‘‘دو وزیروں کادورہ خاص طور پر میرے دل پر نقش ہے ۔ ان کی آمد پر دو میل (آزاد کشمیر) کے پار کئی سو افراد ان کے والہانہ استقبال کے لیے پل کے قریب جمع ہو گئے ۔ دونوں وزیر کار سے نیچے اتر کر لوگوں سے ہاتھ ملانے لگے ، تو ایک چھوٹے موٹے جلسے عام کی سی صورت پیدا ہو گئی ۔ مسلم کانفرنس کے چند لوگوں نے بڑی جوشیلی استقبالی تقریریں کیں ۔ سامعین میں سے ایک بزرگ صورت شخص نے اٹھ کر رقت بھری آواز میں کہا: ‘‘جناب پاکستان ایک عظیم ملک ہے ۔ آزاد کشمیر تھوڑا سا علاقہ ہے ۔ آپ اس علاقے کو لیبارٹری اور ہم کو تجرباتی چوہوں کی طرح استعمال میں لائیں ۔ اسلامی احکامات اور قوانین کو پہلے یہاں آزمائیں اور پھر اس تجربہ کی روشنی میں انہیں پاکستان میں نافذکرنے کا سوچیں ۔
اس بوڑھے کی یہ بات سن کر سارا مجمع سناٹے میں آگیا ۔ پھر اچانک دونوں میں سے ایک وزیر باتدبیر جوش و خروش سے اٹھ کر فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے لگے ۔ جوش خطابت میں انہوں نے کوٹ کی جیب سے ایک لاکٹ نما سی چیز نکال کر مجمع کے سامنے لہرائی اور بولے : ‘‘ بھائیو، آپ اور ہم کس کھیت کی مولی ہیں کہ اللہ کے قانون کو آزما آزما کر تجربہ کریں ۔ یہ دیکھو یہ اللہ کا قانون ہے جو چودہ سو برس پہلے نافذ ہو چکا ہے اور جس پر عمل کرنا ہم سب کا دینی ، اخلاقی اور ایمانی فرض ہے ……’’ وزیر صاحب کی تقریر میں اسلامی جذبات ایسی شدت سے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے کہ سامعین میں سے چند رقیق القلب لوگ بے اختیار رو پڑے ۔
واپسی میں احتراماً میں ان دونوں وزیر صاحبان کو کوہالہ کے پل تک چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا ۔ ایک وزیر نے دوسرے وزیر کی شاندار تقریر پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسانے کے بعد پوچھا : ‘‘ بھائی صاحب! آپ کے پاس قرآن شریف کا لاکٹ بڑا خوبصورت ہے ، یہ تاج کمپنی کا بناہوا ہے یا کسی اور کا ؟’’ دوسرے وزیر صاحب کھلکھلا کر ہنسے اور لاکٹ جیب سے نکال کر بولے : ‘‘ارے کہاں بھائی صاحب یہ تو محض سگریٹ لائٹر ہے ۔ وزیروں کی یہ جوڑی ملک غلام محمد اور نواب مشتاق احمد گورمانی پر مشتمل تھی۔’’(بحوالہ شہاب نامہ ، ص 423 )
انہیں میں سے ایک صاحب پاکستان کے گورنر جنرل بھی قرار پائے ۔ اور انہی کی روحانی اولادآج کے پاکستانی جسم پر بچے کھچے گوشت کو نوچنے کے لیے نئے نئے طریقے سوچتی اور روبہ عمل لاتی رہتی ہے ۔