پہلے اعتماد کا ڈیم !!

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : مارچ 2006

شیر دریا:

            تربت کی بلندو بالا چوٹیوں سے نکلنے والا وہ چھوٹا سا نالہ کوہ ہمالیہ اور قراقرم کی وادیوں سے گزرتا ہوا ایک چھوٹا سا دریا جب جنوبی پنجاب اور سندھ کی سرزمین میں آتا ہے تو صحیح معنوں میں ‘‘شیر دریا ’’بن چکا ہوتا ہے۔شمالی علاقہ جات اور سرحد میں جب تک رہتا ہے،یہ دریا محض تندو تیز سیلابی نالہ ہی ہوتا ہے،لیکن اس کا اصل دریائی روپ پنجاب اور سندھ کے میدانوں ہی میں ظاہر ہوتا ہے۔اس لئے اس کو ‘‘ دریائے سندھ’’ ہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دریا سے اہل سندھ کو جو محبت اور جذباتی وابستگی ہے، اس کو کوئی دوسرا سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ہمارا اپنا بچپن چونکہ اس دریا کے نظاروں کی حسین یادوں سے مزین ہے اور یہ کہ ہم نے بھی اس کے گہرے پانیوں میں ڈبکیاں کھائی ہیں ، اس لئے اہل سندھ کی اس دریا سے جذباتی وابستگی کو سمجھنے کے اہل ہیں ۔ یہ دریا سندھ کی ہزاروں سال کی قدیم تہذیب کی ایک زندہ علامت ہے۔ اس کا بہتا پانی اہل سندھ کی ثقافت ، تاریخ، کلچر اور رنگارنگ تہذیب کا امین ہے۔ اس کا ایک ایک قطرہ ،سرزمین سندھ کے باسیوں کے خون میں رچا بسا اور ان کی زندگی کی علامت بن چکا ہے۔ اس دریا کے سوتے خشک ہوجائیں،اس کی لہریں عنقا ہو جائیں ۔ اس کے باٹ سے ریت و گرد کا طوفان اٹھے اور کوئی اس دریا کے بہاؤ میں رکاوٹ بنے اور اہل سندھ تڑپ نہ اٹھیں ،یہ نا ممکن ہے۔اس چیز کا موہوم سا خطرہ بھی ، اہل سندھ کی زندگیوں میں طوفان اٹھا دینے کیلئے کافی ہے اور آجکل محبتوں کی اس سر زمین میں یہ طوفان برپا ہو چکا ہے۔

العطش العطش:

                        یہ دریا اور اس کے معاون دریا صدیوں سے اپنے آپ میں مگن ،انسانی آبادیوں کو سیراب کرتے چلے آرہے تھے ۔ ان کے باسیوں نے کبھی بھی ان کے پانیوں میں کمی کی شکایت نہ کی تھی، بلکہ ان کے باسی البتہ کبھی کبھی ان کی طغیانیوں سے نالاں ضروررہتے تھے، لیکن پچھلی نصف صدی سے گونا گوں عوامل کے باعث ان دریاؤں کے باسی ‘‘العطش العطش’’ پکار رہے ہیں ۔

ایک طرف بے پناہ آبادی کے بڑھنے سے پانی کی ضروریات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، دوسری طرف اپنے 3دریا ،ہم نے ایک معاہدے کے تحت انڈیا کو دے دئیے ہیں اور تیسری طرف سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ہمارے پاس ڈیم بھی نہیں ہیں ، اس لئے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ پانی جو 1951میں 5600کیوبک فٹ فی آدمی کے حساب سے مہیا تھا، روز بروز کم ہوتے ہوتے 2010ء تک 1000کیوبک فی آدمی کے خطرناک لیول پر پہنچ جائے گا۔ یہ لیول بین الاقوامی معیار کے مطابق ، کسی زرخیز اور سر سبز و شاداب علاقے کو صحرا میں بدلنے کیلئے کافی ہے۔ کیا ہمارا یہ گل و گلزار وطن 5سال بعد صحرا میں تبدیل ہو جائے گا؟ الامان و الحفیظ!!

