نواز صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کے پڑوسیوں کا خیال تھا کہ وہ ایک گزرے عہد، پٹی ہوئی قدروں ، لگے لپٹے رسم و رواج، پرانی وضع کے کپڑے، پچھلی پود کا رہن سہن اور ایک صدی پہلے کی سوچ کا ہونق سا ملغوبہ ہیں۔ نواز صاحب کی ساری زندگی طالب علموں کوصحیح اور غلط کا فرق سکھاتے گزری تھی، اسی لیے چتر سیانے نو دولتیوں کی طرح وہ ماحولیات کی تبدیلی سے کچھ نہ سیکھ سکے۔ ان کی بیوی چادر کے زمانے میں بھی بوسکی کا شٹل کاک برقع پہنتی تھی۔ دونوں بیٹیوں نے نجی طور پر بی اے کر رکھا تھا لیکن انہیں ملازمت کرنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ ہر صبح اٹھ کر کسی ایسے شہزادے کا انتظار کرتیں جو گھر کی دہلیز پھلانگ کر ان کا ہاتھ پکڑے اور پھولوں سے سجی کار میں کہیں دور لے جائے۔
ہیڈ ماسٹر کی بیوی کو بھی علم نہ تھا کہ لوگ اب کس روش پر جارہے ہیں، وہ اپنے خیالات نواز صاحب کی خیال انگیز گفتگو سے اخذ کرتی تھی۔ جب لڑکیاں پچیس سال بھی ٹاپ گئیں اورکوئی ہونہار، خوبصورت اور تعلیم یافتہ رشتہ نہ مل سکا تو نواز صاحب اور بی جی سرا سیمہ ہونے لگے، اب انہیں سیما اور زیتون کچھ بوڑھی لگنے لگیں۔ دونوں لڑکیاں خوبصورت تھیں۔ ان کا ناک نقشہ نواز صاحب کی طرح نازک اور رنگ بھی ماں کی طرح کھلتا ہوا گندمی تھا۔ لیکن نہ ان میں ‘گلیمر’ تھا نہ چستی اور نہ ہی گفتگو کا چلبلا پن جس کا تقاضا آج کی بیشتر لڑکوں کی مائیں کرتی ہیں۔
پھر ایک دن عجیب واقعہ ہوا۔ یہ بسنت سے دوسرے دن کی بات ہے۔ کرشن نگر کے اس مکان میں عرصے سے رشتہ دار بھی نہ آئے تھے لیکن اس روز ایک بھولی بھٹکی عورت راستہ پوچھنے آگئی۔‘‘کیا اسی گلی میں خلیفہ رحمان صاحب رہتے ہیں؟’’سیما اور زیتون دونوں بی جی کے پاس بیٹھی ساگو دانہ کھار ہی تھیں۔‘‘پتا نہیں جی، آپ بیٹھیں، میں نواز صاحب سے پوچھ کر بتاتی ہوں۔’’ بی جی تو خلیفہ صاحب کا پتا پوچھنے چلی گئی لیکن دونوں لڑکیاں ہکا بکا اس بے بدل عورت کو تکنے لگیں۔ قیمتی کپڑوں میں ملبوس وہ پچاس سالہ عورت کسی بیساکھی کے بغیر کھڑی تھی۔ دوستی کے انداز میں باتیں بڑھانے کے لیے وہ سیما اور زیتون کے قریب ہی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ ‘‘کیا کھا رہی ہیں آپ لوگ؟’’ ‘‘ساگو دانہ...’’ سیما نے جواب دیا۔ ‘‘ساگو دانہ؟ کیوں خیر ہے؟... ہمارے دادا جب بیمار پڑتے تو ساگو دانہ کھایا کرتے تھے۔’’ ‘‘ہم تو ہر روز اسی کا ناشتہ کرتے ہیں۔’’ ‘‘اچھا ... ساگودانہ اور ناشتے میں؟ دونوں لڑکیاں خاموش رہیں۔ ‘‘یہ آپ کا اپنا گھر ہے؟’’ ‘‘جی اپنا ہی ہے، ابا جی نے الاٹ کروایا ہے۔’’ سیما سچا جواب دیتی ہوئی ڈر رہی تھی، اسے خوف تھا کہ کہیں بعد میں بی جی ناراض نہ ہوں۔ ‘‘اور آپ کے ابا جی کیا کرتے ہیں؟’’
‘‘ہیڈ ماسٹر تھے جی قصور میں...اب ریٹائر ہوچکے۔’’ شاید کچھ دیر اور سوالوں کا سلسلہ جاری رہتا لیکن بی جی آگئی، بتایا ‘‘اس گلی کے آخر میں دائیں ہاتھ مڑ جائیں، چوتھا گھر خلیفہ رحمان کا ہے....’’ ‘‘بہت بہت شکریہ...مہربانی۔’’گلابی چادر اوڑھے، ہیرے کی چھوٹی سی ناک کیل چمکاتی وہ عورت طلائی جوتیاں ٹکٹکاتی بڑے پھاٹک تک پہنچی اور پھر لوٹ آئی۔ ‘‘بہن جی... ان دونوں کو ساگودانہ نہ کھلایا کریں، اچھے قد کاٹھ کی لڑکیاں ہیں۔’’ نواز صاحب کے گھرانے نے اس مشورے کا برا مانا۔ وہ تو ناک کی سیدھ میں ، اقدار کی ڈوری تھامے ہر تبدیلی سے منہ موڑے زندگی بسر کر رہے تھے، کسی کی جرأت کیسے ہوئی کہ انہیں ساگو دانہ کھانے سے منع کرتا؟ شاید وہ کئی ماہ اس واقعے کو دہراتے رہتے لیکن اسی دوران میں ایک اور عجیب واقعہ ہوگیا۔ گلابی چادر والی اپنے بینکار بیٹے کا رشتہ لیے دوسری بار ان کے گھر آگئی۔لڑکے کو دیکھ کر بی جی کا دل رکتے رکتے بچا۔ چھ فٹ کا اونچا لمبا ، گندم گوں رنگ، شائستہ اور خاموش۔ ان کا تو جی چاہا کہ سیما اور زیتون ، دونوں کا ایک بار ہی اکٹھا بیاہ کر دیں، ان کی پیلی جوانیاں کسی دوسرے کے کندھے پر ڈال کر خود اللہ اللہ کریں۔ مغرب کی نماز کے بعد جب ماسٹر صاحب مسجد سے آئے تو بی جی بڑے اہتمام سے ان کے کمرے میں گئی، وہ اس رشتے کو اپنے حسن سلیقہ کا نتیجہ سمجھ رہی تھی۔ ‘‘لیجیے نواز صاحب، ایک خوشخبری ہے...’’ ‘‘خوشخبری؟ الحمد اللہ’’کتابی کیڑے نے جواب دیا۔ ‘‘اب سمجھ نہیں آتی سیما کا کروں کہ زیتون کا ؟... دو سال کا تو فرق ہے دونوں میں۔’’ نواز صاحب نے خاموشی اپنا لی اور سوالیہ نظروں سے بیوی کی دیکھا۔ ‘‘کچھ دن ہوئے ایک عورت اچانک ہمارے گھر میں آئی۔ بس پانچ منٹ ٹھہری ہوگی مگر ہمارے رہن سہن سے ایسی متاثر ہوئی کہ آج رشتہ لے کر آگئی اپنے بیٹے کا... بڑی دین دار لگتی ہے۔’’ ‘‘خوب...اللہ نے مجھ بے ہمتے کی بھی سن لی، خاتون’’ ...نواز صاحب بولے۔ ‘‘کہہ رہی تھی مجھے ایسے ہی گھرانے کی تلاش تھی جہاں پرانے اصول ہوں، ادھر ڈیفنس میں تو اس کے کچھ قابو میں نہیں آرہا....’’ ‘‘اچھا تو ڈیفنس میں رہتی ہیں؟’’ نواز صاحب نے پوچھا۔ ‘‘ہاں.... چھ کنال کی اپنی کوٹھی ہے.... کہہ رہی تھی مجھے ایسی ہی لڑکی چاہیے، صوم صلوٰۃ کی پابند... پرانے خیالوں میں خوش رہنے والی....’’ ‘‘بڑی خوش نصیب عورت ہے جو ابھی تک ایسی باتوں کی آرزو رکھتی ہے۔’’ ‘‘کل پھر آئے گی۔ آ پ خود ملنا، بڑے اچھے اخلاق کی ہے ، بیٹا بھی ایسا خوبصورت اور شریف...’’ ‘‘اچھی طرح دیکھ لینا خاتون... ہم لوگ ایسے نہیں کہ ہمیں اتنے اچھے رشتے مل جائیں۔’’ ‘‘دیکھنا کیا ہے، بینکا رہے ... ابھی ابھی اسسٹنٹ مینجر ہوا ہے، اچھی تنخواہ ہے۔’’ نواز صاحب لیٹنے کو تھے کہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ خاتون کو لگا جیسے ان کے کان، سرکے بال اور رونگٹے سب کھڑے ہو گئے ہوں۔ ‘‘کیا کام کرتا ہے؟’’ ‘‘بینکار ہے...ڈیفنس میں ہی اس کا بنک ہے۔ آپ خود معلوم کر لیں، یہ اس کا کارڈ ہے...’’ ہیڈ ماسٹر صاحب نے سراج سعید کا کارڈ ہاتھوں میں لیا، اس پر واقع اسسٹنٹ مینجر اور اس کے بنک کا پتا درج تھا۔ یہ کون بیوقوف لوگ ہیں جو اس کی بیٹی کا رشتہ مانگ رہے تھے؟ یا پھر یہ کون چالاک لوگ ہیں جو اس کی بیٹیوں کے آگے جال پھیلا رہے تھے؟ وہ دیر تک کارڈ انگلیوں میں پھراتے رہے۔ ‘‘آپ کو خوشی نہیں ہوئی نواز صاحب؟’’ ‘‘خوشی تو ہوئی ہے... لیکن .... لیکن خاتون۔’’ ‘‘لیکن کیا؟’’ بی جی نے کھنچ کر کہا۔
‘‘میں یہاں شادی نہیں کر سکتا، نہ سیما کی نہ زیتون کی...’’ ‘‘کیا کہا ماسٹر جی... کوئی عقل کریں؟ گھر بیٹھے بیٹھے تو وہ ویسے ہی سٹھیا جائیں گی۔’’ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نواز چپ ہوگئے۔ ان کی ساری عمر آدرش بنانے اور پالنے میں گزری تھی۔ اب سبکدوشی کے بعد تو ان کا سارا وقت قرآن و حدیث کے مطالعے میں گزرنے لگا تھا۔ آج وہ چھوٹے موٹے اصولوں سے نکل کر مشکل ترین آدرشوں کے سمندر میں گر گئے تھے۔ ‘‘یہاں شادی ممکن نہیں...’’ ‘‘وجہ .... وجہ آخر....؟’’ ‘‘میں جو سود کے خلاف ایک کتاب لکھ رہا ہوں، کیا ایک ایسے آدمی سے اپنی بیٹی بیاہ دوں جس کا رزق سودی بیوپار کا مرہون منت ہے... میں خود... اپنے ہاتھ سے یہ نہیں کرنے دوں گا۔ سود حرام ہے حرام... حرام حرام حرام...’’ ‘‘یہ تو آپ بڑی مشکل پیدا کر رہے ہیں، نواز صاحب ... آج کل کون سا کاروبار حلال ہے بھلا، اور حلال پر کس کا گزارہ ہوتا ہے؟’’ ‘‘تو تم سے کس نے کہا، خاتون کہ مسلمان ہونا آسان یا قرآن کے احکامات پر چلنا سہل ہے۔ اصل لوگ تو وہی تھے جو اسلام کی خاطر تپتی ریت پر جھلسے، پیٹ پر پتھر باندھے اور جہاد کیا... تم سے کس نے کہا کہ اسلام کی پیروی کرنے والوں کی زندگی آسان ہوتی ہے یا مسلمان اپنے پر جبر نہیں کرتا۔ تم چاہو تو سودی بیوپار والے سے بیٹی بیاہ دو... ہمارے دین میں جبر نہیں لیکن اس صورت میں ہماری راہیں ضرور علیحدہ ہوجائیں گی...’ ’ خاتون کھڑے کھڑے جھلس گئی، جانتی تھی کہ نواز صاحب بڑے سخت گیر منتظم ہیں۔ جوانی میں وہ خود بھی کشت کاٹتے اور اس شاگرد کی جان پر بھی شکنجہ کس دیتے جو راہ راست سے بھٹک جاتا۔ خاتون کو معلوم تھا کہ اب وہ کسی قیمت پر سراج سعید سے اپنی بیٹی کا بیاہ نہیں کریں گے۔ وہ لمبی سرد آہ بھر کر رخصت ہو گئی۔ اسے علم تھا کہ ایسے سپاہیانہ آدمی کے آگے نہ بولنا کام آتا ہے نہ جھگڑنا، بس چپ رہنے سے جان بچ جاتی ہے۔
