حکمت عملی:
سقیفہ بنی ساعدہ میں صحابہ کرامؓ اور خاص و عام مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ بھی موجود ہیں مگر یہ لوگ اپنی خواہش سے نہیں آئے ہیں بلکہ حالات کی نزاکت اور مسلمانوں کی خیر خواہی ان کو یہاں لائی ہے ۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف بھی موجود ہیں۔ رسول کریم ﷺاس دنیا سے تشریف لے جاچکے ہیں مگر ان کی تجہیز وتدفین سے قبل ہی خلافت کا مسئلہ چھڑ گیا ہے۔
تین گروہ خلافت کے دعویدار ہیں ایک مہاجر، دوسرے انصار اور تیسرے بنی ہاشم۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کا اجتماع ہو ا تو مہاجرین بھی اس غرض سے وہاں جاپہنچے۔حضرت علیؓ اور دیگر بنی ہاشم حضرت فاطمہؓ کے مکان پہ جمع ہو کر خلافت کے متعلق مشورے کر رہے ہیں۔ انصار کے سرکردہ سعد بن عبادہؓ ہیں اور یہ اپنی خلافت کی فکر میں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ انصار نے مسئلہ خلافت چھیڑ کر گویا حالات ناز ک سے نازک تر کر دیے ہیں۔پھرمسئلہ یہ ہے کہ خود انصار دو گروہوں میں منقسم ہوچکے ہیں۔ بنی ہاشم حضرت علیؓ کے سوا اور کسی کی خلافت پسند نہیں کرتے اور صاف کہہ چکے ہیں۔ان حالات میں یہ مسئلہ نہایت اہم بن چکا ہے۔ ادھر مدینہ منافقوں سے بھرا پڑا ہے جو نہ صرف اسلام کی تباہی کے آرزو مند ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی برباد کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اس لیے حضرت عمرؓ اور ان کے رفقا نے مسئلہ خلافت کو رسول اللہﷺ کی تدفین سے بھی مقدم سمجھا تا کہ مسلمان آپس کے فساد سے محفوظ رہ سکیں۔اور رسول اللہﷺ نے اپنے خون سے جو کھیتی لگائی تھی وہ نااتفاقی سے کہیں برباد نہ ہوجائے۔
سقیفہ میں بحث شروع ہوتی ہے ایک انصاریؓ: خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہیے کیوں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی رفاقت جان بازی سے کی ہے اور اسلام کی خدمت اور اشاعت تبلیغ میں بھی غیر معمولی ایثار سے کام لیا ہے۔حضرت عمرؓ: آپ کی خدمات سے کبھی بھی انکار نہیں ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ آپ کی امامت قریش اور مہاجرین قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ ان کے مزاج کے خلاف ہے۔آوازیں: بے شک! بے شک!
سعدؓ بن عبادہ انصاری: اچھا دو خلیفہ ہوں ایک ہم میں سے اور دوسرا آپ میں سے۔عمرؓ:یہ بھی مناسب نہیں۔ کیونکہ اس سے بد نظمی پیدا ہوگی۔ پس ضرورت ہے کہ خلیفہ کسی قابل شخص کو بنایا جائے اور خلیفہ ایک ہی ہو۔آوازیں: بے شک، بے شک۔ خلیفہ ایک ہی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد گفتگو ہوئی اور بہت سی بحث کے بعد حضرت عمرؓ نے پہل کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا یعنی ان کو خلیفہ اور امام تسلیم کیا اور ان سے بیعت خلافت کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمان ؓ بن عوف نے بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ سے بیعت کر لی ۔ انصار بھی ابوبکرؓ کے نام پر کوئی اعتراض نہ کر سکے اوران کی اکثریت نے بھی بیعت کر لی۔اصل میں عمرؓ کا انتخاب ہی ایسا تھا کہ کوئی مزید بول نہ سکا۔ اس طرح حضرت عمر ؓکے بروقت فیصلے نے مسلمانوں کو ہولناک خونریزی اور خانہ جنگی سے بچا لیا۔
