اس خبر نے اس کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ دشمن کی طاقت اس قدر تیزی سے بڑھ جائے گی، یہ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کئی دن قبل جب پہلی مرتبہ اسے یہ خبر ملی تھی، اسی دن سے اسے خطرہ محسوس ہونے لگا تھاکہ اگر اس نے بڑھتے ہوئے دشمن کا راستہ نہ روکا تو ایک دن خود اس کی سرداری ختم ہوجائے گی۔ آنے والے برے دنوں کو روکنے کے لیے اس نے اپنے قبیلے میں دشمن قبیلے کے لوگوں کے آنے جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ خاص طور پر ان کے مذہب کے متعلق بات کرنا تو سخت منع تھا۔ اس نے نہ صرف اپنے قبیلے میں ، بلکہ اردگرد کے علاقوں کے سرداروں کے ساتھ مل کر بھی دشمن کی طاقت کو دبانے کا انتظام کیا تھا، مگر اس کی ساری ترکیبیں دھری کی دھری رہ گئیں تھیں۔ دشمن کی طاقت بڑھتی رہی اور وہ دشمن کی بڑھی ہوئی طاقت پر کڑھتا رہا۔ اس کے دل میں نفرت کی آگ جلتی رہی، لیکن دشمن سے صرف نفرت کرنے سے بھلا اس کی طاقت کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے! نوبت آج یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اردگرد کے سارے قبائل نے دشمن کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔
وہ لوگ جنہوں نے اس کے عظیم باپ کے فوت ہونے کے بعد اسے اپنا سردار بنایا تھا اور اسے اپنی آمدنی کا چوتھا حصہ دینے کا اعلان کیا تھا، اب اسے بدلے بدلے نظر آنے لگے تھے۔ یہ بات بھی وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے قبیلے میں نہ تو دشمن کے ساتھ ٹکر لینے کی طاقت ہے اور نہ ہی کوئی اس کا ساتھ دے گا۔ سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہوگیا۔ آخراسے ایک راستہ نظر آیا……وہ راستہ بہادری کے خلاف تھا، یعنی فرار……وہ جانتا تھا کہ بعض اوقات دشمن کی نظروں سے بچنے کے لیے، اسے دھوکا دینے کے لیے بھاگنا بھی پڑتا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے فرار ہونے کا ارادہ کر لیا۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ ملک شام چلا جائے گا۔ وہاں کے لوگ اس کے ہم مذہب تھے۔ اسے یقین تھا کہ شام والے اس کی ضرور مدد کریں گے اور پھر ایک دن وہ بڑا لشکر لے کر آئے گا اور دشمن کو ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد کر دے گا۔ یہ سوچ کر اس نے اپنے غلام کو بلایا اور حکم دیا:‘‘ میرے لیے تیز رفتار اونٹنیاں تیار رکھنا۔ جیسے ہی خطرہ محسوس ہوا، ہم شام کی طرف روانہ ہوجائیں گے اور اپنے اردگرد کے علاقوں پر نظر رکھنا اور مجھے پل پل کی خبر دینا۔’’غلام نے ادب سے سر جھکا دیا۔
آخربرا دن آ ہی پہنچا۔ صبح کے وقت اس کے غلام نے آکر اطلاع دی:‘‘سردار، قریب کی بستی پر دشمن نے قبضہ کر لیا ہے…… ان کا رخ اب ہماری طرف ہے، وہ نہ جانے کب ہم پر حملہ آور ہوجائیں۔’’ ‘‘تو پھر انتظار مت کرو۔ جلدی سے میرے سارے خاندان کو ان اونٹنیوں پر سوار کراؤ، ہمیں جلد از جلد یہاں سے روانہ ہوجانا ہے……’’
اس حکم کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ تازہ ترین اطلاع آئی:‘‘سردار، دشمن کے تیز رفتار دستے ہمارے علاقے میں داخل ہوچکے ہیں اور وہ کسی بھی وقت یہاں پہنچ سکتے ہیں…… کیا ہم ان کا مقابلہ کریں گے!’’ پوچھنے والے اس کے وفادار ساتھی تھے۔وہ دکھ اور کرب سے بولا:‘‘ کاش یہ ممکن ہوتا! میں خواہ مخواہ کی بہادری دکھانا نہیں چاہتا۔ مجھے معلوم ہے کہ ہم ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتے اور مجھے اپنے لوگوں کو ہلاک کرانے کا کوئی شوق نہیں ۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ چاہو تو بھاگ جاؤ اور چاہو تو ان لوگوں کی بات مان لو۔’’یہ کہہ کر وہ جلدی سے اپنی اونٹنیوں کی طرف بڑھا۔ اس کے خاندان کے لوگ جلدی جلدی ان پر سوار ہورہے تھے۔ اپنے ساتھ جتنا سامان وہ رکھ سکتے تھے انہوں نے رکھا اور بڑی افراتفری میں شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