کچھ دن بعد سراج سعید کی والدہ اپنے بیٹے سمیت پھر حاضر ہوئی۔ سیما اور زیتون اندر کمرے میں چلی گئیں انہوں نے دروازے سے کان لگا کر بھی نہ سنا کہ کیا باتیں ہوئیں لیکن خوشی سے دونو ں کے چہرے جگمگانے لگے... اتنا بڑا فانوس ان کے گھر میں کبھی نہیں چمکا تھا۔ ‘‘آپا! آپ تو ڈیفنس چلی جائیں گی۔’’ زیتون نے دو سال بڑی بہن کو پرانے زمانے کی لڑکیوں کی مانند چھیڑا ۔ ‘‘لو میں کیوں جاؤں گی... وہ سراج کی والدہ تو تمہیں گھور رہی تھیں۔’’ ‘‘پہلے آپا کی شادی ہوگی جی...’’ زیتون نے بہن کواور گدگدی کی لیکن اس کے اپنے اندر بھی امید کا دیا روشن ہو گیا... شاید سراج سعید کی والدہ سچ مچ اسے ہی گھور رہی ہوں؟ ‘‘یہ کوئی ضروری ہے... کس حکیم نے کہا ہے؟’’ دونوں بہنیں چونکہ زیادہ وقت گھر پر ہی رہی تھیں، اس لیے انہیں باہر کی دنیا کا تجربہ نہ تھا۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ آج کل ایسی چھیڑ چھاڑ بالکل‘آؤٹ آف فیشن’ ہوچکی ہے۔
سیما اور زیتون کے کمرے سے باہر چھوٹے صحن میں بی جی’ سراج سعید اور اس کی والدہ بیٹھے تھے۔ بی جی نے قریبی حلوائی سے طشت بھر جلیبیاں اور گاجر کا حلوہ منگوا کر ان کے سامنے رکھ چھوڑا لیکن وہ کھانے پر اصرار کر رہی تھی نہ دونوں کسی طور کھانے پر آمادہ تھے۔ بی جی نے ساری عمر یہی آرزو دل میں پالی کہ بیٹیوں کو ایسا گھر ملے جہاں رزق کی کمی نہ ہو۔ سراج سعید اور اس کی ماں کے لباس، تراش خراش اور باہر کھڑی موٹر کی لمبائی سے لگتا تھا کہ جو بیٹی بھی اس گھر میں بیاہی گئی، راج کرے گی... لیکن خاتون کے حواس گم تھے، وہ اندر ٹپکتی رال روکنے پر مجبور تھی ۔ آخر بڑی دیر بعد بولی ‘‘حلوہ کھائیں نا آسیہ بہن، دیسی گھی میں بنا ہے...’’ ‘‘نہ جی... آپ ہمیں ہاں میں جواب دیں تو ہم یہ حلوہ جلیبیاں ساتھ لے جائیں.... میری بڑی خواہش تھی کہ کسی صاف ستھرے گھرانے میں سراج کا رشتہ ہوجائے۔ آپ یقین جانیں ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں، بس پرانے اصول اور مسلمان لڑکی چاہیے جو سراج کو بھٹکنے نہ دے۔ اس کے دادا نے اتنی جائداد چھوڑی ہے... اتنی کہ اگر کوئی ماڈرن لڑکی آگئی تو پھر سراج کو کوئی صحیح راستے پر نہیں ڈال سکتا۔’’ بی جی کے ہاتھ پاؤں برف ہورہے تھے، وہ بار بار اپنی قسمت کی لکیروں کو دیکھتی تھیں۔ ‘‘آپ ہمارا گھر بار آکر دیکھ لیں بہن جی، اس کے بنک میں جا کر تفتیش کر لیں، ہمارے ہمسایوں سے پوچھ لیں، اگر کوئی نقص ملے تو بے شک انکار کر دیں۔’’ مگر خاتون کو معلوم تھا کہ ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نواز صاحب سمجھوتہ کرنے والوں میں سے نہیں۔ ‘‘وہ جی بات یہ ہے کہ ...’’ سراج سعید کو ہلکا سا پسینہ آگیا۔ اس کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ گلیوں میں رہنے والے لوگ بھی اسے جیسے دولہا کو انکار کرسکتے ہیں؟ اس کے لیے تو اتنے اچھے اچھے رشتے فل اسپیڈ کوشش کر رہے تھے، پھر یہ کیسی الٹی بات تھی کہ گھر بیٹھیں دو لڑکیوں کی معمر ماں ہاں کرنے کی خواہاں نہ تھی۔‘‘جی جی فرمائیں....’’ ‘‘اول تو جی سچی بات یہ ہے کہ ہم لوگ آپ کے جوڑ کے نہیں۔ میری بیٹیاں دال چپاتی پر پلی ہیں۔ دوسرے..... دوسرے جی ان کے والد کو ہیضہ ہوگیا ہے۔’’ سراج سعید اور آسیہ بیگم نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ‘‘ہیضہ ہوگیا ہے؟’’ سراج نے حیرانی سے پوچھا۔ ‘‘ہاں جی نیکی کا ہیضہ.... سارا دن کہتے رہتے ہیں کہ دین میں پورے پورے داخل ہوجاؤ... یا تو تم لوگ مسلمان ہو یا پھر مسلمان نہیں ہو... سٹھیا گئے ہیں۔ اب اسکول تو ٹھیک کرنے کو ہے نہیں، ہم تینوں کو ہی ٹھیک کرتے رہتے ہیں...’’ آسیہ اور سراج اب بھی معاملے کی تہہ تک نہ پہنچے۔ ‘‘میں آپ کی بات سمجھی نہیں....’’ ‘‘بات کچھ بھی نہیں ہے بیگم صاحبہ... بس وہ کہتے ہیں کہ لڑکا بینکار ہے اور اس کی تنخواہ سودی بیوپار سے نکلتی ہے، اس لیے... اب کیا کریں، وہ بنکوں کے سود کو حرام سمجھتے ہیں۔’’ ‘‘اچھا ، اچھا سمجھ گیا۔’’ سراسیمگی کے عالم میں سراج سعید کھڑا ہوگیا۔ دونوں طرف کی خاموشی بیگانہ وار ایک دوسرے سے ملی اور چھوٹے گھر کی سیما اور زیتون رات گئے تک ایک دوسرے کو گھورتی رہیں۔ انہیں پہلے ہی اپنی خوش نصیبی پر اعتبار نہ تھا، اب اور بھی مکمل یقین آگیا کہ درمیانے طبقے کی لڑکیوں کے لیے کبھی کوئی کرشمہ ہوا ہی نہیں کرتا۔
