1 ۔ کسی بڑے شہر کی کچی آبادی کا ذکر ہے کہ وہاں ایک چھوٹا سا پرائمری سکول تھا۔ جس میں 80 بچے زیر تعلیم تھے اور ایک استانی ان بچوں کو پڑھانے پر مامور تھی ۔ بڑے شہر کی یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سینئر پروفیسر نے اپنی ایم ۔ اے کی کلاس کے طلبہ کو ایک تحقیقی پراجیکٹ دیا ۔ اس پروجیکٹ میں کچی آبادی کے پرائمری سکول کے بچوں کا سوشیالوجیکل (Sociological ) اور ایجوکیشنل (Educational) سروے شامل تھا ۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ نے مذکورہ پرائمری سکول کے ۸۰ طلبہ کا مکمل مطالعہ کیا اور ایک جامع رپورٹ تیار کر کے اپنے پروفیسر صاحب کو پیش کی ۔ رپورٹ پر بحث کے دوران میں پروفیسر صاحب نے اپنے طلبہ سے پوچھا کہ ان 80 بچوں کا مستقبل کیا ہے ۔ سب طلبہ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ان بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ یہ یہیں گندے ماحول میں پلیں گے اور یہیں پر اپنے والدین کی طرح عُسرت زدہ زندگی گزار کر مر جائیں گے ۔ رپورٹ کی کاپی جلد کروا کر ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں رکھ دی گئی ۔
وقت گزرتا رہا حتی کہ بیس سال بعد اس وقت کے سینئر پروفیسر کو مذکورہ بالا رپورٹ دیکھنے کا موقع ملا ۔ اسے خیال گزرا کہ کیوں نہ اس رپورٹ کے حاصلات کا تعاقب (Follow up) کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کچی آبادی کے پرائمری سکول کے ان 80 بچوں کا مستقبل کیسا ہے ۔ چنانچہ پروفیسر صاحب نے اپنی ایم ۔ اے کی کلاس کے طلبہ کو یہ ریسرچ پروجیکٹ دیا کہ وہ دیکھیں کہ وہ 80 بچے اب کہاں اور کس حالت میں ہیں ۔ یونیورسٹی کے طلبہ مذکورہ کچی آبادی پہنچے اور ان 80 بچوں کو جو جوان ہو چکے تھے تلاش کرنا شروع کیا تاہم 76 نوجوانوں کا سراغ مل گیا ۔ صرف 4 نوجوانوں کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں ۔ جو 76 نوجوان ( کچی آبادی کے سابق بچے ) ڈھونڈے جا سکے ان کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ سب خوش حال اور کامیاب انسان ہیں ۔ ان میں سے کچھ ڈاکٹر ، کچھ انجینئر ، کچھ اکا ؤنٹینٹ اور کچھ دیگر اعلی پیشوں سے منسلک ہیں۔ جب یہ سروے رپورٹ یونیورسٹی پہنچی اور اس کا 20 سال پہلے کی رپورٹ کے نتائج سے موازنہ کیا گیا تو بڑی ناقابل یقین صورت حال سامنے آئی ۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر صاحب کو شک گزرا کہ ہو نہ ہو ان بچوں کی کامیابیوں کے پیچھے ضرور کسی نہ کسی استاد کا ہاتھ ہے ۔ پروفیسر صاحب نے طلبہ سے کچی آبادی کے پرائمری سکول کے اس وقت کے ٹیچر کو تلاش کرنے کو کہا ۔ طلبہ آخر اس استانی تک پہنچ گئے جو 20 سال پہلے کچی آبادی کے غریب بچوں اور اب کامیاب نوجوانوں کی ٹیچر تھی۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سینئر پروفیسر اس استانی سے ملنے بنفس نفیس تشریف لے گئے ۔ پروفیسر صاحب نے استانی سے پوچھا کہ وہ کس طرح کچی آبادی کے ان غریب بچوں کی زندگی میں انقلاب لانے میں کامیاب ہوئی کہ جن کی موجودہ Positions کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ریٹائرڈ زندگی گزارنے والی اس بزرگ استانی نے جواب میں صرف اتنا کہا I Loved those children ‘‘ مجھے ان بچوں سے پیار تھا ’’
طالب علم کے ساتھ استاد کا پیار کس طرح اس کی زندگی میں انقلاب لا سکتا ہے یہ سچی داستان اس کا
نا قابل تردید ثبوت ہے ۔
2۔ میں جب کلاس روم میں معائنے کے لیے داخل ہوا تو دیکھا کہ استانی سمیت سب بچے کاپی سے پھاڑے ورق پر کچھ لکھ رہے ہیں ۔ میں نے کلاس روم میں گھوم پھر کر دیکھا کہ سب طلبہ نے ایک ہی فقرہ لکھا ہے ۔ I can not do یعنی میں نہیں کر سکتا ۔
