وطن کے محسن

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جون 2006

 ‘‘شالا مسافر کوئی نہ تھیوے’’

‘‘مائیں نی میں کینوں آکھاں درد وچھوڑے دا’’

پہلا منظر

             یہ ابو ظبی کے ایک بڑے انگلش میڈیم سکول کا ٹیچر ز ہاسٹل ہے ۔اسوقت پاکستان میں صبح کے سات اور ابو ظبی میں چھ بجے ہیں ۔کچھ ٹیچر نماز ادا کر چکے ہیں اور باقی ابھی سونے میں مصروف ہیں۔اسی اثنا میں فون کی گھنٹی بج اٹھتی ہے ۔ سویا ہوا ٹیچر آنکھیں مسلتے ہوئے فون اٹھاتا ہے تو دوسری طرف اس کا ننھا بیٹا کہہ رہا ہوتا ہے ‘‘ پاپا جلدی آ جائیں’’۔ باپ بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ بیٹا میں چھٹیوں میں آؤں گا۔ بیٹے نے کہا کہ نہیں پاپا چھٹیا ں بہت گند ی ہیں یہ تو آتی ہی نہیں ۔بس آپ جلد ی آ جائیں۔اس کے بعد فون تو خاموش ہو جاتا ہے ورظاہر ہے باپ کی زبان بھی مگر اس کی آنکھیں کچھ اس طرح سے بولنے لگتی ہیں کہ بولتی زبانیں بھی اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں اور لکھتے ہاتھ بھی۔

دوسرا منظر

            شام کاوقت ہے اورشام میں جس طرح درختوں کے سائے لمبے اورگہرے ہو جایا کرتے ہیں، اداسی اور تنہائی کے سائے بھی لمبے اور گہرے ہو جایا کرتے ہیں اور پردیسی اس بات کو خوب جانتے ہیں۔اسی گہرے سائے میں فون کی گھنٹی پھربج اٹھتی ہے ۔ اب کے دوسرے ٹیچر کی باری ہے۔ اس نے فون اٹھایا تواس کی اکلوتی بیٹی کے رونے کی آواز آتی ہے ۔ ٹیچرنے پوچھا کیا ہوا بیٹا۔ بیٹی نے کہا ابو ،امی مارتی ہیں۔وطن اورگھر میں ہوتے ہوئے یہ روٹین کا ایک عام سا جملہ تھا مگر پردیس میں اس ٹیچر پر اتنا موثر ہوا کہ بیٹی کا رونا تو شاید اس وقت بند ہو گیا ہو گا مگر اس کے دل کارونا بہت دیر جاری رہا۔

تیسرا منظر

            دو ساتھی ایک ایسی سڑ ک پر جا رہے ہیں جس پرکہیں کہیں کھجور کے درخت بھی پورے وقار کے ساتھ کھڑ ے ہیں ۔ایک ساتھی نے کھجوروں کی طرف بڑے غور سے دیکھااور دوسرے سے کہا ، کھجوروں کو ‘‘بور’’ لگنا شروع ہو گیا ہے دوسرے نے کہا تو پھر؟ اس نے کہا یہ کھجوریں کہہ رہی ہیں کہ اب ہمارا پاکستا ن جانے کا وقت قریب آرہا ہے ۔ دوسرے نے کہا وہ کیسے ؟ اس نے کہا پچھلے بر س بھی ایسے ہی ہوا تھا۔میں ان کھجوروں کو اکثر دیکھا کرتا تھا پہلے انہیں بور لگا تھاپھر جب یہ بور آدھی کچی آدھی پکی کھجوروں میں تبدیل ہوا تھاتو ہم پاکستا ن گئے تھے ۔ اس دفعہ بھی ایسے ہی ہو گا۔ یہی بات کرتے ہوئے یہ دونوں ایک خوبصورت چوک میں بنے بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں شام کے سائے مزید گہرے ہو چکے ہیں ۔پہلے ساتھی نے چوک میں ایک خوبصورت اورکشادہ سڑ ک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ سڑ ک دیکھ رہے ہو؟دوسرے نے کہابالکل اس نے کہا یہ سڑ ک ایر پورٹ کو جاتی ہے ہم اسی روڈ سے ایر پورٹ جائیں گے ۔