نواز صاحب کے پاس کبھی اتنا وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ بیوی اور بیٹیوں میں بیٹھ کر نجی معاملات پر بحث کریں۔ وہ پنشن لاتے، مسجد جاتے اور سود پر کتاب لکھتے رہے۔ اسی طرح سال بھر گزر گیا۔ اس روز وہ سب بیسنی روٹی کے ساتھ لہسن کی چٹنی کھا رہے تھے کہ دروازے پر بڑی شائستہ دستک ہوئی۔ سیما نے بھاگ کر دروازہ کھولا ، اسے شلوار قمیص میں ملبوس مہکا سراج سعید کھڑ انظر آیا۔ ‘‘جی....؟’’ سیمانے بڑی مشکل سے اپنا خواب بھلایا تھا، اب حضرت سلامت کو اچانک پا کر وہ مڈل کلاس لڑکی دیدے پھاڑے چلی گئی۔ ‘‘کیا میں اندر آسکتا ہوں؟’’
‘‘اندر....’’ سیما کی آنکھیں چندھیا گئیں۔سراج سعید ہلکا سا مسکرایا، وہ پر اعتماد لڑکیوں سے ملتے ملاتے تھک چکا تھا، ایسی لڑکیاں جو اس سے کہیں زیادہ ہوٹل بازی، بازار بازی اور ٹیلی ویژن کی معلومات رکھتی تھیں۔ اسے ایسے ہی اندھیرے میں پلنے والے کنول کی چاہ تھی۔ ‘‘آپ لوگ کیا مہمان کو باہر ہی کھڑا رکھتے ہیں، کیا یہ بھی کوئی اسلامی روایت ہے جس سے میں ناآشنا ہوں۔’’ اندر سے نواز صاحب نے دبے غصے سے آواز دی ‘‘سیما! کون ہے؟’’سیما کواڑ کے پیچھے ہوگئی اور سراج سعید کے لیے دروازہ کھول دیا۔ کسی کو کیا بتاتی کہ پورے سال بعد جو ایسا چندر ماہ بالکل اچانک نظر آئے، تو دل پر کیا گزرتی ہے؟ سراج سعید پہلے تو بیسنی روٹی اور لہسن کی چٹنی کھاتا رہا پھر جب لڑکیاں دائیں بائیں ہوگئیں تو اس نے کہا:‘‘ماسٹر جی ، آپ کو عجیب تو ضرور لگے گا لیکن میں نے بنک کی نوکری چھوڑ دی ہے۔’’ ‘‘نوکری چھوڑ دی ؟’’ خاتون کے سینے پر مکا پڑا۔
‘‘بس میں ایسا ہی گھرانا چاہتا ہوں جہاں اسلامی قدروں پر سمجھوتہ نہ ہو.... آگے چل کر ٹھیک اور غلط ایک نہ ہوجائیں’’ ‘‘الحمداللہ....’’ ‘‘لیکن اب شاید آپ مجھ سے بیٹی بیاہنا پسند نہ کریں...’’ نواز صاحب نے ابرو اٹھا کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ‘‘ جب میں نے ملازمت چھوڑی تو ابا جی نے مجھے جائداد سے عاق کر دیا، اب میں خالی خولی تعلیم یافتہ ہوں، نہ ابا جی کی جائداد نہ دادا کی وصیت کا مالک۔’’ ‘‘الحمداللہ! رزق کا اللہ مالک ہے، تم رزق حلال کمانے پر شاکر ہو... ہمارے لیے یہی بہت ہے۔’’
اس وقت خاتون کنی کترانا چاہتی تھی، وہ کیسے ایک بے روزگار کے ساتھ اپنی بیٹی کو بیاہ دیتی؟ مگر برسوں ایک ہیڈ ماسٹر کے ساتھ رہی تھی، جانتی تھی کہ جو اس نے زبان کھولی، تو نواز صاحب اسے کئی ہفتے تفریح کے گھنٹے میں بھی کھڑا رکھیں گے۔ ‘‘پھر جی کیا حکم ہے؟’’ ‘‘ہمیں منظور ہے۔’’ نواز صاحب نے کہا۔ ‘‘ایک چھوٹی سی نوکری جدہ میں ملی ہے، پی آئی اے کے کیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ... میں پرسوں جدہ ہی سے آیا ہوں۔’’ ‘‘الحمداللہ....’’ خاتون نے سکھ کا لمبا سانس لیا کہ کم از کم لڑکا بیکار تو نہیں۔ ‘‘کرائے وہاں بہت زیادہ ہیں لیکن امید ہے آپ کی خجستہ خصال بیٹی گزارہ کر لے گی.. . میں آپ کی اسلام پرستی سے بہت متاثر ہوں، آپ اسلام پر سمجھوتہ نہیں کرتے، مجھ کمزور کی طرح۔’’
یوں ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نواز صاحب کی بڑی بیٹی سیما کی شادی نہایت سادگی کے ساتھ مسجد میں ہوگئی۔ سسرال والوں کی طرف سے ایک دور کے تایا شریک ہوئے۔ سراج سعید نے دو ہفتے سیماکا پاسپورٹ بنوانے، ویزا لگوانے اور خریداری کرنے میں گزارے اور پھر ایک دن وہ دونوں جدہ روانہ ہوگئے۔
زیتون نے اس شادی میں نہایت خوشی سے شرکت کی ۔ لیکن بہن کے جانے کے بعد وہ کبھی کوٹھے پر جا نکلتی اور آسمان پر ٹکٹکی باندھ کر پوچھا کرتی کہ آخر اس قدر عالی نسب شریف اور خوبصورت شہزادہ آپا ہی کو کیوں ملا؟ پھر وہ احساس جرم سے دب کر کفارے کے نفل پڑھتی۔
لیکن یہ ایک اور کہانی ہے جس کا سراج سعید اور سیما کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ جدہ پہنچ کر سراج سعید اور سیما اس گلی میں رہنے لگے جہاں ان کے ساتھ پی آئی اے کے دو چار اور پاکستانی افسر بھی رہتے تھے۔ ان کا مکان دوسری منزل پر تھا۔ انہوں نے عام پاکستانیوں کی طرح اپنے گھر میں صرف ضرورت کا سامان سجایا۔ پلاسٹک شیٹ کی بنی ہوئی الماری تھی اور پرانے پلنگ تھے۔ دو کمروں کا گھر خالی خالی اور صاف نظر آتا۔ در اصل دنوں جدہ میں زیادہ عرصہ قیام نہیں کرنا چاہتے تھے۔
