اس نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ اس منظر کو بھول جائے، لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ بار بار وہی منظر اس کی نگاہوں میں گھوم جاتا تھا ۔ تلواروں کی جھنکار ، تیروں کی بوچھاڑ ، زخمیوں کی پکار ، اور ان سب کے درمیان دشمن کی للکار …… جب بھی وہ اکیلا ہوتا ، جنگ کا یہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ۔ لیکن جس منظر سے اسے سب سے زیادہ نفرت تھی ، جو اس کے لیے عذاب بن گیا تھا ، وہ منظر تھا جب دشمن نے اس کے بیٹے کو بے بس کر کے گرفتار کر لیا تھا اور وہ خود اپنی جان بچا کر میدان جنگ سے بھاگ جانے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس کا اکلوتا اور بہادر بیٹا دشمن کی قید میں چلا گیا تھا۔ پھر اسے دوست یاد آتے ، وہ بڑے بڑے سردار نگاہوں کے سامنے آجاتے جن کی گردنیں دشمن نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالی تھیں اور جن کی لاشیں ایک کنویں میں پھینک دی گئی تھیں ۔ وہ یہ ساری باتیں کیسے بھلا سکتا تھا ۔ ماضی کے اس عذاب سے جان چھڑانا اسے ممکن نظر نہیں آرہا تھا ۔ ہاں البتہ ایک صورت تھی ، اس تلخ اور تکلیف دہ یاد سے پیچھا چھڑانے کی ۔ وہ صورت تھی انتقام کی ۔ بھیانک انتقام کی ۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا او رکہا : ‘‘ عمیر کن خیالوں میں کھوئے ہوئے ہو ؟’’ ‘‘صفوان ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے آجکل کن اندیشوں نے گھیرا ہوا ہے ۔ میں تو ہر دم اپنے بیٹے کی فکر میں روتا ہوں ۔ مجھے خوف ہے کہ دشمن میرے بیٹے کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔ میں نے بھی ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ہوا ۔’’ آنے والا ، جسے صفوان کے نام سے پکارا گیا تھا ، لمبی سانس لے کر کہنے لگا : ‘‘ ٹھیک کہتے ہو بھئی ، یہ جنگ بھی کیا خوف ناک جنگ تھی ۔ اس میں تو وہ کچھ ہو گیا جس کا ہم نے تصور بھی نہ کیا تھا ۔ دشمن نے ہمیں چیونٹیوں کی طرح مسل کر رکھ دیا ۔ اس بستی کے سارے بہادر سردار چن چن کر مار ڈالے۔ خدا کی قسم اب تو زندہ رہنے میں کوئی مزا نہیں ۔’’ ‘‘ کعبہ کے رب کی قسم آپ نے بالکل سچ کہا ۔ بھلا اب ہمارے زندہ رہنے کا کیا فائدہ !’’ پھر دونوں جنگ کے بارے میں باتیں کرنے لگے کہ ان کے کتنے لوگ قید ہوئے اور کتنے مارے گئے اور کیسے ان سب کی لاشیں قلیب نامی کنویں میں پھینکی گئیں ۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد عمیر بولا : ‘‘ کاش …… کاش مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میں بیوی بچوں والا نہ ہوتا تو کعبہ کے رب کی قسم ، میں دشمن کے سردار کو ابھی جا کر ٹھکانے لگا دیتا ۔ اسی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔’’ یہ کہہ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا کچھ ہی لمحوں بعد وہ دوبارہ بولا : ‘‘ اور اگر میں اپنے بیٹے کی خبر لینے دشمن کے شہر جاؤں تو کوئی مجھ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم یہاں کیا کرنے آئے ہو ؟ میں موقع پاکر دشمن کو قتل کر سکتا ہوں ۔ یہ بالکل ممکن ہے ۔’’صفوان فورا بولا : ‘‘ عمیر ! تم فکر نہ کرو ، تمہارا سارا قرض میں ادا کروں گا ۔ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں تمہارے سارے خاندان کی ذمہ داری قبول کر لوں گا ۔ یہ میرا وعدہ ہے ۔ میرے پاس بہت مال و اسباب ہے ، آخر وہ کب کام آئے گا!’’