چوتھا منظر

            چھت پہ کھڑ ے ساتھی نے دور اشارہ کرتے ہوئے کہا ،اس طرف سعود ی عرب ہے ۔ میری بیٹی شوہر کے سنگ ریاض چلی گئی ہے ۔ اور پھر ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہامیں ابو ظبی میں ہوں،وہ اسلام آبا د سے گئی تو میں اسے مل بھی نہ سکا۔یہ بات کہتے ہوئے بظاہر تو وہ خلاؤں میں گھور رہا تھا مگر اصل میں وہ جذبات کے سمند رمیں ڈوب رہا تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ کس طرح وہ اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا کر بازار لے جایا کرتا تھا کس طرح وہ اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا کس طرح وہ اسے پیار کرتی تھی اور وہ اسے، مگر آج۔۔۔۔۔۔!منظر کس طرح بدل جایا کرتے ہیں!

پانچواں منظر

            ٹیچرسکول سے واپس آتا ہے اس کے ہاتھ میں کتابوں کاپلندہ ہے وہ اسے میز پر پٹختے ہوئے دوسرے سے کہتا ہے لو بھئی آج میں نے بڑی احتیاط سے گناہے گھر جانے میں پورے دس جمعے باقی رہ گئے دوسرے نے کہا دس بھی کیا سمجھو ،نو ہی رہ گئے یہ آنے والا جمعہ تو سمجھو بیت گیا۔یہ لوگ اس طرح ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیا ں دینے میں مصروف رہتے ہیں۔مگر پگلے نہیں جانتے کہ وقت کے سیکنڈ ،منٹ ، گھنٹے ، ہفتے ، مہینے اورسال تو اپنے حساب ہی سے گزرا کرتے ہیں۔کسی کے جذبات نہ اس کی رفتا ر کم کر سکتے ہیں نہ زیادہ۔البتہ اپنوں سے دور پردیسیوں کومحسوس یوں ہی ہوتاہے کہ گویا راتیں لمبی ہو گئی ہوں اور وقت ٹھہر ساگیاہے۔اور پھر یہ پگلے کبھی بازاروں میں بے مقصد پھر کر ، کبھی خالی خولی اونچے اونچے قہقہے لگا کر اور کبھی گپ شپ سے وقت کو تیز کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر کبھی ایسے ہوابھی ہے ؟

