جنرل پرویز مشرف صاحب نے ، پچھلے دنوں گارڈین اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ ملک میں ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔ اگر مذکورہ بات ، صدر محترم نے، واقعی کسی پیشہ وارانہ تجزیہ کار ادارے کی طرف سے فراہم کر دہ معلومات کی بنا پر کہی ہے ، تو پھر انہیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا کہ ان کی مقبولیت میں یہ مبینہ کمی کیوں واقع ہوئی ہے۔اگرچہ ، ہم جنرل صاحب کی بعض پالیسیوں کے حامی ہیں، لیکن یہ کبھی نہیں سمجھا کہ وہ پاکستان کے مقبول حکمران ہیں۔ حقیقی عوامی مقبولیت کی لذت سے تو وہ ہمیشہ ہی نا آشنا رہے ہیں۔ لیکن بہر حال ہمیں بھی ، ان کی اس بات سے اتفاق ہے کہ اب دن بدن ان کی عوامی مقبولیت کا گراف نیچے سے نیچے جارہا ہے۔جنرل صاحب کے اس اعتراف سے ، یہ بھی واضح ہوتا ہے ، کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں مقبول ہونا یا غیر مقبول ہونا ایک اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ہی ہمارا موقف ہے کہ ملک میں حکومت سازی اور اقتدار کے حق کے حوالے سے ، عوام کی پسند و ناپسند ہی ، اصل معیار ہوتا ہے، جس کا تعین ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔عوام کی مرضی کے بغیر، جبر وقوت سے ان کے سروں پر مسلط ہونا، کچھ وقت کے لیے تو، عوام کو برداشت ہوتا ہے، لیکن آخر کار وہ جبرو غصب کی قوت سے تنگ آجاتے ہیں اور اس سے چھٹکارے کی سعی شروع کر دیتے ہیں۔ جس کا ایک اظہار، ایسے حکمرانوں کی مقبولیت میں کمی سے ہوتا ہے۔ جنرل صاحب ، دیکھیے کہیں، آپ کے اقتدار پر تویہ وقت نہیں آپہنچا؟
جنرل پرویز مشرف صاحب، پچھلے سات برس سے ، بلا شرکت غیرے، وطن عزیز پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ملک و قوم کی بہتری کے لیے وہ جو چاہتے کر سکتے تھے۔ کسی قسم کی رکاوٹ اور کسی قسم کی مجبوری ، ان کے راستے میں حائل نہ تھی۔ اس دوران میں ، انہوں نے جو سب سے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے، وہ ان کے بقول ، معاشی استحکام ہے۔ یہ کیسا معاشی استحکام ہے ، کہ عام آدمی بنیادی ضروریات تک سے محروم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی استحکام ، سیاسی استحکام کے بغیر ویسے ہی ناممکن ہے ۔
ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ جنرل صاحب کے اقتدار کا زوال شروع ہے۔ اب نہ صرف وہ خود اپنی ناکامیوں کا اعتراف کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر کے اخبارات بھی ، وطن عزیز کو ایک ناکام ریاست قرار دے رہے ہیں۔ ہمارا اشارہ ، معروف امریکی جریدے‘‘فارن پالیسی’’ کی اس فہرست کی طرف ہے، جس میں پاکستان کو ناکام ریاستوں کی فہرست میں نویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ اس حوالے سے ہماری پوزیشن افغانستان کے برابر قرار پائی ہے۔اس فہرست کے مندرجات سے اور جس مقام پر وطن عزیز کو رکھا گیا ہے، ہمیں یا حکومت ِ وقت کو ، اتفاق ہو یا نہ ہو، بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری، عوام کی سیاسی، سماجی اور معاشی طورپر بہتری اور حکومتی مشینری کے ملک پر موثر کنٹرول اور انتظامی اداروں کی شفافیت اور دیانت کے حوالے سے ، وطن عزیز کا گراف مسلسل گر رہا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں، ریاستوں کی ناکامی کا اندازہ کئی عوامل کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جن میں اہم ترین عامل، عوام کی اکثریت کا حکومت کو جائز تسلیم نہ کرنا ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں ، ناکام ریاست قرار دیے جانے کا ایک اور اہم عامل، حکومت کا عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم نہ کر سکنا ہے۔ جیسا کہ وطن عزیز کی صورتحال سے مبرہن ہے۔ وہ عوام ، جو گلیوں محلوں، کچی آبادیوں اور گندگی اور غلاظت کے تالابوں کے درمیان بستی ہے، کیا اس کی حالت زار کا اندازہ ،کبھی اسلام آباد کے ٹھنڈے بنگلوں میں رہنے والے حکمرانوں کو ہوسکتا ہے؟ عوام روزمرہ کی بنیادی ضروریات تک سے محروم ہے، کیا کسی کو اس کی خبر ہے؟ آٹا ، دال ، سبزی، گوشت، چاول ، چینی کا حصول، ایک عام آدمی کے لیے کتنا مشکل بنادیا گیا ہے، کیا حکمرانوں کو اس کی خبر ہے؟ یقینا، جنرل صاحب اور ان کے حواریوں کو اس کی خبر ہے اور یقینا مقبولیت میں کمی کا بتانے والے اداروں نے ان وجوہاتِ زوال کی خبر بھی دی ہوگی۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ، مہنگائی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان کے ذمہ داران حکومت وقت کے چرنوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔وہ بڑے بڑے لوگ، جو ان تمام تر سماجی اور معاشی برائیوں کی جڑ ہیں، اپنے اپنے جرم کی سزا پانے کے بجائے، چاپلوسی اور خوشامد کی جزا پا رہے ہیں۔ چینی کا بحران ہو یا فلور ملوں اور آٹے کا مسئلہ، سیمنٹ سریے کا بحران ہو یا پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ، ان تمام بحرانوں کے مجرم اور نقشہ نویس اسلام آباد کے مکین ہیں۔ جب یہ قومی مجرم اپنے کیے کی سزا پانے کے بجائے، مسلسل نوازے جارہے ہوں تو پھر ان حالات میں یہ ملک ناکام ریاست نہ کہلائے تواور کیا کہلائے؟ اور صدر صاحب کی مقبولیت میں کمی نہ ہوتو کیا ہو؟؟
میثاقِ جمہوریت
تمام جمہوریت پسند اور محب وطن عناصر کے لیے، پچھلے ماہ کی خوش کن خبر، سابق وزرائے اعظم، میاں نواز شریف صاحب اور محترمہ بے نظیر زرداری کے درمیان ، لندن میں ہونے والی وہ ملاقات ہے، جس میں میثاق جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے۔ ہم ، اگرچہ ، بے نظیر صاحبہ اور نواز شریف صاحب کو جمہوری روایات و اقدار کے حوالے سے آئیڈیل نہیں سمجھتے لیکن یہ موجودہ حالات کے تناظر میں، وطن عزیز کی سیاست میں ان کے موثر کردار سے انکار بھی نہیں کرتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنوں عوامی سیاسی مقبولیت رکھنے کی وجہ سے، وطن عزیز کی سیاست کا اثاثہ ہیں۔ اس لیے، جب ان دونوں قائدین کی طرف سے، فوجی حکومت کے خلاف کسی مشترکہ اقدام کی بات سامنے آتی ہے تو اسے سراہنا ، ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔لندن میں ہونے والی یہ ملاقات، اگرچہ جمہوری روایات کے احیا اور استحکام کے نقطہ نظر سے ، بڑی اہمیت کی حامل ہے، لیکن بہر حال ابھی یہ ابتدائی نوعیت کی ہے، اس لیے اس سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا قبل از وقت ہے۔
مذکورہ دونوں سیاسی قائدین اگرچہ فوجی حکومتوں کے قیام و استحکام میں آسانیاں اور سہولتیں فراہم کرتے رہے ہیں لیکن اب جبکہ وہ اس جرم سے تو بہ کر کے میثاق جمہوریت کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے بے شمار مسائل ہیں، لیکن ام المسائل کی حیثیت جس مسئلے کو حاصل ہے، وہ پاکستانی جرنیلوں کا چسکا سیاست کاری ہے جس کو مزید ذائقہ دار بنانے کا ذمہ موقع پرست سیاستدانوں نے لے رکھا ہے۔ اس کو روکا جاسکتا تھا اگر وطن عزیز کے سیاست دان بالغ نظری اور جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے یا ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج ہی جرأت مندی اور جمہوری روایات و اقدار سے گہری وابستگی کا اظہار کرتے۔آج جب میثاق جمہوریت طے ہونے جارہا ہے تو یہ تلخ حقیقت ان دونوں محترم قائدین کے گوش گزار کرنا ضروری تھا۔
اس ملاقات میں اور اس کے بعد ہونے والی ملاقاتوں میں ، کیا یہ قائدین، ایسا کوئی لائحہ عمل طے کر سکیں گے کہ جس سے فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کو روکا جاسکے؟ اگر اخلاص ہو ، تو سب کچھ ممکن ہے۔ وگرنہ ، ہمارے سیاستدانوں کا، اب تک وطیرہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ہی رہا ہے۔ اگر جمہوری اقدار سے گہری وابستگی ہو تو پھر یہ ممکن ہے کہ یہ لوگ کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار کر سکیں۔