عمیر نے امید بھری نظروں سے صفوان کی طرف دیکھا اور سرگوشی سے بولا : ‘‘ تو پھر اس بات کو اپنے تک ہی رکھنا کسی سے ذکر نہ کرنا ، اور اپنا وعدہ یاد رکھنا ۔’’ صفوان بولا: ‘‘ تم بھی کسی کو مت بتانا کہ کہاں جا رہے ہو ۔’’ دونوں دوست ایک دوسرے کو رازداری کی تلقین کرتے ہوئے رخصت ہوئے ۔ عمیر نے گھر آکر تیاری شروع کر دی ان دنوں کئی لوگ مدینہ اپنے قیدیوں کی خیریت دریافت کرنے جا رہے تھے ۔ عمیر کو یقین تھا کہ وہ بھی اپنے بیٹے کے بہانے وہاں پہنچ جائے گا ۔ کسی کو ذرا بھی شک نہیں ہو گا کہ وہ کس ارادے سے یہاں آیا ہے ۔ عمیر نے اپنی تلوار تیز کر کے اسے زہر میں بھگویا اور اگلے ہی دن انتقام کا طوفان سینے میں چھپائے ، دشمن کا نام و نشان مٹانے چل پڑا ۔
منزلوں پر منزلیں مارتا وہ دشمن کے شہر پہنچ گیا ۔ مدینہ اسکے شہر سے تین راتوں کے فاصلے پر تھا ۔ شہر میں آکر وہ پہلے تازہ دم ہوا ، کپڑوں کا گردوغبار جھاڑا اور دشمن کی تلاش میں گھومنے لگا۔ جلد ہی اسے اندازہ ہو گیاکہ اگر وہ مسجد نبوی کے قریب رہے تو اسے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔ مسجد نبوی کے قریب آکر اس نے اپنا گھوڑا ایک طرف باندھا اور دروازے کی طرف بڑھا جیسے ہی اس نے نظریں اٹھائیں ، اس کے سامنے ایک ایسا شخص کھڑا تھا جس کی مثال کوئی دوسرانہیں ہو سکتا تھا وہ کسی زمانے میں اس کا اچھا ملنے والا تھا ، مگر اب تو وہ بھی اس کادشمن بن چکا تھا اور یہ باوقار اور بارعب شخص بھلا عمرؓ بن خطاب کے سوا کون ہو سکتا تھا ۔ وہ اسی جنگ کے قیدیوں کے بار ے میں گفتگو کر رہا تھا ۔ اسی لمحے حضرت عمرؓ کی نظر عمیر پر پڑی جو گلے میں تلوار لٹکائے مسجد کی طرف آرہا تھا ۔ حضرت عمرؓ نے اپنی بات روکی اور عمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ‘‘ ارے یہ ہمارا دشمن عمیر! اللہ کی قسم ، یہ یقینا یہاں برے ارادے سے آیا ہو گا ۔ اسی نے شہر کے باہر لوگوں کو جنگ پر ابھارا تھا ۔ یہ ہماری جاسوسی بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی ایسے ہی کسی کام سے آیا ہو گا ۔’’ پھر وہ فورا مسجد کے صحن کی طرف لپکے ۔ وہاں اللہ کے نبی ، حضرت محمد ﷺ بیٹھے تھے ۔ انہوں نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی حفاظت میں لے لیں کہ کہیں عمیر جیسا چالاک دشمن کوئی چال نہ چل جائے ۔ پھر انہوں نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ عمیر ادھر ہی آرہا ہے اور اس جیسے مکار دشمن سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لے آؤ ۔ حکم سنتے ہی حضرت عمرؓ واپس مڑے اور عمیر کے پاس پہنچ کر اسے خبردار کیا کہ وہ کوئی حرکت نہ کرے اور خاموش کھڑا ہو جائے ۔ پھر اچانک انہوں نے اپنی تلوار کا پٹہ اس کی گردن میں ڈال کر اس پر قابو پالیا اور اسے آپ ﷺ کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپؐ نے عمیر کو اس حالت میں دیکھا تو فورا حکم دیا کہ اس کی گردن کو آزاد کر دیا جائے ۔ عمیر کی گردن آزاد کر دی گئی ۔ آپ ؐ نے جب حضرت عمرؓ سے کہا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی ۔ پھر وہ عمیر کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : ‘‘ عمیر تم قریب آ جاؤ ۔’’ عمیر کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ اب منزل بہت قریب ہے ، انتقام لینے کا وقت آگیا ہے ۔ میں قریب جاتے ہی پھرتی سے تلوار نکال کر اپنا کام کر دکھاؤں گا ۔ وہ نپے تلے قدم اٹھاتا آپؐ کی طرف بڑھا اور ایک دو قدموں کے فاصلے پر جا کر رک گیا اور بولا : ‘‘ صبح بخیر ۔’’
ان کے ہاں سلام کرنے کا یہ طریقہ ہوتا تھا ۔ ‘‘ عمیر ! اللہ تعالی نے ہمیں تم سے بہتر سلام کا طریقہ بتایا ہے …… السلام علیکم !’’ ‘‘ آپ کا سلام ہمارے سلام سے کوئی زیادہ مختلف تو نہیں ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی بات ہی انوکھی ہے۔ ’’ نفرت کی تلخی لیے وہ بولا ۔ حضورؐ نے اس کے تبصرے کو نظر انداز کیا اور فرمایا : ‘‘ کہو عمیر ، کیسے آنا ہوا ؟’’ ‘‘ میں اپنا قیدی چھڑانے آیا ہوں ۔ میرا بیٹا آپ کے قبضے میں ہے ۔ برائے مہربانی اسے چھوڑ دیں اور مجھ پر احسان فرمائیں ۔’’ ‘‘ تمہاری گردن میں تو تلوار لٹک رہی ہے ۔ اس کا کیا مقصد ہے ؟’’ ‘‘ افسوس یہ تلوار ناکارہ ہو گئی ہے ۔ جس دن آپ لوگوں سے جنگ ہوئی ، اس دن کے بعد اس کی دھار کند ہوگئی ہے ۔’’ ‘‘نہیں عمیر ، تم سچ بولو ، کہو کیسے آنا ہوا ؟’’ آپؐ کی بات نے پہلی دفعہ عمیر کے دل میں ہلچل مچائی تھی ۔ نہ جانے کیوں اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی ۔ اس نے اپنی اس کیفیت پر قابو پاتے ہوئے کہا : ‘‘ میں آپؐ کو بتا چکا ہوں کہ میں اپنا قیدی چھڑانے آیا ہوں ۔’’ آپ ؐ نے فرمایا : ‘‘ تم او رتمہارا دوست صفوان بن امیہ ، حطیم کے پاس بیٹھے ، قلیب کنویں میں پھینکی گئی لاشوں کے متعلق کیاباتیں کر رہے تھے ۔ پھر تم نے یہ کہا کہ اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میں بیوی بچوں والا نہ ہوتا تو یقینا محمد (ﷺ) کو قتل کرنے کی مہم پر نکل پڑتا ۔ پھر صفوان نے تمہارا قرض اتارنے اور اہل وعیال کی ذمہ داری قبول کرنے کا وعدہ کیا او رتم مجھے قتل کرنے کی مہم پر نکل کھڑ ے ہوئے ، مگر اللہ نے تیر ے اس گھناؤنے منصوبے کو ناکام بنادیا ہے ۔’’
یہ سب کچھ سن کر وہ ششدر رہ گیا ۔ اسے سخت حیرت ہو رہی تھی کہ صفوان بن امیہ کے ساتھ کی گئی یہ باتیں تو ان دونوں کے سوا کسی نے نہیں سنیں ۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا اور صفوان کی بھی یہی کیفیت تھی۔ پھر ان تک یہ باتیں کیسے پہنچ گئیں ؟ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا ۔ اسے یوں لگا جیسے وہ کسی سخت خول میں بند تھا اور اب یہ خول ٹوٹنے لگا ہے ۔ اس کے وجود پر ان دیکھی زنجیروں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی ہے ۔ آخر وہ پکار اٹھا:
‘‘ اے بلند مرتبہ سردار ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ محمد ؐ ، اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ مکہ میں جب ہمیں آسمانی خبریں بتلاتے تھے تو ہم انہیں تسلیم نہ کرتے تھے ، لیکن صفوان اور میرے درمیان ہونے والی گفتگو کا تو ہمار ے سوا کسی کو علم نہیں تھا ۔ خدا کی قسم اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ خبر آپ ؐ کو اللہ تعالی ہی نے دی ہے ۔ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھے آپ ؐ کے پاس لے آیا تاکہ مجھے اسلام کی دولت نصیب ہو۔’’ اور عمیر بن وہب نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے ۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا : ‘‘ عمیر اب تمہارے بھائی ہیں انہیں دین سمجھاؤ ، قرآن کی تعلیم دو او ران کے قیدی کو آزاد کر دو۔’’
صحابہؓ عمیرؓ بن وہب کے اسلام قبول کرنے پر بہت خوش ہوئے ۔ حضرت عمرؓبھی ان کے اسلام قبول کرنے پر بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے فرمایا : ‘‘ جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی نیت سے آیا تھا تو مجھے بہت برا لگا تھا ، لیکن اب اسلام قبول کرنے کے بعد یہ مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارا ہو گیا ہے ۔
٭٭٭
ادھر مکہ میں صفوان بن امیہ بڑی بے چینی سے مدینہ سے کسی بڑی خبر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ جب بھی دوستوں کی مجلس میں ہوتا تو کہتا : ‘‘ اے قریش! تمہیں جلد ہی ایک ایسی خبر ملنے والی ہے جو بدر کی یاد بھلا دے گی۔’’ مگر صفوان کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا گیا اور اسے وہ خبر ہر گز نہ ملی جس کی اسے توقع تھی ۔ اس کے برعکس ایک مدینے سے آنے والے ایک شخص نے اسے بتایا کہ عمیرؓ تو مسلمان ہو گئے ہیں ۔ یہ خبر اس پر بجلی بن کر گری ۔ اس نے یہ کہہ کر اس خبر کو ماننے سے انکار کر دیا کہ ساری دنیا تو مسلمان ہو سکتی ہے ، لیکن عمیر نہیں مسلمان ہو سکتا ۔ ایک دن اس کے گھر پر دستک ہوئی ۔ وہ باہر نکلا تو سامنے عمیرؓ کھڑے تھے ۔ صفوان نے غور سے ان کی طرف دیکھا ۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس عمیر کو نہیں دیکھ رہا جسے اس نے اللہ کے رسول محمدﷺ کو شہید کرنے کے لیے بھیجا تھا ۔ یہ عمیرؓتو بالکل ہی کوئی دوسرا شخص دکھائی دیتا تھا ۔ عمیرؓ ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں گھر کے اندر لے گئے ۔ صفوان نے ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی : ‘‘ عمیر ، اللہ کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ تمہارے متعلق میں نے جو کچھ بھی سنا۔ وہ غلط تھا ، تم اپنے باپ دادا کا دین نہیں چھوڑ سکتے بتاؤ…… اللہ کی قسم ، تمہارا چہرہ بدلا بدلالگ رہا ہے …… بتاؤ تم پر کیا مصیبت آن پڑی ؟’’ حضرت عمیرؓ نے اسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا پورا موقع دیا پھر سارا واقعہ بتایا اور پوچھا : ‘‘ صفوان ! کیا تم نے ہمارے درمیان ہونے والی باتیں کسی اور شخص کو بتائی تھیں ؟’’ صفوان نے کہا : ‘‘ نہیں ، میں نے اس راز کو ہمیشہ اپنے تک ہی رکھا تھا ۔’’ تب حضرت عمیرؓ بولے : ‘‘ میں نے اسی لیے اسلام قبول کر لیا ہے اور مدینہ میں رہتے ہوئے میں نے اسلام کی تعلیمات بھی سیکھی ہیں اور قرآن بھی یاد کیا ہے اور اب میں یہاں رہ کر اسلام کی تبلیغ کروں گا اور سب سے پہلے تمہیں اس سچے دین کی طرف بلاتا ہوں ۔’’ ‘‘ میں تمہاری طرح بزدل نہیں ہوں جو بیٹے کی زندگی کی خاطر اپنے باپ دادا کا دین بدل لوں گا …… عمیر، تم نے بہت برا کیا …… خدا کی قسم تم تو پہلے دن ہی سے اس نئے دین کے لیے ہمدردی رکھتے تھے …… اور آج تم مجھ سے محمد(ﷺ) کو قتل کرنے کے بجائے اس کا دین قبول کرنے کی بات کرتے ہو ……مگر یاد رکھو آج کے بعد میں تم سے کبھی کلام نہ کروں گا ۔’’ اور صفوان نے عمیرؓ کی مزید کوئی بات نہ سنی اور گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا ۔ عمیرؓ کے لیے اب کوئی چارہ نہ تھا وہ واپس گھر کی طرف لوٹ چلے ۔ وہ راستے میں صفوان کی باتوں پر غور کرنے لگے …… کیا واقعی وہ پہلے دن سے اسلام کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے ؟
صفوان کے اس الزام کا پس منظر یہ تھا کہ غزوہ بدر میں انہوں نے قریش کو جنگ سے باز رکھنے کی بڑی کوشش کی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کا جوش وجذبہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ۔ انہوں صاف نظر آرہا تھا کہ قریش اگر ان لوگوں سے ٹکرائے تو موت کے سوا ان کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا ۔ اس لیے انہوں نے بڑی دیانت داری سے ابو سفیان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے قریش کو مشورہ دیا تھا کہ جنگ کا خیال دل سے نکال دیں ، لیکن ابو الحکم (ابو جہل) کا برا انجام اسے بلا رہا تھا ۔ اس نے عمیر کو بزدل ہونے کا طعنہ دیا تھا ۔ اس کے جواب میں عمیر نے قریش کو دوسرے طریقے سے سمجھاتے ہوئے کہا تھا : ‘‘ اے قریش، تم اپنے سے کم تر قبیلے (انصار) سے لڑو گے ؟’’
لیکن ان کی یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہوئی اور قریش کے اکثر سردار لڑنے پر مصر رہے ۔ تب مجبوراً عمیرؓ کو اپنے بیٹے کو ساتھ لیکر اسلامی لشکر کے مقابل آنا پڑا…… مگر اس سارے پس منظرسے کہیں ثابت نہ ہوتا تھا کہ وہ بزدل ہیں یا انہوں نے اپنی قوم سے غداری کی ہے ۔ بلکہ عمیرؓ کو اس احساس سے یک گونہ اطمینان ہوا کہ ان کی سرشت میں شروع ہی سے قوم کی بہتری اور فلاح تھی اور اب بھی وہ دل کی گہرائیوں سے یہی سمجھتے تھے کہ اہل مکہ اور قریش کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ شرک اور کفر سے توبہ کر کے ایک خدا کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں اور محمد ﷺ کو اپنا رہبر و رہنما تسلیم کر لیں ۔
