عورتوں کی اعلی فنی تعلیم؟

مصنف : سلیم منصور خالد

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : مئی 2006

نئی امریکی رپورٹ، حکمرانوں اور دانشوروں کے لیے لمحہ فکریہ

پروفیسر لارنس ایچ سمرز

اخذو تلخیص، سلیم منصور خالد

 

            ۱۴ جنوری ۲۰۰۵ء کو نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ (NBER) امریکا کے تحت ایک قومی کانفرنس میں مسئلہ زیر بحث تھا: ‘‘انجنیرنگ اور سائنس کے اعلیٰ اداروں میں اعلیٰ مناصب پر عورتوں کی نمایندگی۔’’ امریکا کی درجہ اول کی دانش گاہ ، ہاورڈ یونیورسٹی کے صدر اور ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر لارنس ایچ سمرز نے مسئلے کی نوعیت کو اپنے حسب ذیل خطبے میں واضح کرنا چاہا، جس پر امریکا کے طول و عرض میں حقوق نسواں کی لیڈر خواتین نے ان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے کہ اسے برطرف کیا جائے، یہ عورتوں کو باورچی خانے میں دھکیلنا چاہتا ہے، وغیرہ وغیرہ……عورتوں اور مردوں کے فطری میدانِ کار کے خلاف لڑنے والے مغربی معاشرے میں فطرت کا یہ اعتراف پاکستان کے مغرب پرست فوجی حکمرانوں کی حکمت عملی کا بھی جواب ہے ، جس کے تحت، کسی فطری مناسبت سے نہیں ، بلکہ مغربی دنیا سے بھی زیادہ ‘‘روشن خیال’’ بننے کے خبط میں وہ ہر جگہ خواتین کو آدھے یا تیسرے حصے پر فائز کرتے نظر آتے ہیں۔ حکمران تو اپنی پالیسیاں زیادہ تر، سیاسی مصلحتوں کے تحت مرتب کرتے ہیں، لہٰذا ان سے قطع نظر، پروفیسر سمرز کی یہ تقریر، ہمارے ان دانشوروں کے لیے بھی لائق غور وفکر ہے، جو خواتین کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور ان کے بہی خواہ کی حیثیت سے دلی طورپر اس مسئلے کو حل کرنے کے آرزو مند ہیں۔(سلیم منصور خالد)

            ‘‘زیر بحث مسئلے کے ایسے بہت سے پہلو ہیں، جو قومی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم میں اپنی بحث کو صرف اس دائرے تک محدود رکھوں گا کہ ہمارے ہاں درجہ اول کی یونیورسٹیوں میں سائنس اور انجینرنگ کے شعبہ ہائے تعلیم و تحقیق کی کلیدی آسامیوں پر عورتیں کیوں بڑی تعداد میں دکھائی نہیں دے رہیں۔ اس موضوع کو میں اس لیے زیر بحث نہیں لارہا ہوں کہ یونیورسٹی سطح کی تعلیم و تدریس میں یہ کوئی بڑا اہم مسئلہ ہے، یا پھر کوئی بڑا دلچسپ موضوع ہے، بلکہ گزارشات اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ جن اہم موضوعات پر میں خاصے عرصے سے سوچ بچار کرتا رہا ہوں ، یہ ان میں سے ایک حساس موضوع ہے۔ طے شدہ نقطہ نظر کو پیش کرنے کے بجائے ہمیں زیر بحث معاملات کو کھلے ذہن سے دیکھنا چاہیے، کیوں کہ اسی کے نتیجے میں ہم صنفی مساوات کے ناقابل تردید نظریے کی ایک منصفانہ اور موزوں تعبیر و تشریح کر سکتے ہیں۔