انہیں روانہ ہوئے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ایک عورت بھاگتی ہوئی اس جگہ پہنچی جہاں کچھ دیر قبل سردار کا قافلہ کھڑا تھا۔ اس عورت کو پہچانتے ہوئے ایک شخص بولا:‘‘ یہ تو سردار کی بہن ہے…… ہائے بے چاری کا بھائی جلدی میں اپنی بہن کو ساتھ لے جانا ہی بھول گیا۔’’سردار کی بہن یہ آواز سنتے ہی سناٹے میں آگئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ گھبراہٹ کی وجہ سے اس کا بھائی اس قدر بزدل ہوجائے گا…… اس نے فوراً دوسری سواری کا انتظام کرنے کا سوچا، مگر ابھی وہ کسی سے بات ہی کر رہی تھی کہ گھڑسواروں کا ایک دستہ بجلی کی سی تیزی سے بستی میں داخل ہوگیا۔ سردار کی بہن کے لیے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ حملہ آوروں نے پوری بستی کو گھیر لیا تھا۔ انہوں نے جلد ہی پتا چلا لیا کہ قبیلے کا سردار‘‘عدی’’ فرار ہوچکا ہے اور افراتفری میں وہ اپنی بہن کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ سردار کا یوں فرار ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ مدد لے کر واپس آسکتا ہے۔ اسے واپس لانے کا اب ایک ہی طریقہ تھا کہ اس کی بہن کو گرفتار کر لیا جائے۔ جب سردار عدی کو معلوم ہوگا کہ اس کی بہن دشمن کی قید میں ہے تو وہ جنگ کرنے کے بجائے امن اور سلامتی کی بات کرے گااور حملہ آور جنگ کے بجائے صلح اور امن کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ یہ دستہ ریاست مدینہ کی طرف سے آیا تھا اور اس کی قیادت حضرت علیؓ کر رہے تھے۔ انہوں نے سردار کے خزانے ، اسلحے کے گودام اور اس کے محل میں قیدلوگوں کو اپنے ساتھ لیاا ور مدینہ کی طرف چل دیے۔
مفرور سردار کی بہن بہت خوف زدہ تھی۔ اسے معلوم تھا کہ عرب میں قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ خاص طور پر عورتوں سے تو بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر وہ کام کی نہ ہوں تو انہیں بیچ دیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔لیکن اسے حملہ آور دستے کے سپاہی بہت مختلف لگے۔ ان میں سے کسی نے بھی اسے تنگ نہیں کیا۔ ان کا رویہ تمام قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ دستے کے سردارحضرت علیؓ نے خاص طور پر حکم دیا تھا کہ وہ سردار کی بہن ہے اس لیے اس کے ساتھ شایانِ شان سلوک کیا جائے۔
مدینہ پہنچنے کے بعد سردار کی بہن کو وہاں کے سردار کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ یہ سردار دوسرے قبیلے کے سرداروں سے بالکل مختلف تھا۔ بلکہ اس جیسا انسان اس نے زندگی میں پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔
یہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے۔ وہ بے اختیار بو ل اٹھی:‘‘میرا باپ فوت ہوچکا ہے اور میرا نگران گم ہوگیاہے…… مجھ پر احسان کریں …… اللہ آپ پر احسان کرے گا۔’‘‘تمہارا نگہبان کون ہے؟’’ اس سے پوچھا گیا۔‘‘سردار عدی بن حاتم’’‘‘اچھا، تو اس سردار کی بہن ہے جو ہم سے خوف زدہ ہو کر فرار ہوگیا ہے!’’
وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ سردار کی بہن جانتی تھی کہ اس کے بھائی عدی نے دشمنی کی انتہا کر دی تھی۔ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے ہر کام کیا تھا۔ اس نے لوگوں کے لیے اسلام کے متعلق کچھ بھی جاننا ناممکن بنا دیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کا یہ رویہ اس کی سمجھ میں آتا تھا، مگر اس کا یہ اندازہ درست نہیں تھا، وہ ان کے متعلق یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کسی کے دشمن نہیں۔
اگلے دن ہمت کر کے اس نے پھر یہ ہی بات انؐ سے کہی ، لیکن جواب پھر کل والا ملا اور وہ مایوس ہو کر خاموش ہوگئی۔ اس نے کچھ دوسرے لوگوں سے بات کی تو انہوں نے اسے بتایا کہ ان کے متعلق تم کچھ نہیں جانتی۔ ان سے بڑھ کر رحم کرنے والا اور احسان کرنے والا کوئی نہیں، تم پھر ان سے بات کرنا۔تیسرے دن اس نے پھر ہمت کر کے کہا:‘‘مجھے آزاد کر دیجیے…… میرا باپ فوت ہوچکا ہے، وہ لوگوں پر بہت رحم کھاتا تھا……آپ مجھ پر رحم کھائیں!’’آپؐ نے اس کی بات سنی اور اعلان کیا:‘‘جاؤ تم آزاد ہو!’’وہ خوشی سے بولی:‘‘میں ملک شام جانا چاہتی ہوں، جہاں میرا خاندان گیا ہے۔’’ ‘‘لیکن شام کی طرف تو ان دنوں کوئی قافلہ نہیں جارہا…… اور جب تک تمہارے لیے محفوظ سفر کا بندوبست نہیں ہوجاتا میں تمہیں شام جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔’’سردار کی بہن کو اب معلوم ہوا کہ اسے آزادی نہ ملنے کی اصل وجہ کیا تھی۔ وہ آپؐ سے بہت متاثر ہوئی۔ اسے یقین آنے لگا کہ واقعی اللہ کے رسول ؐ کسی کے دشمن نہیں ہوسکتے۔حضرت علیؓ نے بھی اسے تسلی دی کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، اسے حفاظت سے اس کے خاندان کے پاس پہنچا دیاجائے گا۔
٭٭٭
مفرور سردار عدی شام پہنچ گیا تھا۔ اسے اپنی بہن کے پیچھے رہ جانے کا سخت افسوس تھا۔ اس نے فوراً اپنے خاص آدمی کو روانہ کیا اور معلوم کرایا کہ اس کی بہن کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ جب اسے پتا چلا کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے تو اسلام کے خلاف اس کی نفرت اور غصے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس نے کچھ آدمی دوڑائے۔ انہوں نے آکر جو اطلاع دی اسے اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ بتانے والوں نے بتایا:‘‘ انہوں نے تمہاری بہن کی بہت عزت کی، رہنے کے لیے اچھی جگہ دی، کھانے کو بھی دیا۔ امید ہے کہ اسے جلد ہی رہائی مل جائے گی۔’’سردار عدی کے لیے یہ اطلاعات خوشی کا باعث تھیں۔ وہ سوچنے لگا:‘‘ میں نے تو دشمن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، اسے تنگ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی پھر میری بہن پر یہ احسانات اور نیک سلوک کیوں!’’’