اعتماد:
مسجد نبوی میں سیدّنا عمرؓ اور بہت سے صحابہ کرام تشریف فرما ہیں۔ بہت سے فریادی اور مظلوم موجود ہیں اورانصاف فراہم کیا جا رہا ہے۔اسی اثنا میں ایک طرف سے چند نوواردافراد کی آمد ہوتی ہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو جوان ایک خوبصورت جوان کو پکڑے لا رہے ہیں۔
دونوجوانوں میں سے ایک بولتا ہے ۔ الغیاث یا امیر المومنین، الغیاث: یہ نوجوان میرے باپ کا قاتل ہے۔ پس اس سے ہمارا حق دلوائیے اور قصاص لیجیے۔دوسرا: اس نے ہم دونوں کے بوڑھے باپ کو قتل کیا ہے۔ پس اس سے قصاص لیاجائے۔ یہ سن کر تمام حاضرین اس جوان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ خلیفہؓ: (ملزم سے) تم ان دونوں کا استغاثہ سن چکے ہو۔ اب تم اپنی صفائی پیش کرو ۔ملزم : یا امیر المومنینؓ میرا دماغ آتش غضب نے مشتعل کر دیا تھا پس میں نے ایک پتھر کھینچ مارا جس کی ضرب سے پیر مرد یعنی ان کا باپ جانبر نہ ہو سکا۔خلیفہؓ: افسوس، تو تم مجرم ہو یعنی قاتل، کیونکہ تم نے خود اعتراف جرم کر لیا ہے۔ پس قصاص لازم ہوا۔ اب تمہاری جان نہیں بچ سکتی۔ نوجوان مجرم: (سر جھکا کر) مجھے دین اسلام کے قانون اور خلیفہؓ کے فیصلے سے مجال انکار نہیں ہے لیکن ایک اعانت چاہتا ہوں یا مہلت۔ خلیفہؓ:کہو کیا چاہتے ہو۔ تمہاری درخواست پر غور کیا جائے گا۔جوان: امیر المومنین، میرا ایک خورد سال بھائی ہے جو ہنوز نابالغ ہے ۔ والد مرحوم نے اس کے واسطے کچھ سونا چھوڑا ہے جومیرے قبضے میں ہے اور میں نے اسے ایک جگہ دفن کر رکھاہے۔ یہ راز میرے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔خلیفہؓ: پھر تم اس کے متعلق کیا کرنا چاہتے ہو۔نوجوان: ظاہر ہے کہ وہ سونا حقدار کے پاس نہ پہنچا تو روز قیامت مجھ سے مواخذہ ہو گا۔خلیفہؓ: یہ سچ ہے۔ پھر تم کیا کرنا چاہتے ہو؟نوجوان: میں چاہتا ہوں کہ مجھے تین دن کی مہلت دی جائے تا کہ میں نابالغ کی امانت کسی امانت دار کے سپرد کر آؤں جو نابالغ کے بالغ ہوجانے کے بعد اس کی امانت اس کے حوالے کر دے۔یہ سن کر خلیفہؓ اس بارے میں غور کرنے لگتے ہیں اوردیگر صحابہ کرام بھی سوچنے لگتے ہیں۔خلیفہؓ: اے نوجوان! تمہیں اس کام کے لیے تین دن کی مہلت دی جاسکتی ہے بشرطیکہ کوئی معتبر آدمی تمہاری ضمانت دے دے۔جوان نے یہ سنا تو سر اٹھا کر حاضرین مجلس کے چہروں پر یکے بعد دیگرے نظر ڈالی اور آخر کار اس کی نظر ابو ذر غفاریؓ کے چہرے پر جم کر رہ گئی اور پھر جوان بولا،یہ بزرگ میری ضمانت دیں گے۔خلیفہؓ: اگر یہ ضمانت دیں تو یقینامیں قبول کرلوں گا اور تم کو مہلت دینے میں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ابوذر غفاریؓ: میں اس نوجوان کی ضمانت دیتا ہوں۔خلیفہؓ: (نوجوان سے)ٹھیک ہے تمہیں تین دن کی مہلت دی جاتی ہے۔ امید ہے کہ تم چوتھے دن واپس آجاؤ گے۔جوان: انشاء اللہ تعالیٰ وعدہ ایفا کروں گا۔یہ کہہ کر وہ نوجوان چلا جاتا ہے۔
