سیرت صحابہ
عبداللہ بن حذافہ
نعیم احمد بلوچ
یہ قیدی سپاہیوں کے لیے بڑا قیمتی تھا۔ وہ انھیں تمام قیدیوں میں سب سے زیادہ معزز اور بہادر لگتا تھا۔ انھوں نے اسے دوسرے قیدیوں سے علیحدہ کر لیا۔ وہ اسے بڑی حفاظت کے ساتھ زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے، لیکن اس کے باوجود انھیں یہ دھڑکا ہر لمحے لگا ہوا تھا کہ کہیں یہ قیدی ان کی گرفت سے نکل کر بھاگ نہ جائے۔ مگر وہ قیدی اس قدر اطمینان اور بے فکری سے ان کے ساتھ چل رہا تھا کہ دیکھنے والا کبھی یہ خیال نہیں کر سکتا تھا کہ وہ بھاگنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دراصل یہ قیدی اپنے ساتھیوں کے بغیر بھاگنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔یہ قیدی اس لیے قیمتی تھا کہ رومی سپاہیوں کے ایک علاقائی حاکم نے اعلان کر رکھا تھا کہ مجھے عرب قوم کا ایسا شخص زندہ حالت میں چاہیے جو ان کے بڑے لوگوں میں سے ہو اور یہ قیدی اسی قوم سے تعلق رکھتا تھا، جس کا مطالبہ حاکم نے کیا تھا۔دراصل ہوا یہ تھا کہ عبداللہ بن حذافہ کی سرکردگی میں ایک فوجی دستہ محاذ جنگ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ غلطی سے رومی علاقے میں چلا گیا اور گرفتار ہو گیا۔ اب عبداللہ بن حذافہ رومی حاکم کی تمام شرائط پر پورا اترتے تھے، اس لیے سپاہیوں کو یقین تھا کہ وہ اسے حاکم کے حضور پیش کرکے انعام حاصل کریں گے۔ایک روایت کے مطابق یہ حاکم کوئی اور نہیں بلکہ قیصر روم ہی تھا۔
جب اس قیدی کی خبر حاکم تک پہنچی تو اس نے ان سپاہیوں کو انعام دیا جنھوں نے اسے گرفتار کیا تھا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ اسے جلد از جلد دربار میں پیش کیا جائے۔عبداللہ بن حذافہ اگلے ہی دن بیڑیوں میں جکڑے بھرے دربار میں بادشاہ کے سامنے تھے۔ اس وقت ان کے چہرے پر ایک عجیب اطمینان اور سکون تھا۔دربار میں موجود دشمن قوم کے افراد قیدیوں کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اکثر کے چہروں پر نفرت اور تکبر کے جذبات صاف دیکھے جا سکتے تھے۔قیصر نے عبداللہ بن حذافہ کو گہری نظروں سے دیکھا اور اس سے پوچھا کہ وہ کس مذہب اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنا مذہب، قوم اور نام بتایا۔اس کی تسلی ہوئی کہ مطلوبہ شخص ہی اس کے سامنے ہے۔اس کے بعد وہ عبداللہ بن حذافہ سے مخاطب ہوا:’’اے قیدی، میرے پاس تمھارے لیے ایک تجویز ہے۔‘‘ ’’وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے خوف سے بے نیاز ہو کر پوچھا۔’’تم اپنا مذہب چھوڑ کر میرا مذہب اختیار کر لو۔ ایسا کرنے پر میں تمھیں آزاد کردوں گا اور تم ان درباریوں کی طرح معزز اور مرتبے والے بن جاؤ گے۔‘‘عبداللہ بن حذافہ نے سوچنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا اور جواب دیا: ’’اے بادشاہ! یہ ناممکن ہے۔۔۔ میں ہزار دفعہ موت کو سینے سے لگانے کے لیے تیار ہوں لیکن اپنا مذہب چھوڑ کر تمھارے مذہب کو اختیار نہیں کر سکتا۔‘‘’’بہت خوب! تم واقعی بہادر ہو اور یہی کچھ میں نے تمھاری قوم کے متعلق سنا تھا۔ لیکن میرا مشورہ تمھیں یہی ہے کہ میرا مذہب مان لو۔۔۔ انعام کے طور پر میں تمھیں اپنا خاص وزیر بنا لوں گا۔‘‘دین بدلنے کی یہ رشوت بہت زیادہ تھی۔ لیکن عبداللہ بن حذافہ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اسی طرح بے نیازی سے بولے:
