انتہاپسندی ، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے رویے تمام اقوام اور مذاہب میں پوری طرح موجود ہیں پھر ان کو صرف مسلمانوں سے مخصوص کرنا چہ معنی دارد؟
مسلم ممالک کی تنظیم او ۔ آئی ۔سی کے ممبر ممالک کے سربراہان کا تیسرا غیرمعمولی اجلاس ، پچھلے ماہ ، مکہ مکرمہ میں دو دن جاری رہ کر ختم ہوگیا۔ اس میں کم و بیش 57مسلم ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ پاکستانی وفد کی قیادت جنرل پرویز مشرف صاحب نے کی۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور وزیر اعظم ملائشیانمایاں رہے۔ مسلم ممالک کے سر براہان کا باقاعدہ سربراہی اجلاس تو ہر تین سال بعد ہونا طے ہے لیکن غیر معمولی حالات کی صورت میں ایمر جنسی اجلاس بھی منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ حالیہ اجلاس انھی حالات میں بلایا گیا تھا ۔ اس میں جو اعلانیہ منظور کیا گیا ہے اُسے "اعلانِ مکہ"کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دس سالہ الیکشن پلان بھی منظور کیا گیا ہے۔ اس اجلاس کا ایجنڈا اور زیرِ بحث آنے والے مسائل اور ان کے حل کی تجاویز مرتب کرنے کے لیے ، اس غیر معمولی سربراہی اجلاس سے پہلے ، عالم اسلام کے منتخب دانشوروں کا ایک فورم تشکیل دیا گیا تھا، جس کو مکہ فورم کہا جا تا ہے ۔ اس کے بھی کئی اجلاس ہو چکے تھے اور ان کے طے کردہ نکات بھی یہاں زیر بحث آئے ۔ اس غیر معمولی اجلاس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی اور جب اس کے انعقاد کا اعلان ہوا ، اور اس کے لیے مختلف فورم متحرک کیے گئے اور مختلف اطراف سے امید افزا اور جرات مندانہ بیانات آنا شروع ہوئے ، تو توقع تھی کہ دنیا بھر کے مسلم حکمران ، عالم اسلام کو درپیش مختلف مسائل پر کوئی متفقہ ادر جاندار مؤقف اختیار کریں گے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ غیرمعمولی اجلاس بھی ، محض نشتند ، گفتند اور برخواستند قسم کی کارروائی تھی اور امتِ مسلمہ کو درپیش سلگتے مسائل اپنا سا منہ دیکھتے رہ گئے اوروہ کہ جن کے ہاتھوں میں ان کے حل کرنے کی کنجی تھی وہ یہ جا اورو ہ جا۔
عالم اسلام ، جن گوناگوں مسائل کا شکار ہے ان میں سرفہرست مسئلہ اتحاد و یگانگت کے فقدان اور مختلف عوامل کے باعث باہمی انتشارو افتراق میں روزافزوں اضافہ ہے۔ اس لیے ، ہماری نظروں میں یہ تنظیم ، عالم اسلام کے اتحاد کی علامت اور امت کو درپیش مسائل پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کا بہترین فورم ہے۔ دنیا جس طرح گلوبل ویلیج کا روپ اختیار کرتی جارہی ہے ، اس میں مسلم ملکوں کے سیاسی اتحاد کا یہ فورم بہت عمدہ ذریعہ ہے ۔
کچھ دانشور عالم اسلام کے واحد مقتدر سیاسی حکمران ، جسے وہ خلیفہ کا نام دیتے ہیں ، کو ایک دینی ضرورت قرار دیتے ہیں اور وہ احیائے خلافت کی تحریکیں چلا رہے ہیں، لیکن ہم ان کے اس نظریے کو نہ تو دین کا مطالبہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے عصر حاضر میں عملاًممکن خیال کرتے ہیں، اس لیے آ جا کے یہی ایک فورم رہ جاتا ہے جس سے کچھ امید یں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ اور جس کو زیادہ بہتر اور مؤثر ادارہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس تنظیم کے مذکورہ غیر معمولی اجلاس سے خصوصی دلچسپی تھی، لیکن افسوس کہ یہ غیر معمولی اجلاس ، عالم اسلام کی رہنمائی اور نمائندگی کرنے کے لحاظ سے معمولی ثابت ہوا۔