اصرارِ پُر اسرار:

                        کیا صدر محترم دانش مندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا پنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں ، جو وہ بڑی خوشامد سے کا لا باغ ڈیم کی تعمیر پر اصرار کر رہے ہوتے ہیں؟

                       جنرل پرویز مشرف صاحب کی تبارت میں ، پوری حکومتی مشینری آجکل کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے گیت گاتی نظر آرہی ہے۔ صدر محترم ،پچھلے کئی ہفتوں سے مختلف عوامی اجتماعات میں ڈیم کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرتے نظر آرہے ہیں ۔ وہ وقفے وقفے سے سندھ کے مختلف شہروں کا دورہ کر چکے ہیں ۔ کراچی ، حیدرآباد،سکھر ،خیرپور ،شکارپور اور لاڑکانہ جا کر عوامی نمائندوں کے اجتماعات میں جا کر اپنی جادو بیانی کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔ قبل ازیں ، پچھلے سال کے نصف اول میں بھی وہ اس طرح کی سعی نردا کر چکے ہیں ۔ اس وقت وہ صوبہ سرحد کے شہر نوشہر ہ میں بھی خصوصی طور پر اسی مہم کے سلسلے میں تشریف لے گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری قومی تاریخ میں یہ واحد حکمران ہیں جو کسی قومی اہمیت کے حامل کے مسئلے کو یوں پبلک میں جا کر زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ان کے اس طرح کے اصرار کو جہاں بعض لوگ پُر اسرار قرار دے رہے ہیں ، وہاں بعض لوگ ان کے اخلاص پر بھی مجمول کر رہے ہیں ۔ اگر وہ اس مسئلے کو سیاسی داؤ پیچ کے طور پر ہی استعمال کر رہے ہوں ، لیکن ہماری رائے میں پھر بھی وہ دانش مندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

                       جب وہ ڈیم کی تعمیر پر اصرار کر رہے ہیں اور اسے عوامی سطح پر زیرِ بحث لا رہے ہیں ۔ ہمارے نزدیک یقینا وہ قرار واقعی سنجیدگی اور بھر پور اخلاص سے اس مسئلے کو لے کر چل رہے ہیں ، لیکن کیا، وہ عام لوگوں کو عموماً اور ممکنہ متاثرہ فریقوں کو اعتماد دلانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ ابھی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

کالا باغ ڈیم :

                        کالا باغ ، دریا سندھ پر واقع ،پنجاب کے ایک دورانتا وہ ضلع میانوالی کی ایک تحصیل ہے۔یہ تحصیل صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد کے درمیان واقع ہے۔ اس علاقے کی قدرتی ساخت کے باعث یہاں پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جو بد قسمتی سے اب متنازعہ موضوع بن چکا ہے۔

                       بنیادی طور پر ڈیمز یا بند ، پانی کا ذخیرہ ہوتے ہیں ، جو بارشوں اور سیلاب کے موسم میں آنے والے فالتو پانی کو ذخیرہ کر کے ، ضرورت کے وقت اس پانی کو مہیا رکھتے ہیں ۔ ڈیمز کا یہ کردار تو صدیوں سے پہچانا جاتا ہے۔ دورِجدید میں ، اس ذخیرہ آپ کو پن بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے، جس سے ڈیمز کی ضرورت دو چند ہو گئی ہے۔ اب یہ منصوبے محض وافر پانی کو ذخیرہ کرنے کا ذریعہ ہی نہیں ، بلکہ کسی ملک کی معیشت میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ ضروری تھا کہ اب تک کئی ڈیمز بن چکے ہونے چاہیے تھے۔ پاکستان کی سرزمین ، قدرتی طور پر اس صفت رکھتی ہے کہ اس کے بڑے دریا پر کئی بند بنائے جا سکتے تھے، لیکن حکمرانوں نے مجرمانہ غفلت سے کام لیا ، اب ہمارے پاس غلطی یا مزید غفلت کا کوئی موقع نہیں رہا ۔ ہمیں نہ صرف کالا باغ ،بلکہ بھاشا ،منڈا ،اکوڑی اور کئی اور بند بھی بنانے ہونگے ۔ یوں تو ، کالاباغ کے مقام پر ڈیم بنانے کی تجویز 1953ء میں پہلی بار دی گئی تھی ،لیکن اصل تجویز 1984ء میں منظر عام پر آئی تھی۔