اب تک ایسا کوئی معاہدہ کیوں نہ ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی ذات سے اوپر اٹھ ہی نہ سکے۔ کیا اب ہم ان سے توقع کر لیں کہ وہ اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرنے کے لیے، دوسرے کے خلاف، فوج کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے؟ کیونکہ ان لوگوں کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ان لوگوں نے ، ہر وہ راستہ اختیار کیا جس راستے سے انہیں ذاتی مفاد کا تحفظ نظر آیا۔ اس حوالے سے، ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ، مسلم لیگ کے نام سے سیاست کرنے والوں کا دامن کچھ زیادہ ہی داغدار ہے۔
معاہدوں کی تحریروں اور لفظوں سے زیادہ اہمیت اس ذہن کی ہوتی ہے جو معاہدوں کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔میثاق جمہوریت پر تبصرہ تو اسوقت ہوگا، جب اس کی حتمی شکل سامنے آئے گی، ہمارے نزدیک اصل اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ وطن عزیز کے سیاستدان، وقتی فائدوں کو پس پشت ڈال کر، اعلیٰ جمہوری اقدار سے کامل وابستگی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیں۔
کسی بھی میثاق جمہوریت کی بنیاد، بلا شبہ 1973کا وہ آئین بن سکتا ہے جو اس فوجی حکومت کی آمد سے قبل نافذ تھا۔ اس آئین کی منظوری، بلا شبہ ہمارا قابل فخر سیاسی کارنامہ ہے۔لیکن بد قسمتی سے ، وطن عزیز میں کاغذ کے اس پرزے کو کبھی بھی وہ احترام نہیں دیا گیا جو اس کا اصل حق بنتا ہے اور نہ ہی اس کو اس کی روح سمیت کبھی نافذ کیا گیا ۔ اس لیے اب جب کہ یہ قائدین نئے سفر کا آغاز کرنے جارہے ہیں، تو ہم ان سے گزارش کریں گے کہ اس آئین کے تقدس کی بحالی ان کا پہلا کام ہونا چاہیے۔
اس وقت ملک میں جو دستور کام کر رہا ہے، وہ 73ء کے اصل آئین کی کمزورترین شکل ہے۔اس کی بعض شقیں ہمارے جمہوری چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ جمہوری قوتوں کے درمیان ، ان ترمیمات اورشقوں کے خاتمے کا معاہدہ ہونا چاہیے۔
ایک اور بدنما داغ نیشنل سیکورٹی کونسل کا قیام بھی ہے۔ اس ادارے کے خاتمے کے بارے میں بھی، جمہوری قوتوں کی دو آرا نہیں ہونی چاہیے۔ ہم فوج کی ملکی سیاسی معاملات میں، ذرہ برابر مدخلت کے بھی روادار نہیں ہیں۔ اس لیے نیشنل سیکورٹی کونسل یا اسی قسم کے کسی دیگر آئینی یا غیر آئینی بندوبست کے بھی قائل نہیں ہیں۔اس لیے مجوزہ میثاق جمہوریت میں اس کے خاتمے کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے۔ کار حکومت میں ، آخر کس بنا پر، جرنیلوں کو شامل کیا جائے؟ کوئی معقول وجہ تو ہونی چاہیے اس کی۔ یہ تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ چونکہ فوج سیاست میں ملوث ہے اس لیے اس کو آئینی بنالینا چاہیے۔ حالانکہ یہ ہی تو بنائے فساد ہے کہ فوج سیاست میں ملوث ہوچکی ہے۔ فوج کو سیاست کی آلودگی ہی سے نکالنا مقصود ہے، کجا کہ اسے آئینی ادارے کی شکل دے دی جائے۔
میثا ق جمہوریت طے کرنے والے سیاستدانوں سے آخری گزارش یہ کریں گے کہ وہ اپنی سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی جمہوری روایات کا احیا کریں۔بدقسمتی سے وطن عزیز کی سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے بالکل تہی دامن ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی و مذہبی پارٹیاں اور ادارے وراثت کے اصول پر چلائے جارہے ہیں۔ ان کے اندر جمہوری روایات و اقدار کا احترام مفقود ہے۔ نہ تو ان کے اندر قیادت کے لیے انتخابات ہوتے ہیں اور نہ ہی کارکنان و قائدین کی کسی قسم کی تربیت کا بندو بست ہوتا ہے۔ سیاست ایک کاروبار بنادیاگیا ہے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک، ذاتی مفاد کو ترجیح دینے والے لوگ سیاست کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا نا سور ہے جس کی موجودگی میں کسی قسم کا میثاق جمہوریت سِرے سے پروان چڑھ ہی نہیں سکتا۔ جب تک پارٹیوں کے اندر، جمہوریت پروان نہیں چڑھتی اس وقت تک فوج سے نجات اور جمہوریت کا احیا دیوانے کا خواب ہوگا۔