ایک دن سردار عدی اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اطلاع ملی کہ ایک قافلہ آرہا ہے۔ نہ جانے اسے یہ امید کیوں لگ گئی تھی کہ اس کی بہن اس قافلے میں ہوگی۔ وہ غور سے قافلے کو دیکھنے لگا۔ جب آنے والے قریب آگئے تو وہ پکار اٹھا: ‘‘یہ تو میری بہن لگ رہی ہے ……سردار عدی کی بہن…… حاتم کی بیٹی !’’
سردار عدی کا اندازہ درست ثابت ہوا، اس نے اپنی بہن کو ٹھیک پہچانا تھا۔ وہ خوشی سے دیوانہ واراپنی بہن کی طرف دوڑا، مگر وہ اس پر برس پڑی : ‘‘عدی تم ایک ظالم اور خود غرض بھائی ہو۔ تجھے شرم نہیں آئی کہ اپنے بیوی بچوں کو تو ساتھ لے آیا، اور اپنے سردار باپ کی عزت کو دشمن کے ہاتھ چھوڑ آیا۔’’ مفرور بھائی جانتا تھا کہ بہن کی ناراضی بجا ہے۔ اس نے شرم سے سر جھکا لیا اور کہا:‘‘ بہن تمہیں حق پہنچتا ہے کہ مجھے برا بھلا کہو…… مجھے جو سزادو، منظور ہے!’’ بھائی کی طرف سے یہ جواب سن کر وہ کچھ نرم ہوئی اور بولی :‘‘عدی !آخر تم مجھے وہاں چھوڑ کر کیوں آئے؟’’
اس نے بتایا کہ ایسا جان بوجھ کر نہیں ہوا، بلکہ جلدی اور افراتفری میں ہوا۔ بہن کا غصہ آہستہ آہستہ جاتا رہا۔ تب عدی نے اس سے پوچھا کہ دشمن نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔بہن نے اسے ساری داستان سنائی اور دشمن سردار اور اس کے ساتھیوں کے اخلاق اور رویے کی بہت تعریف کی۔ عدی کی بہن نے جو کچھ اسے بتایا وہ ان اطلاعات کے مطابق تھا جو اسے بھیجے ہوئے آدمیوں کے ذریعے سے ملی تھیں۔ عدی کی بہن نے اسے یہ بھی کہا:‘‘اے بھائی! تمہیں اس سردار سے ضرور ملنا چاہیے، ان کے ساتھ تم نے دشمنی اور نفرت کی انتہا کر دی، لیکن انہوں نے تمہاری بہن کی حفاظت کی، اسے آزاد کیا، اپنے پاس سے سواری دی اور ایک ایسے محفوظ قافلے کے ساتھ بھیجا جس میں ہمارے قبیلے کا ایک شخص تھا۔ تمہیں چاہیے کہ اس شخص سے ضرور ملو اور اس کے نئے دین کو جانو۔ کیا خبر وہ اس دین سے بہتر ہو، جس کو ہم مانتے ہیں! اے بھائی مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں اپنا دین اختیار کرنے پر مجبور نہیں کریں گے۔’’بہن کی ان باتوں نے عدی کو لا جواب کر دیا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھے جس کی اسے اطلاعات ملی ہیں۔
کچھ دنوں بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن سردار کے علاقے میں جاپہنچا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ مسجد میں چلاجائے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس سے کیا سلوک ہوگا؟ سردار کے طور پر اسے عزت دی جائے گی یا ایک ہارا ہوا سردار سمجھ کر اس کی ذلت اور توہین کی جائے گی۔ ان ہی اندیشوں اور خدشوں میں گھرا وہ مسجد پہنچا اور رسول اللہﷺ کو سلام کیا۔ انہوں نے اخلاق سے جواب دیا اور پوچھا:‘‘کون ہو تم؟’’
اس نے ڈرتے ڈرتے کہا:‘‘عدی بن حاتم طائی۔’’
