۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں ’ آل انڈیا مسلم لیگ کا کنونشن ہوا تھا ’ جس کے روحِ رواں محمد علی جناح ؒ تھے ۔ پورے ہندوستان سے مسلم لیگی ورکرز اور قائدین جمع ہوئے ۔جلسے میں قراردادیں پاس ہوئیں اور دو دن کے بعد یہ جلسہ برخواست ہوگیا ۔اُن قراردادوں میں ، ایک قرارداد، جسے شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کیا،‘‘قراردادِ پاکستان ’’کے نام سے معر وف ہوئی، کیونکہ یہی قرارداد قیامِ پاکستان کی بنیادبنی تھی ۔ اس جلے میں کلیدی خطاب قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا تھا ’ جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ مسلمانانِ ہند جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ،وہ اپنی تحریک آزادی کو جمہوری اصولوں پر چلائیں گے اور اس بنیاد پر حاصل ہونے والے ملک میں بھی جمہوریت کا پرچم بلند ہوگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کی تحاریک آزادی میں، تحریک پاکستان واحد تحریک ہے جو خالص جمہوری روایات پر اُستوار ہوئی اور اپنے عظیم مقصد میں کامیاب ہوئی ۔بغیر ایک گولی چلائے،محض اصولی سیاست کے بل بوتے پراتنا بڑا کارنامہ سر انجام پایا ۔ حصول پاکستان کا کارنامہ، مسلم لیگ کا ایسا کارنامہ ہے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔
ایسی شاندار جمہوری تاریخ کی حامل جماعت کا ، ایک اور‘‘ ورکز کنونشن’’، حال ہی میں،۲۳ مارچ ۲۰۰۶ء کو لاہور میں منعقد ہوا ۔ یہ کنونشن صد سالہ یادگاری کنونشن تھا یعنی مسلم لیگ کی تاسیس کو سو سال مکمل ہو رہے تھے تو اس کی یاد منانے کے لیے یہ کنونشن منعقد کیا گیا تھا۔ اس جلسے میں ملک بھر سے مسلم لیگی قائدین اور کارکنان مینار پاکستان پر جمع ہوئے۔اس جلسے میں بھی جوش و جذبہ دیدنی تھا ۔ اس جلسے میں بھی تقاریر ہوئیں ’ نعر ے لگے اور قراردادیں پاس ہوئیں ۔ ان قراردادوں میں وہ قرارداد، جسے شاہکار قرارداد کہا جاسکتا ہے ، پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی صاحب کی تھی ۔ یہ قرارداد بھی سامعین کی پرزور تالیوں کی گونج میں منظور ہوئی ۔یہ قرار داد کیا تھی؟جمہوری روایات کا خون! جمہوریت و سیاست کو ذبح کردینے والی قرارداد کا یوں جوش و جذبے سے منظور ہونا، ایک سیاسی کارکن کے لیے شدید ذہنی صدمے کا باعث ہے ۔لیکن وہ کون تھے جو تالیاں بجا رہے تھے؟کیا سیاسی کارکن تھے؟
اس سے بڑی بدقسمتی اور اس برُا زوال اور کیا ہوسکتا ہے کہ ۱۰۰ سالہ سیاسی تاریخ رکھنے والی سیاسی جماعت کا پورے ملک کا ورکرز کنونشن ہو اور اس میں ایک فوجی کونہ صرف خوش آمدید کہا گیا بلکہ اسے درازی اقتدار کی دعائیں بھی دی گئیں اور اس سے دست بستہ درخواست کی گئی کہ آپ اپنی خوب صورت وردی سمیت مزید نامعلوم مدت تک کرسی اقتدار پر فائز رہیں۔کیونکہ اس سے ‘‘بہتوں’’ کا بھلا ہوگا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جلسے میں سیاستدانوں کے روپ میں بہروپیے تھے کہ جنھیں نہ تو سیاسی پارٹیوں کے تقدس کا کچھ علم تھا اور نہ ہی ان لوگوں کو سیاسی جلسے کے تقدس کا کچھ احترام تھا ۔
جس انداز سے یہ قرارداد پاس ہوئی اور جس انداز سے جنرل صاحب کا وہاں سواگت ہوا، اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وطنِ عزیز کا آئندہ سیاسی نقشہ کیا بننے یا بنایاجانے والا ہے ۔
عوام نہتے اور کمزور ضرور ہیں، لیکن عقل و بصیرت سے عاری ہرگز نہیں ۔ وہ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جمہوریت کی کون سی قسم ہے کہ جس میں ملک کا تمام تر نظام ایک فردِ واحد کی سوچوں کے گرد گھوم رہا ہے اور یہ آئین کے احترام کا کون ساپہلو ہے کہ جس میں موم کی ناک کی طرح ، جب چاہا آئین کو اپنے حق میں مروڑ لیا، جب چاہا اسے معطل کردیا اور جب چاہا اسے بحال کردیا ۔بچے بھی اپنے کھلونوں کا وہ حشر نہیں کرتے جو ہمارے ہاں آئین کا کیا جاتا رہا ہے ۔