سراج سعید کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے کے باعث سخت محنت کا عادی نہ تھا، پھر بھی کام چلاتا رہا۔ سیما اچھا کھانا پکاتی اور شوہر کی محبت کا جواب پر جوش محبت سے دیتی رہی۔ پاکستانی دوست بھی معقول مل گئے جن کے ساتھ بیٹھ کر وہ پاکستا ن سے محبت اور پاکستانیوں میں نقص نکالتے رہتے ۔اس طرح جدے میں قیام آسان ہوگیا۔ سراج کا خیال تھا کہ جلد از جلد کچھ رقم جوڑ کر لوٹ جانا چاہیے لیکن یہاں اس کی تنخواہ بس معقول ہی تھی۔ مکان ا چھا لیکن کرایہ زیادہ تھا جو بچت ہوتی وہ کافی نہ تھی۔ ایک دو بار سیماپاکستان گئی لیکن سراج نہ گیا۔ وہ مہینے میں ایک آدھ مرتبہ مکہ معظمہ جا کر عمرہ کر لیتا۔ اگر دو چاردن کی سہولت ہوتی تو مدینہ منورہ میں بھی حاضری دے آتا۔ اس سے زیادہ سفر کی اسے خوہش تھی نہ حاجت۔
جدے کی ملازمت ایک نئی کھڑکی سے دیکھنے کا عہد تھا، یہاں وہ رنگینیاں اور بہاریں نہیں تھیں جو لاہور میں ایک عام آدمی کو بھی دستیاب ہیں۔ وہ سنتا رہتا کہ یہاں کے شہزادے اور امیر کبیر وہی سب کچھ کرتے ہیں جو دولت مند عیاش لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہے لیکن عام آدمی کے لیے ایسی سہولتیں نہ تھیں کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا پھرے۔ قانون سخت تھا ، انصاف جلد ملتا اور گھر گھر نماز پردے کی پابندی تھی۔ خوشحالی اور بازاروں نے خریدو فروخت سے متعلقہ جملہ عیوب کو راہ دے دی تھی لیکن ابھی جنس سے وابستہ جرائم نا پید تھے۔
عرب پہنچ کر سراج سعید کو ڈیفنس کا گھر ، لاہور کا ماحول اور اپنی والدہ تو یاد آئے ہی لیکن اسے تعجب ہوتا کہ سب سے زیادہ اسے نواز صاحب کی یاد ستاتی۔ وہ پاکستا ن میں‘ان فٹ’ تھے۔ شاید نواز صاحب یہاں پہنچ جاتے تو ان کی طرز زیست پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ تہذیب ، زبان اور لباس میں فرق ہونے کے باوجود وہ رفیق تو کہلاتے لیکن کوئی انہیں بنیاد پرست نہ سمجھتا نہ کہتا۔سراج نواز صاحب سے بڑا متاثر تھا۔ پیٹ پر پتھر باندھنا آسان تھا، تپتی ریت پر لیٹنا بھی کچھ ایسا محال نہ تھا لیکن بنیاد پرست بن کر ایک ترقی پسند ملک میں عمر گزارنا مشکل تھی۔ اپنے آپ کو خوشیوں، راحتوں، عشرتوں سے محروم رکھنا مشکل ضرور تھا لیکن اپنی بچیوں کو عام روش سے توڑنا اور شکنجے میں کس کر پالنا بڑی بے رحم صورت حال تھی۔ وہ اپنے لیے تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی پابندیاں اختیار کر لے جو زندگی کی معصوم خوشیوں کو ابھی اللہ کی راہ میں قربان کر دیں۔ وہ موسیقی، ہلکی پھلکی آوارگی، دولت کی نمائش، انا کی اکڑ فوں، دوسروں پر سبقت لے جانے کے لطف اور ہلکے پھلکے نشہ آور گناہ پسند کر تا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طور اسلام اور ان لطائف زندگی میں سمجھوتہ ہوجائے ۔سراج سعید کی یہی مشکل تھی کہ وہ عام مسلمان کی زندگی بسر کرتے ہوئے نواز صاحب کو بڑا قطبی ستارہ سمجھتا تھا۔ اسے اعتراف تھا کہ چاہنے کے باوجود وہ نواز صاحب بن نہیں پایا۔وہ ایسا مسلمان تھا جو اسلام کے صرف جوہر پر عمل کر سکتا ہے، زمانے کے ساتھ ٹکرا کر خوشیوں کی قربانی دے کر اور مشکل ترین راستہ چن کر بنیاد پرست نہیں بن سکتا۔سراج جانتا تھا کہ چودہ سو برس بعد ایک بار پھر پیٹ پر پتھر باندھنے کا امتحان در پیش ہے لیکن وہ بھی عام مسلمان کی طرح ایسے احکامات الٰہی کی تاویلیں کرنے پر مجبور تھا۔ مذہب کے معاملے میں روشن خیال ہونا اور صرف اس کی روح کو سمجھنا سراج کی بڑی مجبوری تھی..... نواز صاحب اولاد اور بیوی کے معاملے میں کمزور نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے آستینوں میں بت چھپا رکھے تھے۔ٹوٹ جانے اور لچک کھانے میں جو فرق ہے، وہی نواز صاحب اور سراج سعید کے فیصلوں کا تھا۔ ایک دن سیمانے اسے کہا:‘‘سراج! آپ بچوں کی تصویریں ہی ڈیفنس بھیج دیں۔’’ ‘‘کس لیے؟’’ سراج نے سوال کیا‘‘ ماما کو معلوم تو ہوگا کہ میرے بچے ہیں۔ کیا ان کا دل پوتے پوتیوں سے ملنے کو نہیں چاہتا؟’’