                       کالا باغ ڈیم ایک بڑا آبی ذخیرہ ہوگا، جو سطح سمندر سے 915فٹ اونچائی پر ہے۔ اس میں 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہو گی ۔ اس سے ابتدائی طور پر 2400میگا واٹ پن بجلی پیدا ہو گی ، جسے 3600میگاواٹ یونٹ تک بڑھایا جا سکے گا۔ اس ڈیم کی مجوزہ بلندی 260فٹ ہے۔ اس کی تعمیر کی لاگت کا تخمینہ 1992ء میں 4.9ملین امریکی ڈالر تھا، جو اب بڑھ کر 10بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس ڈیم سے ، اگر یہ وقت پر تعمیر ہو جائے تو فوری طور پر 4ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہو گا ، جو بمشکل پانی کی اس کمی کو دور کرنے گا ۔

                       جو روز بروز ،تربیلا اور منگلا ڈیم میں مٹی بھر جانے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ اس لئے یہ بات طے ہے کہ ہماری مستقبل کی ضروریات کو محض یہ ایک ڈیم قطعاً پورا نہیں کرتا۔

اعتماد کا بحران :

                        اس معاملے میں قطعاً دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہے اور اس کا حل ذخیرہ جات آپ کی تعمیر ہے اور یہ بات بھی طے ہے کہ وطن عزیز کو ،زرعی سیکٹر میں پانی کی ضروریات کے علاوہ ،صنعتی سیکٹر کیلئے سستی بجلی کا بھی شدید ضرورت مند ہے۔یہ ضرورت نئے ڈیم ہی پورے کر سکتے ہیں ، اس لئے اصولی طور پر ایک نہیں ،متعدد ڈیم کی تعمیر پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ جھگڑا اس پر ہے کہ کون سا ڈیم بنایا جائے اور کون سا نہ بنایا جائے ۔ معاملہ تمام تر صدیوں کے درمیان باہمی اعتماد کے فقدان کا ہے۔ جو لوگ ڈیمز کی تعمیر کے شدید مخالف ہیں ، ایسا نہیں کہ وہ ملک میں پانی کی مقدار کے وافر ہونے کا یقین رکھتے ہیں ، یا انھیں ڈیم کی افادیت سے انکار ہے، بلکہ وہ اسٹیبلمنٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔

                       اہل سندھ اپنی زندگی کی شاہ رگ کو ، کسی جنرل کے ہاتھوں میں دینے پر تیار نہیں ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ڈیم کی تعمیر سے پہلے اعتماد کا ڈیم تعمیر کیا جائے ۔ اگر حکومت واقعی قومی اتفاق رائے کے حصول کی خواہش مند ہے تو اسے اعماد سازی پر توجہ دینا ہوگی ۔معلوم نہیں کہ محترم جنرل پرویز صاحب ، کس منہ سے ، قوم کو گارنٹیاں دیتے پھر رہے ہیں ، جبکہ وہ اپنے حلف کو پس پشت ڈال کر اقتدار پر جبری قبضہ کرنے والے اور دوسری بار، بڑی دہرہ دیری سے وردی اتارنے کے وعدہ سے پھر جانے والے ہیں ۔ کوئی صوبہ ، نہ تو پنجاب پر اعتماد کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی وہ خاکی اسٹیبلمنٹ پر اعتبار کرنے کو آمادہ ہے، کیونکہ ان دونوں نے کبھی بھی دیگر صوبوں کے مفاد میں فیصلہ نہیں کیا اور نہ کبھی ان کو اقتدار اعلیٰ میں موثر طور پر شریک کیا ہے۔