اس کانام سن کر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ آنے کا کہا۔ عدی اس سلوک پر حیران تھا۔ ایک ہارے ہوئے سردار سے اس قدر خوش اخلاقی اور بے تکلفی اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ ایک غریب سی بڑھیا نے ان کا راستہ روک لیا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا۔ بڑھیا نے ان سے مالی مدد مانگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ تھا سارا اس کے حوالے کر دیا۔ عدی کے لیے یہ منظر بھی ناقابل یقین تھا۔ سوچنے لگا کہ یہ شخص بادشاہ نہیں ہوسکتا، ورنہ ایک عام سی بڑھیا اس قدر دلیری سے اس کا راستہ نہ روکتی ۔ اس کے بعد آپؐ نے محبت سے عدی کا ہاتھ تھام لیا اور اپنے گھرلے گئے۔
گھر پہنچ کر ایک اور حیرت نے عدی کا استقبال کیا۔ یہ گھر ایک عام گھر تھا۔ صحن میں بیٹھنے کے لیے ایک ہی جگہ تھی۔ اس پر ایک تکیہ رکھا۔عدی کو اس تکیے پر بیٹھنے کے لیے کہا گیا تو وہ بولا:‘‘نہیں، نہیں آپ بیٹھیں۔’’ اسے بہت شرم آرہی تھی۔ مگر اسے حکم دیا گیا کہ وہ اسی تکیے پر بیٹھے۔اب وہ اس جگہ بیٹھنے پر مجبور تھااور میزبان خود زمین پر بیٹھ گئے۔ عدی کو یقین ہوچکا تھا کہ یہ ہستی نفرت نہیں محبت کی حقدار ہے۔ وہ اسی طرح کی سوچوں میں کھویا تھا کہ اسے ان کی آواز سنائی دی۔ وہ پوچھ رہے تھے:‘‘عدی کیا! تمہیں اپنے مذہب کے بارے میں شک ہے؟’’وہ بولا:‘‘ہاں ! آپ درست کہتے ہیں۔’’‘‘لیکن تم اپنے مذہب پر عمل نہیں کرتے۔ تم سردار ہو اور اپنے قبیلے کے لوگوں کی آمدنی سے چوتھائی حصہ وصول کرتے ہو، تمہارا مذہب تمہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔’’عدی حیران تھا کہ اس بات کا علم انہیں کیسے ہوگیا۔ پہلی دفعہ اس کے دل نے گواہی دی کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، درست ہے۔ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں! مگر اس کے ذہن میں فوراً ایک دوسرا خیال آیا۔ وہ اسی خیال میں گم تھا کہ انہوں نے فرمایا:‘‘عدی! تم شاید سوچ رہے ہو کہ جب مسلمانوں کا نبی اس قدر غریب ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ پھر اس قدر غریب لوگوں کا دین قبول کرنے سے کیا فائدہ؟’’وہ خاموش رہا تو فرمانے لگے:‘‘اللہ کی قسم، ایک دن ایسا آنے والا ہے جب مسلمان اس قدر مال دار ہوجائیں گے کہ کسی کو صدقے ،خیرات کی ضرورت نہیں رہے گی۔’’عدی پھر خاموش رہا۔ اب ایک اور سوچ نے اس کے قدم پکڑ لیے تھے۔ تب اسے پھر ان کی پاک آواز سنائی دی۔‘‘عدی تم سوچتے ہوگے کہ مسلمانوں کا دین بالکل مختلف ہے، ان کے دشمن ساری دنیا میں ہیں، لیکن اللہ کی قسم ! ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ پورے عرب میں اسلام کا پرچم لہرائے گا اور اس قدر امن اور سکون ہوجائے گا کہ قادسیہ نامی شہر سے ایک عورت اکیلی روانہ ہوگی اور حفاظت کے ساتھ مدینہ پہنچے گی اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔’’تھوڑی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے:‘‘اور عدی! شاید تم اسلام اس لیے قبول نہیں کر رہے کہ سوچ رہے ہو گے کہ اصل حکومت تو ایران اور روم کی ہے، اور وہ مسلمان نہیں۔ تو اللہ کی قسم! تم یہ خبر جلد ہی سنو گے کہ بابل کے سفید محلات اور ایران کے کسریٰ کے خزانوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔’’ ‘‘کیا ایران کے شہنشاہ کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں پر؟’’انہوں نے فرمایا:‘‘ہاں!’’