مسلم لیگ کا مذکورہ صد سالہ کنونشن ، بلا شبہ جوش و جذبے سے بھرپور تھا ۔ حاضری کے اعتبار سے بھی، بلا شبہ، اِسے تاریخی جلسوں میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ بلاشبہ دنیا بھر کے پریس اور دنیا بھر کے میڈیا کو گواہ بنا کر یہ ثابت کیا جاچکا کہ جنرل مشرف صاحب ،بے پناہ عوامی حمایت رکھتے ہیں اور یہ کہ پاکستانی قوم جنرل صاحب کو مزید نامعلوم مدت تک مقتدر دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بہروپ اور اصل میں جو زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے،وہ سب پر عیاں ہوتا ہے ۔ جس آدمی کی بھی، پاکستان میں ، حکومتی جلسہ سازی کی تکنیک پر نظر ہے، وہ کبھی بھی اس جھوٹی شان و شوکت سے متاثر نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان کے حکومتی کلچر میں،اب یہ بات رواج پاچکی ہے کہ حکمرانوں کے جلسے کو کامیاب کرنے کے لیے سرکاری ملازمین، پبلک ٹرانسپورٹ اور کونسلروں اور ناظمین کی فوج ظفرِ موج کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ ان ذرائع سے ناپسندیدہ ترین حکمران بھی اپنا جلسہ کامیاب اور پرُجوش بنا سکتا ہے ۔ یہی کچھ مسلم لیگ کے اس صد سالہ کنونشن میں بھی ہوا ۔ پولیس کی مدد سے گاڑیاں پکڑی گئیں، کونسلروں اور ناظموں کے ذریعے بھری گئیں ۔ سرکاری افسران نے جلسہ گاہ کو سنوارا اور مفاد پرستوں اور نمبر ٹانکنے والوں نے محبت بھرے پرجوش نعرے لگائے ۔
یہ صحیح ہے کہ ایک سیاستدان کا حتمی مطمعِ نظر اقتدار پر فائز ہونا ہی ہوتا ہے لیکن کسی بھی ملک میں وہ اپنا یہ مقصد مسلمہ جمہوری روایات کا احترام بجا لاکر، حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ اس مقصد کے حصول کے لیے، کسی قسم کے اصول سیاست کو ملحوظ رکھنے کی روادار نہیں ہے، اِسے بس اقتدار چاہیے خواہ کوئی سا بھی چور دروازہ استعمال کرنا پڑے اور کوئی سا بھی اصول قربان کرنا پڑے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک میں اسمبلیاں کام کررہی ہیں، ایک عدد وزیراعظم 4عدد وزرائے اعلیٰ اور وزرائے کرام کی ایک بڑی فوج بھی قومی خزانے سے اپنا حصہ وصول کررہی ہے تو ایسے میں پاکستان میں جمہوریت کی موجودگی سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے ؟ یقینا،کیا جا سکتا ہے۔۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں اصل غور طلب سوال یہ ہوتا ہے کہ کنٹرول اور کمانڈ کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اقتدار اعلیٰ کا مالک کون ہے؟ اس حوالے سے جب وطن عزیز پر نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی بجائے یہ منصب فوج کو حاصل ہے۔صدر بش اور دیگر عالمی قائدین سے لے کر، پاکستان کے خواندہ سے نیم خواندہ فرد تک کسی سے بھی آپ یہ سوال کریں کہ پاکستان میں کمانڈ اورکنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے توان سب کا جواب یہی ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف اور فوج! تو پھر کون ذی ہوش اس صورت حالات میں یہاں جمہوریت کی موجودگی کا اقرار کرسکتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی چھتری تلے، ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور یہ بھی واویلا کیا جاتا ہے کہ یہاں گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال قائم کی جارہی ہے ۔ اس مفروضے سے اگر ہمارا اتفاق بھی ہو، تو پھر بھی، یہ چیز فوج اور اس کے سالار اعلیٰ کو یہ حق تو نہیں دے دیتی کہ وہ ملک پر حکومت کرتے چلے جائیں ۔ جہاں تک گڈ گورننس اور ترقی کی بات ہے تو ہم نے اپنے بڑوں سے یہ سنا ہے کہ سب سے اچھی حکومت تو انگریز کی حکومت تھی، انصاف بھی تھا، ترقی بھی تھی اور قانون کی عملداری تھی تو پھر انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد آزادی کا کیا مطلب تھا؟ انگریزوں کی غلامی سے نجات کی کوششیں کیوں ہوئی تھیں ؟ جدوجہد زادی کرنے والے لائق احترام قائدین کا اس وقت یہی مؤقف تو تھا کہ انگریز یہاں پر ناجائز طور پرقابض ہیں اور حکومت کا حق یہاں کے باشندوں کو ملنا چاہیے ۔ یہی مطالبہ تھا جو ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ ء کو غیر مبہم الفاظ میں پیش کیا گیا تھا ۔ ۶۶ سال بعد،آج بھی محب وطن عناصر کا یہی تومطالبہ ہے کہ پاکستانی عوام کو اس کا فطری حقِ اقتدار لوٹایا جائے اور یہ کہ فوج وطنِ عزیز کی سرحدوں کے تحفظ کا اصل فریضہ ادا کرے ۔
لیکن افسوس ہے کہ آج کا سیاستدان، جو اپنے آپ کو، قائد اعظم علیہ الرحمۃ کا جانشین گردانتا ہے عوام کے اس حق کو غصب کرنے والوں کا دست و بازو بنا ہوا ہے اور ۲۳مار چ۴۰ء کے اس یادگار دِن کی یاد مناتے ہوئے، اس کو ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوئی کہ وہ آمریت اور لاقانونیت کا شریکِ سفر ہے !!