کہنے کو تو ، اس کانفرنس میں دنیائے اسلام کو درپیش تمام مسائل پر غور کیاگیا، لیکن یہ سب کچھ ایک رسمی کارروائی تھی۔ کسی بھی مسٔلے پر زوردار موقف اختیار نہیں کیا گیا۔ کہنے کو تو 10سالہ ایکشن پلان بھی طے کیا گیا، جس میں امت کی بہتری کے لیے کافی تجاویز سامنے آئیں لیکن یہ تجاویزریت کے محل اور شیخ چلی کے خواب سے زیاد ہ کی حیثیت نہیں رکھتیں اور بقول جناب ارشاد احمد حقانی ،الفاظ کی فراوانی، خواہشات اور تصورات کے اظہار ، امنگوں ، آرزووں اور نیک تمناؤں کی بھر مار کا نام اگر کامیابی ہے تو پھر اس معیار سے یہ بڑی کامیاب کانفرنس تھی۔ ہماری رائے میں مسلم ممالک کے سربراہوں کااتنا بڑا اجتما ع دنیا میں جس طرح ایک ٹھو س اورمحسوس کیا جا نے والا واقعہ ہو نا چاہیے تھا ، اُس طرح ثابت نہیں ہوا اور دنیا پر اس غیر معمولی اجلا س کا جوImpactپڑنا چاہیے تھا ، وہ نہیں پڑا ۔ بلکہ اس کانفرنس کے اعلامیے اور اس میں کی جا نے والی تقاریر کے لب و لہجے اور main themeکے انتخاب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی ایجنڈے پر ، عالمِ اسلام کو چلانے کی با تیں کی جا رہی ہیں کیونکہ جس مبینہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے وہ امریکی دانشوروں کا ڈیزائن کردہ ہے ۔ افسوس ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کو دو ٹوک طریقے سے یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ تحریک ِ مزاحمت و آزادی اور نام نہا د دہشت گردی میں فرق کریں۔ اور یہ کہ انتہا پسندی اور بنیا د پرستی کو محض مسلما نو ں سے linkنہ کر یں یہ رویے، بدرجہ اتم ، دیگر مذاہب اور دیگر اقوام میں بھی مو جو د ہیں۔خود صدر امریکہ اور اس کے حواری ، سب سے بڑے عیسائی بنیا د پرست اور انتہا پسند ہیں لیکن افسوس، بزعم خود اس عالمی لیڈر کو کو ن یہ بات سمجھا ئے؟ اس پلیٹ فارم سے مغربی دانشوروں پر یہ واضح کر نا چاہیے تھا کہ وہ مغرب کی خدا نا آشنا تہذیب کو مسلم ممالک پر مسلط کر نے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور ایسی پالیسیاں مرتب کر نا ترک کر دیں، لیکن افسوس ایسا نہ کیا جا سکا ، بلکہ اس کے برعکس جس طریقے سے اس کا نفرنس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو comdemnکیا گیا وہ سراسر امریکی دما غوں کا سوچا ہواتھااور جس طرح عالمِ اسلا م کو اپنے نصاب تعلیم کو تبدیل کر نے کا کہا گیا ہے وہ بھی امریکی تھنک ٹینک کا سمجھا یا ہوا تھا اور جس روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی وہاں تبلیغ کی گئی ، اس کے پیچھے بھی انکل سام بول رہے تھے اس لئے ، اگر کو ئی دانشور حلقہ ، اس کا نفرنس کے مجمو عی ماحول کو مدنظر رکھ کر ، اسے امریکی وزارتِ خارجہ کے ایجنڈہ کو پورا کر نے کی کارروائی قرار دیتا ہے، تو ہما رے پا س اس کی تردید کے لئے کو ئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔
کا نفرنس میں ایک با ت بڑے شد ومد سے کی گئی کہ اسلا م ، امن و سلا متی اور پیا ر و آشتی کا دین ہے۔ بلا شبہ با ت یو نہی ہے ، لیکن اب یہ ایک فیشن بن گیا ہے۔ہر حکمران ، ہر سیا ستدان اور ہر وزیر یہ کہتا نظر آرہا ہے، جس سے ایسا دکھا ئی دیتا ہے کہ اپنے آقا کے حضور، یہ لوگ، معذرتیں پیش کر رہے ہیں،اصلاً ان کے سامنے اسلا م کی تعلیما ت کو واضح کر نا مقصود نہیں ہے۔
