں بسی ہوئی ہے ۔انسان کسی نہ کسی طرح اصل میں اپنی اسی جنتِ گم گشتہ کی تلاش میں ہے۔اور اس کے لیے عام طورسے وہ دو طریقے اختیار کرتا ہے ایک تو وہ اسی دنیاکوجنت بنانے کی کوشش کرتا ہے (جو کہ ایک سعی لاحاصل ہے کیونکہ یہ دنیا خود ناتمام ہے اور کائنات کی ہر شے کی طرح اپنے جوڑے کی تلاش میں ہے اور اس کا جوڑا آخرت ہے۔ )اوردوسرے وہ ایسے شارٹ کٹس ڈھونڈتا ہے کہ جن سے ‘‘گلشن کا کاروبار’’ بھی چلتا رہے اور جنت بھی مل جائے ۔مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہماراحفظ قرآن میں بچوں کو داخل کروانا(استثنی بہر حال ہوتے ہیں اوروہ اس بیان میں شامل نہیں)ختم دلوانا ، دھوم دھام سے محفل نعت کر وانا ، بار بار عمرے حج کرناوغیرہ وغیر ہ بھی شاید اسی زمر ے میں داخل ہے مگر بعض دوستوں کا اصرار ہے کہ جو بھی ہو،حافظ تو بہر حال دس بندوں کی بخشش کروا کے ہی چھوڑ ے گا۔
اگر واقعتا ایسا ہے کہ عمر بھر سب کچھ چلتابھی رہے اور پھر آخرت میں حافظ بخشوا کے بھی لے جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ نجات کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالحہ کو کیوں جوڑ دیا گیاہے ۔ آمنوا و عملوالصالحات کی آخر اتنی تکرار کیوں ہے ؟ فمن یعمل مثقا ل ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقا ل ذرۃ شرا یرہ ۔اور من ذی الذی یشفع عند ہ الا باذنہ کا کیا مطلب ہے ؟ اللہ جب اس طرح کے حافظ کے کہنے پر اس کے والدین کی بخشش کر ے گا تو کیا اس کی صفت عدل باطل ہو جائے گی اور جب اللہ کی کسی ایک صفت کا ظہور ہوتا ہے تو کیا اس کی باقی صفات (نعوذ باللہ )باطل ہو جاتی ہیں؟ ا ور پھر حضورﷺ کے اس ارشاد کا کیامطلب ہے کہ یا فاطمہ بنت محمد لا اغنی عنک من اللہ شیئا۔ اور اس ارشاد کاکیامطلب ہے کہ اے بنی ہاشم ایسا نہ ہوکہ لوگ قیامت میں اعمال لے کے آ جائیں او رتم حسب نسب لے کے آجاؤ۔( یہ کچھ کام نہ آسکے گا) اور وہ حدیث جس میں یہ ہے کہ حافظ دس بندوں کی شفاعت کر ے گا کیا اس میں ساتھ یہ بھی شرط نہیں کہ جس نے حفظ کیا ، اسے یادرکھا اور اس پر عمل کیا؟ اس ٹکڑے کو ہم کیوں بھول جاتے ہیں؟ اور مولوی صاحبان بھی بیان کرتے ہوئے اسے بیان کیوں نہیں کرتے ؟صحابہ کرام سے لے کرامت کے تمام صالحین تک کیاسب آخرت کے لیے عمر بھر فکر مند نہیں رہے اورکیا وہ جنت کے حصول کے لیے ہر ہر لمحے نیکیوں کے حریص نہیں رہے اور کیا و ہ حفظ کے ساتھ ساتھ ہرلمحے نیک اعمال کے لیے بھی فکر مند نہیں رہتے تھے ؟کیا وہ دین کی حقیقت سے بے بہرہ تھے یا ہم؟ کیا ان کا طرز عمل غلط تھا یا ہمارا؟ اور کیا قرآن کریم کے سارے ارشادات اور ساری احادیث اوردین کا مجموعی مزاج ہمارے دعووں کا ساتھ دیتا ہے ؟ اور کیا بغیر کسی عمل کے محض حفظ قرآن کے بل بوتے پر یا دوسروں کی سفارشوں پر جنت میں جانے کی ہماری خواہش عیسائیوں کے عقید ہ کفارے کے مماثل تو نہیں؟یہ سارے وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی فراہمی میں مجھے قوی امید ہے کہ میرے قارئین میری مدد کریں گے ۔