جب سب طلبہ یہ فقرہ لکھ چکے تو ٹیچر نے کہا کہ اپنا اپنا ورق دو دفعہ تہ دے لیں ۔ گتے کا ایک ڈبہ کلاس میں پڑا تھا۔ ٹیچر نے طلبہ سے کہا کہ اپنا اپنا تہ شدہ ورق اس ڈبہ میں ڈال دیں ۔ خود ٹیچر نے بھی اپنا تہ کیا ہوا ورق ڈبے میں ڈال دیا ۔ ڈبے کو خوبصورت سفید کاغذ سے ہر طرف گوند لگا کر بند کر دیا گیا ۔ اب استانی نے ایک طالب علم سے کہا کہ وہ جائے اور مالی سے کدال لے آئے ۔ جب کدال آگئی تو استانی نے وہ ڈبہ اٹھا لیا جس میں I can not do والے ورق ڈالے گئے تھے اور جلوس کی صورت میں سب بچوں کو اپنے پیچھے آنے کو کہا ۔ استانی طلبہ کو سکول کے صحن کے ایک کونے میں لے گئی اور دو تین صحت مند اور مضبوط بچوں سے کہا کہ وہ اس ڈبے کے سائز کے مطابق گڑھا کھودیں ۔ جب گڑھا تیار ہو گیا تو استانی نے چار بچوں سے کہا کہ وہ بڑے احترام اور احتیاط سے گتے کا ڈبہ گڑھے میں رکھ دیں ۔ باقی بچوں سے کہا گیا کہ وہ ایک ایک مٹھی مٹی گڑھے میں ڈالیں اور پھر کدال کے ذریعے باقی مٹی ڈال کر ڈبے کو دفن کر دیا گیا اور اوپر قبر کی شکل بنا دی گئی ۔ قبر کے اوپر ایک تختی لگا دی گئی جس پر لکھا تھا ۔ یہ قبر جس چیز کی ہے اس کا نام تھا I can not do تاریخ وفات بھی لکھ دی گئی ۔ اسی قبر پر کھڑے ہو کر استانی نے اپنے بچوں کو لیکچر دیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ آج ہم نے I can not do کو اس قبر میں دفن کر دیا ہے ۔ اب اس کے بعد ہم میں سے کوئی بھی کسی بھی کام کے سلسلے میں یہ نہیں کہے گا کہ I can not do یا میں نہیں کر سکتا ۔
I can not do کی تجہیز و تدفین کے بعد کلاس میں جب بھی کوئی بچہ کہتا ہے کہ وہ ہوم ورک نہیں کر سکا یا اسے فلاں فلاں سوال نہیں آتا یا وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتا تو استانی اسے یاد دلاتی ہے کہ I can not do کو تو ہم دفن کر چکے ہیں لہذا اب اس کو تو الزام نہ دو ۔ اس طرح آہستہ آہستہ پوری کلاس کے تمام بچوں میں خود اعتمادی کی ایک نئی لہردوڑ گئی اور اس کلاس کے بچوں کا اکتساب علم پہلے سے کہیں بہتر ہو گیا ۔
آپ نے دیکھا کہ کس طرح ایک ٹیچر کی جدت پسند سوچ نے ایک عملی سرگرمی کروا کر طلبہ کے رویوں اور سوچ میں تبدیلی پیدا کر ڈالی ۔
3 ۔ نو یں جماعت کے ایک طالب علم کا ذکر ہے کہ ریاضی کے پیریڈ میں ہر روز اسے اس بات پر سزا ملتی کہ وہ ہوم ورک کر کے نہیں لاتا تھا ۔ شش ماہی امتحان ہوا اور اس طالب علم نے ریاضی میں سو فیصد نمبرلیے ۔ اس کے ریاضی کے استاد یہ جان کر بہت حیران ہوئے ۔ حیرانی اس بات پر تھی کی جس طالب علم نے ہوم ورک کبھی نہیں کیا اور ہر روز چپ چاپ ڈنڈے کھا لیتا ہے اس نے امتحان میں سو فیصد نمبر حاصل کیے ہیں ۔ استاد کو شک گزرا کہ شاید طالب علم نے نقل لگائی ہے جب اس نے طالب علم کو پرچا تھماتے ہوئے یہ کہا کہ تم نے نقل لگائی ہے تو طالب علم نے جواب میں کہا کہ سر کس کی؟جب کہ پوری کلاس میں سو فیصد نمبر میرے ہیں ۔ اس جواب پر استاد صاحب کو مزید حیرانی ہوئی اور اس نے طالب علم کو علیحدہ بلا کر پیار سے پوچھا کہ اگر تم ریاضی میں اتنے لائق ہو تو ہوم ورک کیوں نہیں کرتے اور ہر روز خاموشی سے سزا کیوں بھگت لیتے ہو ۔ اس پر طالب علم نے استاد کو بتایا کہ وہ تمام سوالات سلیٹ پر حل کر لیتا ہے لیکن ہوم ورک کے لیے اس کے پاس کاپی نہیں ہے کیونکہ اس کے والدین بہت غریب ہیں اور وہ کاپیوں کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے یہ بات سن کر ریاضی کے استاد صاحب اللہ کے خوف اور طالب علم کی مشکل کی اصل وجہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے ۔ استاد محترم نے اپنے اس ہونہار طالب علم کی ہر طرح کی مدد کا عزم کیا اور اللہ نے انہیں کامیاب بھی کیا ۔ او روہ ہونہار طالب علم اپنے اس شفیق استاد کی معاونت اور حوصلہ افزائی سے ایم ۔ اے تک پہنچا اور یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ۔ تعلیم میں اعلی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ ہونہار شاگرد اپنے شفیق استاد کے پاس مبارک باد دینے اور دعائیں لینے کے لیے پہنچا اور مشور ہ لیا کہ وہ کون سا پیشہ اختیار کرے ۔ اس کا اپنا رحجان سول سروس کی طرف تھا لیکن اس عظیم اور شفیق استاد نے اپنے شاگرد سے کہا : ‘‘سول سروس کی طرف تو ہر کوئی دوڑتا ہے قوم کو ذہین اور اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے تم تدریس کا پیشہ اختیار کرو ’’ ۔ اس ذہین اور فرمانبردار نوجوان نے اپنے عظیم اور شفیق استاد کی خواہش کے سامنے سر جھکا دیا اور یونیورسٹی میں لیکچرر ہو گیا ۔
4 ۔ جرأت نمو ۔زمین کی اوپر والی تہہ میں دو بیج ساتھ ساتھ استراحت کی حالت میں پڑے تھے ۔ ایک بیج بولا : ‘‘ ابھی چند دنوں میں اللہ کے فضل و کرم سے بارش ہو گی ۔ زمین میں نمی آئے گی ۔مجھے بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا ۔ نمی کی وجہ سے میں پھوٹ پڑوں گا ۔ میری جڑیں نیچے زمین کی طرف بڑھیں گی ۔ پانی اور معدنی خوراک کی شکل میں اللہ کا فضل تلاش کریں گی ۔ میری کونپلیں زمین سے سر نکال کر اپنی پیدائش کا اعلان کریں گی۔ کونپلیں سبز پتوں میں تبدیل ہو جائیں گی ۔ سورج کی روشنی اور ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شکل میں اللہ کی دی ہوئی خوراک سے فائدہ اٹھاؤں گا ۔میری جڑیں نیچے زمین میں پھیلتی چلی جائیں گی ۔ میرا تنا اور پتے اوپر کی طرف اٹھیں گے ۔ شاخیں نکلیں گی اور میں جلد ہی ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لوں گا ۔ لوگ میرے سائے میں بیٹھیں گے اور اللہ کا شکر ادا کریں گے ۔ پرندے میرے اوپر گھونسلے بنائیں گے اور اللہ رب العزت کی ثنا خوانی کریں گے ۔ بھیڑ بکریاں اور اونٹوں والے آئیں گے اور میرے پتے جھاڑ کر انہیں کھلائیں گے ۔میرے اوپر پھل لگے گا جو اللہ کے بندوں کی غذا بنے گا ۔ میں جب بوڑھا ہو جاؤں گا اور میرے پتے زرد ہو جائیں گے پھل لگنا بند ہو جائے گا تو لوگ مجھے کاٹ کر میری لکڑی سے شہیتر اور بالے بنائیں گے میری پتلی شاخیں اور ٹیڑھے میڑھے حصے ایندھن کے کام آئیں گے ۔ ایندھن جب جلے گا تو میں اللہ کے بندوں کو حرارت اور روشنی دوں گا ۔ ہوسکتا ہے میرے شہیتر اور بالے اچھی قسمت کی وجہ سے کسی مسجد کی چھت میں کام آئیں ۔ اس طرح میں باقی ماندہ زندگی اللہ کی عبادت کرنے والوں کو چھت مہیا کروں گا اور ایک لمبے عرصے تک دن رات اللہ کا ذکر سنوں گا ۔ وہ اپنے ساتھی بیج کو مخاطب کر کے بولا کہ کیا تم نے یہ خیال کیا کہ میر ی پیدائش کتنی بابرکت ، میری زندگی کتنی شاندار اور مرنے کے بعد میرا مصرف کتنا باعث ثواب ہو گا ۔ دوسرا بیج بولا : نہ بھئی نہ ! میں تو یونہی پڑا رہنا پسند کروں گا ۔ اگر نمی کی وجہ سے میں اگ اٹھا اور میر ی جڑیں نیچے کی طرف پھیلنا شروع ہوئیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ نیچے کسی چٹان سے ٹکرا جائیں ۔ اس طرح تو میری جڑوں کے زخمی ہونے کا خدشہ ہے ۔ اگنے کے بعد اگر میری کونپلوں نے زمین سے سر نکالا تو کوئی بھیڑ بکری آئے گی اور منہ میں چباکر چلی جائے گی ۔ وہ پھر خوف زدہ ہو کر بولا میں تو اس طرح پڑا رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں ۔ میں تو اگنے اور بڑھنے کی شکل میں بلاوجہ کا رسک نہیں لوں گا ۔ اسی اثنا میں ایک مرغی دانا دنکا تلاش کرتے ہوئے آنکلی ۔ وہ بیج جو اگنے کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے مرغی کی چونچ کا شکار ہو کر اس کے پیٹ میں چلا گیا ۔ (بشکریہ : ماہنامہ افکار معلم ، لاہور ۔ جنوری 2006 )