            اہل دانش کے ہاں ، یہ سوال بھی زیرِ غور ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے ، صدر محترم نے یہ وقت کیوں منتخب کیا ہے، جبکہ 2003ء میں نئے انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ سنا ہے کہ صدر محترم کو آبی ذخائر کے موضوع سے ، اس وقت سے علمی دلچسپی ہے ، جب وہ ابھی بریگیڈیر تھے اور اس بات کا دور دور تک امکان نہ تھا کہ وہ کبھی وطن عزیز کے اقتدار ِ اعلیٰ کے بھی مالک ہونگے۔نواز شریف صاحب کے دوسرے دور حکومت کے آخر میں ، اس ڈیم کی تعمیر کی تمام تر تیاریاں مکمل تھیں ، وہ تو بوجوہ اس کی تعمیر کا آغاز نہ کر سکے ، موجودہ صدرمحترم کو کیا مجبوری تھی کہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اس کی تعمیر کا آغاز کیوں نہ کر دیا، کہ اب تک یہ تعمیر ہو چکا ہوتا۔لیکن ایسا نہ ہوا ، اب اچانک یہ Issueکیسے یاد آ گیا؟کیا 2007ء کے اور ،اقتدار سے چمٹے رہنے کا جواز ڈھونڈا جا رہا ہے؟ کیا محب وطن عناصر کو ، جو ڈیمز کی تعمیر پر Convincedہیں ، یہ باور کر ایا جا رہا ہے کہ ان آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے ،جنرل صاحب کے اقتدار کا تسلسل نا گزیر ہے؟

سندھ کے تحفظات :

                        اہل سندھ ، بلا شبہ سب سے زیادہ اس مسئلے سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ اظہار بدقسمتی سے ، بوجوہ منفی رُخ پر ہے۔ انھیں اس پر شدید دکھ ہے کہ ان کے پانی کو کم کیا جا رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پانی ذخیرہ تو ضرور ہو ، بجلی بھی پیدا ہونی چاہیے، لیکن اب وہ مزیدنہروں کے نکالنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔کالاباغ ڈیم کا جو اصل منصوبہ ہے ، اس میں سرحد اور پنجاب کے 30/25لاکھ ایکڑ کو سیراب کرنے کیلئے نہروں کا نکالاجانا طے ہے، جس سے اہل سندھ بجا طور پر خدشہ رکھتے ہیں کہ جو وافر پانی ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔ وہ پنجاب کے استعمال میں آئے گا، سندھ تو رہا بنجر کا بنجر !!

            اہل سندھ کا دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں ، پانی جب اوپر رک جائے گا، یا استعمال ہو جائے گا تو اس سے ، وہ پانی جو لازماً سمندر میں جانا چاہیئے ، کم ہو جائے گا۔ کوٹری ڈاؤن سٹریم میں 10 ایم اے ایف پانی جانا طے ہے، لیکن ڈیمز کی صورت میں ، ان کے بقول ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ جس کی وجہ شدید ماحولیاتی اور Ecologicalتبدیلیاں رونما ہونگی ۔ سندھ کا زیریں علاقہ زرخیز مٹی سے محروم ہو گا۔ سمندر اندر کو آگھسے گا، جس سے زیریں سندھ دلدل میں تبدیل ہو جائے گا۔ جنگلات ختم ہو جائیں گے۔ مچھلی کی صنعت تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ سندھ کی جھیلیں خشک ہو جائیں گی۔ جیسے ہی سندھ کا بہاؤ Slowہو گا اور کم ہو گا، تو اس سے پانی کی کوالٹی میں بھی فرق آئے گا۔ Pollutionبڑھ جائے گی۔

سیاسی مسئلہ :

            کالاباغ ڈیم ،محض ذخیرہ آپ کا منصونہ نہیں رہا ، بلکہ یہ بین الصوبائی سیاسی تنازعے کا رنگ اختیار کر چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا درد سر، پیچیدہ مخمصہ اور گنجلک سیاسی تنازعہ بن چکا ہے۔ اس کے سیاسی تنازعہ ہونے کا، اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں 3صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں نے ، جبکہ وہ مکمل خود مختار اسمبلیاں ہوا کرتی تھیں ، کالا باغ ڈیم کے خلاف قرار پاس کر چکی ہیں ۔ آج بھی مخالفت کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ اب جب صدر محترم یہ عزم کرتے ہیں کہ وہ مخالفت کے اس سیلاب کا رخ موڑ دیں گے ، تو واقعتا یہ خوش آئند بات لگتی ہے ، لیکن ہماری رائے میں ایک باوردی صدر ، ہزار بار چاہے ، ایسا قطعاً نہیں کر سکتا، کیونکہ سیاسی تنازعہ ،سیاسی پلیٹ فارم پر ، سیاسی قیادت ہی حل کر سکتی ہے اور سیاسی Lot،صدر محترم نے اپنے گرد اکٹھی کر رکھی ہے، وہ اس طرح کے گھمبیر مسئلے کو حل کرنے کے قطعاً نا اہل ہے۔