            یہ مناظراس طبقے سے متعلق ہیں جسے پڑھا لکھا طبقہ کہا جاتا ہے ۔اورجنہیں پردیس میں ہر طرح کا آرام بھی میسر ہے ۔بظاہر کوئی جسمانی مشقت اوراذیت بھی نہیں مگر گھر سے ، بیوی بچوں سے ، والدین سے اوراپنوں سے دوری انہیں جس طرح کی نفیساتی توڑ پھوڑ کا شکار کر دیتی ہے اس کا ہلکا سا اندازہ ان مناظر سے کیاجا سکتا ہے۔بظاہریہ لوگ نارمل لگتے ہیں مگر جذبات کی شکست و ریخت انہیں ایک قسم کاا بنارمل بنا دیتی ہے۔ اس سے یہ اند ازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیچارے ہم وطن جو پردیس میں محنت مزدوری کے لیے آتے ہیں ان کا حال کیا ہو گا۔ ابو ظبی کی سڑکوں پر ان ہم وطنوں کے مناظر بھی جا بجا بکھر ے پڑ ے ہیں۔ بسیں کس طرح منہ اندھیرے انہیں اپنے دامن میں بھر کر بڑی بڑی زیر تعمیر بلڈنگوں پر چھوڑ جاتی ہیں اور پھر کس طرح رات اندھیرے انہیں واپس ‘‘بیرکوں’’میں بند کر آتی ہیں ، یہاں معمول کامنظر ہے ۔صبحدم مرجھائے چہروں کے ساتھ ، ہاتھوں میں ٹفن پکڑ ے ان کا بسوں سے اترنا اور رات کو تھکے چہرے کے ساتھ لائن لگا کر بسوں میں سوار ہونا بھی یہاں کا عجبب منظر ہے ۔ کسی درخت کے سائے میں یا سڑک کنارے بنے بنچ پرکسی ہم وطن کا گہری سوچ میں ڈوبے بیٹھے ہونا بھی یہاں کا ایک عام منظر ہے ۔اس طرح کے مناظر ابو ظبی سے مخصوص نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کی ہر سڑ ک اور ہر گلی میں بکھرے ہوئے ہیں۔اورپھر ایک کمرے کی زندگی تو یہاں کا سب سے تکلیف دہ منظر ہے پانچ کمروں کا فلیٹ ہے تو ہر کمرے میں پانچ سات لوگ بھر ے ہوتے ہیں۔ایک فلیٹ میں ایک کچن یعنی سب کمروں کا مشرکہ اور مشرکہ واش روم ۔یہاں یہ پردیسی بعض اوقات اپنے خاندانوں سمیت اوراکثر اوقات پانچ پانچ، سات سات مل کر جس طرح گزارہ کرتے ہیں گھروں میں رہنے والوں کو اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ بیس بیس منزلہ ٹاوروں اور پلازوں میں لاکھوں لوگ بند ہیں۔اور شام یا صبح کو جب یہ لوگ ان میناروں سے جوق در جوق نکل کر سڑکوں پر پھیل رہے ہوتے ہیں تویوں ہی لگتاہے جیسے قبروں سے مردے نکل نکل کر آ رہے ہوں۔اس مردنی میں زندگی بھرنے کے لیے یہاں کی سوسائٹی نے ان پلازوں ، برجوں ، میناروں اور ٹاوروں میں رنگ و نو ر اور دل کو بہلانے کے ساماں بھی بہت کر رکھے ہیں۔مگرحقیقی دل بھی کبھی یوں بہلا کرتاہے کہ اس کے لیے تویہ سب ‘‘ صناعی’’ ہے اور وہ بھی جھوٹے نگینوں سے بنی۔

            یہ ویران چہروں ، فرات آنکھوں، اداس صبحوں ، سونی شاموں اور لمبی راتوں والے لوگ ،کون لوگ ہیں۔ یہ وطن کے محسن ہیں جو اس کی جھولی میں سالانہ تین ارب سے زائد زر مبادلہ ڈالتے ہیں۔یہ اپنے گھروں کے محسن ہیں، جو خود اندھیرے میں رہ کر اس کے درودیوار کوروشن کرتے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کے محسن ہیں جواپنے جذبے ، اپنی آسودگی ، اپنا آرام قربان کر کے ان کے مستقبل اور ان کی امید وں میں رنگ بھرتے ہیں۔لیکن کیا ان کے ساتھ ان کے وطن میں محسن سا سلوک ہوتا ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہنو ز جواب طلب ہے ۔پردیس میں تو انہیں جذبات سے عاری روبوٹ اور مشین سمجھا جاتا ہے ۔ وطن میں اگر انہیں محسن نہ سہی انسان ہی سمجھا جانے لگے تو شاید یہ لوگ پھر یہاں آنے کی سوچیں بھی نہ اور شاید پھر ان کے بہت سے دکھوں کا مداوا بھی ہو جائے۔مگر یہ کون کر ے گا ؟ کو ن ہے کرنے والا؟ کس کو اتنی فرصت ہے ! اور یہ لکھنے والا بھی شاید اسی لیے لکھ رہا ہے کہ ‘‘کتھارسس’’ہو جائے ورنہ طوطی کی آواز نقار خانے میں چہ معنی دارد؟

میرا علم بہت ہی محدود ہے