وہ چپ ہوگئی۔ ان کے تینوں بچے ایمبیسی اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ میاں بیوی بڑی مشقت سے بچے پالنے میں مشغول تھے لیکن سراج دو باتوں کو اٹل سمجھتا تھا ایک وہ اپنے گھر والوں سے ملنا نہیں چاہتا تھا، دوسرے معقول رقم جوڑ کر پاکستان لوٹنے کا آرزو مند تھا۔
ایک دن واپسی کا فیصلہ خود بخود ہوگیا۔ جب وہ عمرہ کر کے لوٹے تو گھر میں اس کی ترقی کا خط موجود تھا ، اسے مدینہ منورہ تعینات کر دیا گیا تھا۔ مدینہ منورہ میں پی آئی اے کا دفتر تو موجود تھا لیکن وہاں کوئی پرواز نہیں جاتی تھی۔ سراج قریباً دس سال جدے میں کیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ سے منسلک رہا تھا۔ اب عین حرم شریف کے قریب ملازمت ملنے پر اسے بہت خوشی ہوئی‘‘لو بھئی! اس بار تو عمرہ قبول ہوگیا ہمارا... تنخواہ میں بھی معقول اضافہ اور حرم شریف میں بھی روز حاضری پھر کیٹرنگ سے بھی چھٹی.... واہ....’’ مگر سیما یہ سوچ کر چپ ہوگئی کہ بچوں کی تعلیم کا کیا بنے گا؟ ایمبیسی اسکول میں تو کام چل رہا تھا لیکن مدینہ مبارک میں بچے کیا کریں گے؟ اس نے اپنے خوف کا اظہار کیا، بولی :‘‘سراج! وہاں بچے کیسے پڑھیں گے؟’’ ‘‘بچوں کو تو ویسے بھی پاکستان جا کر پڑھنا ہوگا سیما، وہ کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے...؟’’ ‘‘لیکن....؟’’ ‘‘لیکن کیا؟ تم بوریا بستر باندھو اور لاہور چلو.. .. وہاں کسی اچھے اسکول میں بچوں کو داخل کراؤ.. . میں آتا جاتا رہوں گا۔’’ ‘‘سراج میں بھلا اکیلی کیا کروں گی؟’’ سیما نے خوفزدہ ہوکر کہا۔ ‘‘تم اکیلی نہیں، تمہارے ساتھ تین بچے ہیں۔ زیادہ ڈر لگے تو زیتون کو پاس رکھ لینا....’’ فیصلہ ان دونوں نے کیا باقی کام خود ہوئے...
سیما اور بچے لاہور آگئے اور سراج سعید مدینہ منورہ چلا گیا۔ سیما نے دس سال میں جو پونجی بچائی تھی، اس سے گارڈن ٹاؤن میں دس مرلے کا گھر خرید لیا۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر پھر پاکستان میں بسنے کے خواب دیکھنے لگی ۔ بی جی اور ہیڈ ماسٹر نواز صاحب تو ان کے پاس کم ہی آتے تھے لیکن زیتون ان کے پاس رہنے لگی۔ وہ بچوں سے کرید کرید کر جدہ کے بازاروں اور حرم شریف کی زندگی کے بارے میں باتیں پوچھتی۔ وہ اتنے سال گزرنے پر بھی ذہنی طور پر بہن سے نہیں بچھڑی تھی۔گھر تو ٹھیک ہوگیا لیکن بچے سارا دن زیتون خالہ کو عرب کی باتیں سنانے میں گزارتے... انہیں ابھی کسی اچھے اسکول میں داخلہ نہیں ملا تھا۔ سیما ان کی پڑھائی کے معاملے میں خوفزدہ تھی۔ بڑی بیٹی کی تو خیر تھی لیکن دونوں چھوٹے بیٹے بہت ہڑبونگ مچانے لگے تھے۔ سارا دن کوٹھے پر پتنگیں لے کر چڑھے رہتے۔ وہ ایک دن ہمسائے میں گئی۔ اس کی پڑوسن انگلش میڈیم اسکول میں پڑھاتی تھی۔ سیما کا خیال تھا کہ شاید وہ اس کے مسئلے کا حل نکال لے۔چائے کے بعد سیما نے بچوں کا مسئلہ پیش کیا، تو بیگم اکرام بولی‘‘دیکھیے، میں تو آپ کو ایک ہی مشورہ دوں گی، آپ اپنے بچوں کو امریکن اسکول میں پڑھائیں۔ ایسی پڑھائی ہے کہ گھر پر ٹیوشن رکھنی پڑتی ہے، نہ خود پڑھانا پڑتا ہے۔ بچے بھی سیدھے ہوجاتے ہیں۔’’ لاہور آکر ویسے بھی غیاث اور غنی کے کئی مسائل سامنے آئے تھے، امریکن اسکول کے تصور نے سیما کو ٹھنڈک پہنچائی۔ پاکستان پہنچ کر اسے پتا چلا کہ بچوں کی تعلیم زندگی کا اولین مقصد ہونا چاہیے، اس کے علاوہ باقی تمام باتیں ذیلی اور ضمنی ہیں۔ ‘‘دیکھ لیجیے میرے شوہر اچھی بھلی فرم میں مینجر ہیں، میں خود اتنے بڑے اسکول میں پڑھاتی ہوں لیکن شام کو ٹیوشن پڑھانا پڑتی ہے، کیا کریں، میں نے بچے امریکن سکول میں داخل کروا رکھے ہیں۔’’
‘‘تو کیا بچے آپ کے اسکول میں نہیں پڑھتے؟’’
‘‘نہیں بھئی، میرے صرف دو بیٹے ہیں، میں ان کا مستقبل کیسے خراب کر سکتی ہوں؟ امریکن اسکول کے طالب علم کو سیدھا امریکا داخلہ ملتا ہے۔ اے لیول کے بعد نہ کوئی سفارش نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔’’
