باقر نواب کی خاندانی حویلی جہاں تابناک ماضی کی غماز تھی وہیں شہر کے پرانے علاقے کی واضح علامت بھی بن چکی تھی ۔ اس کا نام ‘‘ عشرت محل’’ رکھا گیا تھا مگر عرف عام میں وہ ‘‘ نواب صاحب کی حویلی ’’ سے معروف تھی ۔ برسوں سے موسموں کی مار جھیلنے کے باوجود وہ پہلے جیسی شان و شوکت سے کھڑی رہ کر اپنی مضبوط بنیادوں کا بین ثبوت فراہم کرتی تھی ۔
٭٭٭
باقر نواب کی کار راستوں کے پیچ و خم سے ہوتی ہوئی حویلی کے سامنے پہنچ گئی ۔ باقر نے اپنے مخصوص انداز میں کار کا ہارن بجایا ۔ چند منٹ بعد حویلی کے وسیع پھاٹک کا پٹ بے زاری کا اظہار کرتا ہوا 70 درجے کے زاویے پر پہنچ کر رک گیا ۔ باقر کی کار معذرت خواہانہ انداز میں دھیرے دھیرے اندر داخل ہوئی ۔ اندر ایک اور کار کھڑی تھی ۔ ‘‘ کون آیا ہے ؟’’ اس نے خادم سے پوچھا جو پھاٹک بند کر کے اس کی طرف چلا آیا تھا ۔ ‘‘آپ کے دوست ہیں ، صاب۔’’
‘‘ کون؟’’ باقر نے کار سے اترتے ہوئے پوچھا ۔
‘‘ آج پہلی با ر دیکھا صاب ۔ ’’ خادم نے اس کا بیگ اٹھا لیا اور باقر تیزی سے زینے چڑھ کر دیوان خانے میں داخل ہو گیا ۔ ‘‘الیاس!’’ باقر نے اپنے دوست کو پشت کی جانب سے پہچاننے میں صرف چند سیکنڈ لیے اور الیاس ہنستا ہوا اس سے لپٹ گیا ۔‘‘ میرے خدا !…… تم میکسیکو سے کب آئے ؟’’ باقر نے پوچھا ۔ ‘‘ ایک سال ہو گیا۔’’ الیاس نے بتایا ۔ ‘‘ کیا !’’ باقر چونکا ۔ ‘‘ میں ایک سال بعد تو گھر نہیں لوٹ رہا؟’’ اس نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی بیگم سے پوچھا ۔ ‘‘ چھوڑو یار۔’’ الیاس ہنس کر بولا ۔ ‘‘ بھارت آنے کے بعد مصروفیت ایسی رہی کہ تمہیں اطلاع دینے کا موقع ہی نہیں مل سکا ۔’’
‘‘ اوہ!’’ باقر نے تیوریاں چڑھا لیں ۔ ‘‘ اور فی الحال آپ کہاں ہیں ؟’’ ‘‘ ناگ پور میں ……’’ ‘‘ پھر ٹھیک ہے ، ناگ پور اور اجل پور میں تو ایک ہزار نوری برس کا فاصلہ ہے نا ۔’’ ‘‘ اب چھوڑیے بھی ۔’’ بیگم باقر نے کہا ۔
باقر خاموشی سے دیوان پر بیٹھ گیا ۔ ‘‘ بدر! اب تم ہی اسے سمجھاؤ ۔’’ الیاس اپنی بیوی سے بولا ‘‘ بھائی صاحب !ہم سے غلطی ہو گئی ، معاف کر دیجیے نا۔’’ وہ بولی ۔ ‘‘ چچا جان مان جائیے نا ۔’’ الیاس کی بڑی بیٹی نیلوفر نے کہا۔ ‘‘ میرا جھگڑا الیاس سے ہے ، تم سے نہیں ۔’’ باقر نے نیلوفر کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا او رپوچھا ‘‘نیلو فر ہونا ؟’’ ‘‘ جی چچا ۔’’
‘‘ اور آپ؟’’ ‘‘ میں ناہید۔’’ چھوٹی بیٹی نے دھیر ے سے اپنا نام بتایا ‘‘ میں ان بچیوں کی وجہ سے تمہیں معاف کرتا ہوں ۔’’ یہ سن کر سب ہنس دیے ۔ ‘‘ ناگ پور میں کیا کر رہے ہو ؟’’ جب خواتین زنان خانے میں چلی گئیں تو باقر نے دوست سے دریافت کیا ‘‘تعمیرات کا کا م۔’’ باقر نے شانے اچکا کر کہا ۔ ‘‘ یعنی ٹھیکے دار بن گئے ۔’’ باقر مسکرایا ۔ اس بار الیاس نے صرف شانے اچکائے اور باقر ہنس پڑا ۔ ‘‘تمہارا کلینک کیسا چل رہا ہے ؟’’ اب الیاس کی باری تھی۔ جواب میں باقر نے آنکھ مار دی۔ اس دوران چائے آگئی ۔ ‘‘ تمہاری حویلی بڑی خوبصورت ہے ۔’’ الیاس نے چائے کا گھونٹ لے کر کہا ‘‘ پرانی ہے مگر سونا ۔’’ باقر ہنسا ۔ ‘‘ بے شک !’’ الیاس نے چاروں طرف نظر دوڑائی ۔ ‘‘بھئی گر ے گی نہیں ۔’’ باقر نے ہنس کر کہا او رکھڑکی کے پردے ایک طرف سرکاتے ہوئے بولا ‘‘ دیکھو یہاں سے حوض کٹورہ نظر آتا ہے ۔’’ الیاس کہنے لگا ‘‘ اس کا انداز تعمیر بہت دلکش ہے مگر کچھ کمی بھی ہے ۔’’ باقر سمجھ نہ سکا کہ وہ اس کے ٹھکانے کی تعریف کر رہا ہے یا برائی ۔