                       آپ بھلے ، اس کے ڈیزائن میں تبدیلی کریں ، آپ چاہے ہزار یقین دہانیاں کرائیں اور نقصانات کے ازالے کا پیشگی بندوبست کریں ، لیکن اس مسئلے کو سیاست کاری سے ہی حل کرنا ہو گا۔ بد قسمتی سے اس کی نوعیت محض معاشی اور آبی ذخیرہ کی نہیں رہی، بلکہ ہر گزرتا لمحہ اسے پنجاب بمقابلہ دیگر صوبے تنازعہ کا روپ دے رہا ہے۔ سندھ ، بلوچستان اور سرحد کے لوگوں نے واضح طور پر پنجاب کی بالا دستی اور دیگر صوبوں کی شاہ رگ پر پنجاب کی موجودگی سے تشبیہ دی ہے۔ ان صوبوں کا دانشور طبقہ ، مسلسل اس ڈیم کو ملی یکجہتی کے خاتمے اور قومی سالمیت کو سبو تاژ کر دینے والا اقدام قرار دے رہا ہے۔

                       اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت حوصلے سے کام لے اور اس الجھے ہوئے مسئلے کو ، صبر اور حکمت سے کام لیتے ہوئے سیاست کاری سے حل کرے ۔ ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کالا باغ ڈیم کے حق میں ہیں ، لیکن قومی یکجہتی اور ملکی سالمیت کی قیمت پر نہیں ۔

؂

مستحق فیصلہ :

            اپنی حالیہ نشری تقریر میں صدر محترم نے بلا شبہ نہایت حکمہانہ اور دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پہلے بھاشا ڈیم بنانے جا رہے ہیں اور کالاباغ ڈیم پر ابھی وہ Opinion Buildingکیلئے وقت دینا چاہ رہے ہیں ۔ ہم ان کے اس فیصلے کی بھر پور تحسین کرتے ہیں اور اب جب کہ انھوں نے خود اس موضوع پر بحث و تمحیث کے دروازے کھلے رکھے ہیں ، تو ہم عرض کریں گے کہ کالاباغ ڈیم پر قوم پر مسؤل کے اعتراضات کا Main Themeوطن عزیز میں قومی حکومت کی موجودگی ہے۔ ہم یہ عرض کریں گے کہ اعتماد کے ڈیم کی تعمیر کیلئے ،صدر محترم کو واضح اور دو ٹوک انداز میں خالص جمہوری حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنی چاہیئے ۔ اگر آپ ڈیم بنانے میں مخلص ہیں ، یقینا مخلص ہیں ، وگرنہ بحث اور افہام و تفہیم کا دروازہ کھلا نہ رکھتے ، تو ہم یہ گزارش کریں گے کہ آپ ملک بھر کی سیاسی اور جمہوری قوتوں کی طرف سے خیر سگالی کا ہاتھ بڑھائیں ، مذاکرات کریں اور ملک کا اقتدار ، اس کے اصل حقداروں کو لوٹانے کا بندو بست کریں ۔

                       دوسرے نمبر پر ہم یہ بھی گزارش کریں گے کہ صرف نئے ڈیم کی تعمیر پر زور نہ دیں ، بلکہ اعتماد سازی کے طور پر ، پوری واٹر پالیسی وضع کریں ۔ کاشتکاری کی جدید سہولیات کو ممکن بنائیں ، پانی کی چوری کو روکیں ، پانی کی تقسیم کے فارمولے کو بہتر بنائیں اور یہ کہ تربیلا اور منگلا کی De-Siltingکا منصوبہ بھی ضرور بنائیں ۔

                        یہ یقین رکھیں کہ محض ڈیم بنا دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ، اگر آپ Water VisionاورWater Management Systemکو خاطر خواہ بہتر نہیں بناتے ۔ اب جبکہ پانی کا پنڈورا بکس نکل چکا ہے تو لگے ہاتھوں پورا پیکج تیار ہونا چاہیئے تا کہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ مسئلہ دفن ہو جائے ۔