غار یوں بھی آبادیوں سے الگ تھلگ ہوتے ہیں لیکن غارِ ثور بہت دور ہے۔ اسے دنیا کے ہنگاموں سے دور کا بھی تعلق نہیں۔غارِ ثور بے آب و گیاہ علاقہ میں ہے۔ اس کا پہاڑ بھی غیر معروف ہے اور محلِ وقوع بھی نامعلوم علاقوں میں چھپا ہوا ہے۔ لیکن یہ غار تاریخ اسلام میں سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہے۔ یہاں سے اسلامی تاریخ کے خطوط بد ل گئے اور کفر کے منصوبے خاک میں مل گئے۔
۶۲۲ء کی بات ہے کہ اللہ کے آخری نبی حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ مکہ کے نرغہ سے نکل کر مدینہ منورہ کا رخ کیا اور اپنے سفر ہجرت کے آغاز میں اس غار کے اندر پناہ لی۔ اس طرح غارِ ثور کو حضورؐ کا ‘‘مامن’’ بننے کا شرف حاصل ہوا۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ رفیقِ سفر تھے۔ دونوں رفیقوں نے یہاں تین شب و روز بسر کیے۔
ادب کی دنیا میں تاریخ کے اس واقعہ سے نئے محاوروں کی بنیاد پڑ گئی۔ عربی زبان میں ‘‘رفیق فی الغار’’ اور اردو ، فارسی میں ‘‘یارِ غار’’ ایسے مخلص رفیق کو کہا جانے لگا جس کی صداقت اور رفاقت ‘‘غارِ ثور’’ کے ساتھی کی یاد تازہ کردے یعنی جس نے کسی حال میں اپنے محبوب دوست کو نہ چھوڑا۔
غارِ ثور کا سفر:
اسلام کے اعلان کو تیرہ سال ہوگئے تھے۔ توحید کا پیغام عربوں کے لیے کوئی نیا نہ تھا۔حضرت اسمٰعیل ؑ ذبیح اللہ نے اپنی پوری زندگی اس ارضِ پاک میں بسر کی تھی۔ اور مکہ کے قریشی انہی کے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ وہ اللہ کے نام سے نا آشنا نہ تھے۔ وہ اپنے بچوں کے نام ‘‘عبداللہ’’ بڑے شوق سے رکھتے تھے۔ مگر ان کی مصلحتیں انہیں اسلام سے دور کر رہی تھیں۔ ذاتی مفاد، وجاہت کا تصور اور امیری ، غریبی کا سوال انہیں حضور پاکؐ کا دشمن بنا رہا تھا۔
مکہ والوں نے حضرت رسولِ کریمؐ کو بڑے بڑے لالچ دیے ،زر،زن اور زمین کی پیش کشیں کیں۔ مگر آپؐ کا مقصد اِن چیزوں کو حاصل کرنا نہ تھا۔آپؐ تو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے بہت ستایا۔ جان و مال پر بار بار حملے کیے۔ کئی ساتھیوں کو تو مار ہی ڈالا۔ معاشرتی مقاطعہ کر کے ایک گھاٹی میں نظر بند کر دیا۔ مگر یہ وہ ‘‘نشہ نہ تھا جسے ترشی اتار دے۔’’
ایک دن مکہ کے تمام قبیلوں کے تیرہ کے تیرہ سردار اپنے پنچایت گھر ‘‘دارالندوہ’’ میں جمع ہوئے۔ اس خفیہ اجلاس میں انہوں نے طے کیا کہ رات کی تاریکی میں آپ پر حملہ کر کے (خاکم بدہن) ختم ہی کر ڈالیں۔ اس پر سب نے حلف اٹھائے۔ ہر قبیلہ سے ایک ایک نوجوان کو اس سفاکانہ مقصد کے لیے منتخب کر لیا گیا، تاکہ کسی ایک فرد پر خون کا الزام نہ آئے۔
غارِ ثور کی تیاری:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الٰہی سے دشمنوں کی سازش کا علم ہوگیا۔ آپؐ نے راتوں رات شہرِ مکہ چھوڑنے کا قصد کر لیا۔ ان دشمنوں نے جو امانتیں حضورؐ کے پاس رکھی ہوئی تھیں، وہ اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کے سپرد کیں۔تا کہ وہ صبح اٹھ کر انہیں واپس کر دیں۔ اس سے فارغ ہو کر اپنے بچپن کے دوست اور اسلام کے اولین شیدائی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے گھر گئے اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت ِ مدینہ کی اطلاع دی۔ ایک سچے عاشق کے لیے اس سے بڑی خوش بختی اور کیا ہوسکتی تھی کہ وہ اپنے محبوبؐ کے لیے سب کچھ قربان کر دے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فوراً تیار ہوگئے۔ ان کی بڑی بیٹی اسما ؓ نے کھانے پینے کا کچھ سامان تیار کیا۔ اور کپڑوں کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی بنا دی۔ باندھنے کو کچھ نہ ملا تو اپنے سر سے اوڑھنی اتار کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور ان سے گٹھڑی باندھ دی۔ آنحضرتؐ نے بے ساختہ پیار سے ‘‘ذات النطاقین’’ کا لقب دیا۔یعنی ‘‘دو اوڑھنیوں والی۔’’ اور یہ لقب ایسا چلا کہ سب انہیں اسی لقب سے پکارنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اسی خاتونِ محترم کے بطن سے پیدا ہوئے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیٹے کو اپنے سفر کے سلسلہ میں کچھ ہدایات دیں اور اس مقصد کے لیے ایک تیز رفتار اونٹنی منتخب کی۔ چور راستوں سے با خبر ایک رہبر ساتھ لیا اور رات کی تاریکی میں سب کچھ چھوڑ کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔
مکہ کے تمام قبیلوں کے منتخب مسلح نوجوان نبی کریم ؐ کے گھر کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ یہ لوگ اپنی دانست میں آج رات نعوذ باللہ شمعِ رسالت ؐ کو گل کرنے آئے تھے۔ مگر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بستر سے اٹھے، اللہ کا کلام پڑھتے ہوئے دشمنوں کے عین درمیان سے باہر نکل آئے۔ ان جیتے جاگتے پہرہ داروں کی آنکھوں پہ پردے پڑ گئے اور انہیں آپؐ کے رخصت ہوجانے کا پتاہی نہ چلا۔
غارِ ثور کی پناہ:
صبح کی روشنی میں جب راز کھلا تو ان چنے ہوئے بہادروں کی شرمندگی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ وہ خفت اور ندامت سے کسی کے آگے نگاہیں اونچی نہ کر سکتے تھے۔ مکہ بھر میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ ہر شخص کی زبان پر ایک نیا سوال تھا۔ وہ کہاں گئے؟ کس راستہ سے گئے؟ کیسے گئے؟ کیوں کر گئے؟ انہیں ہماری سازش کا کیسے پتا چل گیا؟ ہمارے حملہ آوروں کی آنکھوں پر کیسے پردے پڑ گئے؟ سوال ہر ایک کی زبان پر تھا، جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
قریش مکہ کے جاسوس تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے ہاں بلا کے کھوجی موجود تھے۔ وہ ہر راستے پر اور ہر پہاڑ میں پھیل گئے۔ انہیں بڑے بڑے انعاموں کے لالچ دیے گئے۔ کسی نے کہا:‘‘زندہ پکڑ لاؤ گے یا (نعوذ باللہ)سر بریدہ بھی لے آؤ گے تو سو سرخ قیمتی اونٹ انعام دوں گا۔’’ کسی نے نقد انعام دینے کا اعلان کیا۔ عورتیں بھی اپنے مردوں سے پیچھے نہ رہیں۔ انہوں نے گلے کے ہار اور اپنے دوسرے زیورات بطور انعام دینے کا لالچ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر شخص کے سر میں ایک ہی سودا سما گیا۔ کہ کسی طرح اللہ کے نبی ؐ اور ان کے رفیق کو ڈھونڈ لائے۔شہر سے روانہ ہوتے وقت حضورؐ نے مکہ کی طرف ایک بار پھر مڑ کر دیکھا۔ اور اس مقدس بستی کو مخاطب کرتے ہوئے بصد حسرت فرمایا:‘‘اے شہرِ مکہ! مَیں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں تو اللہ کے تمام شہروں میں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اللہ بزرگ و برتر کی پیدا کردہ زمین میں تیری سرزمین سب سے بہترین ٹکڑا ہے۔ خود اللہ تو سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر مجھے مشرک یہاں سے نکال نہ دیتے تو میں یہاں سے باہر کہیں نہ جاتا۔’’
غارِ ثور کو روانگی:
حضورِ اکرمؐ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ ‘‘غارِ ثور’’’ میں کیسے آئے؟ اور یہاں سے مدینہ منورہ کی طرف کب روانہ ہوئے؟ تاریخ اور دن کیا تھا؟ اس بارہ میں مختلف اقوال ہیں۔
حتمی طور پر تاریخ کا تعین کسی حد تک مشکل ضرور ہے ، ناممکن نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام سے قبل عربوں میں کوئی کیلنڈر سرے سے رائج نہ تھا۔ وہ سال کا نام واقعات سے منسوب کر کے رکھ لیتے تھے۔ مہینے اور تاریخ کا تعین بھی آسان نہ تھا کیونکہ عرب میں بیک وقت ہر شہر میں مختلف تاریخیں رائج رہتی تھیں۔ ایسے حالات میں کسی تاریخ کا محفوظ نہ رہنا تعجب کی بات نہیں۔ ملک عرب پر جہاں اسلام کے اور بڑے احسانات ہیں وہاں ایک مستقل کیلنڈر کا رائج کرنا بھی ایک احسان سے کم نہیں۔ مسلمانوں کا سنہ ہجری اسی ہجرت کے سال سے شروع ہوتا ہے۔
سفرِ ہجرت پر روانگی اور غارِ ثور میں حضورؐ کی آمد نبوت کے تیرھویں سال ربیع الاول کی ابتدائی تاریخوں میں ہوئی۔ اس پر سب کو اتفاق ہے۔ یہ مہینہ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ سنہ عیسوی کے اعتبار سے ستمبر کی کوئی درمیانی تاریخ تھی (سیرۃ النبیؐ از شبلیؒ) رسول اللہ کی عمر مبارک کا یہ تریپن واں ۵۳ سال تھا۔
عام طور پر مورخین کا خیال ہے کہ غارِ ثور میں رحمت اللعالمینؐ کی آمد یکم ربیع الاول کو ہوئی یعنی عیسوی سال کی ۱۶ ستمبر ۶۲۲ء کو۔ دن دو شنبہ یعنی سوموار کا تھا ۔ اور وقت قبل صبح صادق کا تھا بعض حضرات کی تحقیق ہے کہ یکم ربیع الاول ۲ ستمبر ۶۲۲ء غار میں آمد کی تاریخ نہیں بلکہ غارِ ثور سے مدینہ منورہ کو روانگی کی تاریخ ہے۔
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے محققین کا خیال ہے کہ آپ ۸ ربیع الاول کو مدینہ پہنچے۔ یہ ستمبر۶۲۲ء کی ۲۰ تاریخ تھی۔ مدینہ منورہ میں آپ کی تشریف آوری کی تاریخ ۱۲ ربیع الاول معین کی گئی ہے۔ دن دو شنبہ تھا۔ دن کے بارہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ خود حضورؐ کا ارشاد موجود ہے کہ میری پیدائش اور ہجرت کا دن ایک ہی ہے یعنی دو شنبہ۔
کوہِ ثور:
کوہِ ثور مکہ مکرمہ سے تین میل دور مکہ شہر کے جنوب میں واقع ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سطح زمین سے تقریباً ایک ڈیڑھ میل بلند ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی ۳۲۰۰ فٹ ہے اور مکہ مکرمہ کی سطح سے اس کی بلندی بارہ سو فٹ ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سمندر سے بخوبی نظر آتی ہے۔ چوٹی کے قریب ہی یہ تاریخی غار واقع ہے۔