عدی پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے اسی وقت کہا:‘‘میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور آپؐ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔’’
٭٭٭
اسلام قبول کرنے کے بعد عدی ؓ اپنے قبیلے میں واپس آگئے اور خاندان کے تمام لوگوں کو شام سے بلالیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات تک وہ اپنے قبیلے میں رہے اور اسلام پھیلانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ اگرچہ اب ان کی حیثیت ایک بادشاہ کی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ ایک معزز سردار تھے اور ان کی قوم نے ان کی پیروی میں اسلام قبول کر لیا۔
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد پورے عرب میں ایک عجیب طوفان برپا ہوگیا۔ اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ مدینہ کے قریب عبس، زیبان اور بنو بکر نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ یوں ایک طرح سے مدینہ کے علاوہ ہرجگہ سے اسلام سے بغاوت ہونے لگی۔ جھوٹے نبیوں نے واویلا مچایا کہ سچے نبی کبھی فوت نہیں ہوتے۔ ان حالات میں مدینہ سے باہر چند ہی لوگ ایسے تھے جن کا اسلام پر ایمان متزلزل نہ ہوا ہو۔ عدیؓ بن حاتم ان میں سے ایک تھے۔
ان کے قبیلے والوں نے انہیں بہت اکسایا کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے اور باغیوں سے اتحاد کر کے مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے، لیکن اسلام ان کے دل میں راسخ ہوچکا تھا۔انہوں نے ایسے لوگوں کے مشورے کو ذرہ بھر اہمیت نہ دی، بلکہ انہیں سمجھایا کہ وہ اپنے ایمان کو ضائع نہ کریں اور اس نازک موقع پر انہیں حضرت ابوبکرؓ کے پاس جاکر اپنی حمایت کا یقین دلانا چاہیے۔ عدی ؓ بن حاتم کوبہت حیرانی ہوئی جب انہوں نے لوگوں کی اکثریت کو اسلام سے بغاوت پر آمادہ دیکھا۔ تب انہوں نے فوری طور پر اپنے قریبی دوستوں کو جمع کیا اور رسول اللہﷺ کے زمانے میں جتنی زکوٰۃ وہ ریاست کو جمع کراتے تھے، اسے جمع کیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب یہ وفد مدینہ آیا تو حضرت اسامہ ؓ بن زید کا لشکر رومیوں پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا کر کامیابی سے واپس پہنچ چکا تھا۔ ہر طرف سے خطرات میں گھری ریاست کے یہ بڑی خوشی کا وقت تھا۔عدی ؓبن حاتم کازکوٰۃ لے کر پہنچنا حضرت ابو بکرؓصدیق کو بہت پسند آیا۔ انہوں نے انہیں بلایا، ان کی تحسین کی۔ عدیؓ بن حاتم نے اپنی خدمات پیش کیں اور کہا کہ اس آزمائش کے موقع پر وہ دین کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ ابوبکرؓ نے ان سے فرمایا:‘‘عدیؓ! آپ واپس اپنے قبیلے میں جائیں اور جو لوگ اسلام سے مرتد ہوچکے ہیں انہیں بتائیں کہ قرآن کا یہ فیصلہ ہے کہ جو لوگ نبیؐ کی زندگی میں ان پر ایمان لے آئیں، لیکن بعد میں کفر کی حالت اختیار کریں ، انہیں قتل کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اگر انہوں نے توبہ کر کے کفر نہ چھوڑا تو ان کا انجام اچھا نہ ہوگا۔’’عدیؓ نے اپنے خلیفہ کی بات پر سر تسلیم خم کیا اور سیدھا اپنے قبیلے میں پہنچے اور لوگوں تک ساری بات پہنچائی۔ قبیلے کے لوگوں نے ان کی بات کے جواب میں کہا:‘‘ ابو بکرؓ تو، بس ابوالفصیل ہیں۔ ہم ان کی اطاعت ہر گز نہیں کریں گے!’ان کی بات سن کر عدیؓ کو بہت غصہ آیا۔ دراصل اسلام کے باغیوں نے حضرت ابوبکر کا نام ابوالفصیل رکھ چھوڑا تھا۔ اس کا مطلب تھا بچھڑے کا باپ۔ گویا وہ اسلامی ریاست اور اس کے حکمران کو بہت کمزور سمجھتے تھے۔ عدی نے انہیں کہا:‘‘ابو بکر ؓ ہر گز ابوالفصیل نہیں بلکہ وہ ‘‘فحل اکبر’’ ہیں۔ یعنی بچھڑے ہر گزنہیں، بلکہ سانڈ کی طرح طاقتورہیں۔ ان کا لشکر تمہاری طرف آندھی اور طوفان کی طرح بڑھ رہا ہے۔یہ لشکر مرتدین اور باغیوں پر ہر گز رحم نہیں کرے گا اور قتل و غارت کا ایسا بازار گرم کرے گا کہ کسی بھی شخص کو امان نہیں مل سکے گی۔ میں تمہارے قبیلے کا شخص ہوں ، تمہارے نفع و نقصان کا دھیان رکھنا میرا فرض ہے۔ اب آگے تم جانو اور تمہارا کام!’’ان کے اس سخت اور دو ٹوک رویے پر لوگ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ تب عدیؓ نے انہیں مزید بتایا کہ تم جس حکومت کو کمزور سمجھتے ہو، میں نے اپنی آنکھوں سے اس کی فوج کو رومیوں کے ساتھ کامیاب معرکہ آرائی کے بعد واپس آتے دیکھا۔ پھر ‘‘ذی القصہ’’ نامی جنگ کا حال بتایا جس میں مدینہ کے قریبی مانعین زکوٰۃ کو شکست دی تھی۔ پھر انہوں نے یہ بتایا کہ اسامہؓ بن زید کا لشکر مدینہ میں واپس جانے کے بعد مسلمانوں کے کئی لشکر عرب کے علاقوں میں باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ایک شخص یہ سن کر بولا:‘‘تو کیا ابوبکرؓ نے ہماری طرف بھی کوئی لشکر روانہ کیا ہے!’’‘‘جی ہاں، خالد بن ولید کی کمان میں ایک لشکر طلیحہ سے جنگ کے بعد ادھر ہی کا رخ کرے گا۔’’خالدؓ بن ولید کا نام بنو طے کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ وہ ان کی بہادری اور سختی ، دونوں سے واقف تھے۔ پھرا نہیں حضرت عدیؓ کے اخلاص اور قبیلے سے خیر خواہی کا بھی یقین تھا۔ ان حالات میں انہوں نے دوبارہ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور حضرت عدی ؓ سے کہا:‘‘ہم آپ کا مشورہ قبول کرتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ خالدؓ بن ولید کے پاس جائیں اور انہیں ہم پر حملہ کرنے سے روکیں۔ ہماری طرف سے انہیں یقین دلائیں کہ ہم ان کے مقابلے میں نہیں آئیں گے۔ مگر اس وقت ہم اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کر سکتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بزاحہ میں طلیحہ کی فوج میں ہمارے رشتے دار موجود ہیں۔ اگر ہم نے دوبارہ مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو طلیحہ ہمارے رشتہ داروں کو قتل کرادے گا۔ ہم پہلے اپنے رشتہ داروں کو بلاتے ہیں اور پھر مسلمان ہونے کا اعلان کریں گے۔’’عدیؓ کو ان لوگوں کی باتوں میں بڑی معقولیت نظر آئی اور انہوں نے خالدؓ بن ولید کے ہاں ان کی معذرت پہنچانے کا وعدہ کیا اور سخ کے علاقے کی طرف رخ کیا۔
