زلزے کے پس منظر میں لکھے گئے تاثرات، ایک ننھے قلم سے
ننھی کلی نے آنکھ کھولی تو جہان بڑا روشن تھا۔سورج کی کرنیں ہر طرف پوری آب و تاب سے پھیل چکی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ ننھے پھول اپنے اپنے بستے اٹھائے ہنستے کھیلتے چلے آ رہے ہیں ۔ وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی اور آج بھی وہ بہت خوش تھی۔ اسے ان بچوں سے بہت محبت تھی ۔ انکو کھیلتا دیکھ کر وہ خود بھی کھل اٹھتی تھی اور جب بچے اس کی خوشبو کی تعریف کر تے تھے تو وہ اور بھی باغ باغ ہو جاتی تھی۔ اس دن بھی یہی منظر تھا مگر ابھی آٹھ ہی بجے تھے کہ سب کچھ تاریک ہو گیا۔ زلزلے نے آن کی آن میں سب ملیا میٹ کر دیا۔سارے پھول ملبے تلے دب کر رہ گئے بس ایک ننھی کلی یہ سب دیکھنے کے لیے بچ رہی۔ لوگ آتے اور اپنے اپنے پھولوں کی لاشیں تلاش کر کے لے جاتے۔ ایک قیامت برپا تھی ہر پھول کی لاش دیکھ کر ننھی کلی کے سینے سے ایک آہ نکلتی ۔ شام ہوتے ہوتے اتنی آہیں اس کے سینے سے نکل چکی تھیں کہ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ بھی اندر سے خالی ہو گئی ہو۔ مگروہ برداشت کرتی رہی ۔ اسے ہر پھول کا آخری دیدار کرنے کے لیے زندہ رہنا تھا۔ لیکن جب رات گئے اس نے یہ سنا کہ ابھی سینکڑوں پھول ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور انہیں نکالا نہیں جائے گا بلکہ یہی ملبہ ان کی اجتماعی قبر ٹھیرے گا تو اس کے سینے سے زور کی چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی وہ شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر آ رہی۔ اب وہاں نہ ننھے پھول تھے اورنہ ننھی کلی ہاں کچھ بکھر ی پتیاں ضرور تھیں۔