            مسئلہ صرف سائنس اور انجینرنگ میں عورتوں کی کم تر نمایندگی کا نہیں ہے۔ ہم دیگر بہت سے شعبہ جات میں مختلف گروپوں کی کم تر نمایندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر : کیتھولک عیسائی، بنکاری اور سرمایہ کاری، کے میدان میں محدود تر ہیں، حالانکہ ہمارے معاشرے میں یہ بہت زیادہ دولت پیدا کرنے والے شعبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری قومی باسکٹ بال ٹیم میں گوری نسل کے کھلاڑی خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سیاہ فام نسل کے کھلاڑی چھائے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی صلاحیتِ کار کی بنیاد پر کسی کو رنگ و نسل کے حوالے سے اعتراض کا جواز نہیں ملتا۔ پھر زراعت اور فارمنگ کے شعبوں میں یہودیوں کی نمایندگی یا ان کا کردار نمایاں طور پر بہت تھوڑا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اور ان جیسے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کم تر نمایندگی کے مظاہر یا مثالوں کے اسباب کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں ایک باقاعدہ نظام کار کے تحت طبی اور نفسیاتی تحقیقات کو بھی بنیاد بنا کر اصل حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

            عورتوں کی واضح طور پر کم تر نمایندگی کے اسباب کا جائزہ تین وسیع تر مفروضوں کی بنیاد پر لیا جاسکتا ہے۔ قومی ادارہ معاشی تحقیقات کی کانفرنس کی دعوتی دستاویز میں ان کا ذکر چھیڑا گیا ہے۔ اس دستاویز سے پہلا تاثر یہ ابھرتا ہے کہ : غالباً سائنس، انجینرنگ اور ٹیکنالوجی نہایت اعلیٰ تنخواہوں کے شعبے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کم تر نمایندگی میں غالبا ً خواتین کے رحجان طبع(aptitude)کو چیلنج کیا گیا ہے، اور تیسرا یہ کہ کم تر نمایندگی دے کر سماجی سطح پر ذہین اور اعلیٰ درجے کی خواتین کا استحصال کرتے ہوئے انہیں صنفی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

            میں نے مختلف مواقع پر اس نوعیت کے بڑے نازک اور حساس موضوعات پر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے اعلیٰ منتظمین سے ، عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرنے والی بڑی وسیع کمپنیوں کے اعلیٰ شراکت داروں سے ، مشہورِ زمانہ تدریسی ہسپتالوں کے ڈائریکٹروں سے ، پیشہ ورانہ سروس فراہم کرنے والی بڑی تنظیموں کے قائدین سے اور اعلیٰ درجے میں تعلیم و تحقیق سے وابستہ اساتذہ، دانشوروں اور تحقیق کاروں سے مسلسل تبادلہ خیال کِیا ہے۔ ان تمام گروپوں سے مکالمے کے نتیجے میں بنیادی طور پر ایک ہی جیسی حیرت انگیز کہانی میرے سامنے آئی ہے۔

            اب سے پچیس برس پہلے کی بات ہے، سائنس اور انجینرنگ کے شعبہ ہائے تدریس و تحقیق میں ہم نے بڑے پرجوش انداز سے اور دانستہ طور پر عورتوں کی نمایندگی خاصی بڑھائی۔ جن خواتین نے پچیس سال پہلے ان شعبہ جات سے وابستگی اختیار کی تھی، وہ اس وقت پینتالیس سے پچاس سال کے لگ بھگ ہوں گی۔ مگراب ان شعبہ جات میں جاکر دیکھیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ وہ فاضل خواتین جن کے بارے میں بڑی توقعات قائم کی گئی تھیں ان میں سے آدھی نہیں، بلکہ آدھی سے بھی زیادہ تدریس و تحقیق کا یہ شعبہ چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور جو موجودہ ہیں، وہ ان شعبہ جات میں ، عورتوں کی کم تر نمایندگی یا استحصال ، کی علامت قرار دی جارہی ہیں۔ پھر اس میدان میں رک جانے والی ان فاضل خواتین میں بھی یہ صورت یہ ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ یا پھر بچوں کے بغیر، یہ ہے حقیقت ِ حال، اور یہ ہی بات اعلیٰ درجوں کے دوسرے متعدد پیشہ وارانہ اداروں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔

            ہمارے معاشرے میں بہت سے پیشے اور لاتعداد ایسی باوقار سرگرمیاں ہیں، جن میں کم و بیش ۴۰ سال کی عمر میں فرد بھر پور انداز سے قیادت اور رہنمائی کی جانب گامزن نظر آتا ہے۔ہر ادارہ ، شعبہ یا خود کام ، اس فرد سے یہ ہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے اوقاتِ کار کا بڑا حصہ اپنے دفتر کو دے گا، کام سے دل بستگی کے باعث ہنگامی صورت حال میں بھی دفتری اوقات کے تقاضوں کو قربان نہیں کرے گا۔ اس اُبھرتے پر جوش لیڈر سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ فارغ اوقات میں بھی اسی مقصد کے لیے اور اس راہ میں پیش آمدہ مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپنے ذہن، فکر اور توجہات کو مرکوز رکھے گا، بلکہ اگر کسی وجہ سے اس کی ملازمت نہ بھی رہے، تب بھی اس کی فکر کا محور یہ ہی کام ہوگا۔

            مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ تاریخی طور پر ہمارے معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کے برعکس ایک شادی شدہ مرد اوپر بیان کردہ پیشہ وارانہ وابستگی کے تقاضے کہیں زیادہ بہتر انداز میں نبھاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ان عورتوں کی تعداد کتنی ہے، جو اپنی عمر کے بیس سے تیس سال کے حصے میں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ ہفتے میں اسی گھنٹے کام کرنے والی ملازمت اختیار نہیں کریں گی، اس کے مقابلے میں اسی عمر کے مردوں میں کتنے ہوں گے، جو ۸۰ گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے والی ملازمت اختیار کرنے سے انکار کریں گے؟ان دونوں کے اعداد و شمار کا تقابل کریں تو حقیقت خود بخود واضح ہوکر سامنے آجائے گی۔ تاہم ایک اہم سوال یہ بھی اٹھاؤں گا کہ کیاہمارا معاشرہ یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ جو لوگ اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں، وہ ۸۰ ،۸۰ گھنٹے فی ہفتہ کام کریں۔

            مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف نوعیت کے غیر متوازن رویے اپنانے اور نظریات گھڑ لینے کے بعد، اس طرز پر سوچنا اور پھر اس پر چلنا خاصا مشکل ہوگیا ہے، جسے میں غیر معمولی اہمیت دے رہا ہوں ۔ وہ کون سا ایسا سبب ہے، جس کے باعث سائنس اور انجینرنگ کے شعبہ جات میں عورتیں دیگر شعبوں کی بہ نسبت کم تعداد میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی تخلیقی صلاحیتوں میں خاصا فرق پایا جاتاہے، مثلاً : قد، وزن، ذہنیت، مجموعی طور پر ذہانت(I.Q.)، پھر ریاضیاتی اور سائنسی امور میں صلاحیت کار کا فرق ہمیں مردوں اورعورتوں میں صاف نظر آتا ہے۔ یہ فرق کسی وقتی حادثے کے طور پر ظاہر نہیں ہوئے، بلکہ تمدنی اور ثقافتی طور پر ہزاروں سال سے ثابت شدہ ہیں۔

            سائنس اور ریاضی میں دونوں اصناف(Sexes) کے رحجانِ طبع، فطری مناسبت اور ذہانت کے معیار کو آپ جس بھی بہترین طریقے سے ناپیں گے، نتیجہ یہ ہی نکلے گا کہ جہاں دو مرد ہوتے ہیں، وہاں ایک عورت پہنچتی ہے۔ کسی زیادہ بہتر طریقہ پیمائش کے ذریعے آپ اس مفروضے کو ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر اگر کوئی دوسرا نتیجہ سامنے لاسکتے ہیں تو مَیں اُس کا خیر مقدم کروں گا۔جس چیز کو میں سائنس ، انجینرنگ اور اعلیٰ اختیاراتی ملازمتوں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کا باعث سمجھتا ہوں، کوئی آئے اور میرے پاس اس نتیجہ ِ فکر کی خامی اور سامنے نظر آنے والے نتائج کی غلطی کو ثابت کرے۔