’’خدا کی قسم، تم دین بدلنے کے عوض مجھے اپنی پوری سلطنت کے ساتھ، میرے اپنے وطن کی بھی بادشاہت دے دو تو پھر بھی مجھے تمھاری پیش کش قبول نہیں۔‘‘زنجیروں بندھے ایک بے بس قیدی کے اس جواب پر پہلی مرتبہ بادشاہ کے چہرے پر غصے کے آثار آئے۔ وہ بھڑ ک کر بولا:’’میں تمھیں قتل کرا دوں گا۔‘‘جواب ملا: ’’ضرور کرو! لیکن یہ توقع مت رکھنا کہ میں اپنا دین بدل لوں گا۔‘‘
عبداللہ بن حذافہ قرآن میں دی اس رعایت کو خوب جانتے تھے ، جس میں جان بچانے کی خاطر کلمہ کفر کہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اجازت سورہ النحل میں ان الفاظ میں دی گئی ہے کہ : جو اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کا کفر کرے گا ،بجز اس کے جس پر جبر کیا گیا ہواور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو ، لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے گا تو اس پر اللہ کا غضب اور وعذاب عظیم ہے۔سیدنا عبداللہ بن حذافہ جانتے تھے کہ آیت کی رو سے وہ اگرمحض زبان سے قیصر کی فرمایش پوری کر دیں گے تو ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ لیکن وہ جانتے تھے اپنی جان بچانے کی خاطر اس رعایت سے شاید ہی کسی مسلمان نے فائدہ اٹھایا ہو! اس لیے انھوں نے عزیمت کی راہ اپنائی اور قیصر کی پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔’’اس کو پھانسی پر چڑھا دو۔‘‘ بادشاہ نے چیخ کرحکم دیا۔ ساتھ ہی اس نے وزیر کو بلایا اور قیدی کی ہلاکت کے بارے میں کچھ خصوصی ہدایات دیں۔ وزیر نے حکم جلاد تک پہنچا دیا۔فوراً ہی قیدی کو ایک تختے سے باندھ دیا گیا اور جلاد تیر کمان ہاتھ میں اٹھا کر اس کا نشانہ لینے لگا۔ اس نے بڑی احتیاط سے نشانہ لیا اور تیر چھوڑ دیا۔ تیر عین نشانے پر لگا۔۔ ٹھیک وہیں جہاں اسے ہدایت کی گئی تھی۔ بادشاہ نے وزیر کے ذریعے سے حکم دیا تھا کہ تیر قیدی کے دل میں نہیں بلکہ ہاتھ پر مارا جائے کہ اس کا ایک بازو زخمی ہو جائے۔ اور واقعی قیدی کا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔دردکی ٹیسیں اٹھیں اور عبداللہ بن حذافہ کی پیشانی تکلیف کی وجہ سے پسینے سے بھر گئی، لیکن ان کے منہ سے اف تک نہیں نکلی۔ اس نازک موقع پر بادشاہ نے ایک مرتبہ پھر اسے اپنا دین بدلنے کا مشورہ دیا مگرانھوں نے پوری شدت سے انکار کر دیا۔ بادشاہ نے جلاد کو دوسرا تیر چلانے کا حکم دیا۔جلاد نے اس مرتبہ تیر چھوڑا تو وہ ان کے دونوں پاؤں کے درمیان میں لگا۔ اس دفعہ بادشاہ نے محسوس کیا کہ قیدی پر خوف کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ اس نے چوتھی مرتبہ اسے اپنے دین سے علیحدگی کا مشورہ دیا مگر قیدی نے پھر انکار کر دیا۔
اب تو بادشاہ کو بہت بے عزتی محسوس ہوئی۔ وہ کچھ دیر خاموش رہتے ہوئے سوچنے لگا۔۔ آخر اس نے ایک عجیب حکم دیا۔۔ بہت ہی خوفناک اور وحشت ناک حکم!’’قیدی کو تختے سے اتار لیا جائے اور بڑی دیگ لا کر اس میں تیل گرم کیا جائے۔‘‘عبداللہ بن حذافہ ، ان کے ساتھی اور درباری سمجھ گئے کہ بادشاہ انتقام کی خاطران کو اس تیل میں ڈال کر زندہ بھون ڈالے گا۔حکم کے مطابق ایک بڑے میدان میں آگ جلائی گئی۔ اس پر دیگ رکھ کر تیل ڈالا گیا۔ جب تیل کھولنے لگا تو بادشاہ نے انتہائی سفاک آواز میں حکم دیا:’’اس قیدی کی قوم کے دو افراد کو لایا جائے۔۔۔‘‘اس حکم نے پہلی مرتبہ سیدنا عبداللہ بن حذافہ کو پریشان کر دیا۔ ان کے چہرے پر فکر مندی اور خوف کے اثرات اب واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔ اور جب حکم کے مطابق دو قیدی سامنے لائے گئے توان کا خوف دو چند ہو گیا۔ وہ اپنے بے قصور ساتھیوں کے انجام کو صاف محسوس کر رہے تھے ، لیکن انھوں نے پچھلے تجربے سے یہی نتیجہ اخذ کیا یہ قیصر کی صرف گیدڑ بھبکی ہے ؛ وہ اصل میں صرف انھیں ڈرانا چاہتا ہے ، اس لیے وہ خاموش رہے۔ لیکن پھر ان کے ذہن میں آیا کہ کہیں قیصر اس دفعہ سنجیدہ ہی نہ ہو ! ابھی وہ بادشاہ کو کچھ کہنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اس کے کانوں میں بادشاہ کے وہ الفاظ گونج اٹھے جس نے ان کے ایک ایک رونگٹے میں کیل ٹھونک دیے۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ سن رہے تھے۔’’ان قیدیوں کو اس کھولتے تیل میں پھینک دیا جائے۔‘‘
حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ لیکن حقیقت یہی تھی کہ انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے دہشت ناک منظر دیکھا تھا۔ ان کے دو ساتھیوں کو تیل میں پھینک دیا گیا تھا اور وہ بے بسی کی تصویر بنے انھیں پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ وہ دونوں مجاہد چشم زدن میں زندگی سے آزاد ہو گئے۔ بادشاہ کی آنکھوں کی شیطانی چمک کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ وہ پھنکارتے ہوئے بولا: ’’اے قیدی! اب تیرے لیے آخری موقع ہے۔ اب بھی چھوڑ دے اپنے دین کو اور موت کے بجائے زندگی قبول کر لے۔‘‘سیدنا عبداللہ بن حذافہ نے نفرت ، غصے اور حقارت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے اس مرتبہ بھی انکار کر دیا۔بادشاہ کی ضد بھی ختم ہو گئی اور وہ زور سے چلایا:’’پھینک دو اس گستاخ کو دیگ میں!‘‘سپاہیوں نے انھیں پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے تیل کی دیگ کے قریب لے آئے۔ اس موقع پر بادشاہ اور اس کے درباریوں نے عجیب منظر دیکھا۔۔۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن حذافہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے ہیں۔بادشاہ کو پہلی مرتبہ اپنی ضد کی فتح کے آثار دکھائی دیے۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر سپاہیوں کو روکا۔ دربار میں شور مچ گیا۔وہ آپس میں کہہ رہے تھے: ’’دیکھو قیدی رو رہا ہے۔۔موت اور وہ بھی اس قدر خوف ناک موت۔۔ یقیناًموت کی تکلیف کا تصور کرکے رو رہا ہے۔۔‘‘
بادشاہ نے قیدی کو قریب لانے کا حکم دیا۔ شاید وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ قیدی واقعی رو رہا ہے۔قیدی سچ مچ رو رہا تھا۔ اس کے نورانی چہرے پر آنسو موتی بن کر چمک رہے تھے۔’’اے قیدی! آخر تم نے اپنی ضد چھوڑنے کا فیصلہ کر ہی لیا! ٹھیک ہے، تم اعلان کرو کہ میرے دین کو قبول کرتے ہو۔‘‘لیکن سیدنا عبداللہ بن حذافہ نے جواب میں جو کچھ کہا اس سے بادشاہ ہی نہیں دربار کا ہر آدمی چونک پڑا۔’’نہیں اے ظالم بادشاہ! میں تمھارا مذہب ہرگز قبول نہیں کروں گا۔‘‘’’تو پھر تم رو کس بات پر رہے ہو؟‘‘’’اے احمق بادشاہ! میں موت کے خوف سے نہیں رو رہا۔ میں تو اس حسرت پر رو رہا ہوں کہ کاش میرے پاس ایک سے زیادہ جانیں ہوتیں۔۔ ایک لاکھ جانیں ہوتیں۔۔ اور میں ہر جان اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر خدا کی راہ میں قربان کر دیتا۔ مگر افسوس میرے پاس تو ایک ہی جان ہے۔۔ بس اس محرومی پر رو رہا ہوں۔‘‘دربار پر موت کی سی خاموشی طاری ہو گئی۔ یوں لگتا تھا کہ وقت ٹھہر گیا ہو، زندگی کی سانس رک گئی ہو ، منظر ایک تصویر بن گیا ہو، ماضی اور مستقبل ختم ہو کر صرف لمحہ موجود بن گیا ہو۔بادشاہ بھی بت بنا اس عجیب و غریب قیدی کا منہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے بھلا ایسا انسان زندگی میں کہاں دیکھا ہو گا!