غار ثور یمن کے راستہ میں واقع ہے۔ پہاڑ کا سلسلہ کم و بیش چار میل کے اندر پھیلا ہوا ہے۔ پہاڑ کی چڑھائی نا ہموار اور سیدھی ہے۔ اس لیے خاصی دشوار گزار اور مشکل ہے۔ میدانی علاقہ تک سواری آسانی سے جاسکتی ہے۔ لیکن اوپر گدھوں کے لیے بھی چڑھنا دشوار ہے۔
جبلِ ثور پر مختلف قسم کے درخت موجود ہیں۔ بَلِسیان کے درخت کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس درخت کے مختلف اجزا ادویہ کی فہرست میں شامل ہیں ۔ خصوصاً پیچش اور بد ہضمی کا مؤثر علاج ہیں۔
گمانِ غالب یہ ہے کہ اس پہاڑ کا نام ثور بن عبد منات کی نسبت سے ہے۔ یہ شخص حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں گزرا ہے۔ خاندانِ قریش کے مورثِ اعلیٰ یعنی فہر کی پانچویں پشت میں ہوا ہے۔ اس کا سلسلہ نسب یوں چلتا ہے:فہر<مالک<نصر<کنانہ<عبدمناۃ<ثور
ثور بن عبد منات کی اولاد میں بنومنات کی اولاد میں بنو لالج، دویلی ، بنو حمزہ اور بنو النظر قبائل نے بہت شہرت پائی۔
کہتے ہیں کہ ثور بن مناۃ اپنے سفر کے دوران اس پہاڑ پر آکر ٹھہرا تھا۔ اس وجہ سے اس پہاڑ کا نام ‘‘جبل الثور’’ پڑ گیا۔(سبیل الرشاد۔ قاضی سلیمان منصور پوری)
غارِ ثور کی کیفیت:
غار ثور اس بلندو بالا پہاڑ کی چوٹی کے قریب کوئی دو فرلانگ نشیب میں عام گزر گاہ سے ہٹ کر پہاڑ کی داہنی جانب واقع ہے۔ غار کا رقبہ تقریباً دو مربع میٹر ہے۔ غار کا دہانہ بہت تنگ ہے۔ آدمی بمشکل اند رداخل ہوسکتا ہے۔ غار کا منہ سطح زمین کے برابر پتھروں میں چھپا ہوا ہے۔ اندر جانے کے لیے سر کو قدرے جھکاکر داخل ہونا پڑتا ہے۔سیدھا کھڑے ہوکر اندر جاناممکن نہیں۔
غار کے اصل دہانہ کے قریب ایک بڑا سا دروازہ ہے۔ جو غالباً بعد میں بنایا گیا ہے۔ اب غارِ ثور زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اکثر
با ہمت حجاج اور دوسرے عشاق اس کی زیارت کو جاتے ہیں ۔ کمزور لوگوں کے لیے اس نا ہموار اور سیدھے پہاڑ کی چڑھائی چنداں آسان نہیں ہے۔
غار کی وسعت کچھ زیادہ نہیں ۔ سات ، آٹھ آدمی بمشکل اندر بیٹھ سکتے ہیں۔ اندرونی بلندی پانچ یا ساڑھے پانچ فٹ ہوگی۔
اب ہم پھر حضورِ اکرمؐ کے قیامِ غار والے واقعہ کی طرف آتے ہیں۔
غارِ ثور میں قیام:
اس غار میں دونوں رفیقانِ سفر تین رات دن رہے۔ دشمن تلاش کرتے ہوئے اس کے دہانہ تک پہنچ گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حفاظت کی صورتیں پیدا کردیں۔ مثلاً ببول کے ہرے بھرے درخت نے راستہ چھپا لیا۔(مسند امام احمد بن حنبلؒ) کیونکہ قدرتی طور پر یہ درخت کچھ اس طرح اُگا ہوا تھا کہ غار کا راستہ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل رہتا تھا۔ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا بن دیا۔(مسند بزاز)
کبوتروں نے اپنے گھونسلے میں انڈے دے دیے۔(مواہب علامہ زرقانی)یہ صورتِ حال دیکھ کر کوئی کھوجی اندازہ نہ کر سکا کہ یہاں کوئی داخل ہوا ہوگا۔
