ایک نوجوان او ر کامیاب بزنس مین اپنی جیگوار کار میں تیز رفتاری کے ساتھ اپنے محلے کی گلی سے گزر رہا تھا۔ اس کی نظر یں راستے میں کھیلنے والے بچوں پر لگی ہوئی تھیں کہ کوئی اس کی گاڑی کی زد میں نہ آجائے کہ یکایک اسے اپنی گاڑی کی رفتار کم کرنا پڑی ۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی گاڑی کی جانبی دروازے پر کوئی پتھر آ کر لگا ہے ۔ اس نے گاڑی روکی اور پھر اسے پیچھے اس مقام پر لے گیا جہاں سے پتھر مارا گیا تھا۔ وہ غصے میں بھرا کارسے اترا اور پتھر مارنے والے بچے کو بازو سے پکڑکر دھاڑا‘‘ تم نے پتھر کیوں مارا؟ تم کون ہو ؟ یہ تم نے کیا کیا ؟ یہ میری نئی کار ہے، اور یہ جو تم نے پتھر مارا ہے تمہیں اندازہ ہے کہ اس ڈینٹ کو ٹھیک کروانے میں کتنے ڈالر خرچ آئے گا۔تم نے ایسا کیوں کیا؟بچے نے شرمندگی اورمعذرت بھرے لہجے میں کہا ‘‘ مجھے آپ کی قیمتی گاڑی پر پتھر مارنے پر افسوس ہے جس کے لیے میں شرمندہ ہوں لیکن بات یہ ہے کہ کافی دیر سے میں مدد حاصل کر نے کے لیے یہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کوروکنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی رکتا ہی نہیں لہذا مجھے مجبور ہو کر پتھر مارنا پڑا’’۔ پھر اس بچے نے اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے اس نوجوان کی توجہ ساتھ والے پارک کی جانب مبذول کروائی ا و ر دکھایا کہ وہاں اس کا معذور باپ اپنی وہیل چیر کے لڑھک جانے کی وجہ سے زمین پر اوندھا پڑا تھا،جسے یہ بچہ اٹھا کر واپس اس کی وہیل چیر پر بٹھا نے سے قاصر تھا۔بچے نے روتے ہوئے کہا پلیز، دیکھیئے میرے والد وہیل چیئر سے لڑھکنے کے باعث زخمی ہو گئے ہیں۔ کیا آپ انہیں اٹھا کر واپس وہیل چیئر پر بٹھا نے میں میری مد د کر سکتے ہیں۔گاڑی والے نوجوان کی آواز گنگ ہو چکی تھی ۔ وہ جو ابھی اپنی قیمتی گاڑی کے نقصان پر بچے کے اوپر برس رہا تھا اب جذبات کے جوش سے اس کا گلا رندھ رہا تھا ۔ لہذا اس نے تیزی کے ساتھ زخمی اپاہج کو زمین سے اٹھایا اور اس کی وہیل چیئر پر بٹھا دیا ۔پھر اس نے جیب سے روما ل نکال کر معذور کے زخموں کو صاف کیا اور رندھی ہو ئی آواز میں بچے سے کہا فکر نہیں کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بچے نے گاڑی والے کا شکریہ ادا کیا اور اپنے باپ کی وہیل چیئر دھکیلتا ہوا سائیڈ واک پر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔گاڑ ی والا نہایت افسرد ہ ،آہستہ آہستہ ،بھاری قدموں سے اپنی جیگوار تک پہنچا۔ اس کی قیمتی گاڑی پر لگاڈینٹ کافی نمایاں تھا۔ لیکن اس نے اس نشان کو ٹھیک نہیں کروایاتا کہ اسے یاد رہے کہ اپنی زندگی میں اتنی تیز رفتاری نہ دکھاؤ کہ کسی کو تمہاری توجہ حاصل کرنے کے لیے تم پر پتھر پھینکنا پڑے اللہ سبحانہ وتعالی ہماری روح میں سرگوشی کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں بولتے ہیں لیکن جب ہمارے پاس سننے کا وقت نہیں ہوتا تو اللہ تعالی بھی‘‘ پتھر’’ مارتے ہیں۔ (بشکریہ ’ ماہنامہ افکار معلم ’ لاہور’مارچ ۰۷)