سانحہ نشتر پارک
نشتر پارک کراچی میں، ۱۲ربیع الاول کو رونما ہونے والا سانحہ بلاشبہ ایک قومی سانحہ ہے۔اطلاعات کے مطابق ،یہاں مغرب کی نماز کے دوران میں ایک بم دھماکہ ہوا جس میں کم و بیش ۶۰ علما کرام شہید ہو گئے اور کئی دوسرے شدید زخمی ہوئے۔مذہبی لوگوں کا پرامن اجتماع جس طرح خون میں نہلایاگیااس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ایسے لوگ جو پرامن طر یقے سے اللہ کے حضور سجدہ بجالارہے ہوں ،جب چشم زدن میں دہشت گردی کا شکار ہوجائیں توایسے میں وطن عزیز میں امن وامان کی کیا صورتحال ہوگی؟ اہل دانش پر بالکل واضح ہے۔ کتنا بدبخت تھا وہ دستِ قاتل جس نے اپنی خون خواری کے لیے ایک ایسا لمحہ منتخب کیا جب شمع رسالت ﷺکے پروانے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد منانے کے لیے جمع ہورہے تھے ۔ان سادہ دلوں کو نہ تو دہشت گردی کی خوفناک کارروائیوں سے کو ئی سروکار تھا اور نہ ہی یہ لو گ بربریت وسفاکیت کے علمدار تھے لیکن نہ جانے کیوں اللہ کے ان بندوں کو یوں بے دردی سے بھون ڈالاگیا۔کوئی مسلما ن تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ۱۲ربیع الاول کے مذہبی اجتماع پر اس قسم کا شرپسندانہ واقعہ ہوگا کہ انسانیت منہ چھپائے گی۔
وطن عزیزمیں مذہبی ہم آہنگی ،عرصہ ہوا عنقا ہوچکی ہے، فرقہ وارانہ فسا دات روزبروز بڑھتے جارہے ہیں اور مذہبی تعصب اور منافرت ،دن بدن پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ اسی تنگ نظری اور عصبیت کا شا خسانہ ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی اجتماعات پر حملے ہورہے ہیں۔ اس میں حکو مت وقت کی نااہلی اور نالائقی تو ہے ہی ،لیکن مذہبی قائدین بھی اپنی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام نہیں دے رہے ۔چونکہ علماء ملت اور مذہبی کار کنوں کے لیے یہ وقت صدمے اور غم کا وقت ہے ،اس لیے اس فساد انگیزی میں ان کا کتنا ہاتھ ہے ہم اس پر بالکل کوئی لب کشائی نہیں کرناچاہتے ،البتہ حکومت وقت نے اپنے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ میں جو کو تاہی اور غفلت برتی ہے ،اس کی مذمت ضرور کر تے ہیں ۔کیاحکومت اور اس کی ایجنسیاں اس حد تک نا اہل ہوچکی ہیں کہ وہ اتنے بڑے سانحے کی سازش کا بھی،پیشگی پتہ نہیں چلاسکتیں؟ اتنا بڑا اجتماع ہونے جار ہاہو ،اور حکومتی ذمہ داران اس کی حفاظت کا اتنابھی بندوبست نہیں کر سکے کہ کم ازکم اسیٹج تک تو کوئی مشکوک آدمی نہ پہنچ سکے۔ اسے مجرمانہ غفلت نہ کہاجائے تو اور کیا کہاجائے ۔اب اگر بعد از سانحہ یہ کہاجائے کہ ہم جلداز جلد مجرموں کوگرفتار کر کے قرار واقعی سزا دیں گے، تویہ محض اشک شوئی ہی کہلائے گی ۔ مذہبی دہشت گردی کے بیسیوں واقعات ہیں ،کہ جن کے مجرم دندناتے پھرتے ہیں،تو اب اس سانحے کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے،حکومتی دعویٰ پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے ؟؟
اس کے باوجود بھی ،بہرحال ہم حکو مت سے ہی مطا لبہ کریں گے،کیونکہ ہمارے نزدیک وہ ہی اس بات کے اہل ہے ،کہ اس سانحے کے مجرموں کو گرفتار کرے،ان کی سازش کو بے نقاب کرے اور انہیں قرار واقعی سزا بھی دے۔اگر حکومت مذہبی ہم آہنگی اور ملکی امن و امان کے قیام میں واقعی مخلص ہے تو پھر اُسے پوری دیانت داری سے ان مجرموں کا سراغ لگا نا ہو گا ،وگرنہ یہ واقعہ،خدا نہ کرے ،کہیں ملک میں کسی بڑے ہنگامے کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