جوان کو گئے ہوئے آج چوتھا دن ہے۔ دربارِ فاروقی ؓمیں اس کا انتظار ہو رہا ہے۔ صحابہ کاجم غفیر موجود ہے۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ بھی خلیفہؓ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ وقت جوں جوں گزرتا جاتا ہے سب کی تشویش بڑھتی جاتی ہے۔ اس جوان کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسا حسین و جمیل جوان اور پھر قاتل، کیسی عجیب بات ہے۔ اور ایسے شخص سے ایفائے عہد کی کیا توقع! ابو ذرؓ نے دوراندیشی سے کام نہیں لیا۔ خدا خیر ہی کرے۔یہ اس جوان سے واقف ہوں گے تبھی تو انہوں نے ضمانت دی ۔ (ابو ذرؓ سے) کیوں جناب کیا آپ اس نوجوان سے واقف ہیں۔ابو ذرؓ: نہیں ! بالکل بھی نہیں۔ حضرت، جب آپ اس کے حالات سے واقف نہیں تھے تو پھراس کی ضمانت کیوں دی، اس میں کیا راز ہے؟ابو ذرؓ: میں واللہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ اس کا حسب نسب کیا ہے اور وہ کہاں کا باشندہ ہے۔ تاہم جب اس نے تمام حاضرین کو نظر انداز کر کے مجھے اپنا ضامن منتخب کیا تو میں نے یہ بات مروت سے بعید سمجھی کہ اسے مایوس کروں۔ اس لیے اس کی ضمانت دے دی۔ ویسے بھی مجھے اس کی شکل دیکھ کر یقین ہوگیا تھا کہ وہ راست باز جوان ہے۔ایک صحابیؓ: عجیب بات ہے۔وقت جس قدر زیادہ گزرتا جارہا ہے حاضرین کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔مقتول بوڑھے کے فرزند ابو ذرؓ سے سخت لہجے میں کہتے ہیں، لاؤ ہمارا مجرم! وہ کہاں ہے ؟ورنہ ہم آپ سے قصاص لیں گے۔ابو ذرؓ: (استقلال سے) اگر مقررہ وقت گزر گیا اور وہ حاضر نہ ہوا تو واللہ میں ضمانت پوری کروں گا۔ چنانچہ بعض صحابہ کرام آب دیدہ ہوکر آہیں بھرنے لگتے ہیں۔ایک صحابیؓ: مستغیث جوانوں سے بولے، بھئی تم خون بہا قبول کر لو،کار ثواب ہے۔جوان : ہر گز نہیں۔دوسرا: ہم اپنے باپ کا خون نہیں معاف کریں گے۔پہلا: خون کا بدلہ خون ہی سے لیں گے۔ ایک مسلمان: افسوس! کیا ابو ذرؓ کی جان جائے گی! آہ وہ بلند پایہ صحابی ہیں، رسول اللہﷺ کے پیارے۔ انہوں نے خلیفہ اول کا بھی زمانہ پایا اور موجودہ خلیفہ کا بھی ،خدایا رحم۔
یہ کون بے تحاشا بھاگا آرہا ہے؟ سب کی آنکھیں آنے والے مرد کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔سب آنے والے کو پہچان لیتے ہیں۔یہ تو وہی نوجوان ہے۔لوگوں کے چہروں پر ابو ذر کو دیکھ کر اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔خود خلیفہؓ بھی مطمئن نظر آنے لگتے ہیں کیونکہ ابو ذر غفاریؓ کی جان بچ گئی ہے۔آنے والا نوجوان : امیر المومنینؓ میں وہ کام کر آیا ہوں، میں نابالغ کو ماموں کے سپرد کر آیا ہوں اور اس کی امانت بھی انہیں کے سپرد کر آیا ہوں اور اب میں اپنے وعدے کوپورا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ایفائے عہد کی یہ انوکھی مثال ہر شخص کو متاثر کرتی ہے۔ سب اس کی طرف ہمدردی کی نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں کہ اسی اثنا میں مقتول پیر مرد کا ایک فرزند بول اٹھتا ہے میں اپنے باپ کا خون معاف کرتا ہوں۔دوسرا: میں بھی استغاثہ واپس لیتا ہوں۔ یہ سن کر تمام حاضرین باغ باغ ہوجاتے ہیں۔ خلیفہؓ: شاباش۔ تمہاری ہمت پر ہزار آفرین۔سب: ہزار آفرین۔خلیفہؓ: (مسرور ہو کر) نوجوانوں: میں تمہارے باپ کا خون بیت المال سے ادا کر تا ہوں۔ تمہاری نیک نفسی گویا ضائع نہ ہوگی۔مدعی نوجوان: امیر المومنین! میں یہ حق محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے واسطے معاف کررہاہوں۔مجھے بیت المال سے کچھ نہیں چاہیے ۔دوسرا: بھائی جان نے سچ فرمایا، میری خوشی اور مرضی بھی یہ ہی ہے۔سب: جزاک اللہ خیر۔ تم دونوں کی نیت پر ہزار آفریں۔خلیفہؓ: (خوش ہو کر نوجوان سے) انشاء اللہ تمہاری آئندہ زندگی ہر قسم کی لغزشوں سے پاک و صاف رہے گی۔ سب: آمین۔ آمین۔ آمین
شعلہ زن:
حضرت عمر فاروقؓ مدینے کے بازار میں کھڑے ہوئے ایک اجنبی سے باتیں کر رہے ہیں۔(اجنبی کو تمسخر کی سوجھتی ہے )حضرت عمرؓ: ہاں تو تم نے اپنا نام کیا بتایا؟وہ شخص: انگارا۔ عمرؓ: عجیب نام ہے تمہارا۔ اور تمہارے باپ کا کیا نام ہے؟ انگارا:جناب ،شعلہ۔عمرؓ: خوب نام ہیں تمہارے خاندان کے۔ گو یا آتشی خاندان ہے۔ خیر! اور ہاں تم رہنے والے کہاں کے ہو؟انگارا: میری بستی اور شہر کا نام سوزش ہے۔ واہ، اور تم کس قبیلے اور قوم کے فرزند ہو اے اجنبی ،خدا تعالیٰ تمہارا بھلا کرے۔ انگارا: میں جلن قوم کا ایک فرد ہوں۔عمرؓ: ارے غضب ہوا۔ جا اپنے گھر جلد جا۔انگارا: امیر المومنین کیا ہوا؟عمرؓ: ارے غضب ہوا۔ جا اپنے گھر جلد جا۔انگارا: امیر المومنینؓ کیا ہوا؟عمرؓ: جلد خبر لے ،گھر جل کر خاکستر نہ ہوجائے۔ انگارا اپنے گھر کی طرف دوڑا اور اس نے اپنے گھر سے شعلے بلند ہوتے دیکھے۔ اسے اپنا مسخرا پن بہت مہنگا پڑا۔
جرأت مومن:
امیرالمومنین خلیفہ عمر فاروقؓابھی ابھی نمازِ ظہر سے فارغ ہوئے ہیں اور ممبر پرکھڑے وعظ کر رہے ہیں۔خلیفہؓ: اے مسلمانو! اگر میں دنیا کی جانب رجوع کروں تو آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔یہ سن کر ایک مسلمان تلوار لے کر کھڑا ہوجاتا ہے اور بولتا ہے۔ اے عمرؓ اگر کبھی ایسا ہوا تو یہ تلوار ہوگی اور تمہارا سر۔خلیفہؓ: کیا تجھے معلوم نہیں کہ تو کس سے خطاب کر رہا ہے؟ امیر المومنین سے۔ کیا اپنی گستاخی پر نادم نہیں۔( یہ الفاظ خلیفہؓ نے بطور امتحان کہے تھے)وہ شخص: میں یہ الفاظ بے شک امیر المومنینؓ سے کہہ رہا ہوں مگر نادم نہیں ہوں۔خلیفہؓ: (مسکرا کر) خداوند کریم :تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ اس وقت ایسے جری اور شیدائے صداقت مسلمان موجود ہیں کہ اگر خدانخواستہ مجھ سے غلطی ہوجائے تو وہ مجھے سیدھا کر دیں گے۔ الحمد اللہ علی احسانہ۔
داد خواہی کا سودا:
حضرت عمر فاروقؓ کل ہی سفر شام سے واپس تشریف لائے ہیں اور مختلف لوگوں سے علیحدہ علیحدہ مدینے کے حالات پوچھ رہے ہیں۔ چنانچہ اس وقت ایک بڑھیا سے مخاطب ہیں۔بڑھیا: عمرؓ سے پوچھتی ہے۔ عمر کاؓ کیا حال ہے؟(یہ عمر کو پہچانتی نہیں ہے)خلیفہؓ: عمر کا کیا پوچھتی ہو؟ وہ کل ہی تو ملک شام کا سفر کر کے یہاں واپس آئے ہیں۔بڑھیا: خدائے تعالیٰ عمر کو میری طرف سے جزائے خیرنہ دے۔خلیفہؓ: کیوں؟کیوں؟ کیا بات ہے اور کیا وجہ ہے۔ کیا تمہیں خلیفہ ؓ سے کچھ شکایت ہے۔ بڑھیا: جی بالکل، جب سے وہ خلیفہ ؓ بنا ہے اس نے مجھے بیت المال سے ایک کوڑی بھی نہیں دی۔خلیفہؓ: تو عمر کو تمہارا حال معلوم نہ ہوگا۔بڑھیا: خلیفہؓ مجھے جانتے نہ ہوں گے ۔ یہ بات تم نے خوب کہی۔ پھر وہ خلیفہؓ کا ہے کاہُوا جسے اتنی بات بھی معلوم نہ ہو۔
اگر اس وقت وہ بڑھیا خلیفہ کی آنکھوں کی طرف دیکھتی تو انہیں آب دیدہ پاتی، مگر بڑھیا نے ادھر نہیں دیکھا، ویسے بھی شام ہو چکی تھی۔ اسے تاریکی میں نظر بھی نہ آتا تھا۔خلیفہ: عمرؓ پر افسوس ہے۔اے عمرؓ تجھ پر حیف ہے۔
عمرؓ: (بڑھیا سے) اماں! کیا تم کسی طرح اپنی اس شکایت سے دست بردار ہوسکتی ہو؟بڑھیا: کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا؟ میں سمجھی نہیں۔عمرؓ: میں تمہاری شکایت خریدنا چاہتا ہوں اور قیمت دینے کو تیار ہوں۔ بولو کیا قیمت لو گی اچھی اماں؟بڑھیا: تم ضرور مجھ سے مذاق کر رہے ہو، کوئی شریف انسان بوڑھوں سے مسخرا پن نہیں کِیا کرتا! اے شخص!خلیفہؓ: اماں ! میں مذاق نہیں کر رہا، واللہ دل لگی نہیں کرتا، بلکہ متانت سے بات کر رہا ہوں یعنی تمہاری داد خواہی خریدنا اور اس کی قیمت ادا کرنا چاہتا ہوں، بڑی بی میری بات کا یقین کرو۔ اچھا میں داد خواہی کی قیمت بیس درہم ڈالتا ہوں،اماں تم قبول کرلو۔ نقصان کا سودا نہیں ہے۔
خلیفہؓ نے بیس درہم جیب سے نکال کر بڑھیا کے حوالے کر دیے۔ بڑھیا درہم لے جانے والی تھی۔ کہ عین اس وقت اس جگہ دو آدمی آئے اور خلیفہؓ کو دیکھ کر بولے: السلام علیکم! یا امیر المومنین۔ آنے والے حضرات ابن ابی طالب ؓ اور عبداللہ ابن مسعود تھے۔اب بڑھیا سمجھ گئی کہ وہ خلیفہؓ ہی سے باتیں کر تی رہی ہے۔ پس اس کے چہرے پر پشیمانی کا پسینہ آگیا اور اس کے دل میں خوف بھی پیدا ہوا۔ مگر خلیفہؓ بھی اس کے جذبات سمجھ گئے اور دل کی باتیں بھی۔خلیفہؓ: بڑی بی تم پریشان مت ہو ۔ کیوں کہ تم نے جو کچھ کہا سچ کہا ہے اور بجاکہا ہے ۔ پس تم پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اس کے بعد خلافت ماب نے پوستین کے ایک ٹکڑے پر عربی زبان میں عبارت لکھی۔ جس کا ترجمہ اور مطلب حسب ذیل ہے:
‘‘بسم اللہ الرحمان الرحیم: یہ تحریر اس امر کے متعلق ہے کہ عمر نے بڑھیا سے اپنے عہد خلافت کی داد خواہی بیس درھم کے عوض خریدی۔ اب اگر یہ بڑھیا بروز محشر میرا دامن یا گریبان پکڑے اور دعویٰ کرے تو میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ علیؓ اور عبداللہ اس واقعہ کے گواہ ہیں۔’’