٭٭٭
شام کو جب باقر کلینک چلا گیا تو الیاس حویلی کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کرنے لگا ۔ ساتھ ساتھ کاغذ پر کچھ لکھتا بھی رہا۔
عشائیے پر سبھی افراد ساتھ تھے ۔ باقر کا بڑا بیٹا جنید سر جھکائے کھانے میں مصروف تھا ۔ شرمیلا اتنا کہ اجنبی لڑکیوں کے سامنے نوالہ بھی ٹھیک سے چبا نہیں سکتا تھا۔ نیلوفر بڑی دلچسپی سے اس کی پریشان دیکھ رہی تھی۔ کھانے کے بعد دونوں دوست دیر تک گپیں مارتے رہے۔ دوسرے دن ایک قریبی پہاڑی مقام پر سیر و تفریح کا منصوبہ بنایا گیا ۔ صبح ناشتے کے بعد وہ سبھی گھومنے نکل پڑے ۔ باقر کو اس شرط پر کلینک جانے دیا گیا کہ وہ اپنی ‘‘دکان’’ بند کر کے دوپہر تک ان کے پاس پہنچ جائے گا ۔ ان کا دن بہت اچھا بیتا ۔ تقریبا چھ بجے وہ لوٹ آئے ۔ آدھے گھنٹے کے بعد مہمان واپسی کے لیے تیار ہو گئے۔ ‘‘ برسوں بعد آئے اور دو روز بھی نہیں ٹھہرے ۔’’ بیگم باقر نے بدر سے شکایت کی ۔ ‘‘ دل تو ہمارا بھی نہیں بھرا چچی ۔’’ نیلو فر نے اپنی ماں کی جانب سے جواب دیا ۔ ‘‘پھر تو تم رک جاؤ ، انہیں جانے دو ۔’’ بیگم باقر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔ انہیں نیلوفر بہت اچھی لگی تھی ۔ یہ سن کر جنید گھبرا گیا ۔
‘‘کالج جانا ہے ورنہ ضرور رک جاتی ۔’’ نیلو فر نے کہا تو جنید نے سکون کی سانس لی ۔ ‘‘یہاں وقت بہت اچھا گزرا ۔’’ الیاس نے کہا ۔ ‘‘ ہمیں بھی بڑا مزہ آیا ۔’’ ‘‘اب آپ آئیے ۔’’ ‘‘آپ کو بھی مزہ لینا ہے ؟’’ باقر نے پوچھا ۔ اس بات پر زور دار قہقہہ لگا ۔ ‘‘ رام بھاؤ ! سب سامان رکھ دیا نا ؟’’ ‘‘بہت خوب…… اچھا خدا حافظ۔’’ ‘‘خدا حافظ …… خدا حافظ۔’’ اور الیاس کی کار دروازے سے باہر نکل گئی ۔ چند سیکنڈ بعد باقر پیچھے مڑا ۔ مغلیہ طرز کی اپنی عالیشان حویلی اسے بڑی بھدی معلوم ہو رہی تھی ۔ الیاس کے تعریفی جملے اسے مسلسل الجھا رہے تھے ۔ ‘‘جنید ! تم کب تک تنہائی پسند رہو گے بیٹا ! دوسروں سے ملا جلا کرو ۔’’ باپ کی بات سن کر جنید سر جھٹکتا حویلی میں داخل ہو گیا ۔ ‘‘چھوڑیے بھی !’’ بیگم باقر نے اپنے خاوند کو ٹوکا ۔ ‘‘ ہم اس کی شادی کسی گھلنے ملنے والی لڑکی سے کر دیں گے ۔’’ وہ وہیں پڑی بید کی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ ‘‘نیلو فر کیسی رہے گی؟’’ باقر دھیرے سے بولا ۔ ‘‘آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی ۔’’ بیگم باقر خوش ہو گئیں ۔ ‘‘ اگر الیاس راضی ہو جائے تو ایک ڈیڑھ سا ل بعد شادی کر سکتے ہیں ۔’’ ‘‘ جنید کی انٹرن شپ چل رہی ہے ، ہم تو چھ مہینے میں شادی نمٹا سکتے ہیں ۔’’ ‘‘ نہیں ، اس سال ہم اپنا نیا گھر بنائیں گے ۔’’ ‘‘نیا گھر !! ’’ بیگم باقر حیرت زدہ رہ گئیں ۔ ‘‘ اس خستہ حویلی کی جگہ نیا گھر، جدید طرز کا ۔’’