غارِ ثور میں پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ داخل ہوئے۔ انہوں نے غار کو صاف کیا۔ اپنی چادر پھاڑ کر غار کا ایک ایک سوراخ بند کیا۔ پھر بھی ایک سوراخ باقی رہ گیا اور چادر کے ٹکڑے ختم ہوگئے۔ اس سوراخ میں آپ نے اپنے پاؤں کا انگوٹھایا ایڑی رکھ لی۔تا کہ تاریکی میں کوئی موذی کیڑا اس سوراخ سے حبیبِ خداؐ کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اللہ کی حکمت دیکھیے کہ اس بل میں کوئی موذی کیڑا موجود تھا۔ اس نے ابو بکر صدیقؓ کو ڈس لیا۔مگر یارِ غار نے اُف تک نہ کی۔ رسولِ خداؐ کو پتا چلا تو آپؐ نے اپنا لعاب دہن لگا دیا اور اللہ کے فضل سے ان کی تکلیف دور ہوگئی۔
ابن ہشام کا بیان ہے کہ جتنا عرصہ یہ رہروانِ راہِ محبت یہاں مقیم رہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیٹی اسماؓ گھر سے کھانا تیار کر کے روزانہ شام کے وقت غار میں پہنچا آتی تھیں۔ اور ان کے بھائی عبداللہؓ بن ابو بکرؓ دن بھر کفارِ مکہ کی باتیں اور منصوبے معلوم کرتے اور شام کو چپکے سے غار پر جا کر سب کچھ بتلا آتے تھے۔ بلکہ رات بھر غار میں ہی رہتے تھے اور صبح منہ اندھیرے شہر واپس آجاتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ایک غلام شام کو بکریاں چرا کر لاتا۔ اور پھرتے پھراتے غار کے قریب آجاتا۔ اور دونوں ‘‘رفیقانِ غار’’ کو دودھ پلا دیتا۔ اس کا نام عامر بن فہیرہ تھا۔
دشمن غارِ ثور کے منہ پر:
غار میں پناہ لینے کے دوسرے ہی دن کی بات ہے کہ مکہ کے کھوجی ڈھونڈتے ہوئے غار تک پہنچ گئے۔ ان کے کھوجی نقشِ پا کا سراغ پاتے ہوئے آسانی سے یہاں تک آگئے تھے۔ آگے قدموں کے نشان نہیں تھے۔ قدرتی طور پر انہیں خیال ہوا کہ کہیں اس غار میں نہ ہوں۔ چنانچہ یہ لوگ اس قدر قریب آگئے کہ ان کی باتیں سرورِ دو عالمؐ اور ان کے رفیق غار کو غار میں سنائی دے رہی تھیں اور ان کے قدموں کی چاپ اندر پہنچ رہی تھی۔صدیق اکبرؓ اس صورتِ حال سے قدرتی طور پر گھبرا گئے۔ عرض کی ‘‘ یارسول اللہؐ’’ اگر اپنے قدموں پر ان کی نظر پڑ جائے یعنی نیچے غور سے نظر ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ مورخین نے حضرت صدیقِ اکبرؓ کی یہ گفتگو ان الفاظ میں بیان کی ہے:‘‘یا رسول اللہ! پاؤں کی چاپ سنائی دے رہی ہے اور ان کے پاؤں نظر بھی آرہے ہیں۔’’وحیِ الٰہی نازل ہوئی:‘‘لا تخزن ان اللہ معنا۔’’ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے(۹:۴۰)پھر مخبر صادق نے فرمایا:‘‘اے ابوبکرؓ! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ جن کے ساتھ تیسری ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔’’
ایک روایت یوں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے گھبرا کر کہا:‘‘یا رسول اللہؐ! اگر میں مارا گیا ، تو کوئی بات نہیں۔ یہ ایک شخص کی موت ہوگی اور اگر خدانخواستہ آپؐ شہید کر دیے گئے تو یہ آپ کی موت نہ ہوگی بلکہ ایک پوری قوم کی ہلاکت ہوگی۔’’(بخاری شریف: باب الہجرۃ)
اللہ اکبر !دشمن غار کے منہ پر پہنچ کر بھی کھوج نہ پاسکے۔ مکڑی کے جالے نے، ببول کی شاخوں نے اور کبوتروں کے انڈوں کی موجودگی نے ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قدرتِ الٰہی نے ان کے قدموں کو اس طرف آنے سے روکا اور وہ ڈھونڈتے ہوئے غار میں داخل ہونے کے بجائے اِدھر اُدھر نکل گئے۔
غارِ ثور سے روانگی:
رفیقانِ سفر چھپتے چھپاتے چوتھے دن ‘‘غارِ ثور’’ سے نکلے اور مدینہ منورہ کی راہ لی۔ سواری کے لیے حضرت ابو بکر ؓ کی اونٹنی تھی۔ راستہ بتانے کے لیے ایک با اعتماد رہنما عبداللہ بن اریقط کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اس لیے کہ سیدھے اور جانے پہنچانے راستہ کو چھوڑ کر ایسا چور راستہ اختیار کرنا ضروری تھا جس سے عام لوگ واقف نہ ہوں۔
راہِ حق کے مہاجرینِ کرام نے غارِ ثور سے نکل کر سیدھے راستہ سے مدینہ کی طرف چلنے کے بجائے وادئِ فاطمہ کا رخ کیا۔ اور اس کے عقبی حصہ تک آگئے۔یہ وادی مکہ سے جدہ کو جانے والی موجودہ جدید سڑک کے قریب ہے۔ اس کے نزدیک ہی صلح حدیبیہ کا مقام ہے۔ گویا ابتدا میں سمندر کے کنارے کنارے سفر کیا۔ پھر مدینہ کا رخ کیا اور مسلسل ایک رات سفر کرنے کے بعد دوسرے دن دوپہر کے قریب ایک چٹان کے سایہ میں آرام کیا۔
مدینہ منورہ کا یہ چند روز کا مختصر سفر بے راہوں کی وجہ سے کئی دن میں طے ہوا۔ راستہ میں ایک منزل ام معبد کے خیمہ میں ہوئی جہاں حضورؐ نے بطور ِ معجزہ اس کی خشک تھنوں والی بکری سے دودھ حاصل کیا۔ اس طرح پرانے نوشتوں کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوگئی، کہ آنے والا نبیؐ خشک تھنوں سے دودھ نکالے گا۔
دورانِ سفر ایک اور اہم واقعہ پیش آیا۔ آپ رابغ کے موجودہ قلعے اور ساحلِ سمندر کے درمیانی میدان میں تھے کہ عرب کا ایک مشہور بہادر سُراقہ بن جعشم کھوج نکالتے نکالتے پیچھے سے آ پہنچا۔ سراقہ مسلح تھا۔ وہ انعام کے لالچ میں گرفتار کرنے کے خیال سے تیز رفتار گھوڑے پر تعاقب کر رہا تھا۔ قریب پہنچا تو گھوڑا گر گیا۔ دوبارہ گھوڑے کو ایڑ لگائی مگر گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی۔ تیسری بار پھر کوشش کی۔ مگر اس مرتبہ بھی گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر گیا۔
سراقہ کو پھر بھی سمجھ نہ آئی کہ مشیت الٰہی کیا ہے۔ وہ سمجھا کہ اس پر جادو ہوگیا ہے۔ اور وہ دور سے ہی دہائی دینے لگا۔ حضرت رسولِ اکرمؐنے اسے معاف کر دیا۔اور ابو بکر صدیقؓ سے فرمایا کہ اسے امن کا پروانہ لکھ کر دے دیں۔ جب وہ واپس جانے لگا تو فرمایا: ‘‘سراقہ! اس دن کا تصور کرو، جب ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہوں گے۔’’ وہ ہنس دیا۔ اس وقت اس نے اس بات کو ایک مذاق سے زیادہ نہ جانا۔ اس نے خیال کیا ہوگا، بھلا جنہیں وطن سے یوں چوری چھپے بھاگنا پڑ رہا ہے وہ ایران جیسی عظیم الشان حکومت کو کیونکر فتح کرلیں گے۔ اور مجھے کسریٰ کے کنگن کیسے پہنائیں گے۔’’
اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھیے کہ آج کے کمزور کل کے سب سے بڑے طاقتور بنے۔ پورے عرب پر انہیں اقتدار حاصل ہوا۔ اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایران فتح ہوگیا۔ سراقہ زندہ تھے اور مسلمان ہوچکے تھے۔ حضرت عمرؓ نے مالِ غنیمت میں سے کسریٰ کے کنگن نکال کر سراقہ کو پہنائے۔ اللہ کے نبیؐ نے بے کسی کے عالم میں غارِ ثور سے جاتے ہوئے جو کچھ کہا تھا وہ حرف بہ حرف پورا ہوا۔ صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہٖ وسلم۔