OICکے اعلامیے میں جس با ت پر زور دیا گیا ہے، وہ اسلا م کا نام نہاد نرم و نا زک چہرہ ہے۔ دینِ اسلا م کو نرم اسلا م اور گرم اسلا م ، اسی طرح سیا سی اسلا م اور غیر سیا سی اسلا م کے خانو ں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسلا م ، اسلا م ہے۔ اس کا ایک ہی چہرہ ہے۔اور اس کی ایک ہی تعلیم ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ عالمِ اسلام کے اس سب سے بڑے فورم پر ، بڑے جا ندار طریقے سے ان عوامل پر بات کر نی چاہیے تھی جس کی وجہ سے اس نرم و نازک چہرے پر سختی آئی اور گرمی پیدا ہو ئی۔ یہ بات واضح کر نی چاہیے تھی کہ ، عالمِ اسلا م کے نو جوانو ں کے اندر فروغ پاتاجہادی جذبہ ، دین کی تعلیمات کے بجا ئے، مغرب کے کا ر پردازان کی ان غلط اور دوغلی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو انہوں نے ایک عرصے سے عالمِ اسلا م پر مسلط کر رکھی ہیں۔یورپ پر واضح کر نا چاہیے تھا کہ کشمیر اور فلسطین اور افغانستان اور عراق میں، آگ اورخون کا کھیل جا ری ہے وہ سب امریکہ اور بر طانیہ کا کیا دھرا ہے ۔لیکن افسوس،یہ اعلامیہ اس قسم کے جرأت مندانہ مو قف سے تہی دامن ہے۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ 10سالہ پروگرام، محض لفا ظی اور خوشنما ارادوں کا مظہر ہے، تو کوئی مبالغہ نہیں کیونکہ اس میں عالمِ اسلا م کو لا حق بڑے بڑے مسائل جو فوری توجہ کے متقاضی تھے ، پر کو ئی ایکشن پلا ن نام کو بھی نہیں ۔ مکۃ المکرمہ میں جمع عالمِ اسلا م کے حکمرانوں کو یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہی، مسلم ملک عراق پر ، امریکہ کی غیر اخلا قی اور بلا وجہ فوجی جا رحیت جا ری ہے۔عراقی مسلمانو ں کا بہتا ہوا مقدس لہو کیا اس بات کا مطالبہ کرنے کے لیے کافی نہ تھا کہ امریکہ عراق سے اپنی فوجیں نکالے ۔کیا یہ منا سب نہ ہو تا کہ OICکے پلیٹ فارم سے ، فوجی انخلا کے لئے ، امریکہ سے ٹائم ٹیبل کا مطالبہ کیا جا تا اور اگر امریکہ اس موعودہ وقت پر اپنی فوجیں نہ نکا لتا تو اس کے خلا ف اقدامات تجویز کئے جا تے۔
لیکن یہ حکمر ان ایسا جرأت مندانہ اقدام نہیں کر سکتے تھے کیونکہ یہ سب با دشاہ ،آمر ،اور مارشل لا ایڈ منسٹریٹرز ہیں اوراپنے اپنے عوام کے سروں پر ، امریکہ بہا در کی اشیر باد سے ہی مسلط ہیں اس لیے اس کے خلاف کیسے بات کر سکتے تھے۔ جن کو اپنے گھر میں اعتماد حاصل نہ ہو ، ان کے اندر جرأت ِ گفتار کہا ں سے آسکتی ہے؟
اسلامی ممالک کے اندرونی مسائل پر بھی خوبصورت با تیں کی گئی ہیں۔خواب وخیا ل کے بڑے بڑے محل تعمیر کئے گئے ہیں، لیکن وہ اصل جو ہر ، جو ان کے تمام اندرونی مسائل کے حل کی شاہ کلید ہے، اُس کا ذکر اس سارے فسانے میں نہیں ہے۔ ہما ر ی مراد ، اس سیاسی نظام سے ہے جس میں کسی ملک کے عوام کی اپنی آزادانہ اور غیر جا نبدارانہ مرضی شامل ہو ۔ بد قسمتی سے OICکے ممبر ممالک میں سے ، ایک آدھ کو چھوڑ کر ، کسی بھی ملک کا سیاسی نظام، وہا ں کے لو گوں کی امنگوں اور ان کی آزاد آرا کا حامل نہیں ہے۔ بد قسمتی سے، سیاسی سطح پر ، ابھی تک وہ اپنے دین کے اس اصل قانونِ سیا ست کو نا فذ نہیں کر سکے جسے ربِ کریم نے ، وامر ھم شوریٰ بینھم کے سنہری فقرے میں بیا ن فرما یا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امت کی ترقی اور سرفرازی کا راستہ اسلامی ملکو ں میں جمہو ری ، آئینی اور قانو نی اقدار کے مکمل احیا پر ہے۔اگر یہ راستہ اختیا ر نہیں کیا جا تا، تو باقی سب منصوبے محض وقت گزاری اور وسائل کا بے جا استعما ل ہی ثابت ہو ں گے۔