بیگم باقر شوہر کا منہ دیکھتی رہ گئیں اور وہ مسکراتا ہوا اٹھ گیا۔
٭٭٭
شاید باقر کو بھی حیرت تھی کہ اس نے ایسا اہم فیصلہ اتنی جلدی کیسے کر لیا لیکن فیصلے اچانک کب ہوتے ہیں ؟ لاشعور کی عدالت میں مقدمہ آہستہ آہستہ مگر لگاتار چلتا رہتا ہے اور وقت آنے پر کچھ فیصلے ایسے صادر ہوتے ہیں کہ جائے رفتن نہ پائے ماندن ۔ جلد ہی اس فیصلے نے عملی شکل بھی اختیار کر لی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب امریکہ عراق پر بمباری کرتے ہوئے اس کے شہروں کو ملبے میں تبدیل کر رہا تھا ۔ حسن اتفاق کہیے ……
٭٭٭
ایک روز اچانک الیاس کا فون آیا ۔ باتوں باتوں میں اس نے نیلو فر کے لیے کوئی اچھا لڑکا دیکھنے کی درخواست کی ۔ چند روز بعد بیگم باقر نے فون کر کے بدر پر اپنا ارادہ ظاہر کر دیا ۔ وہ تو اسی بات کا انتظار کر رہی تھی ، خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ ‘‘ تمہارا کیا خیال ہے ؟’’ اسی رات باقر نے کھانے کے دوران جنید سے اس کی رائے پوچھی ۔ بیٹے کا مثبت اشارہ پا کر وہ دیر تک مسکراتا رہا ۔
فون پر باقر اور الیاس کی بات چیت تو کئی بار ہوئی مگر اس نے الیاس سے نئے گھر کا ذکر ہی نہیں کیا ۔ دراصل وہ اپنے دوست کو حیرت زدہ کر دینا چاہتا تھا ۔ الیاس نے جنید اور نیلو فر کی منگنی کی تاریخ طے کرنے کے لیے باقر کو ناگ پور بلایا ۔ باقر نے اپنا کلینک جنید کے سپرد کیا او ربیگم کے ساتھ روانہ ہو گیا ۔ جب ریل ناگپور ریلوے اسٹیشن پہنچی تو الیاس نے اہل خانہ کی معیت میں گلدستوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا ۔ چند منٹ بعد وہ سب منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ راستہ بمشکل پندرہ منٹ میں طے ہو گیا ۔ الیاس نے ایک موڑ پر کار روک دی اور بولا ‘‘ ذرا اپنی آنکھیں بند کرو اور بھابی آپ بھی ۔’’ ‘‘کیوں ؟’’ باقر نے آنکھیں موندتے ہوئے پوچھا ۔ ‘‘ تمہیں کچھ دکھانا ہے ۔’’ ‘‘ ہمارے شہر میں تو آنکھیں کھول کر دیکھا جاتا ہے بھائی!’’ باقر نے شوخی سے کہا ۔ ‘‘ اچھا۔’’ الیاس نے کار دائیں جانب موڑتے ہوئے کہا ‘‘چلو آنکھیں کھول ہی دو ۔’’
جوں ہی باقر نے آنکھیں کھولیں اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ……’’ سامنے اس کی قدیم حویلی سے ملتی جلتی ایک حویلی کھڑی تھی ۔ ‘‘ عجوبے آج بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔’’ الیاس نے قہقہہ مار کر کہا ۔ ‘‘ تمہارے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہم تمہاری حویلی یہاں اٹھا لائے ۔’’ کار حویلی کے بالکل سامنے پہنچ کر رک گئی ۔ سب اتر پڑے۔ ‘‘ انہیں آپ کا مکان اتنا پسند آیا کہ اپنا گھر بالکل ویسا ہی بنایا ۔’’ بدر ، بیگم باقر سے کہہ رہی تھیں ‘‘ کہتے تھے بھائی صاحب کو حیرت زدہ کر دیں گے ۔’’
‘‘ کیسی رہی ؟’’ الیاس نے باقر کی پشت پر ہاتھ مارا ۔
ہوا کا ایک تیز جھونکا آکر گزر گیا ۔ الیاس مشرقی طرز تعمیر کی خوبیاں گنوا رہا تھا اور بیگم باقر بڑے ترحم سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی جو کسی شکست خوردہ سلطان کی طرح نڈھال کھڑا تھا ۔