            سب سے اہم اور متنازعہ مسئلہ، جنسی امتیاز کے موضوع اور سمت کے گرد گھومتا ہے۔ یہ امتیازی رویہ واقعی کس قدر وسعت پذیر ہے؟ بلاشبہ بعض حوالوں سے جنسی امتیاز پایا جاتاہے، جس میں اثر پذیری اور رواج پکڑنے کے روایتی گھسے پٹے رحجانات بھی ملتے ہیں۔ جس کے تحت لوگ، اپنی پسند کے لوگوں کو ذمہ داریوں پر بٹھاتے ہیں اور گوری نسل کے مرد، اپنی ہی نسل کے مردوں کو ترجیح دے کر ، نا مناسب انداز سے آگے لاتے ہیں اور بسا اوقات ایسا اقدام شہ زوری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی سطح پر تدریس و تحقیق سے وابستہ لوگ اس مشاہدے کی تردید نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ یہ رحجان آج بھی وسعت پذیر اور غالب ہے۔

            دوسرا نکتہ ہے نسلی امتیاز کا ، جسے ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا سبھی لوگ نسلی امتیاز کی بھینٹ چڑھ گئے یا کچھ لوگ اپنی خداداد قابلیت اور اعلیٰ درجے کی اضافی صلاحیتوں کے باعث اس بہت بڑی رکاوٹ کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یقینا اس سخت صورت حال کے باوجود جو مواقع ان اعلیٰ اداروں کو رنگا رنگی(diversity) میں موجود تھے، جو ہرِ خالص نے مضبوط قدموں سے اس میں اپنی جگہ بنا لی اور علم ، فن ، تحقیق کے ذریعے انسانیت کو فائدہ پہنچایا۔ اگر واقعی علوم و فنون کی دنیا میں گہرائی تک سرایت کرنے والا تعصب و امتیاز پر مبنی نمونہ ہی موجود ہوتا تو کئی موثر

 رنگ دار امیدوار کبھی نہ آگے بڑھنے پاتے، اور نہ وہ اپنی زبردست صلاحیتوں کا لوہا منواسکتے۔ اعلیٰ مناسب پر خواتین کی بڑی تعداد کے ہونے یا نہ ہونے کو جنسی امتیاز قرار دیتے وقت اس پہلو کو بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔

            ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اور اس نوعیت کے سوالات کا کیا جواب ہو؟ ہمیں جنسی یا نسلی امتیاز کی تقسیم سے بالاتر ہو کر یہ عمل کس طرح کرنا چاہیے۔ ہماری سوچ مثبت انداز سے ان پہلوؤں کو زیربحث لائے تو یہ زیادہ ثمربار ہوگا۔

            اگر چہ ہمیں اقدام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن قدم اٹھاتے وقت بڑے پیمانے پر احتیاط بھی کرنی چاہیے۔ یہ بات کہہ کر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ میں نے اپنی حد تک وسیع مطالعہ لٹریچر اور متعلقہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے تبادلہ خیال کی روشنی میں ، دیانتداری سے بہترین قیاس (guess) پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میری سب باتیں غلط ہوں۔ تاہم مَیں اُسی وقت اپنے آپ کو کامیاب سمجھوں گا، جب میری یہ گزارشات لوگوں کو جھنجھوڑ کر غور کرنے کے لیے بیدار کریں گی۔ ہم لوگوں کو بڑی دقت نظر سے ان معاملات پر غورکرنا چاہیے، اور مسائل کو بے جا طور پر جذباتیت اور محض اشتعال کی کٹھالی میں ڈالنے کے بجائے بڑی سخت محنت اور احتیاط سے پرکھنا چاہیے۔ ایسے رویے سے ہماری اس جیسی کانفرنسیں کچھ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں۔’’(بشکریہ: ماہنامہ بیداری ، حیدرآباد)