‘‘اچھا؟’’سیما کو سمجھ آنے لگی کہ اس نے جدہ چھوڑ کر عقلمندی کی، یہاں تو کایا ہی پلٹ چکی تھی۔ اگر وہ جدہ ہی میں بیٹھی رہتی تو بچوں کا کیا بنتا؟’’ ‘‘آخر ہم دونوں کس لیے کماتے ہیں؟ میں کس لیے رات گئے ٹیوشن پڑھاتی ہوں تا کہ بچے پڑھ جائیں اگر ان کی اچھی تعلیم نہ ہوسکی تو پھر ہمارا کیا فائدہ؟... ٹھیک ہے فیس زیادہ ہے لیکن پھر کیا.... آپ کے شوہر تو باہر ہیں، آپ کو سوچنا بھی نہیں چاہیے.... امریکن اسکول جا کر لڑکوں کا مستقبل بن جاتا ہے۔ سیما کا جی چاہا کہ فی الفور اس کے بچے امریکن اسکول میں پہنچ جائیں۔ ‘‘لیکن وہاں داخلہ بھی تو آسانی سے نہیں ملتا۔ میں نے سنا ہے کہ داخلے کے لیے کوئی بڑی سفارش درکار ہوتی ہے۔’’ سیما نے کہا۔بیگم اکرام نے ہونٹ گول کیے، وہ خود کو بہت اہم محسوس کر رہی تھی‘‘یہ تو بالکل درست ہے لیکن ان دنوں ایک آدمی میرے ہاتھ میں ہے، وہ داخلہ کرواسکتا ہے۔ اگروہ امریکا چلا گیا تو پھر نا ممکن ہے... وہ قونصل جنرل کا ذاتی دوست ہے۔’’سیما کا تو سانس ہی بند ہونے لگا۔ امریکن اسکول میں داخل ہونے کا موقع اسے ضائع ہوتا نظر آیا۔ جب بیگم اکرام اسے چھوڑنے آئی، سیما کا منہ سوکھ رہا تھا۔بیگم اکرام بڑے دھڑلے سے بولی‘‘ ٹھیک ہے، میں جانتی ہوں ایک بچے کے لیے پندرہ ہزار روپے دینا آسان نہیں... لیکن پھر بچوں کا مستقبل کیسے محفوظ ہو۔ ساری شام ٹیوشنیں پڑھاتی ہوں لیکن مجھے تو مرنے سے پہلے بیٹھے بٹھائے جنت مل گئی، ساری محنت کام آگئی۔’’بیگم اکرام نے اسے پھٹے ہوئے غبارے سا کر دیا۔ گھر پہنچی تو بیٹی خالہ کو لمبی عبا پہنا کر گانٹھے لگانے میں مصروف تھی۔ دونوں بیٹوں نے بھی احرام پہن رکھے تھے، غالباً وہ خالہ کو عمرہ کرنے کا طریقہ سمجھا رہے تھے۔سیما نے انہیں کڑی نظر سے دیکھا اور پھر کڑک کر بولی‘‘یہ جدہ نہیں پاکستا ن ہے، تھوڑی دیر کتابیں بھی کھول کر دیکھ لیا کرو.... دیکھتے نہیں لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور یہاں ہروقت ہڑبونگ، ہر وقت دھماچوکڑی.... یہ پاکستان ہے ، یہاں کوئی وقت ضائع نہیں کرتا، سب اپنی اپنی زندگی بنانے میں مصروف ہیں۔ پیچھے رہ جاؤگے سب سے ....’’
ابھی پتا نہیں اس کا تادیبی لیکچر کتنی دیر چلتا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ سیما نے بھاگ کر فون اٹھایا، دوسری طرف سراج سعید بول رہا تھا۔‘‘ہیلو.... ہیلو.... کیا حال ہے.... نوشین کیسی ہے؟’’
سیما نے بچوں کی طرف دیکھا، تینوں منہ تھتھائے خالہ زیتون سے لگے بیٹھے تھے۔ انہیں محسوس ہوگیا تھا کہ پاکستان پہنچتے ہی ماں کچھ چڑچڑی اور بد مزاج ہوگئی ہے، بات بات پر کہتی ہے کہ یہ جدہ نہیں، یہاں حرمین شریف کی برکتیں نہیں ملیں گی، اپنے لیے خود ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے۔ دوسری طرف سراج اصرار سے بیٹی کے متعلق پوچھ رہا تھا۔‘ ‘نوشین کیسی ہے؟’’ ‘‘ٹھیک ہے، ہر وقت واپس جانے کے خواب دیکھتی ہے...’’ ‘‘اچھا.... اچھا .....’’ دونوں فون پر ایک دوسرے کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ دیر خیریت معلوم کرتے رہے گھریلو مشکلات کا ذکر رہا۔ سیما کو محسوس ہوا کہ سراج کچھ چھپا رہا ہے۔
‘‘کیا بات، آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں؟’’
‘‘میں؟ نہیں تو.... بس ایسے ہی کل مسجد نبویؐ میں ملاقات ہوگئی۔’’ سراج نے ملتجی سی آواز میں کہا۔
‘‘ملاقات کس سے؟ کیسی ملاقات۔’’ سیما دل ہی دل میں آیۃ الکرسی پڑھنے لگی۔‘‘وہ میرے مینیجر تھے نا بنک کے ڈیفنس میں... آج کل یہاں مینجر ہیں، السعودی فرانسیسیہ بنک میں.... وہ مجھے پیش کش کر رہے ہیں۔ ’’ ‘‘ہاں ہاں تو پھر.....’’ ‘‘پھر کیا، مجھے دفتر ساتھ لے گئے.... بڑا خوبصورت دفتر ہے، پیش کش بھی بہت اچھی ہے... سارے مسئلے ایک ہی بار ختم ہوجائیں گے۔’’سیما نے بچوں کو اشارے سے باہر نکل جانے کو کہا اور فون میں قریبا ًچیخی‘‘ ہاں تو پھر آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ بنک والے تو بہت اچھی تنخواہ دیتے ہیں۔ میری مشکلیں بھی حل ہوجائیں گی۔ چلو نوشین کی تو کوئی بات نہیں، غیاث اور غنی کی تو چودہ ہزار روپے فیس ہوگی.... چودہ ہزار...’’
