نفس ناطقہ یا روحِ ملکوتی سے ہماری مراد وہ نورِ یزدانی Divine Spark ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ڈالا ہے، اور جس کو قرآن مجید میں : ونفخت فیہ من روحی، (اور انسان میں، میں نے اپنی روح پھونکی)کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی نورِ یزدانی سے مشرف ہونے کے بعد انسان فرشتوں کا مسجود بنا۔ یہی چیز ہے جس سے اس کو خیر اور شر کی معرفت حاصل ہوئی اور اس میں اعلیٰ اقدار کے احترام کا جذبہ پیدا ہوا۔ یہ نور چونکہ انسان کو زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے ملا ہے، اس وجہ سے اس کی لپک ہمیشہ خدا کی طرف رہتی ہے اور اگر نفس کے سفلی تقاضوں کے حجابات بہت سخت نہ ہوں تو یہ ہمیشہ انسان کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہے۔ انسان کے تمام اعلیٰ اوصاف کا، جو اس کو حیوانات سے ممتاز کرتے ہیں، سرچشمہ یہی ہے۔ اسی نور کی وجہ سے انسان عقل کی رہنمائی سے نوازا گیا اور وحی و الہام کی ہدایت کے لائق ٹھیرا۔ یہ ایک ملکوتی محرک ہے جوانسان کو اعلیٰ کاموں پر ابھارتا ہے اور اگر کوئی برا کام کر گزرتا ہے، تو اس برے کام پر اس کو ملامت بھی کرتا ہے۔ قرآن مجید نے اسی کو نفسِ لوامہ سے تعبیر فرمایا ہے۔سورہ قیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے اور اس کو ایک روز جزا و سزا کے ثبوت میں ایک نہایت اہم ا نفسی دلیل کی حیثیت سے پیش کیا ہے، جو لوگ ڈارون کے مادہ پرستانہ نظریہ ارتقا کے اندھے بہرے معتقد ہیں، وہ انسان کے اس باطنی نور سے بالکل بے خبر ہیں اور یہی بے خبری ہے جس کی وجہ سے وہ انسان کے بہت سے میلانات کی یا تو سرے سے کوئی توجیہہ کر ہی نہیں پاتے ، یاکرتے ہیں تو بالکل غلط کرتے ہیں۔ یہ لوگ ارتقا کی بعض گم شدہ کڑیوں کی تلاش میں حیران و سرگرداں ہیں حالانکہ اصلی کڑی جس کی انہیں جستجو کرنی چاہیے یہ ہے کہ جس کی نشاند ہی قرآن کر رہا ہے۔
( تزکیہ نفس: مولانا امین احسن اصلاحیؒ۔ ج۱، ص۲۲۲)
دین کی خدمت اپنی صلاحیت کے مطابق
ہمارا خیا ل یہ ہے کہ ہر آدمی انبیاؑ کے طریقے پر پورے دین کو لے کر نہیں اٹھ سکتا۔ بلکہ سچ پوچھیے تو ہم تو اس کو ایک خبط سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک تو ہما شما کے لیے اتنا ہی بس ہے کہ اپنی صلاحیت کے مطابق دین و ملت کی کوئی چھوٹی موٹی خدمت کر جائے۔ اگر اخلاص کے ساتھ نبیان ملت کی ایک اکھڑی ہوئی اینٹ بھی اپنے ہاتھوں اس کی جگہ پر جم گئی تو شاید نجات کے لیے وہی کافی ہوجائے۔ اس کو حوصلہ کی تنگی سمجھیے یا تجربہ کی تلخی، سب کچھ پانے کے ادعا کے زعم میں سب کچھ کھودینے کے بجائے سلامتی اسی میں نظر آئی ہے کہ ملت اسلامیہ کی خدمت کے بے شمار گوشوں میں سے جس خدمت کی صلاحیت اپنے اندر محسوس ہوئی ہے اس کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا یہ ہے کہ استقلال اور اخلاص نصیب ہو۔
(مقالاتِ اصلاحیؒ۔ ص۲۹۵۔۲۹۸، بحوالہ ماہنامہ اشراق نومبر ۱۹۹۸)