طلیحہ ان لوگوں میں سے تھا، جنہوں نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر بنالیا تھا جو بزاحہ میں مقیم تھا۔عدیؓ پہنچے اور خالدؓ بن ولید کے سامنے ساری صورتحال رکھ دی اور کہا:‘‘ آپ تین روز تک ٹھہر جائیں۔ اس عرصے میں ہمارے قبیلے کے وہ لوگ جو طلیحہ کے لشکر میں ہیں، آپ کے پاس آجائیں گے۔ ان لوگوں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ لوگ آپ کے لیے بہت مفید ثابت ہوں گے۔ اس لیے کہ ان کے پاس دشمن کی ہر خبر ہوگی…… لیکن اگر آپ نے یہ مہلت نہ دی تو ایک تو آپ کو سخت مقابلہ کرنا پڑے گا، دوسرے لوگوں میں یہ تاثر ابھرے گا کہ اسلام میں واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں بچا۔’’خالدؓبن ولید کے پاس صورت حال کی پوری خبریں تھیں اور عدیؓ بن حاتم کا بیان اس کی تصدیق کرتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ بنی طے کے لوگ طلیحہ کو چھوڑ کر اسلامی لشکر میں آجائیں تو دہرا فائدہ ہوگا۔ یعنی طلیحہ کے لشکر میں کمی اور اسلامی لشکر میں اضافہ۔ چنانچہ انہوں نے بنی طے کی طرف کوچ کرنے کا ارادہ تین دن تک موخر کر دیا۔
یہ خوشخبری لے کر عدیؓ جب قبیلے پہنچے تو انہیں ایک عجیب خوشخبری سننے کو ملی۔ وہ یہ کہ قبیلے کے لوگوں نے طلیحہ کے لشکر میں اپنے آدمیوں کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ فوراً واپس آجائیں، کیونکہ مسلمانوں نے طلیحہ کے لشکر پر چڑھائی کرنے سے قبل ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس لیے وہ اپنے قبیلے کو بچانے کے لیے واپس آجائیں۔عدیؓ کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب کچھ دنوں بعد ان کے قبیلے کے تمام لوگ واپس آگئے۔ ان لوگوں کو اپنے قبیلے میں پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ قبیلے کے تمام لوگ دوبارہ اسلام قبول کر چکے ہیں اور انہیں تو صرف خالد بن ولیدؓ اور مسلمانوں کی تلواروں سے بچانے کے لیے واپس لایا گیا ہے تو وہ بھی دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ عدیؓ نے اس کے بعد اپنے ہمسایہ قبیلے‘‘جدیلہ’’ کو بھی سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ ملا لیا اور مرتدین کی فوج کو مزید کمزور کر کے اسلامی ریاست کی فتح کی راہ ہموار کی۔ چنانچہ خالدؓ بن ولید نے عدیؓ بن حاتم اور اس کے قبیلے بنو طے سے مل کر طلیحہ سے جنگ کر کے اسے فیصلہ کن شکست دی۔
عدیؓ بن حاتم بعد میں بھی اس وقت تک مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ رہے جب تک پورے عرب میں مرتدین کا صفایا نہ ہوگیا۔ یوں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق پورے عرب کو اسلام کے آگے سرنگوں دیکھا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ عدیؓ کی زندگی ہی میں مسلمانوں نے روم اور ایران کی عظیم ریاستوں پر بھی قبضہ کر لیا اور ان کے سارے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ اسلام کی وسیع سلطنت میں اس قدر امن و امان ہوا کہ ایک عورت مصر کے شہر قادسیہ سے چلی اور خیروعافیت سے مدینہ پہنچی۔
عدیؓ بن حاتم کو یقین تھا کہ اللہ کے رسولؐ کی تیسری بات بھی پوری ہوگی…… اور ان کا یقین درست ثابت ہوا۔ عمرؒ بن عبدالعزیز کے زمانے میں مسلمان اس قدر خوش حال اور مال دار ہوگئے کہ کسی کو خیرات یا صدقے کی ضرورت نہ رہی۔ ٭٭