سراج بھی اس پیش کش پر خوش تھا، اسے احساس ہی نہ ہوا کہ سیما کیا کہہ رہی ہے‘‘لیکن بھئی وہ تمہارے ابا جی.... نواز صاحب وہ...... کب مانیں گے؟’’ سیماکو یکدم غصہ چڑھ گیا ‘‘تو تمہارا خیال ہے کہ میں ابا جی کی طرح اپنے بچوں کو بھینٹ چڑھا دوں۔ ابا جی کو کیا پتا کہ ان کی بیٹیوں نے کیسے دکھ اٹھائے ہیں۔ کیا میں ان جیسی پاگل ہوں، تنہا آدمی پورے نظام سے کیسے لڑ سکتا ہے... میں ہوائی قلعے بنانے والوں میں سے نہیں، مجھے بچوں کے مستقبل کا بڑا خیال ہے۔’’ ‘‘لیکن اگر ابا جی کو پتا چلا تو .... تو وہ کیا کہیں گے.....؟’’ سراج نے ڈر کر کہا۔سیما اور بھی طیش میں بولی:‘‘ آپ ابا جی کی فکر نہ کریں..... بنک کی نوکری پکڑیں.... فوراً جلدی سے .... ابا جی سمجھتے ہیں کہ صرف وہی مسلمان ہیں، وہی ثابت قدمی سے دکھ جھیل کر اسلام کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ہم بھی مسلمان ہیں اور کوئی ایسے ویسے نہیں، دس سال جدہ میں رہے ہیں۔ ہمیں اتنی باریکیوں میں نہیں پڑنا چاہیے.... یہ تنگ نظری ہے سراج.... آدمی کو اسلام کی روح، اس کی ماہیت سمجھنا چاہیے.... ضروری نہیں سب بنیاد پرست ہوں، آپ پلیز کچھ کریں۔’’
سراج نے سیما سے بات مکمل کر کے جب فون دھرا تو اس کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ تھا۔ نواز صاحب جیسے پورے کے پورے داخل مسلمان کی بیٹی سے ایسی لچک دار اور روشن خیال باتیں سن کر اسے انجانی مسرت ہوئی۔
سراج سعید کو بنکار بنے اور بچوں کو امریکن اسکول جاتے ہوئے کئی مہینے ہوگئے لیکن کبھی کبھی وہ منتشر خیال ہوجاتا ایک رات جب اس نے بیوی کو فون کیا تو سب سے پہلے یہی پوچھا‘‘نواز صاحب کیسے ہیں؟’’ ‘‘ابا؟...’’
‘‘ہاں بھئی، آپ کے ابا جی... نواز صاحب....’’
‘‘ٹھیک ہی ہوں گے’’ سیما نے جواب دیادوسری طرف سے سراج کی آواز آئی، ‘‘ کیا مطلب، ٹھیک ہی ہوں گے؟’’ سیما نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا‘‘ آخری بار بقر عید پر آئے تھے، دو دو روپے بچوں کو عیدی دی، اس کے بعد تین مہینے سے نہیں آئے۔’’‘‘کیوں آخر؟.... تم نے جا کر معلوم کیا؟ گاڑی بھجوانی تھی انہیں؟’’ ‘‘وہ تو زیتون کو بھی لے گئے ۔ میں گئی تھی، میں نے بڑی معافیاں مانگیں، پر آپ کو تو معلوم ہے کہ ان کی طبیعت کیسی ہے۔ اماں بیچاری کا تورو رو کر برا حال ہوگیا ہے۔’’ ‘‘لیکن آخر کیا ہوا؟ .... انہوں نے کس بات کا برا مانا؟’’ ‘‘کہتے ہیں ...... اب بھلا کوئی بات ہے... میں تو زیتون کا رشتہ بھی تلاش کر رہی تھی، بیگم اکرام اتنی سویٹ ہیں... انہوں نے بڑا اچھا آدمی ملوایا تھا۔’’ ‘‘سیما بتاؤ، نواز صاحب اور تمہارے درمیان کیا بات ہوئی ہے؟’ ‘‘بس وہی پرانی بات کہ تمہارے شوہر نے بنک کی نوکری کر لی؟ اب سوچو، اس زمانے میں پورے نظام سے کون لڑسکتا ہے، ان کا تو دماغ چل گیا ہے.... ہوا میں تلواریں مارتے ہیں۔ انہیں تو اس وقت بھی سمجھ نہیں آئے گی جب زیتون پاگل ہوجائے گی، جب اماں فالج سے مریں گی..... اتنا خود غرض باپ آج تک کبھی پیدا نہیں ہوا....سمجھتے ہیں اسلام کی خاطر یہ جنگ کر رہے ہیں ، وقت کہاں کا کہاں پہنچ گیا اور ابا جی..... وہ دیر تک ان کے خلاف بولتی رہی۔
رات گئے سراج نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر آسمان کو دیکھا، وہ ستاروں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر انہیں تکتا رہا اور پھر دھیرے دھیرے بولنے لگا: ‘‘یہ درست ہے کہ میں نواز صاحب نہیں بن سکتا، مجھ میں نہ تو اتنی مضبوطی ہے، نہ میرا ایمان اتنا پختہ ہے کہ میں کسی نظام سے لڑ سکوں، نہ ہی میں نے اپنی آستین سے سیما اور بچوں کے بت اتار پھینکے ہیں۔ میں ایسا آدمی بھی نہیں جو اللہ کی راہ میں بیٹے قربان کر دیں.... گرم ریت پر لیٹ جائیں اور پیٹ پر پتھر باندھ لیں لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ نواز صاحب غلط ہیں.... میں ابھی اتنا روشن خیال نہیں ہوا کہ......کہ سیما کی طرح نواز صاحب کو بڈھا اور پاگل کہوں....نواز صاحب بنیاد پرست ضرور ہیں اور بڑے کٹر.... لیکن ان کی ثابت قدمی کے عوض انہیں یہ کچھ تو نہیں کہنا چاہیے جو سیما کہتی ہے..... کیا میں بھی بالآخر اس کی طرح ہوجاؤں؟’’