لگتا تھا قیدی کی اس بات نے اس کے دماغ پر اثر کر دیا تھا۔ اس نے بھی ایک عجیب بات کہی۔ ایک بہت ہی عجیب بات!کہنے لگا: ’’اے قیدی! اگر تم میرا سر چوم لو تو میں تمھیں آزاد کر دوں گا۔‘‘سیدنا عبداللہ بن حذافہ نے بے یقینی سے بادشاہ کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کیا تم میرے ساتھ میرے ساتھیوں کو بھی چھوڑ دو گے؟‘‘’’ہاں! میں تمھارے سارے ساتھیوں کو چھوڑ دوں گا۔‘‘تب انھوں نے پہلی مرتبہ قرآن کی دی گئی رعایت سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کیا۔ ان کے سامنے قرآن کی ایک نہیں کئی آیات آگئی تھیں۔’’جس نے کسی کو قتل کیا ، اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا۔ اور جس نے کسی ایک کو بچایا اس نے گویا سب ا نسانوں کو بچا لیا (۵:۲۳): پھر جو بھوک سے مجبور ہو کر کوئی حرام چیز کھا لے ، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو تو اللہ بخشنے والا ہے ، وہ سراسر رحمت ہے۔ (مائدہ ۳)
وہ سوچ رہے تھے کہ یہ بادشاہ جتنا ظالم
ہے، اتنا ہی بزدل ہے۔ ڈر رہا ہو گا کہ جس دین پر ایمان رکھنے والے اس قدر با اصول اور بے خوف ہیں وہ کس قدر نڈر اور بہادر ہو ں گے اور اگر میں نے ان کے اہم آدمی کو یوں بے رحمی سے مار ڈالا تو یہ لوگ میری سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے اس نے یہ بے تکی شرط رکھ دی ہے۔ یاشاید اس نے میرے دین بدلنے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اوراس میں ناکامی کے بعد اب محض بچوں کی سی ضد پر آ گیا ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ میرے ہاتھوں اپنی شکست کے بعد اب میں بھرے دربار میں اس کا سر چوم کا اس کی عزت اور اپنی ذلت کا اظہار کروں۔ لیکن اگر میں نے اس کی یہ بے تکی ضد مان لی تو اس سے میرے دین پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا مگر میرے قیمتی ساتھیوں کی جانیں بچ جائیں گی۔ اور میرا دین اور میرے رسول کی سیرت مجھے یہی سکھاتی ہے ،لہٰذا یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ میرے ساتھیوں کی جانیں میری ذات سے بہت زیادہ قیمتی ہیں۔ یہ سوچ کرانھوں نے اپنی ذات پر ساتھیوں کی جان کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا اور آگے بڑھ کر بادشاہ کے سر کو چوم لیا۔ بادشاہ نے فوراًانھیں اور ان کے باقی ساتھیوں کو آزاد کر نے کا حکم دے دیا۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن حذافہ ان کے سامنے بیٹھے تھے۔ ان کی زبانی سارا واقعہ سننے کے بعد بولے: ’’اے عبداللہ بن حذافہ (رضی اللہ عنہ) تم پر ہزار ہا رحمتیں نازل ہوں۔‘‘اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اٹھے اور اعلان کیا کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھ کر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کا سر چوم لے اور دیکھو میں سب سے پہلے ان کے سر پر بوسہ دیتا ہوں۔خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اٹھے اور ان کو بوسہ دیا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام میں سے تھے جنھوں نے مکہ میں بہت آغاز ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ان کے اس اقدام اور عمر فاروقؓ کی تصدیق کے بعد آج کا یہ دور ہمیں دعوت غورو فکر دے رہا ہے کہ ہم درست ہیں یا اللہ کے رسول کے تربیت یافتہ یہ مجاہد! شاید اسی وجہ سے انھیں اللہ کی نصرت حاصل تھی اور ہم خون کی ندیاں بہا کر بھی مغضوب اور محکوم ہیں۔***