اپنا اچھی طرح محاسبہ کرلینے کے بعد عمیرؓ نے تہیہ کر لیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اسلام کی تبلیغ کریں گے اور انہیں اسلام کی دعوت دیں گے ۔
حضرت عمیرؓ مکہ میں سات آٹھ ماہ قیام پذیررہے ، اس دوران میں انہوں نے ہر اس آدمی تک اسلام کا پیغام پہنچایا ، جس سے ان کی بات ہو سکتی تھی اور جو اسلام کا پیغام سننے میں سنجیدہ تھا ۔ ان کی کوششوں سے کئی افراد نے اسلام قبول کیا ۔ انہی دنوں عمیر ؓ کے علم میں یہ بات آئی کہ کفار مکہ غزوہ بدر کی خفت مٹانے کی خاطر مدینہ پر چڑھائی کے منصوبے بنارہے ہیں ۔ اس موقع پر عمیرؓ نے یہ اطلاع مدینہ جاکر رسول اللہﷺ کو دینے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ عمیرؓ 2 ہجری کے قریب مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے ۔
عمیرؓ کی اطلاع درست ثابت ہوئی اور چندہفتوں کے بعد غزوہ احد کا واقعہ پیش آگیا ، جس میں مسلمانوں کی لغزش سے انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑا ۔ عمیرؓ اس معرکے میں شریک رہے اور مسلمانوں کی طرف سے داد شجاعت دی ۔ احد کے بعد کی ساری جنگوں میں عمیرؓ رسول اللہﷺ کے ہمراہ رہے اوربھر پور حصہ لیا ۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد انہوں نے ابو بکر صدیقؓ کا پوراپورا ساتھ دیا اور نازک لمحات میں اپنی ساری خدمات اسلامی حکومت کے سپرد کر دیں ۔
٭٭٭
حضرت عمرؓ کے عہد میں عمیرؓ ان لوگوں میں شامل تھے ، جن سے حضرت عمرؓ مشورہ لیا کرتے تھے ۔ گویا عمیرؓ خلیفتہ المسلین کی مجلس شوری کے ممبر تھے ۔ اس وجہ سے وہ عام جنگوں میں شامل نہیں رہے ، البتہ مصر کی فتح کے دوران میں حضرت عمرؓ نے انہیں ایک خاص مہم پر بھیجا ۔
مصر کے پایہ تخت اسکندریہ میں ایک بہت ہی مضبوط قلعہ تھا۔ اس کے بار ے میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ اس کافتح کرنا ناممکن ہے ۔ لیکن اسلامی لشکر بغیر کسی مزید کمک کے سکندریہ کی طرف بڑھنے لگا اور جا کر شہر کا محاصرہ کرلیا ۔ یہ محاصرہ جب ایک ماہ تک طویل ہواتو حضرت عمروؓبن العاص نے مدینے میں کمک کے لیے پیغام بھیجا ۔ اس پیغام کے جواب میں حضرت عمرؓ نے دس ہزار کی تعداد میں ایک لشکرمصر کی طرف روانہ کیا ۔ اس لشکر کے چار حصے تھے او رہر حصے کا ایک سردار تھا ۔ ان چاروں میں سب سے نمایاں حضرت عمیرؓ بن وہب تھے ۔
حضرت عمرؓ کی خلافت میں حضرت عمیرؓ کی یہ پہلی باقاعدہ جنگی مہم تھی ۔ حضرت عمرؓ نے اس اہم دستے کے متعلق حضرت عمروؓ بن العاص کو یہ حکم بھجوایاکہ حملے کے وقت یہ چاروں دستے اسلامی فوج کے ہراول دستے ہونگے ۔ دس ہزار کی یہ کمک جب اسکندریہ پہنچی تو اسلامی سپہ سالار نے خلیفہ وقت کے فرمان کے مطابق حضرت عمیرؓ اور ان کے دستے کو ہراول کے طور پر متعین کیا ۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ محاصرہ تقریبا دو ماہ سے زیادہ کی طوالت اختیار کر چکاتھا ، لیکن محصورین کے حوصلے قائم تھے، جس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ شہر میں کھانے پینے کا سامان وافر مقدار میں موجودہے ۔ لیکن مسلمانوں کی تازہ کمک سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھے تھے اور اسکا لازمی منفی اثر دشمن پرہی پڑا تھا ۔ اسی چیز کا اندازہ کر کے حضرت عمیرؓ نے ایک دفعہ پھر وہی کردار ادا کیا جس کی وہ بدر کے موقع پر پیشکش کر چکے تھے ۔
حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق مدینہ سے آنے والی تازہ کمک اسلامی لشکر کے آگے تھی اور محصورین دیکھ سکتے تھے کہ فوج میں اضافہ ہو چکا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے مقوقش کی طرف سفارت بھیجنے کا مشورہ دیا او ریہ پیغام لکھوایا کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اسلامی لشکر کو نئی کمک پہنچ گئی ہے ، اس لیے یہ خیال دل میں مت لانا کہ تمہارا محاصرہ ختم ہونے والا ہے ، بلکہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسکندریہ تک اب کوئی رسد نہیں پہنچ سکتی اور تمہیں اسی سامان پر گزار کرنا پڑے گا جو تمہارے پاس موجود ہے ۔ چنانچہ رسد کبھی تو ختم ہو گی اور اس کے بعد جب اسکندریہ فتح ہو گا تو اہل شہر سے مفتوحوں کا سا سلوک کیا جائے گا ۔ اس آنے والی تباہی سے بچنے کے لیے مناسب ہے کہ جنگ کا خیال دل سے نکال کر اسلامی لشکر کی طرف صلح کی پیش کش کو قبول کیا جائے ۔
مقوقش کو سفارت کار کا یہ پیغام حقیقت کے عین مطابق لگا اور اس نے اسکندریہ کے لوگوں کو صلح پر راضی کر لیا ۔ صلح کی شرط یہ تھی کہ اسکندریہ میں جو شخص ٹھہرنے کا خواہش مند ہو گا ، اسے ٹھہرنے کی اجازت ہو گی او رجو کوئی جانا چاہے گا ، اسے بھی نہ روکا جائے گا ۔ عمیرؓ اور انکے ساتھیوں نے عمروؓ بن العاص کو یہ شرط منظور کرنے پر آمادہ کر لیا اور یوں اسکندریہ کا عظیم شہر کسی خون خرابے کے بغیر تین ماہ کے طویل عرصے کے بعد اسلامی ریاست میں شامل ہو گیا ۔
اسلامی لشکر کے اس فیصلے نے ایک دفعہ پھر غیر مسلم اقوام پر یہ ثابت کر دیا کہ حکومت اسلامی کا اصل مقصد اسلام کی اشاعت و ترویج ہے ، حکومت کی ہوس اور ملک گیری کی خواہش کو اس میں کوئی دخل نہیں ۔
اسکندریہ کی فتح میں عمیرؓ کے شاندار کردار پر عمرو ؓ بن العاص نے ان کی بہت تحسین کی اور انہیں اردگرد کے دوسرے علاقوں کو فتح کرنے میں مدد کرنے کی درخواست کی ۔ حضرت عمیرؓ نے اپنے سپہ سالار کی درخواست کو حکم سمجھتے ہوئے مانا اور تینس ، دمیاط ، تونہ ، دمیرہ ، شطا ، وقہلہ نبا اور بوسیر کے علاقے معمولی جھڑپوں کے بعد فتح کر لیے اور بہاں پر بھی اسلام کی اشاعت کا راستہ ہموار کیا ۔
حضرت عمروؓ بن العاص کی دی ہوئی تمام مہموں کو کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد وہ واپس مدینہ آگئے اور عمرؓ فاروق کے دور کے آخری برسوں میں مختصر علالت کے وفات پائی۔